مندرجات کا رخ کریں

"ابو عبیدہ جراح" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Shamsoddin (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Shamsoddin (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
سطر 82: سطر 82:


== اہل سنت اور شیعوں کی مختلف رائے==
== اہل سنت اور شیعوں کی مختلف رائے==
[[اہل سنت]]  [[صحابی]] ہونے اور انکی کتابوں میں [[رسول اللہ]] سے منقول روایات کی بنا پر اسکی مدح کے قائل ہیں ۔ <ref> ابونعیم، معرف‍ۃ الصحاب‍ہ، ‌ج۲، ص۲۸ کے بعد؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج۱، ص۶  ۷؛ مزی، تحف‍ۃ الاشراف، ج۴، ص۲۳۱  ۲۳۳.</ref> اسیطرح اسکے لیے فضائل نقل کرتے ہیں ۔<ref>احمد بن حنبل، الزہد، ص۲۳۰؛ حاکم، المستدرك علی الصحیحین، ج۳، ص۲۶۲  ۲۶۸؛ ابن سلام، ص۷۳  ۷۴.</ref> [[عمر بن خطاب]] سے منقول ایک روایت کی بنا پر اسے [[عشره مبشره|عشره مبشّره]] یعنی ایسے صحابی جنہیں رسول اللہ نے انکی زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی ۔<ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۷۹۳؛ محب طبری، الریاض النضره فی مناقب العشره، ج۳، ص۳۵۰  ۳۵۱.</ref> نیز ذکر کرتے ہیں کہ عمر چنداں اس پر اعتماد نہیں کرتے تھے اور عمر نے اسکے متعلق کہا :اگر مجھے موت آ گئی اور ابوعبیده زنده ہو تو وہ اسے اپنی جگہ نامزد کرے گا ۔<ref>احمد بن حنبل، مسند، ج۱، ص۱۸؛ ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۳، ص۳۴۳؛ بلاذری،‌ انساب، ۲/گ۳۴۶ الف، طبری، ج۴، ص۲۲۷.</ref>
[[اہل سنت]]  [[صحابی]] ہونے اور انکی کتابوں میں [[رسول اللہ]] سے منقول روایات کی بنا پر اسکی مدح کے قائل ہیں۔<ref> ابونعیم، معرف‍ۃ الصحاب‍ہ، ‌ج۲، ص۲۸ کے بعد؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج۱، ص۶  ۷؛ مزی، تحف‍ۃ الاشراف، ج۴، ص۲۳۱  ۲۳۳.</ref> اسیطرح اسکے لیے فضائل نقل کرتے ہیں۔<ref>احمد بن حنبل، الزہد، ص۲۳۰؛ حاکم، المستدرك علی الصحیحین، ج۳، ص۲۶۲  ۲۶۸؛ ابن سلام، ص۷۳  ۷۴.</ref> [[عمر بن خطاب]] سے منقول ایک روایت کی بنا پر اسے [[عشره مبشره|عشره مبشّره]] یعنی ایسے صحابی جنہیں رسول اللہ نے انکی زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی۔<ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۷۹۳؛ محب طبری، الریاض النضره فی مناقب العشره، ج۳، ص۳۵۰  ۳۵۱.</ref> نیز ذکر کرتے ہیں کہ عمر چنداں اس پر اعتماد نہیں کرتے تھے اور عمر نے اسکے متعلق کہا :اگر مجھے موت آ گئی اور ابوعبیده زنده ہو تو وہ اسے اپنی جگہ نامزد کرے گا۔<ref>احمد بن حنبل، مسند، ج۱، ص۱۸؛ ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۳، ص۳۴۳؛ بلاذری،‌ انساب، ۲/گ۳۴۶ الف، طبری، ج۴، ص۲۲۷.</ref>


