اثبات الوصیه للامام علی بن ابیطالب (حلی)
مشخصات | |
---|---|
مصنف | منسوب بہ علامہ حلی |
موضوع | اثبات جانشینی حضرت علیؑ |
مصحح | محمدہادی امینی |
طباعت اور اشاعت | |
ناشر | دار الاضواء |
مقام اشاعت | بیروت |
سنہ اشاعت | 1406ھ |
اِثباتُ الوَصیۃِ لِلامامِ علیِّ بنِ اَبیطالب یا اَلحُجَجُ القَویۃُ فی اثباتِ الوَصیۃ لِعَلیّ بن ابیطالب نامی کتاب علامہ حلی (648-726ھ) سے منسوب ہے۔ اسے عربی زبان میں تحریر گئی ہے۔ کتاب میں پانچ دلائل سے امیرالمومنینؑ کی جانشینی ثابت کی گئی ہے۔
مولف
"اثبات الوصیۃ للامام علی بن ابی طالب"نامی کتاب حسن بن یوسف بن مطہر حلی (648-726ھ) المعروف علامہ حلّی سے منسوب ہے اور اس کی کئی بار اشاعت ہوئی ہے۔ لیکن آقا بزرگ تہرانی اس کتاب کے علامہ حلی سے منسوب ہونے کی تردید کرتے ہیں۔ اس بات کے دلائل "نباطی بیاضی"(وفات:877ھ) سے منقول وہ مطالب ہیں جنہیں اس کتاب میں نقل کیے گئے ہیں۔ آقا بزرگ تہرانی لکھتے ہیں: اس کتاب کو ایسے شخص نے علامہ حلی سے منسوب کیا ہے جس نے کتاب کی طرف مراجعہ ہی نہیں کیا ہے۔[1] سید مہدی خرسان بھی اس کتاب کے علامہ سے نسبت دینے کو نہیں مانتے ہیں اور اس سلسلے میں کچھ اور دلائل ذکر کرتے ہیں۔ منجملہ شہید ثانی کے شاگرد محمد بن علی عودی کا وہ جواب ہے جس کے مطابق مذکورہ نسبت رد کی جاتی ہے۔[2] آقا بزرگ نے اس کتاب کے ایک نسخے کو شیخ علی کاشف الغطاء کے کتابخانے میں دیکھا ہے جسے خود شیخ علی کاشف الغطاء نے سنہ 1121صدی ہجری کے ایک نسخے کے مطابق لکھا ہے۔[3]
مندرجات
عربی زبان میں تحریر کی گئی یہ کتاب پیغمبر خداؐ کی جانب سے حضرت علیؑ کو جانشین بنانے کے بارے میں ہے۔ مولف نے اس سلسلے میں پانچ دلائل پیش کیے ہیں: متعدد تالیفات[4] متواتر روایات[5] روز غدیر خم پیغمبر اسلامؐ کی طرف سے حضرت علیؑ کو اپنا وصی قرار دیے جانے پر 70 ہزار (یا 30 ہزار) کی گواہی[6]، ترک وصیت کی نہی[7] اور اثبات وصایت کے سلسلے میں وہ اشعار جنہیں روز غدیر کہے گئے۔[8]
مولف نے کتاب کے تقریبا ایک تہائی حصے کو امام علیؑ کی جانشینی سے متعلق اعتراضات اور ان کے جوابات سے متخص کیا ہے۔ انہوں نے اس مدعا کو رد کیا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ پیغمبرؐ نے اپنی جانشینی کے معاملے کو لوگوں پر چھوڑ دیا ہے؛ مولف نے اپنے مدعا کے حق میں 14 قسم کے دلائل پیش کیے ہیں اور کتاب کو اسی شبہے کا جواب دیتے ہوئے اختتام کیا ہے۔[9]
انداز تحریر
مولف نے کتاب "اثبات الوصیۃ للامام علی بن ابی طالب" میں اثبات وصایت حضرت علیؑ کے بارے میں لکھی گئی تقریبا 20 کتابوں کا نام لیا ہے[10] اور بعض کتابوں کی عبارتیں یہاں نقل کی ہیں۔[11] اس کتاب کی ایک خصوصیت مختصر ہونا ہے، دارالاضوا ناشر نے اسے 38 صفحات میں طبع کیا ہے۔[12]
