سید نور اللہ شوشتری

ویکی شیعہ سے
(شہید ثالث سے رجوع مکرر)
سید نور اللہ شوشتری
مزار شہید نور اللہ شوشتری شہید ثالث
مزار شہید نور اللہ شوشتری شہید ثالث
کوائف
مکمل نامسید نور اللہ شوشتری حسینی مرعشی بن شریف الدین
لقب/کنیتشہید ثالث
نسبامام زین العابدین کی نسل سے ہیں۔
تاریخ ولادت956 ھ
آبائی شہرشوشتر
تاریخ وفات1019 ھ
مدفنآگرہ (ہندوستان)
نامور اقرباءوالد: سید شریف الدین
علمی معلومات
اساتذہسید شریف الدین، مولا عبد الواحد شوشتری، مولا عبد الوحید تستری۔
شاگردشیخ محمد ہروی خراسانی، مولا محمد علی کشمیری۔
اجازہ روایت ازمولا عبد الوحید تستری، عبد الرشید شوشتری۔
تالیفاتاحقاق الحق و ازہاق الباطل، مجالس المؤمنین۔
خدمات
سماجیقاضی القضاۃ


سید نور اللہ شوشتری یا مرعشی (956-1019 ھ)، قاضی نور اللہ شوشتری اور شہید ثالث کے نام سے مشہور، صفویہ عہد کے شیعہ فقیہ، اصولی، متکلم، محدث اور شاعر تھے۔ احقاق الحق اور مجالس المؤمنین سمیت بہت سی تالیفات کے مالک ہیں۔ قاضی القضات ہند کے عہدے پر فائز رہے اور چاروں فقہ کی اساس پر فیصلے کیا کرتے تھے۔ مغل بادشاہ جہانگیر دور کے بعض درباری علما اور مقربین کے مذہبی عناد کے نتیجے میں بادشاہ نے ان کی موت کا حکم صادر کیا۔ ہندوستان کے شہر آگرہ میں مدفون ہیں۔

ولادت و نسب

سید نور اللہ حسینی مرعشی 956 ہجری، ایران کے صوبے خوزستان کے شہر شوشتر میں پیدا ہوئے۔ ان کا نسب امام زین العابدین (ع) تک پہنچتا ہے۔ ان کے والد سید شریف الدین اپنے زمانے کے بزرگ علما میں سے تھے جو علوم نقلیہ اور عقلیہ میں صاحب آثار تھے۔ آپ کے اجداد میں سے نجم الدین محمود حسینی مرعشی آملی نے آمل سے شوشتر ہجرت کی۔[1] قاضی نور اللہ ہمیشہ اس نسبت پر فخر کرتے جو ان کے آثار سے واضح ہے۔

اولاد

قاضی نور اللہ شوشتری کے 5 بیٹے تھے۔ ان میں ہر ایک کا شمار اپنے دور کے مصنفین، شعراء اور علماء میں ہوتا تھا اور وہ سب صاحب تالیفات تھے۔ ان کے اسماء یہ ہیں:

  • سید محمد یوسف
  • شریف الدین (992ـ1020 ھ)
  • علاء الملک
  • سید ابو المعالی (1004ـ1046 ھ)
  • سید علاء الدولہ (1012ـ؟)

تعلیم

سید نور اللہ نے شوشتر میں تحصیل علم کیا۔ عقلی اور نقلی علوم اپنے والد کے پاس پڑھے اور طب حکیم مولانا عماد الدین کے پاس پڑھا۔ نیز میر صفی الدین محمد اور میر جلال الدین محمد صدر بھی ان کے اساتذہ میں ہیں۔ 23 سال کی عمر میں 979 ه‍ کو اپنے چھوٹے بھائی سید وجیہ الدین محسن کے ساتھ حصول علم کیلئے مشہد آئے۔

مشہد میں قاضی نور اللہ نے مولا عبدالواحد شوشتری کے درس میں شرکت کی اور فقہ، اصول، کلام، حدیث اور تفسیر جیسے علوم اسی استاد سے حاصل کئے۔ مولا محمد ادیب قاری تستری سے ادبیات عرب و تجوید قرآن کریم حاصل کئے۔ نیز عبد الرشید شوشتری (مؤلف کتاب مجالس الامامیہ (اعتقادات) اور مولا عبدالوحید تستری جیسے علما سے اجازه روایت لیا۔[2]