لیکن [[شیعہ]] حضرات  لشکر اسامہ کے معاملے میں دستور پیامبر سے سر پیچی ،<ref>جوہری، السقیفہ و فدک، ص ۷۴.</ref> [[واقعہ سقیفہ]] میں  [[ابوبکر]] اور [[عمر بن خطاب]] کی معاونت اور خلافت ابوبکر کیلئے بیعت کی کوششیں کرنے کی وجہ سے اسے اچھا نہیں سمجھتے اور اسکی مذمت کرتے ہیں ۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص ۱۲۳.</ref> بلکہ ابوعبیده کے متعلق شیعہ [[روایات]] موجود ہیں جن میں اسے [[امام علی(ع)]] کا دشمن کہا گیا ہے ۔ <ref>خصیبی،  الہدايہ الكبری، ۱۴۱۹ق، ص۱۱۷.</ref>
لیکن [[شیعہ]] حضرات  لشکر اسامہ کے معاملے میں دستور پیامبر سے سر پیچی ،<ref>جوہری، السقیفہ و فدک، ص ۷۴.</ref> [[واقعہ سقیفہ]] میں  [[ابوبکر]] اور [[عمر بن خطاب]] کی معاونت اور خلافت ابوبکر کیلئے بیعت کی کوششیں کرنے کی وجہ سے اسے اچھا نہیں سمجھتے اور اسکی مذمت کرتے ہیں۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص ۱۲۳.</ref> بلکہ ابوعبیده کے متعلق شیعہ [[روایات]] موجود ہیں جن میں اسے [[امام علی(ع)]] کا دشمن کہا گیا ہے۔<ref>خصیبی،  الہدايہ الكبری، ۱۴۱۹ق، ص۱۱۷.</ref>


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==

نسخہ بمطابق 21:50، 2 اکتوبر 2018ء

ابو عبیدہ جراح
کوائف
مکمل نامعامر بن عبدالله بن جراح
کنیتابو عبیدہ
لقبجراح
محل زندگیمکہ،حبشہ،مدینہ
دینی معلومات
جنگوں میں شرکتبدر،احد،.....
ہجرتحبشہ، مدینہ
وجہ شہرتصحابی


ابو عبیدہ جراح (ہجرت سے ۳۸سال پہلے - ۱۸ق/۶۳۹ م) پیغمبر اکرم کے اصحاب اور حضرت ابو بکر و عمر کے نزدیکیوں میں سے تھا اور اپنے اصلی نام کی بجائے اَبو عُبَیده جَرّاح کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔اس نے واقعۂ سقیفہ میں خلافت ابو بکر کی صرف حمایت ہی نہیں بلکہ مخالفین خلافت ابو بکر سے بیعت حاصل کرنے خاص طور پر حضرت علی (ع) سے بیعت لینے میں نمایاں کردار ادا کیا نیز ابتدائی خلافتوں کی فتوحات میں نمایاں کرادر ادا کیا اور بالآخر سال ۱۷ یا ۱۸ق میں اس جہان سے رخصت ہوا۔

زندگی

  • مکمل نام :ابوعبیدہ عامر بن عبدالله بن جراح بن ہلال بن أہیب بن ضبۃ بن حارث بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ قرشی فہری۔
  • نسب: قریش کے ضعیف خاندانوں میں سے بنو حارث نام کے خاندان سے تھا۔[1]
  • پیدائش:ہجرت سے تقریبا ۳۸سال پہلے پیدا ہوا۔[2]

جنگ فجار میں اس کا باپ عبد اللہ قریش کے سرداروں میں سے تھا[3] اور وہ بعثت سے پہلے فوت ہوا[4]اسکی والدہ بھی قریش سے تھی جس نے بعد اسلام قبول کیا۔[5]

کہتے ہیں کہ ابوعبیدہ نے ارقم بن ابی ارقم اور عثمان بن مظعون کے ہمراہ پیامبر(ص) کے پاس اسلام قبول کیا۔ [6] ایک اور قول کے مطابق اس نے ابتدا میں ابوبکر کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔[7] حبشہ ہجرت کرنے والوں میں سے تھا۔[8]

ہجرت

ابو عبیدہ نے رسول خدا کی مدینہ ہجرت کے بعد حبشہ سے مکہ واپس آ کر مدینہ ہجرت کی[9] پیامبر(ص) نے سعد بن معاذ[10] یا ابو حذیفہ کے غلام سالم[11] کے درمیان اخوت قائم کی اور باہمی میراث پانے میں محمد بن مسلمہ کے درمیان اخوت قائم کی ۔[12]

