تنقیح المقال فی علم الرجال (کتاب)
مشخصات | |
---|---|
مصنف | عبد اللہ مامقانی (متوفیٰ: 1351ھ) |
موضوع | علم رجال |
تعداد جلد | 3جلد |
طباعت اور اشاعت | |
ناشر | مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث |
مقام اشاعت | قم |
اردو ترجمہ | |
ای بک | http://lib.eshia.ir/10510 |
تنقیح المقال فی علم الرجال علم رجال کے موضوع پر عربی زبان میں لکھی گئی ایک تفصیلی کتاب ہے جو تنقیح المقال کے نام سے مشہور ہے۔ اس کتاب کو چودہویں صدی ہجری کے عالم و مجتہد شیخ عبداللہ مامقانی(متوفیٰ: 1311ہجری شمسی) نے تحریر کیا ہے۔
کتاب تنقیح المقال میں 16000 سے زائد راویوں کے اسامی اور ان کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں۔ اس میں مذکور راویوں میں سے 3281 راوی ثقہ، 6651 راوی حسن، 46 راوی «موثق» اور باقی «ضعیف» یا «مجہول» یا «مُہمَل» ہیں۔ آقا بزرگ تہرانی نے تنقیح المقال کو علم رجال کی ایک مفصل کتاب قرار دی ہے۔
محمدتقی شوشتری نے اس کتاب کو رجالی علماء کی اسناد اور آراء جمع کرنے کے لحاظ سے بہترین اور درست ترین قلمی اثر تلقی کی ہے؛ البتہ اس پر کچھ اعتراضات بھی کیے گئے ہیں؛ من جملہ یہ کہ سید محسن امین اور محمد تقی شوشتری کے مطابق یہ یہ کتاب غلطیوں سے مبرا نہیں ہے اور اس میں بکثرت بے فائدہ مطالب بیان کیے گئے ہیں۔
تنقیح المقال سنہ 1352ھ کو 3 جلدوں میں شائع ہوئی اس کے بعد محی الدین اور محمد رضا مامقانی نے اس پر کچھ تحقیقی کام کیے اور سنہ 1423ھ کو 50جلدوں میں شائع کی ہے۔
مصنف
تنقیح المقال کے مصنف عبد اللہ بن محمد حسن مامقانی (1290-1351ھ) ہیں جو چودہویں صدی ہجری[1] کے مجتہد اور شیعہ عالم رجال تھے۔[2] ان کی پیدائش نجف میں ہوئی اور یہاں پر دینی علوم حاصل کیے۔[3] ان کی مختلف موضوعات مثلا فقہ، اصول فقہ، درایۃ الحدیث اور علم رجال میں متعدد تالیفات ہیں۔[4]
رجال اور قرآنی علوم کے محقق پرویز رستگار نے عبد اللہ مامقانی کو مکتب تقلید اور سنتی روش کے مطابق عمل کرنے والوں کے ممتاز ترین علمائے رجال میں سے قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کا علم رجال کے بارے میں انجام دیا ہوا کام علم رجال میں ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتا ہے جو کسی موضوع کے متعلق تمام معلومات کو جمع کرتا ہے، انہوں نے اس کتاب میں کسی ہچکچاہٹ کے بغیر متضاد اور متعارض آراء کو بیان کیا ہے؛[5] ان کا یہ کام رجالیان مکتب تحلیل و اجتہاد کے برخلاف ہے۔ سید حسین طباطبائی بروجردی کو مکتب اجتہاد کی صف اول کے افراد میں سے شمار کیے جاتے ہیں۔[6]
کتاب کا تعارف اور اس کا مقام
"تنقیح المقال فی علم الرجال" علم رجال کے موضوع پر لکھی گئی ایک نہایت تفصیلی کتاب ہے جس میں چوتھی صدی ہجری تک کے مسلمان راویوں من جملہ صحابہ، تابعین، ائمہؑ کے اصحاب اور شیعہ علمائے حدیث کے بارے میں تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔[7] اس کتاب کی تصنیف سنہ 1308ہجری شمسی کے پانچویں مہینے (مرداد) میں شروع ہوئی اور مصنف کی وفات تک[8] 3 سال کے عرصے میں تکمیل کی گئی ہے،آقا بزرگ تہرانی نے اتنے کم عرصے میں اس حجیم کتاب کی تالیف کو تائید الہی کی نشانی قرار دیا ہے۔[9]