برصغیر میں آمد

سید نوراللہ 992 یا 993 ه‍ مشہد چھوڑ کر برصغیر جانے پر مجبور ہوئے۔ مشہد میں مسلسل حالات کی خرابی، ابر بار کی شورشیں اور ناگوار واقعات اس ہجرت کے اسباب میں سے ہیں۔ یہیں ازبکوں کے حملوں میں ان کا بھائی مارا گیا۔ اس وقت ابھی شاه عباس صفوی تخت نشین نہیں ہوا تھا۔ بہرحال خراسان کے غیر مستحکم سیاسی حالات نے سید نوراللہ کو برصغیر ہجرت پر مجبور کیا۔ اس زمانے میں ہندوستان پرامن ترین علاقہ تھا۔

برصغیر کے پر امن حالات اکبر بادشاه کی وجہ سے تھے جو اس وقت وہاں کا حاکم تھا۔ اکبر بادشاه تیمور کی نسل میں ہمایوں کا بیٹا تھا جو 14 سال کی عمر میں تخت نشین ہوا۔ اپنی استعداد کی بدولت گجرات، بنگال، کشمیر اور سندھ تک اپنی سلطنت کو وسعت دی اور ایک وسیع و عرض خطے پر اپنی بادشاہت قائم کی۔ نیز بہت سے شہر اور آبادیوں کی سنگ بنیاد رکھی۔[3]

اکبر بادشاه عمرانیات کے علاوہ فلسفی مسائل سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتا تھا۔ لیکن دین کی نسبت کوئی زیادہ دیندار نہیں تھا۔ اسی فکر کی بدولت اس نے مختلف ادیان سے ایک دین بنانے کی کوشش کی۔

قاضی نوراللہ شوشتری آگره میں اکبر بادشاہ پاس آنے سے پہلے فتح پور سیکری میں ابو الفتح مسیح الدین گیلانی ایرانی طبیب حاذق اور بڑے شاعر کے پاس گئے۔ جہاں مختلف علوم و فنون حاصل کرنے کے بعد 983 میں وارد ہندوستان ہوئے۔ اپنی قابلیت اور استعداد کی بدولت جلد ہی اکبر بادشاه کے مقربین میں ہو گئے۔[4] مسیح الدین شوشتری نے اکبر بادشاه سے ان کا تعارف کروایا۔ سید نور اللہ شوشتری نے حضرت علی(ع) کے بارے میں لکھی ہوئی کتاب اکبر بادشاہ کو ہدیہ کی۔

قاضی القضات

سید دو ماه آگرے میں رہے اس کے بعد اکبر بادشاه کے ہمراہ لاہور آئے۔ لاہور کا قاضی ایک سن رسیدہ شخص بنام «شیہ معین» تھا۔ بادشاہ نے اس کی جگہ سید نور اللہ کو قاضی بنایا۔[حوالہ درکار]


نور اللہ شوشتری نے قاضی القضات کے منصب پر بیٹھنے سے پہلے اکبر بادشاہ سے کہا: ہو سکتا ہے کہ وہ دینی مسائل کی اصلی مصادر کے مطابق تحقیق کرے، ان کے مطابق فقہی حکم بیان کرے اور اس تحقیق و جستجو کے نتیجے میں مجبور نہیں ہوگا کہ وہ کسی ایک مسلک کی پیروی کرے اور ایک ہی مذہب کے مطابق فتوے صادر کرے بلکہ وہ اپنے اجتہاد کو بروئے کار لا کر فتوا صادر کرے گا لیکن اس فتوے کے بیان میں رائج سنتی فقہ سے باہر نہیں جائے گا اور اہل سنت کی چار فقہوں (شافعی، حنبلی، مالکی یا حنفی) میں سے کسی ایک فقہ کے مطابق فتوا صادر کرے گا۔

اکبر بادشاه نے قاضی شیعہ ہونے کے باوجود ان میں موجود صلاحیتوں اور استعداد کی بنا پر قاضی کی اس شرط کو قبول کیا اور قاضی کے عہدے پر منصوب کیا۔ قاضی نوراللہ اہل سنت کی تمام فقہوں اور ان کے باہمی اختلافات کی بدولت عوام کے زیادہ نفع میں اور شیعوں کے نزدیک تر فتوا صادر کر سکتے تھے۔ اسی وجہ سے عبد القادر بدایونی اپنے سخت مذہبی تعصب کی وجہ سے اکبر بادشاہ کی سیاسی پالیسیوں سے مخالفت کے باوجود قاضی نور اللہ کی عدالت، شرافت و علم کی تعریف کرتا تھا۔[5]

علمی فعالیت اور آثار

صاحب کتاب ریاض العلماء ان کی زندگی کے بارے میں لکھتے ہیں:

مرحوم شوشتری فاضل، عالم، متدین، صالح، علامہ، فقیہ، محدث، سیرت و تاریخ سے آگاہ، فضیلتوں کی جامع ترین اور تمام علوم میں نقد و نظر کی صلاحیت سے مالا مال شخصیت کے مالک تھے نیز فارسی و عربی زبان میں شعر کہتے اور مدح آئمہ طاہرین میں ان کے قصیدے مشہور ہیں۔

قاضی نوراللہ نے تقیہ کے زیر سایہ رہتے ہوئے نہ صرف منصب قضاوت تک رسائی حاصل کی بلکہ شیعہ معاشرے کو بہت ہی ارزشمند کتب دیں۔ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں: فقیر نے قربت خدا اور مخالفین کے سامنے تقیّہ کرتے ہوئے اپنی تصانیف میں اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔ اسی وجہ سے ان کی تصنیف شدہ کتب کی تعداد میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ آیت اللہ مرعشی نجفی کتاب احقاق الحق و ازہاق الباطل کے مقدمے میں ان کی تالیفات کی تعداد 140 ذکر کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کے اسما درج ذیل ذکر کرتے ہیں:

  1. احقاق الحق: یہ کتاب تین مرتبہ چھپی ہے۔
  2. أجوبۃ مسائل السید حسن الغزنوی۔
  3. الزام النواصب فی الردّ علی میرزا مخدوم الشریفی: یہ کتاب استاد میرزا محمد علی چہاردہی گیلانی نے فارسی میں ترجمہ کی اور مرتضی مدرسی نے اسے طبع کیا۔
  4. القام الحجر در رد ابن حجر۔
  5. بحر الغزیر فی تقدیر ماء الکثیر: قاضی نے اس کتاب میں آب کر کے وزن و حجم پر تحقیق کی ہے۔
  6. بحر الغدیر فی اثبات تواتر حدیث الغدیر سنداً و مؤلفا و دلالہ۔
  7. تفسیر القرآن: کئی جلدوں میں۔
  8. تفسیر آیت رؤیا: احتمال ہے اس سے مراد سوره اسراء کی 60ویں آیت ہے جو رسول اللہ کے خواب کے متعلق ہے۔
  9. تحفة العقول۔
  10. حلّ العقول۔
  11. علم نحو میں جامی کی شرح الکافیہ پر حاشیہ ۔
  12. شرح التجرید اصفہانی کے حاشیہ چلپی پر حاشیہ۔
  13. مطّول تفتازانی پر حاشیہ۔
  14. رجال کشی پر حاشیہ کہ جو علم رجال میں مفید معلومات پر مشتمل ہے۔
  15. شیخ طوسی کی تہذیب الاحکام پر حاشیہ جو نا مکمل رہا۔
  16. فاضل مقداد کی آیات الاحکام میں کنز العرفان پر حاشیہ۔
  17. دوانی کے تہذیب المنطق کے حاشیے پر حاشیہ۔
  18. شرح قواعد العقائد کی بحث عذاب القبر پر حاشیہ۔
  19. علم کلام کی شرح مواقف پر حاشیہ۔
  20. رسالۃ الاجوبۃ الفاخره پر حاشیہ۔
  21. شرح تہذیب الاصول پر حاشیہ۔
  22. علامہ کی شرح تجرید بحث جواہر پر حاشیہ۔
  23. تفسیر بیضاوی پر حاشیہ۔
  24. الہیات شرح تجرید۔
  25. حاشیہ القدیمیہ پر حاشیہ۔
  26. علم فصاحت و بلاغت میں حاشیہ الخطایی۔
  27. تفسیر بیضاوی پر دوسرا حاشیہ۔
  28. حکمت میں شرح الہدایہ پر حاشیہ۔
  29. علم منطق میں قطب الدین کی شرح الشمسیہ پر حاشیہ۔
  30. علامہ کی فقہ میں قواعد پر حاشیہ۔
  31. شیخ طوسی تہذیب پر حاشیہ۔
  32. محقق حلی خطبۂ الشرائع پر حاشیہ۔
  33. فقہ حنفی میں ہدایہ پر حاشیہ۔
  34. فقہ حنفی کی شرح الوقایہ پر حاشیہ۔
  35. شرح رسالہ آداب المطالعہ پر حاشیہ۔
  36. شرح تلخیص المفتاح (معروف مختصر المعانی تفتازانی) پر حاشیہ۔
  37. علم ہیئت میں شرح چغمینی پر حاشیہ۔
  38. علامہ کی فقہ میں مختلف پر حاشیہ۔
  39. علامہ دوانی کی اثبات الواجب الجدید پر حاشیہ۔
  40. علم ہندسہ میں تحریر اقلیدس پر حاشیہ۔
احقاق الحق و ازہاق الباطل