جنگوں میں شرکت

ابوعبیدہ نے غزوا میں شرکت کی . ایک نقل کے مطابق غزوہ بدر[13] میں اس نے اپنے باپ عبد اللہ کو قتل کیا اور اسی وجہ سے اسکی شان میں ایک آیت رسول خدا پر نازل ہوئی ۔[14] لیکن واقدی کی یہ تصریح کہ اس کا باپ اسلام کے آنے سے پہلے فوت گیا [15]، ابو عبیدہ کے بعد اسکے فضائل میں جعل کئے جانے کا احتمال رکھتی ہے۔

ایک تاریخی نقل کے مطابق جنگ احد میں رسول خدا کو تمام صحابہ کے چھوڑ جانے کے موقع پر ابو عبیدہ ان افراد میں سے ہے جس نے آپکو تنہا نہیں چھوڑا ۔[16] لیکن اسکے مقابلے میں دیگر مآخذوں جیسے تاریخ الاسلام ذہبی و سیرت ابن ہشام نے اس کا نام ذکر نہیں کیا نیز دیگر تاریخی منابع مانند تاریخ طبری و یعقوبی نے ان افراد کے نام ہی ذکر نہیں کئے ہیں ۔

اسی طرح جنگ احد میں خَود کے آہنی دو حلقے رسول اللہ کے جسم اطہر میں اس طرح داخل ہو گئے کہ ابو عبیدہ کو مجبورا دانتوں سے انہیں باہر نکالنا پڑا ۔اسی وجہ سے اس کے سامنے کے دو دانت گر گئے۔[17]

ابوعبیدہ نے دیگر جنگوں میں بھی شرکت کی ۔[18] نیز ایک سریے میں اور ایک غزوے میں سپہ سالاری اسکے سپرد تھی [19] صلح حدیبیہ کے شاہدوں میں سے بھی ہے ۔ [20]

تاریخی منابع میں رسول اکرم کے ساتھ بعض نمائندہ گرہوں کی عہدناموں پر انکے اسلام لانے کی بابت گواہی مذکور ہے۔۔[21] کہتے ہیں رسول اللہ نے اسے تبلیغ دین کیلئے بحرین[22] یا نجران و یا یمن بھیجا [23]

اسامہ کی قیادت

پیامبر (ص) نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اسامہ بن زید کی قیادت میں شام کی سرحدوں کی طرف روانہ کیا کہ جس میں ابوبکر ، عمر بن خطاب اور ابوعبیده جیسے اصحاب موجود تھے ۔ لیکن بعض لشکریوں کی مخالفت کی وجہ سے اسامہ نے رسول اللہ کی شہادت تک مدینے کے قریب ہی پڑاؤ ڈالے رکھا ۔وہ لشکر رسول اکرم کی شہادت کی خبر سن کر مدینے واپس لوٹ آیا [24] پیامبر (ص) نے اسامہ کے لشکر کے شرکت کنندگان پر لعنت فرمائی ۔

ابوبکر کو خلافت تک پہنچانے میں کردار

وفات پیامبر (ص) کے بعد انصار میں سے ایک جماعت سقیفہ بنی ساعدہ میں خلیفے کے تعین کیلئے اکٹھے ہوئے جن میں خلافت کا امیدوار سعد بن عباده تھا۔[25] جب عمر بن خطاب کو اسکی خبر ملی تو اس نے ابوبکر اور ابوعبیده کو سقیفہ بھیجا۔[26]

وہاں مہاجرین اور انصار کے درمیان مجادلے اور جھگڑے کے بعد حضرت ابوبکر کا خلیفے کے عنوان سے چناؤ ہوا اور وہاں موجود افراد نے اسکی بیعت کی ۔خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag

ابوعبیده نے ابو بکر کی بیعت کے بارے میں انصار سے کہا : اے انصار کی جماعت!تم رسول خدا کی حمایت کرنے والے پہلے گروہ ہو لیکن اب اسلام کو سب سے پہلے دگرگوں کرنے والوں مت بنو۔[27]

مخالفین حکومت سے بیعت

حضرت ابوبکر کے خلافت حاصل ہونے کے بعد پہلے خلیفہ کے مخالفین خاص طور پر حضرت علی سے بیعت لینے میں ابو عبیدہ نے اہم کردار ادا کیا ۔[28] ابوعبیده نے ابوبکر کی بیعت کرنے کیلئے ابوبکر ، عمر اور مغیرہ بن شعبہ کے ساتھ مل کر رسول کے چچا عباس کی تلاش شروع کی ۔[29] حضرت ابو بکر کی خلافت کے استحکام کے بعد بیت المال سنبھالنے کا عہدہ اس کے سپرد ہوانیز زندگی کے آخری ایام تک وہ خلافت کے اہم تریں ارکان میں سے رہا۔[30]