مولف نے اپنی دوسری دلیل میں ان کتابوں کا نام لیا ہے جن سے انہوں نے حوالہ دیا ہے۔ کتاب "نخب المناقب لآل ابیطالب"[13]شیخ حسین بن جبیر کی کتاب "ابطال الاختیار"، قطب کیدری کی کتاب "بصائر الانس" اور محمد بن جعفر مشهدی کی کتاب "ما اتفق من الاخبار فی فضل الأئمۃ الأطهار"[14] انہی کتابوں میں سے ہیں۔ آقا بزرگ تہرانی نے بیاضی کی کتاب "الصراط المستقیم" بھی اس کتاب کے مآخذ میں شمار کیا ہے اور اسی کو اس بات کی دلیل قرار دی ہے کہ اس کاتاب کا مولف علامہ حلی نہیں ہے[15] لیکن اس کتاب کی دارالاضواء طباعت میں بیاضی اور اس کی کتاب کا ذکر موجود نہیں۔
نام
کتاب کی طباعت میں "اثبات الوصیه للامام علی بن ابی طالب" کا عنوان آیا ہے۔ لیکن مولف نے کتاب کے مقدمے میں «الحجج القویۃ فی بیان الوصیۃ» کے عنوان سے یاد کیا ہے.[16] آقا بزرگ نے "اثبات الوصیۃ" اور "الحجج القویۃ" دونوں عناوین کو ذکر کیا ہے۔[17]
طباعت
- نجف میں یہ کتاب علامہ حلی سے منسوب کر کے سنہ 1386ھ میں طبع کیا گیا ہے.[18]
- دار الاضواء ناشر نے بیروت میں سنہ 1406ھ میں محمد ہادی کی تصحیح و تعلیق شدہ کتاب کو 38 صفحات میں شائع کیا ہے۔
- سنہ 1423ھ میں المکتبۃ المتخصصۃ بامیرالمؤمنین(ع) مشہد نے (تصحیح و تعلیق محمد ہادی امینی اور تحقیق محمد حسین رحیمیان) 104 صفحات میں اسے شائع کیا ہے۔
حوالہ جات
- ↑ آقابزرگ، الذریعه، ج6، ص265.
- ↑ حلی، الفین، 1388ھ، مقدمه خرسان، ص57.
- ↑ آقابزرگ، الذریعه، ج3، ص400، ج6، ص265.
- ↑ حلی، اثبات الوصیه، 1406ھ، ص3-4.
- ↑ حلی، اثبات الوصیه، 1406ھ، ص4-19.
- ↑ حلی، اثبات الوصیه، 1406ھ، ص19.
- ↑ حلی، اثبات الوصیه، 1406ھ، ص21.
- ↑ حلی، اثبات الوصیه، 1406ھ، ص22-27.
- ↑ حلی، اثبات الوصیه، 1406ھ، ص27-38.
- ↑ حلی، اثبات الوصیه، 1406ھ، مقدمه ص3
- ↑ حلی،اثبات الوصیه، ص5، 21.
- ↑ حلی، اثبات الوصیه، 1406ھ، مقدمه کتاب.
- ↑ حلی اثبات الوصیه، 1406ھ، ص4.
- ↑ حلی اثبات الوصیه، 1406ق، ص16
- ↑ آقا بزرگ، الذریعه، ج6، ص265.
- ↑ حلی، اثبات الوصیه، 1406ھ، ص2.
- ↑ آقا بزرگ، الذریعه، ج6، ص265.
- ↑ حلی، الفین، 1388ھ، مقدمه خرسان، ص57.
مآخذ
- حلی، حسن بن یوسف بن مطهر، اثبات الوصیه للامامۃ علی بن ابی طالب علیهالسلام، درالاضوارء، بیروت، 1406ھ/1986ء.
- آقا بزرگ تهرانی، الذریعۃ إلی تصانیف الشیعۃ، اسماعیلیان، قم و کتابخانه اسلامیه، تهران، 1408ھ.
- علامه حلی، الالفین فی امامۃ امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب، مقدمه: سیدمهدی خرسان، مکتبۃ الحیدریۃ، نجف،1388ھ-1926ء.