احقاق الحق و ازہاق الباطل (کتاب)

کم لنک
ویکی شیعہ سے
احقاق الحق و ازهاق الباطل
کتاب احقاق الحق کی جلد کا عکس، سید شہاب الدین مرعشی نجفی کے تعلیقات و ملحقات کے ساتھ
کتاب احقاق الحق کی جلد کا عکس، سید شہاب الدین مرعشی نجفی کے تعلیقات و ملحقات کے ساتھ
مشخصات
مصنفقاضی نوراللہ شوشتری (متوفی:1019ھ)
موضوعکلام، نبوت، امامت، معاد
زبانعربی
مذہبشیعہ
ترجمہاردو اور فارسی
طباعت اور اشاعت
ناشرمکتبۃ الاسلامیہ، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، مرکز احیاء آثار برّ صغیر
مقام اشاعتتہران، قم، مصر، نئی دہلی
سنہ اشاعتسنہ 1274، 1326 اور 1437ھ
اردو ترجمہ
مترجممحمد علی سندی حائری ہندی
ای بکhttp://lib.eshia.ir/10271


اِحْقاقُ الحَقّ و اِزْہاقُ الباطِل، احقاق الحق کے نام سے معروف علم کلام کی کتاب ہے جس کے مولف شیعہ عالم قاضی نور اللہ شوشتری (شہید ثالث) (متوفی 1019ھ) ہیں۔ اس کتاب کو آپ نے حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کے دفاع، شیعہ کلامی افکار کی توضیح اور شافعی عالم فضل اللہ بن روزبہان کی کتاب ابطال نہج الباطل کے جواب میں لکھا ہے۔

قاضی نور اللہ شوشتری نے اس کتاب کو مناظرہ کی روش پر تالیف کیا ہے اور علم کلام کے مباحث کے علاوہ اس میں عربی و فارسی اشعار سے بھی استفادہ کیا ہے۔ اس کتاب میں شیعہ و سنی کے بعض اختلافی مسائل کو تطبیقی طور پر پیش کیا گیا ہے اور اس کتاب کی فصل بندی علامہ حلی کی کتاب نہج الحق کی مانند ہے۔ اثبات الہداۃ و بحار الانوار جیسی کتابوں کی تالیف میں اس کے مطالب سے استفادہ کیا گیا ہے۔

کتاب احقاق الحق دو یا چار جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔ اس پر شرحیں و تکملے بھی لکھے گئے ہیں اور اس کا ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ سید شہاب الدین مرعشی نجفی کے زیر نظر اس کتاب کے اوپر تعلیقات و ملحقات اضافہ کئے گئے ہیں اور اب تک اس کی 36 جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔

مؤلف

تفصیلی مضمون: سید نور اللہ شوشتری

سید نوراللہ حسینی مرعشی (956ھ-1019ھ)[1] المعروف بہ قاضی نوراللہ شوشتری، ایک شیعہ فقیہ اور متکلم تھے۔[2]آپ اکبر بادشاہ (حکومت: 963-2014ھ) کے زمانہ میں ہندوستان گئے اور اپنے آپ کو مذہب شافعی کا پیروکار ظاہر کیا[3] اور لاہور میں مقام قضاوت پر فائز ہوئے۔[4]

جہانگیر کے دور حکومت (1014-1037ھ) میں آپ کی کتاب مجالس المؤمنین کا راز فاش ہونے کے بعد آپ کا شیعہ ہونا ثابت ہوگیا اور آپ کو منصب قضاوت سے معزول کر دیا گیا اور ناصبیوں کے ہاتھوں آپ کی شہادت ہوئی؛[5] البتہ محمد علی مدرس تبریزی و آقا بزرگ تہرانی وغیرہ نے کتاب احقاق الحق کی تالیف کو آپ کی شہادت کا سبب بیان کیا ہے۔[6]