ابوعبیده اور جنگیں

رسول خدا کی آنکھیں بند ہونے کے بعد فتنۂ ارتداد نے اپنی آب و تاب کے ساتھ کھولیں ۔ اس دوران جھوٹے مدعیان نبوت کے خلاف ہونے والی جنگوں میں ابو عبیدہ اور عمر حضرت ابو بکر کو استحکام خلافت سے پہلے عوام سے زکات لینے کے معاملے میں زیادہ سختگیری کرنے سے روکتے تھے۔[31] شاید اسی وجہ سے ان جنگوں سے مربوط واقعات میں ابو عبیدہ کا کوئی زیادہ واضح کردار نظر نہیں آتا ہے ۔ اسکے باوجود شام کی فتح کے موقع پر خلیفہ کی طرف سے رائے طلب کرنے موقع پر وہ خلیفہ کے بہترین مشاورین میں تھا ۔[32]

فتوحات اسلامی میں شرکت

فتح شام

فتوحات شام سے مربوط روایات میں ابو عبیدہ کی شرکت اور سرگرمیاں بہت زیادہ غیر واضح ہے ۔اس کا سبب ایران و شام کی سرزمینوں کی فتح سے متعلق روایات میں پایا جانے والا تناقض ہے ۔طبری [33] کی ابن اسحاق سے مروی روایت کے مطابق ابوعبیده ابوبکر کی جانب سے ان چند سرداروں میں تھا جو تمام شام کی طرف گئے [34] اگرچہ اس معاملے میں تمام سپاہ کی سرداری ابو عبیدہ کے حوالے کرنے کی روایات بھی مذکور ہیں لیکن یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شام کی زمینوں کے فتح کے موقع کے حالات سپہ سالاری ایک فرد کے حوالے کرنے کے موافق نہیں تھے ۔ [35]

جب دمشق مسلمانوں کے محاصرے میں تھا۔ اس وقت ابوبکر فوت ہو گیا اور حضرت عمر شروع سے ہی خالد بن ولید کے موافق نہیں تھے ۔[36] پس اس نے خلافت پر تخت نشین ہوتے ہی کسی قیل قال کے بغیر ابوعبیدہ کو مسلمانوں کے لشکر کا سپہ سالار بنا دیا ۔[37]

طبری [38] کی سیف بن عمر سے منقول خبر کے مطابق خالد نے شروع میں لشکر کے اندر پھوٹ پڑنے کے خطرے کے پیش نظر اپنے معزول ہونے کی خبر کو لشکریوں چھپائے رکھا ۔لکھتے ہیں کہ ابوعبیده نے بھی شروع میں اپنے سپہ سالار بننے کی خبر کو آشکار نہیں کیا ۔[39]

بعلبک و حمص

ابوعبیده دمشقیوں سے صلح کے بعد حمص روانہ ہو گیا اور پہلے بعلبک کے اہالیوں سے صلح کی اور پھر اس نے حمص پر حملہ کیا ۔[40] لیکن الاذقیہ کا علاقہ سخت جنگ کے بعد فتح ہوا ۔[41] بلاذری[42] کے مطابق رجب سال ۱۵ہجری قمری میں یرموک کی سخت جنگ کے بعد ابوعبیده نے قنسرین اور انطاکی کو فتح کیا ۔[43] عمرو بن عاص کے ذریعے ہونے والی اردن اور فلسطین کی مانند سرزمینوں کی فتوحات میں ابو عبیدہ نے نظارت کے فرائض انجام دیئے ۔[44]

کہتے ہیں کہ جب ابوعبیده (۱۷ ق) میں بیت المقدس کی فتح میں سرگرم تھا ، شہر کے لوگوں نے صلح اور جزیے دینے کا اس شرط پر ارادہ ظاہر کیا کہ خلیفہ خود صلح کرنے کیلئے شام آئے ۔ ابوعبیده نے عمر کو خط لکھا تو عمر جابیہ (دمشق) آیا اور پھر وہاں سے بیت المقدس آ کر صلح نامے پر دستخط کیے ۔[45]