اہم‌ ترین آثار

مجالس المؤمنین

قاضی نوراللہ شوشتری کے آثار میں سے 4 کتابیں مخصوص حیثیت رکھتی ہیں جن کے متعلق علما کے اقوال نقل کرتے ہیں:

  • احقاق الحق: اس کتاب کے کلمات ان کے تبحر علمی پر دلالت کرتے ہیں۔ یہ کتاب قاضی فضل بن روزبہان کے کتاب ابطال الباطل کا جواب ہے۔ قاضی فضل بن روزبہان کی کتاب علامہ حلی کی نہج الحق و کشف الصدق کے جواب میں لکھی گئی۔ قاضی نوراللہ نے اس کتاب میں منطقی، زیبا اور رسا انداز میں فضل بن روزبہان کی کتاب کا جواب دیا ہے نیز اس کے نظریات کا جواب اہل سنت کی کتابوں سے دیا ہے۔[6]
  • مجالس المؤمنین: اس کتاب میں علما کی ایک جماعت، حکما، ادبا، عرفا، شعرا، رجال متقدم اور وہ راوی جو ان کے عقیدے کے مطابق شیعہ تھے، کے احوال بیان ہیں۔ نیز اس کتاب میں حکایات و قصص اور روایات سمیت شہروں کے حالات بھی مذکور ہیں۔[7]
  • الصوارم المہرقہ: الصواعق المحرقہ کے جواب میں لکھی گئی۔
  • کتاب مصائب النواصب

شیخ حر عاملی (متوفی 1110 ھ) اپنی کتاب امل الآمل میں ان دو کتابوں کے ساتھ احقاق الحق کو ذکر کرتے ہیں یہ اس بات کی بیان گر ہے کہ قاضی کی یہ اہم کتب [8] صفویہ دور میں جہانی شہرت رکھتی تھیں۔

  • النور الانور و النور الازہر فی تنویر خفایا: قضا و قدر کے متعلق رسالہ ہے۔ علامہ حلی نے استقصاء النظر فی بحث القضاء و القدر کے نام سے رسالہ لکھا تھا۔ اسکے جواب میں اہل سنت کی طرف سے شبہات لکھے گئے۔ قاضی نے اس جوابی کتاب کے جواب میں ان شبہات کا جواب دیا ہے۔ اس کی اختتامی تاریخ جمادی الثانیہ 1018 ھ ق ہے۔[9]

مناظرات علمی

قاضی نوراللہ کے مناظروں میں سے اہل سنت عالم دین عبد القادر بن ملکوک شاه بدایونی سے مناظرے کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب منتخب التواریخ میں ذکر کیا ہے۔ اسی طرح قاضی شوشتری کا سید قزوینی کے ساتھ مناظرہ جسے قاضی نے اپنی تالیف مجالس المؤمنین میں ذکر کیا ہے۔[10]

شاگرد

قاضی نور اللہ مذاہب پنجگانہ کی بنیاد پر شیعہ، حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی کی فقہ طلاب کیلئے تدریس کرتے اور آخر میں خاتمے کے عنوان سے بیان اقوال میں بڑی ظرافت کے ساتھ شیعہ نظر بھی بیان کر دیتے۔ شیعیت کے مخالف فضا، شیعہ مذہب کے شاگردوں سے مخفیانہ رابطہ اور اسی طرح تقیہ کی وجہ سے چند شاگردوں کے ناموں کے علاوہ دیگر کوئی معلومات نہیں ہے:[11]

  • شیخ محمد ہروی خراسانی
  • مولا محمد علی کشمیری
  • سید جمال الدین عبداللہ مشہدی

شہادت

فائل:مقبرہ قاضی نور اللہ شوشتری.jpg
قاضی نور اللہ شوشتری کے مقبرے کا بیرونی منظر

اکبر شاہ کے بیٹے جہانگیر شاه کے تخت نشین ہونے کے بعد 1019 ہجری میں اس کے حکم سے کوڑے کھاتے ہوئے شہید ہوئے۔ شہادت کا سبب احقاق الحق و ازہاق الباطل کی تالیف تھی۔ ایک قول کے مطابق مجالس المؤمنین تھی۔ برصغیر میں آپ شہید ثالث کے لقب سے معروف ہیں۔

محدث قمی نے ان کی شہادت کی درج ذیل تفصیل بیان کی ہے:

قاضی نوراللہ قضاوت اور مخفیانہ تالیف میں مشغول تھے کہ اکبر بادشاہ کے مرنے کے بعد جہانگیر تخت نشین ہوا۔ درباری علما اور مقربین نے نور اللہ کے خلاف بادشاہ کے کان بھرنے شروع کر دیئے کہ قاضی شیعہ ہے، اپنے آپ کو چار فقہوں کا پابند نہیں سمجھتا ہے اور اپنے فتوے مذہب امامیہ کے مطابق دیتا ہے۔ جہانگیر شاه نے ان کے بیانات کو ان کے شیعہ ہونے کیلئے کافی نہیں سمجھا اور کہا: اس نے قضاوت کے عہدے کو اپنے اجتہاد کی شرط کے ساتھ قبول کیا تھا۔ ان لوگوں نے اس سے مایوس ہو کر قاضی کیلئے ایک اور حربہ استعمال کیا۔ ایک شخص کو شیعہ ظاہر کرکے قاضی کے پاس شاگردی کیلئے بھیجا۔ اس شخص نے کچھ مدت کی آمد و رفت سے قاضی کا اعتماد حاصل کیا اور وہ قاضی کی مجالس المؤمنین سمیت دیگر کتب سے آگاہ ہوا اور اس نے مجالس المؤمنین ان سے لی اور درباری علما اور مقربین کیلئے اس سے نسخہ برداری کی۔ انہوں نے اس کتاب کو ان کے تشیع کی دلیل کے طور پر بادشاہ کے سامنے پیش کیا اور بادشاہ سے کہا: انہوں نے اس کتاب میں ایسا ایسا لکھا ہے لہذا اس پر حد جاری ہونی چاہئے۔ جہانگیر نے پوچھا اس کی حد کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اس کی سزا کوڑے ہے۔ بادشاہ نے یہ کام ان کے سپرد کیا اور انہوں نے بلا فاصلہ ان پر حد جاری کرتے ہوئے کوڑے مارے۔ کہتے ہیں: خاردار لکڑی کے تختے پر 70 سال کی عمر میں اس حد تک کوڑے مارے گئے کہ ان کا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔[12]

قاضی نور اللہ کا مزار ہندوستان کے شہر آگرا میں موجود ہے اور لوگوں کیلئے ایک زیارت گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

حوالہ جات

  1. مجالس المؤمنین، ج۱، ص۷۱
  2. مقدمہ احقاق الحق، ج۱، ص۸۲.
  3. لغت نامہ دہخدا، ج۵، (الف)، ص۳۱۸۰.
  4. تذکره علمائے امامیہ پاکستان، سید حسین عارف نقوی ص۱۵.
  5. صوارم المہرقہ، ص (فیض الآلہ)
  6. ریحانۃ الادب، ج۳، ص۳۸۵.
  7. روضات الجنات، ج۸، ص۱۶۰.
  8. الامل الآمل، ج۲، ص۳۳۷.
  9. سید اعجاز حسین، کشف الحجب و الاستارص591 ش3337۔
  10. مجالس المؤمنین، ج۱، ص۵۷۲ و ۵۷۳.
  11. احقاق الحق، ج۱، ص۱۱۰ و ۱۱۱
  12. فوائدالرضویہ، محدث قمی، ص۶۹۷.

مآخذ

  • حر عاملی، محمد حسن، امل الامل فی علماء جبل عامل، بغداد، مکتبہ الاندلس.
  • خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات، قم، اسماعیلیان.
  • دهخدا، علی اکبر، لغتنامہ.
  • شوشتری، سید نور اللہ، احقاق الحق و ازہاق الباطل، قم، کتابخانہ حضرت آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی.
  • شوشتری، سید نور اللہ، الصوارم المُہرقہ فی نقد الصواعق المُحرقہ (ابن حجر الہیثمی)، تہران، مشعر، ۱۳۸۵ش.
  • شوشتری، سید نور اللہ، مجالس المومنین، تہران، کتاب فروشی اسلامیہ، ۱۳۷۷ش.
  • عارف نقوی، سید حسین، تذکره علمای امامیہ پاکستان، ترجمہ محمد ہاشم، مشہد، آستان قدس رضوی، بنیاد پژوہش‌ ہای اسلامی، ۱۳۷۰ش.
  • قمی، شیخ عباس، فوائد الرضویہ فی أحوال علماء المذہب الجعفریہ، تہران، کتابخانہ مرکزی، ۱۳۶۷ش.
  • مدرس، محمد علی، ریحانۃ الادب فی تراجم المعروفین بالکنیہ او اللقب، تہران، کتاب فروشی خیام، ۱۳۶۹ش.