اہمیت

کتاب احقاق الحق کو آپ نے نویں صدی ہجری کے سنی عالم فضل بن روزبہان کی کتاب ابطال الباطل کے جواب میں لکھا۔[7] فضل بن روزبہان نے کتاب ابطال الباطل کو شیعہ فقیہ و متکلم علامہ حلی (متوفی: 726ھ) کی کتاب نہج الحق کے جواب میں لکھا تھا۔[8] اس وجہ سے شیعہ سنی اختلافات سے آشنائی کے لئے اس کتاب کے مطالعہ کو مفید کہا گیا ہے۔[9] اسی طرح کہتے ہیں کہ بارہویں صدی ہجری کے شیعہ محدث علامہ محمد باقر مجلسی نے احقاق الحق کے مطالعہ کو تمام شیعوں کے لئے لازمی قرار دیا تھا۔[10] شیعہ مرجع تقلید میرزای قمی (متوفی 1231ھ) سے نقل ہے کہ آپ نے احقاق الحق میں قاضی نور اللہ شوستری کے کلام کو نہج الحق میں علامہ حلی کے کلام سے بھی بہتر قرار دیا ہے۔[11] احقاق الحق میں قاضی نور اللہ شوستری کے بقول آپ نے اس کتاب کو 1014 ھ میں سات مہینوں کے اندر لکھا تھا۔[12] ہندوستان کے شیعہ عالم سید اعجاز حسین کنتوری (متوفی 1286 ھ) نے کہا ہے کہ اتنا وقت اس کتاب کی صرف سادہ کتابت کے لئے بھی ناکافی ہے۔[13]

حر عاملی (متوفی 1104ھ) کی کتاب اثبات الہداۃ و علامہ مجلسی کی کتاب بحار الانوار کی تالیف میں اس کے مطالب سے استفادہ کیا گیا ہے۔[14]

ہندوستان کے شیعہ عالم مولانا سید عبدالحسین (متوفی 1381 ھ) نے اس کتاب کی تدریس کی ہے۔[15]

طرز بیان

قاضی نوراللہ شوشتری نے کتاب احقاق الحق میں روش مناظرہ سے استفادہ کیا ہے جس میں فن جدل کو استعمال کیا جاتا ہے۔ آپ نے اس کتاب میں صرف کلامی مباحث پر اکتفا نہیں کیا ہے، بلکہ عربی اور فارسی اشعار سے بھی استفادہ کیا ہے۔[16]

احقاق الحق کے مقدمہ میں فضل بن روزبہان کے خطبہ کو من و عن نقل کرکے اس پر نقد و بحث کی گئی ہے۔[17]

مقدمہ کے بعد علامہ حلی کی کتاب نہج الحق کی عبارت کو نقل کیا گیا ہے اور آپ کی عبارت نقل کرنے سے پہلے یہ جملہ لکھا ہے؛ «قالَ المُصَنِّفُ رَفَعَ اللّہ دَرَجَتَہ: مصنف نے فرمایا، اللہ ان کے درجات بلند فرمائے» یا «یَقولُ رَحِمَہ اللہ: مصنف نے فرمایا، اللہ ان پر رحمت نازل فرمائے»۔ اس کے فورا بعد نہج الحق پر فضل بن روزبہان کا جواب نقل کیا ہے اور اس کا جواب نقل کرنے سے پہلے یہ عبارت لکھی ہے: «قال الناصِبُ خَفَضَہ اللّہ: ناصبی نے کہا ہے، خدا اسے ذلیل و خوار کرے»۔ آخر میں «اَقولُ: میں کہتا ہوں» کا جملہ لکھ کر روزبہان کا جواب دیا ہے۔[18]

مندرجات

احقاق الحق میں کچھ اصول دین؛ جیسے قیامت و نبوت نیز شیعہ و اہل سنت کے کچھ اختلافی فروع دین کو تطبیقی انداز میں زیر بحث لایا گیا ہے۔ علامہ حلی کی تصنیف نہج الحق[19] کی طرح احقاق الحق میں بھی مندرجات کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اور وہ آٹھ حصے اس طرح ہیں:

شرح، حاشیہ اور ترجمہ

کتاب دلائل الصدق لنھج الحق کا عکس

احقاق الحق پر تکملے و شرحیں لکھی گئی ہیں اور اس کا ترجمہ ہو چکا ہے:

  • تکملہ: دلائل الصدق لنہج الحق: تالیف محمد حسن مظفر (متوفی 1375 ھ) شیعہ متکلم۔[28]
  • شرح و ملحقات: جو شیعہ مرجع تقلید سید شہاب الدین مرعشی نجفی کے زیر نظر انجام پائی اور سنہ 1434 ھ تک کتب خانہ آیت اللہ مرعشی نجفی کی طرف سے اس کی 36 جلدیں چھپ چکی ہیں۔[29] اس شرح کے اندر پہلی سے تیسری جلد میں پہلے مسئلہ (ادراک) سے پانچویں مسئلہ (امامت) تک بیان ہوا ہے اور چوتھی جلد کے بعد سے مسئلہ امامت کو بیان کیا گیا ہے اور کچھ ملحقات کا اضافہ کیا گیا ہے۔[30]
  • فارسی ترجمہ: شاہ سلیمان صفوی (1077-1105) کے زمانے میں نصر الدین حسین بن عبد الوہاب بہبہانی کے ذریعہ ایضاح احقاق الحق کے نام سے کتاب احقاق الحق کا فارسی میں ترجمہ ہوا۔[31] یہ کتاب دوبارہ میرزا محمد نائینی (متوفی سنہ 1305ھ) کے ذریعہ فارسی میں ترجمہ ہوئی۔[32]
  • اردو ترجمہ: یہ کتاب ہندوستان کے عالم اور متکلم مولوی محمد علی سندی حائری ہندی[33] اور سید حسن کہجوری (متوفی سنہ 1352 ھ)[34] کے ذریعہ اردو میں ترجمہ ہوئی ہے۔

قلمی نسخے

کتاب احقاق الحق کے قلمی نسخہ کا پہلا صفحہ جو مجلس شورای اسلامی ایران کے کتب خانے میں ہے اور جس میں خود مصنف کے حواشی موجود ہیں۔[35]

کتاب احقاق الحق کے مختلف النوع نسخے پائے جاتے ہیں[36] جن میں سے کچھ اس طرح ہیں:

  • وہ نسخہ جو مجلس شورای اسلامی ایران کے کتب خانے میں موجود ہے جس میں خود مصنف کے حواشی موجود ہیں۔[38]

اشاعت

کتاب احقاق الحق، سنہ 1273ھ میں چار جلدوں میں ایران کے اندر چاپ سنگی کی صورت چھپی[40] اور سنہ 1326ھ میں اس کا ابتدائی آدھا حصہ چھپا۔[41] انتشارات مکتبۃ الاسلامیہ نے بھی اس کتاب کو تہران میں سنہ 1396ھ میں شائع کیا۔[42]

یہ کتاب سنہ 1437ھ مطابق سنہ 2016ء اور سنہ 1438ھ مطابق سنہ 2017ء کو ابو الزہرا مصطفوی کی تحقیق کے ساتھ مرکز احیائے آثار بر صغیر کے ذریعہ شائع ہوئی؛ البتہ سنہ 1438ھ تک اس کی دو جلدیں چھپ چکی ہیں جن میں ادراک سے نبوت تک چار مسئلے شامل ہیں۔[43]