وفات

ابوعبیده جراح ۱۷ یا ۱۸ق میں شام کے علاقے میں طاعون کی بیماری میں گرفتار ہو کر چل بسا ۔[46] کہتے ہیں اسکی قبر اردن میں ہے۔ [47] ابوعبیده کی کوئی اولاد باقی نہیں رہی ۔[48]

اہل سنت اور شیعوں کی مختلف رائے

اہل سنت صحابی ہونے اور انکی کتابوں میں رسول اللہ سے منقول روایات کی بنا پر اسکی مدح کے قائل ہیں۔[49] اسیطرح اسکے لیے فضائل نقل کرتے ہیں۔[50] عمر بن خطاب سے منقول ایک روایت کی بنا پر اسے عشره مبشّره یعنی ایسے صحابی جنہیں رسول اللہ نے انکی زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی۔[51] نیز ذکر کرتے ہیں کہ عمر چنداں اس پر اعتماد نہیں کرتے تھے اور عمر نے اسکے متعلق کہا :اگر مجھے موت آ گئی اور ابوعبیده زنده ہو تو وہ اسے اپنی جگہ نامزد کرے گا۔[52]

لیکن شیعہ حضرات لشکر اسامہ کے معاملے میں دستور پیامبر سے سر پیچی ،[53] واقعہ سقیفہ میں ابوبکر اور عمر بن خطاب کی معاونت اور خلافت ابوبکر کیلئے بیعت کی کوششیں کرنے کی وجہ سے اسے اچھا نہیں سمجھتے اور اسکی مذمت کرتے ہیں۔[54] بلکہ ابوعبیده کے متعلق شیعہ روایات موجود ہیں جن میں اسے امام علی(ع) کا دشمن کہا گیا ہے۔[55]