محمد تقی شوشتری کے بقول؛ جنہوں نے اس کتاب پر تنقیدی نگاہ کے سلسلے میں قاموس الرجال تحریر کی ہے؛ یہ کتاب علمائے رجال کی آراء اور ان کے نظریات کو جمع کرنے کے سلسلے میں ایک بہترین اور کامل ترین کتاب شمار ہوتی ہے۔[10] اس کتاب میں 16000 سے زائد راویوں کے اسامی اور کوائف بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں سے 3281 راوی ثقہ، 6651 حسن، 46 موثق اور باقی راویوں کو ضعیف یا مجہول یا مُہمَل کے طور پر متعارف کیے گئے ہیں۔[11]
تنقیدی جائزہ
کتاب "تنقیح المقال" پر کچھ تنقیدیں بھی ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں محمد تقی شوشتری نے کتاب "قاموس الرجال" میں شدید تنقید کی ہے۔ اس کتاب پر ہونے والے بعض تنقیدیں درج ذیل ہیں:
- شیعہ علما کی سوانح حیات پر مشتمل کتاب "اَعیان الشیعہ" کے مصنف سید محسن امین نے اپنی کتاب کے مآخذ میں تنقیح المقال کا ذکر کرنے کے باوجود اس کتاب کو اشتباہات کا مجموعہ قرار دیا ہے۔[12]
- آقا بزرگ تہرانی نے اس کتاب کی تعریف کے ساتھ ہی ساتھ اس پر نظر ثانی کرنے کو ضروری قرار دیا ہے۔[13]
- محمدتقی شوشتری (متوفی: 1374ہجری شمسی) نے اپنی کتاب "قاموس الرجال" میں اس کتاب کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، (شیعہ علما کی جانب سے اس طرز تنقید کو غیر مناسب کہا گیا ہے)،[14] محمد تقی شوشتری کی نظر میں اس کتاب کو بے جا اور غیر مفید انداز میں تطویل دی گئی ہے:[15] متاخر راویوں کی توثیق کو متقدمین کی توثیق پر اضافہ کیا گیا ہے حالانکہ سابقہ راویوں کی توثیق کے بعد (سوائے کچھ موارد کے ) متاخرین کی توثیق کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔[16] دوسرا اعتراض یہ کہ شیخ طوسی نے اپنی کتاب رجال میں جن راویوں کا نام لیا ہے مامقانی نے ان سب کو شیعہ امامی کے طور پر ذکر کیا ہے۔[17]
- کہا گیا ہے کہ مامقانی نے اپنی کتاب میں 16000 راویوں کی ایک لمبی چوڑی فہرست بیان کی ہے جو کہ ایک قسم کی ضرورت سے زیادہ کام ہے۔[18]
نسخہ جات اور طباعت
تنقیح المقال کی کتاب، "نتایجُ التَّنقیحِ فی تمییزِ السَّقیمِ مِنَ الصَّحیح" کی فہرست کے ساتھ جس میں ہر راوی کی تفصیل بیان کی گئی ہے،[19] نیز اس کی کتاب مقباس الہدایہ فی علم الدرایہ، سب سے پہلے لتھوگرافی کی شکل میں تین جلدوں میں نجف میں اور سجاوندی نشانات کے بغیر، سنہ 1352ھ میں شائع ہوئی۔[20] آقا بزرگ تہرانی کے مطابق تنقیح المقال کا ایک حصہ لتھوگرافی صورت میں خود مصنف کی زندگی اور ان کی اپنی نگرانی میں شائع ہوا تھا اور دوسرا حصہ ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔[21]
اس کے بعد کتاب "مخزن المعانی فی ترجمۃ المحقق المامَقانی" تنقیح المقال کی ابتدا میں اضافہ (بطور جلد صفر) کیا گیا اور مجموعی طور پر پچاس جلدوں میں مصنف کے بیٹے اور محمد رضا مامقانی، ان کے پوتے نے سنہ1423ھ کو مؤسسہ آلالبیت سے شائع کیا۔[22]
حوالہ جات
- ↑ مامقانی، مقباس الہدایۃ...، 1411ھ، ص18.
- ↑ علیزادہ، نقش عالمان شیعہ در گسترش علم اخلاق، 1397ش، ص118.
