ابا صالح
اَباصالح ایک کنیت ہے جسے گیارہویں صدی ہجری کے بعد سے امام زمانہؑ کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے۔ یہ لفظ اور اس جیسے دیگر الفاظ جیسے، «صالح» و «باصالح»، بعض احادیث میں استعمال ہوئے ہیں؛ لیکن امام زمانہ کی کنیت ہونے کے بارے میں احادیث میں ذکر نہیں آیا ہے۔ حدیث کی شرح کرنے والے اور محدثوں نے اسے امام زمانہؑ کی کنیت میں سے نہیں سمجھا ہے۔
ان احادیث میں یوں آیا ہے کہ اگر راستہ بھٹک جائے تو «صالح»، «اباصالح» یا «باصالح» کہہ کر پکارو، راستہ ڈھونڈنے میں وہ مدد کریں گے۔
امام زمانہ کی کنیت
اباصالح امام زمانہ کے لئے استعمال ہونے والی مشہور کنیت ہے۔[1]لیکن روایات اور قدیمی مآخذ میں یہ کنیت آپؑ کے لیے ذکر نہیں ہوئی ہے۔[2]صرف متاخر منابع میں بعض نے امام زمانہ کو اباصالح سے یاد کیا ہے۔ مثال کے طور پر 13ویں اور 14ویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین میرزا حسین نوری نے لکھا ہے کہ عرب اپنے اشعار اور مرثیوں میں امام زمانہؑ کو اباصالح کے نام سے پکارتے ہیں۔[3]
تاریخچہ
کتاب دانشنامہ امام مہدی کے مطابق، «اباصالح» کی کنیت گیارہویں صدی ہجری سے امام زمانہ کے لئے استعمال ہونے لگی ہے اور گیارہویں صدی سے پہلے استعمال ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔[4]
علامہ مجلسی (۱۰۳۷-۱۱۱۰ھ) نے اپنے والد سے حکایت کی ہے کہ امیر اسحاق استرآبادی نامی شخص مکہ کے راستے میں گم ہوگیا ہے اور اس نے «یا صالح یا اباصالح ارشدونا إلی الطریق» (اے صالح، اے اباصالح، مجھے راستہ دکھادے) کہہ کر پکارا تو ایک شخص آیا اور اس کی مدد کی اور مکہ تک پہنچا دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ شاید وہ شخص امام زمانہؑ تھے۔[5] محدث نوری کا بھی یہی کہنا ہے کہ اباصالح کی کنیت امام زمانہ کے لئے اس حکایت سے لیا ہے کہ حج کے سفر میں ایک شخص گم ہوجاتا ہے اور «یا اباصالح» کہہ کے پکارنے سے اسے نجات ملتی ہے۔[6]
دانشنامہ امام مہدی میں کہا گیا ہے کہ «اباصالح» کی کنیت کو امام مہدی(عج) سے منسوب کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے اور اس لقب کا رائج ہونے کی وجہ ایک قصہ ہے جو اس معنی پر دلالت نہیں کرتی ہے۔[7]
احادیث میں اباصالح کا لفظ
بعض شیعہ احادیث میں «باصالح» اور «اباصالح» کا لفظ استعمال ہوا ہے لیکن کسی بھی محدث یا حدیث کے شارح نے اس سے مراد امام زمانہ نہیں سمجھا ہے۔
مثال کے طور پر احمد بن محمد بن خالد برقی(۲۰۰-۲۷۴ یا ۲۸۰ھ) نے امام صادقؑ سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں آیا ہے: «جب بھی راستہ بھٹک جاو تو «یا صالح و یا باصالح ارشدانا إلی الطریق، رحمکما اللہ» (اے صالح، اے اباصالح، ہمیں راستہ دکھادے. اللہ آپ پر رحمت کرے).[8]
اسی طرح شیخ صدوق(۳۰۵-۳۸۱ھ) نے بھی مختصر فرق کے ساتھ اس روایت کو نقل کیا ہے: «یا صالح او یا اباصالح ارشدونا إلی الطریق، یرحمکم اللہ» (اے صالح، اے اباصالح، مجھے راستہ دکھادے۔ اللہ تعالی رحمت کرے)۔[9]انہوں نے اس کے بعد ایک اور حدیث بھی نقل کی ہے جس میں زمین کا خشک حصہ «صالح» کے سپرد کیا گیا ہے اور سمندری حصہ «حمزہ» کے حوالے کیا گیا ہے۔[10]
کہا گیا ہے کہ شیخ صدوق یا من لایحضرہ الفقیہ کے شارحین میں سے کسی نے بھی اس لقب کو امام زمانہؑ کے لیے قرار نہیں دیا ہے۔[11] اسی طرح برقی کی کتاب محاسن میں ایک روایت نقل ہوئی ہے جس میں صالح کو جنات میں سے ایک جن قرار دیا ہے جسکے ذمے راستہ بھٹکنے والوں کو راستہ دکھانا ہے۔[12]
حوالہ جات
- ↑ ریشہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۲، ص۳۲۲.
- ↑ ریشہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۲، ص۳۲۲.
- ↑ نوری، جنۃ المأوی، ۱۴۲۷ق، ص۱۳۶؛ نوری، نجم الثاقب، ۱۴۱۰ق، ص۴۵.
- ↑ ریشہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۲، ص۳۲۲.
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۲، ص۱۷۶-۱۷۵.
- ↑ نوری، نجمالثاقب، ۱۴۱۰ق، ص۵۷۱.
- ↑ ریشہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۲، ص۳۲۲-۳۲۳.
- ↑ برقی، المحاسن، ۱۳۷۱ق، ج۲، ص۳۶۲-۳۶۳.
- ↑ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ،۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۹۸.
- ↑ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ،۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۹۸.
- ↑ ریشہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۲، ص۳۲۲.
- ↑ برقی، المحاسن، ۱۳۷۱ق، ج۲، ص۳۸۰.
مآخذ
- برقی، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، تصحیح محدث ارموی، قم، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۱ھ۔
- ریشہری، محمد محمدی نیک و دیگران، دانشنامہ امام مہدی بر پایہ قرآن حدیث و تاریخ، قم، نشر دار الحدیث، ۱۳۹۳شمسی ہجری
- صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ،،قم، جامعہ مدرسین، چاپ دوم، ۱۴۱۳ھ۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
- نوری، میرزا حسین، جنۃالمأوی فی ذکر من فاز بلقاء الحجۃ، مرکز الدراسات التخصصیہ فی الامام المہدی عجل االلہ تعالی فرجہ الشریف، قم، مؤسسہ السیدہ المعصومہ علیہا السلام، ۱۴۲۷ھ۔
- نوری، میرزاحسین، نجم الثاقب، قم، انتشارات مسجد جمکران، ۱۴۱۰ھ۔