حوالہ جات

  1. آزاد کشمیری، نجوم السماء، ۱۳۸۷ش، ج۱، ص۱۳۔
  2. مدرس تبریزی، ریحانۃ الادب، ۱۳۶۹ش، ج۳، ص۳۸۴۔
  3. صدر، تکملۃ أمل الآمل، ۱۴۲۰ھ، ج۳، ص۱۷۳۔
  4. مدرس تبریزی، ریحانۃ الادب، ۱۳۶۹ش، ج۳، ص۳۸۴۔
  5. آزاد کشمیری، نجوم السماء، ۱۳۸۷ش، ج۱، ص۱۵۔
  6. آقا بزرگ تہرانی، الذريعۃ، ۱۴۰۳ھ، ج‏۱، ص۲۹۰؛ مدرس تبریزی، ریحانۃ الادب، ۱۳۶۹ش، ج۳، ص۳۸۶؛ قمی، الفواید الرضویہ، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۱۰۶۳۔
  7. آقا بزرگ تہرانی، الذريعۃ، ۱۴۰۳ھ، ج‏۱، ص۲۹۰۔
  8. آقا بزرگ تہرانی، الذريعۃ، ۱۴۰۳ھ، ج‏۱، ص۲۹۰۔
  9. قائدی، «معرفی کتاب احقاق الحق»، ص۱۱۳۔
  10. حسینی، فیض الالہ، ۱۳۲۷ش، ص۵۵؛ شوشتری، احقاق الحق، ۱۴۰۹ ھ، ص۳۳ و ۳۴۔
  11. کبودرآہنگی، مرآۃ الحق، ۱۲۳۸ش، ص۱۰۴۔
  12. شوشتری، إحقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، المقدمہ‌ج‏۱، ص۳۲۔
  13. کنتوری، الحجب و الاستار، ۱۴۰۹ھ، ج۱، ص۲۷۔
  14. نمونہ کی طور پر دیکھئے: شیخ حر عاملی‏، إثبات الہداۃ‏، ۱۴۲۲ھ، ج۳، ص۲۹۵؛ مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۲۲۔
  15. نمونہ کے طور پر دیکھئے: صدر الافاضل، مطلع انوار، ۱۳۷۴ش، ص۳۴۳۔
  16. صحتی سردرودی، «در سایہ احقاق الحق»، ص۶۶۔
  17. صحتی سردرودی، «در سایہ احقاق الحق»، ص۶۶۔
  18. صحتی سردرودی، «در سایہ احقاق الحق»، ص۶۶۔
  19. علامہ حلی، نہج الحق، ۱۹۸۲م، ص۵۱-۴۲۹۔
  20. شوشتری، احقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۱، ص۷۵-۱۴۷۔
  21. شوشتری، احقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۱، ص۱۴۷-۱۵۹۔
  22. شوشتری، احقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۱، ص۱۶۳-ج۲، ص۱۸۹۔
  23. شوشتری، احقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۲، ص۱۹۰-۲۷۶۔
  24. شوشتری، احقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۲، ص۲۸۶-ج۳، ص۵۰۱۔
  25. [https://dlib.ical.ir/site/catalogue/1035492 «کتاب احقاق الحق کا قلمی نسخہ»، کتبخانہ، میوزیم اور مرکز اسناد مجلس شورای اسلامی۔
  26. [https://dlib.ical.ir/site/catalogue/1035492 «کتاب احقاق الحق کا قلمی نسخہ»، کتبخانہ، میوزیم اور مرکز اسناد مجلس شورای اسلامی۔
  27. [https://dlib.ical.ir/site/catalogue/1035492 « کتاب احقاق الحق کا قلمی نسخہ»، کتبخانہ، میوزیم اور مرکز اسناد مجلس شورای اسلامی۔
  28. حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، ۱۴۲۷ق، ج۷، ص۳۳۱.
  29. «پدرم وصیت کرد مرا در ورودی کتابخانہ و زیر پای طالبان علوم آل محمد دفن کنید»، خبر رساں ایجینسی رسا ۔
  30. شوشتری، احقاق الحق، ۱۴۰۹ ھ، ج۱-۳۴۔
  31. حجتی، «گزارشی از تألیف کتاب احقاق الحق و مؤلف آن»، ص۱۰۶۔
  32. آقا بزرگ تہرانی، الذريعۃ، ۱۴۰۳ھ، ج‏۴، ص۷۵۔
  33. تہرانی، الذریعۃ، ۱۴۰۳ھ، ج۴، ص۷۵۔
  34. لجنۃ العلمی فی مؤسسۃ الامام الصادق(ع)، معجم طبقات المتکلمین، ۱۴۲۴ھ، ج‏۵، ص۳۳۸۔
  35. [https://dlib.ical.ir/site/catalogue/1035492 «کتاب احقاق الحق کا قلمی نسخہ»، کتبخانہ، میوزیم اور مرکز اسناد مجلس شورای اسلامی۔
  36. حجتی، «گزارشی از تألیف کتاب احقاق الحق و مؤلف آن»، ص۱۰۶۔
  37. آقا بزرگ تہرانی، الذريعۃ إلی تصانيف الشيعہ، ۱۴۰۳ھ، ج‏۱، ص۲۹۰۔
  38. [https://dlib.ical.ir/faces/search/bibliographic/biblioFullView.jspx?_afPfm=-14gqmren13 «کتاب احقاق الحق کا قلمی نسخہ»، کتبخانہ، میوزیم اور مرکز اسناد مجلس شورای اسلامی۔
  39. شوشتری، احقاق الحق، ۱۴۰۹ ھ، ص۲۹۔
  40. رفاعی، معجم المطبوعات العربيۃ في إيران، ۱۴۱۴ھ، ص۵۲۔
  41. رفاعی، معجم ما کتب عن الرسول و أہل البیت (ع)، ۱۳۷۱ش، ج‏۵، ص۱۵۷۔
  42. رفاعی، معجم ما کتب عن الرسول و أہل البیت(ع)، ۱۳۷۱ش، ج‏۵، ص۱۵۷۔
  43. شوشتری، احقاق الحق، ۱۴۳۷ھ، ج۱، مقدمہ، ص«ل»، ج۲، فہرست۔