- ↑ مامقانی، مقباس الہدایۃ...، 1411ھ، ص18-19.
- ↑ مامقانی، مقباس الہدایۃ...، 1411ھ، ص19-27؛ علیزادہ، نقش عالمان شیعہ در گسترس علم اخلاق، 1397ش، ص118.
- ↑ رستگار، «تنقیح المقال در قاموس الرجال»، ص23 و 26.
- ↑ رستگار، «تنقیح المقال در قاموس الرجال»، ص24.
- ↑ آقابزرگ طہرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، 1403ھ، ج4، ص466.
- ↑ ملکی میانجی، «تنقیح المقال»، ج8، ص294.
- ↑ آقابزرگ طہرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، 1403ھ، ج4، ص466.
- ↑ شوشتری، قاموس الرجال، 1410ھ، ج1، ص9.
- ↑ رنجبری حیدرباغی، «تنقیح مقال نقد»، ص279.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، 1413ھ، ج1، ص211.
- ↑ آقابزرگ طہرانی، الذریعۃ...، 1406ھ، ج4، ص466.
- ↑ قاضی طباطبائی، تحقیق دربارہ روز اربعین...، 1352ش، ص435؛ «قاموس الرجال و صاحب آن»: گفتگو با سید موسی شبیری زنجانی، مجلہ کیہان فرہنگی، ص13.
- ↑ شوشتری، قاموس الرجال، 1410ھ، ج1، ص9.
- ↑ شوشتری، قاموس الرجال، 1410ھ، ج1، ص9.
- ↑ رستگار، «تنقیح المقال در قاموس الرجال»، ص28.
- ↑ رستگار، «تنقیح المقال در قاموس الرجال»، ص26.
- ↑ نصیری، حدیثشناسی 2، 1383ش، ص189.
- ↑ رنجبری حیدرباغی، «تنقیح مقال نقد...»، ص279.
- ↑ آقابزرگ الطہرانی، الذریعۃ...، 1406ھ، ج4، ص466.
- ↑ رستگار، «تنقیح المقال در قاموس الرجال»، ص30.
مآخذ
- آقابزرگ الطہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، بیروت، دار الاضواء، 1406ھ۔
- آلمحبوبہ، جعفر بن باقر، ماضی النّجف وحاضرہا، بیروت، 1406ھ/1986ء۔
- «آیتاللّہ علامہ حاج شیخ محمدتقی شیخ (شوشتری): رجالی عظیم معاصر»، گفتگو با محمدتقی شوشتری و محمدتقی شیخ و رضا استادی، مجلہ کیہان فرہنگی، سال 2، ش1، فروردین 1364ہجری شمسی۔
- امین، سید حسن، اعیان الشیعۃ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1413ھ۔
- تستری، محمدتقی، قاموس الرجال، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ج1، 1410ھ۔
- حرزالدین، محمد، معارف الرجال فی تراجم العلماء والادباء، قم، 1405ھ۔
- رنجبری حیدرباغی، احمد، «تنقیح مقال نقد: نگاہی بہ دو مقالہ انتقادی دربارہ کتاب تنقیح المقال»، فصلنامہ نقد کتاب میراث، سال اول، ش1-2، بہار و تابستان 1393ہجری شمسی۔
- علیزادہ، مہدی، نقش عالمان شیعہ در گسترش علم اخلاق، قم، انتشارات امام علی بن ابیطالب، 1397ہجری شمسی۔
- فضلی، عبدالہادی، اصول علم الرجال، بیروت، 1414ھ/1994ء۔
- قاضی طباطبائی، محمدعلی، تحقیق دربارہ روز اربعین حضرت سیدالشہداء علیہ الاف التّحیۃ والثّناء، تبریز، 1352ہجری شمسی۔
- «قاموس الرجال و صاحب آن»، گفتگو با سید موسی شبیری زنجانی، مجلہ کیہان فرہنگی، سال 2، ش1، فروردین 1364ہجری شمسی۔
- مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، چاپ سنگی، نجف، 1349-1352ھ۔
- مامقانی، عبداللہ، مقباس الہدایۃ فی علم الدرایۃ، تحقیق محمدرضا مامقانی، قم، مؤسسۃ آل البیت لإحیاء التراث، 1411ھ۔
- نصیری، علی، حدیثشناسی 2، قم، سنابل، 1383ہجری شمسی۔