حوالہ جات

  1. کلبی، جمہره النسب، ص‌.۱۲۵
  2. جنگ بدر میں اسکا سن ۴۱ سال ذکر ہوا ہے۔ ر.ک : ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۳، ص۴۱۴؛ ابن قتیبہ، المعارف، ص۲۴۸؛ ابونعیم، معرف‍ۃ الصحاب‍ہ، ج۲، ص۲۰، ‌۲۴.
  3. ابن حبیب، المحبَّر، ص۱۷۰؛ ابوالفرج، الاغانی،ج۲۲، ص۶۲ ۶۳.
  4. ابن عساکر، تاریخ مدین‍ہ دمشق، ص۲۶۷؛ ابن حجر، ج۲، ص۱۱.
  5. خلیفہ، الطبقات، ج۱، ص۶۲.
  6. ابن ہشام، السیره النبوه، ج۱، ص۲۵۲ ۲۵۳؛ ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۳، ص۳۹۳.
  7. محب طبری، الریاض النضره فی مناقب العشره، ج۳، ص۳۴۶؛ : ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص۱۴۰.
  8. ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص.۱۷۷؛ ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۳، ص.۴۱۰؛ بلاذری، انساب، ۲/گ ۳۴۶ الف.
  9. رک : ابن ہشام، السیره النبوه، ج۱، ص۳۶۹؛ ابونعیم، معرف‍ۃ الصحاب‍ہ، ج۲، ص۲۰.
  10. ابن هشام السیره النبوه،، ج۱، ص۵۰۵؛‌ ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۳، ص۴۲۱.
  11. ابن حبیب، المحبَّر، ص۷۱؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۲۷۰؛ قس: احمد بن حنبل، مسند، ج۳، ص۱۵۲؛ ابن حجر، ج۱، ص۱۷۱.
  12. بلاذری، انساب، ج۱، ص۲۷۰ ۲۷۱؛ ابن حبیب، المحبَّر، ص۷۵.
  13. ابن هشام، السیره النبوه، ج۱، ص۶۸۵؛ واقدی، المغازی، ج۱، ص۱۵۷.
  14. ابونعیم، معرف‍ۃ الصحاب‍ہ، ج۲، ص۲۱ ۲۲؛ طبرانی، المعجم الكبیر، ج۱، ص۱۱۷ ۱۱۸.
  15. ابن عساکر، تاریخ مدین‍ہ دمشق، ص۲۶۷؛ ابن حجر، ج۲، ص۱۱.
  16. بلاذری، انساب، ج۱، ص۳۱۸.
  17. بلاذری، انساب، ج۱، ص۳۲۱.
  18. واقدی، المغازی، ج۱، ص۳۴۰ ۳۴۱، ج۲، ص۴۹۸؛ ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۳، ص۴۱۰.
  19. واقدی، المغازی، ج۱، ص۴۵، ۶، ج۲، ص۵۵۲؛ ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۲، ص۸۶، ۱۳۲.
  20. واقدی، المغازی، ج۲، ص۶۱۲.
  21. ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۱، ص۳۵۲، ۳۵۴.
  22. احمد بن حنبل، مسند، ج۴، ص۱۳۷؛‌ بخاری، صحیح، ج۴، ص۶۲ ۶۳.
  23. موسی بن عقبه، ص۴۶۵؛ احمد بن حنبل،‌ مسند، ج۵، ص۴۰۰ ۴۰۱؛ بخاری،‌ صحیح، ج۸، ص۱۳۴.
  24. واقدی، المغازی، ج۳، ص۱۱۲۰.
  25. ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۲، ص۲۶۲؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۸۰ ۵۸۱؛ یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۱۲۳.
  26. طبری، ج۳، ص۲۱۹.
  27. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص ۱۲۳.
  28. واقدی، الرّده، ص۲۹.
  29. یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۱۲۴ ۱۲۵؛ ابن ابی الحدید،‌ شرح نهج البلاغ‍ه، ج۱، ص۱۲۹ ۲۲۰.
  30. خلیفه،‌ الطبقات، ج۱، ص۱۰۸؛ احمد بن حنبل، العلل، ج۳، ص۴۹۱؛ طبری، ج۳، ص۴۲۶.
  31. کلاعی، الاكتفا، ۱/گ ۷۳ الف.
  32. ازدی، تاریخ فتوح الشام، ص۲؛‌ کلاعی، الاكتفا، ۱/گ ۱۴۲ الف و ب.
  33. طبری، ج۳، ص۳۸۷.
  34. طبری، ج۳، ص۳۹۴.
  35. بلاذری، فتوح، ج۱، ص۱۲۸؛ قس: ازدی، تاریخ فتوح الشام، ص۱۶ ۱۸.
  36. طبری، ج۳، ص۴۳۶.
  37. زہری، المغازی النبوی‍ہ، ص۱۵۱؛ بلاذری، فتوح، ج۱، ص۱۳۷؛ ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۷، ص۳۹۷.
  38. ج۳، ص۳۹۸.
  39. طبری، ج۳، ص۴۳۵؛ زہری، المغازی النبوی‍ہ، ص۱۷۴.
  40. بلاذری، فتوح، ج۱، ص۱۵۴، ۱۵۶.
  41. بلاذری، فتوح، ج۱، ص۱۵۷.
  42. فتوح، ج۱، ص۱۶۲.
  43. فتوح، ج۱، ص۱۷۲ ۱۷۴.
  44. ازدی، تاریخ فتوح الشام، ص۱۰۷.
  45. بلاذری، فتوح، ج۱، ص۱۶۴؛ طبری،‌ ج۳، ص۶۰۸ ۶۰۹، قس: ج۴، ص۵۶ ۵۷.
  46. ازدی، تاریخ فتوح الشام، ص۲۶۷؛‌ بلاذری،‌ فتوح، ج۱، ص۱۶۵؛ ابن عساکر، تاریخ مدین‍ہ دمشق، ص۳۱۹ ۳۲۲.
  47. ازدی، تاریخ فتوح الشام، ص۲۶۷؛ ابوزرعہ، تاریخ، ج۱، ص۲۱۸؛ ابن اعثم، كتاب الفتوح، ج۱، ص۳۱۱؛ ابونعیم، معرف‍ۃ الصحاب‍ہ، ج۲، ص۲۰.
  48. ابن قتیبہ، المعارف، ص۲۴۷؛ ابن حزم، جمہرۃ انساب العرب، ص۱۷۶؛ ذهبی، سیر اعلام النبلاء،ج۱، ص۸، به نقل از زبیر بن بکار.
  49. ابونعیم، معرف‍ۃ الصحاب‍ہ، ‌ج۲، ص۲۸ کے بعد؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج۱، ص۶ ۷؛ مزی، تحف‍ۃ الاشراف، ج۴، ص۲۳۱ ۲۳۳.
  50. احمد بن حنبل، الزہد، ص۲۳۰؛ حاکم، المستدرك علی الصحیحین، ج۳، ص۲۶۲ ۲۶۸؛ ابن سلام، ص۷۳ ۷۴.
  51. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۷۹۳؛ محب طبری، الریاض النضره فی مناقب العشره، ج۳، ص۳۵۰ ۳۵۱.
  52. احمد بن حنبل، مسند، ج۱، ص۱۸؛ ابن سعد، الطبقات الكبری، ج۳، ص۳۴۳؛ بلاذری،‌ انساب، ۲/گ۳۴۶ الف، طبری، ج۴، ص۲۲۷.
  53. جوہری، السقیفہ و فدک، ص ۷۴.
  54. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص ۱۲۳.
  55. خصیبی، الہدايہ الكبری، ۱۴۱۹ق، ص۱۱۷.