مآخذ

  • آزاد کشمیری، محمد علی بن محمد صادق، نجوم السماء فی تراجم العلماء، بہ تصحیح ہاشم محدث، ایران، سازمان تبلیغات اسلامی، شرکت چاپ و نشر بین‌الملل، ۱۳۸۷ہجری شمسی۔
  • آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعۃ إلی تصانیف الشیعہ، بیروت، دار الأضواء، ۱۴۰۳ھ۔
  • «پدرم وصیت کرد مرا در ورودی کتابخانہ و زیر پای طالبان علوم آل محمد دفن کنید»، خبرگزاری رسا، اندراج کی تاریخ: ۱۳ آبان ۱۳۹۲ش، رجوع کی تاریخ: ۲۹ آذر ۱۳۹۹ہجری شمسی۔
  • حجتی، محمد باقر، «گزارشی از تألیف کتاب احقاق الحق و مؤلف آن»، در فصلنامہ پژوہش‌ہای نہج‌ البلاغہ، تہران، بنیاد نہج ‌البلاغہ، شمارہ۱، پاییز ۱۳۸۰ہجری شمسی۔
  • حکیم، حسن عیسی، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، قم، المکتبۃ الحیدریہ، ۱۴۲۷ھ۔
  • رفاعی، عبد الجبار، معجم ما کتب عن الرسول و أہل البیت(ع)، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، سازمان چاپ و انتشارات ایران، ۱۳۷۱ہجری شمسی۔
  • رفاعی، عبد الجبار، معجم المطبوعات العربیۃ فی إیران، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، سازمان چاپ و انتشارات، ۱۴۱۴ھ۔
  • شوشتری، قاضی نوراللہ، إحقاق الحق و إزہاق الباطل‏، با مقدمہ و تعلیقات آیت‌اللہ مرعشی نجفی‏، قم‏، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۹ھ۔
  • شیخ حر عاملی‏، إثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات‏، با مقدمہ سید شہاب‌الدین مرعشی نجفی، ‏بیروت، مؤسسۃ الأعلمی‏، ۱۴۲۲ھ۔
  • صحتی سردرودی، محمد، «در سایہ احقاق الحق»، میراث شہاب، شمارہ۱۱، بہار ۱۳۷۷ہجری شمسی۔
  • صدر الافاضل، مرتضی ‌حسین‏، مطلع انوار، ترجمہ محمد ہاشم، مشہد، آستان قدس رضوی، بنیاد پژوہشہای اسلامی‏، ۱۳۷۴ہجری شمسی۔
  • صدر، حسن، تکملۃ أمل الآمل، بیروت، با تحقیق حسن علی محفوظ و دیگران، دار المؤرخ العربی‏، ۱۴۲۰ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق و کشف الصدق، با مقدمہ رضا صدر، با حاشیہ فرج‌اللہ حسینی، بیروت، دار الکتاب اللبنانی، ۱۹۸۲ء۔
  • علامہ مجلسى‏، محمد باقر، بحار الانوار، بيروت‏، مؤسسۃ الوفاء، ۱۴۰۴ھ۔
  • قائدی، محمد، «معرفی کتاب احقاق الحق»، در فصلنامہ مبلغان، قم، معاونت تبلیغ و آموزش ہای کاربردی حوزہ علمیہ قم ، شمارہ ۶۲، دی و بہمن ۱۳۸۳ش، ص۱۰۷-۱۱۳۔
  • قمی، عباس، الفوائد الرضویہ فی احوال علماء المذہب الجعفریہ، بہ تصحیح ناصر باقری بیدہندی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۵ہجری شمسی۔
  • کبودرآہنگی (مجذوب علیشاہ)، محمد جعفر بن صفر، مرآۃ الحق و مراحل السالکین فی السیر و السلوک و صفات الصوفی، بہ تصحیح و تحقیق حامد ناجی اصفہانی، تہران، حقیقت، ۱۱۷۵ق/۱۲۳۸ہجری شمسی۔
  • کنتوری، اعجاز حسین بن محمد قلی، کشف الحجب و الأستار عن أسماء الکتب و الأسفار، با مقدمہ سید شہاب‌ الدین مرعشی، قم، کتابخانہ عمومی حضرت آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی، ۱۴۰۹ھ۔
  • لجنۃ العلمی فی مؤسسۃ الامام الصادق(ع)، معجم طبقات المتکلمین، قم، مؤسسۃ الإمام الصادق (ع)، ۱۴۲۴ھ۔
  • مدرس تبریزی، محمدی، ریحانۃ الادب فی تراجم المعروفین بالکنیہ او اللقب، تہران، کتاب فروشی خیام، ۱۳۶۹ہجری شمسی۔