مآخذ

  • ابن ابی الحدید، عبدالحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغہ، کوشش محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہره، ۱۳۷۸ ۱۳۸۴ ق.
  • ابن اسحاق، محمد، السیر و المغازی، کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۳۹۸ق/ ۱۹۷۸ م.
  • ابن اعثم کوفی، احمد بن علی، کتاب الفتوح، حیدرآباد دکن، ۱۳۹۲ق/ ۱۹۷۲ م.
  • ابن حبیب، محمد، المحبَّر، کوشش ایلزه لیشتن، اشتتر، حیدرآباد دکن، ۱۳۶۱ق/ ۱۹۴۲ م.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابہ، قاہره، ۱۳۲۸ ق.
  • ابن حزم، علی بن احمد، جمہره انساب العرب، کوشش محمد عبدالسلام ہارون، قاہره، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳ م.
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دارصادر.
  • ابن سلام اباضی، بده الاسلام و شرائع الدین، کوشش ورن رشوارتز و سالم بن یعقوب،‌ ویسبادن، ۱۴۰۶ق/ ۱۹۸۶ م.
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبدالله، الاستیعاب، کوشش علی محمد بجاوی، قاہره، ۱۳۸۰ق/ ۱۹۶۰ م.
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینه دمشق، کوشش شکری فیصل، دمشق، ۱۴۰۶ق/ ۱۹۸۶ م.
  • ابن قتیبہ، عبدالله بن مسلم، المعارف، کوشش ثروت عکاشہ، قاہره، ۱۹۶۰ م.
  • ابن ہشام، عبدالملک،‌ السیره النبوه، کوشش مصطفی سقا و دیگران، قاہره، ۱۳۷۵ق/ ۱۹۵۵ م.
  • ابوحیان توحیدی، رسالہ السقیقہ ثلاث رسائل، کوشش ابراہیم کیلانی، دمشق، ۱۹۵۱ م.
  • ابوزرعہ دمشقی، عبدالرحمن بن عمرو، تاریخ، کوشش شکرالله بن نعمت الله قوجانی، دمشق، ۱۴۰۰ق/۱۹۸۰ م.
  • ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، قاہره، دارالکتب المصریہ.
  • ابونعیم اصفہانی، احمد بن عبدالله، معرفۃ الصحابہ، کوشش محمد راضی حاج عثمان، ریاض، ۱۴۰۸ق/ ۱۹۸۸ م.
  • احمد بن حنبل، الزہد، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳ م.
  • احمد بن حنبل، العلل و معرفۃ الرجال، کوشش وصی الله عباس، بیروت، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۸ م.
  • احمد بن حنبل، مسند، قاہره، ۱۳۱۳ ق.
  • ازدی، محمد بن عبدالله، تاریخ فتوح الشام، کوشش عبدالمنعم عامر، قاہره، ۱۹۷۰ م.
  • بخاری،‌ محمد بن اسماعیل، صحیح، بولاق، ۱۳۱۵ ق.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۱، کوشش محمد حمیدالله، قاہره، ۱۹۵۹ م.
  • بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، نسخه خطی کتابخانہ عاشر افندی استانبول، شم ۵۹۸.
  • بلاذری، فتوح البلدان، کوشش صلاح الدین منجد، قاہره، ۱۹۵۶ م.
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، حیدرآباد دکن، ۱۳۳۴ ق.
  • خصيبى، حسين بن حمدان‏، الہدايۃ الكبرى‏، بیروت، البلاغ‏، ۱۴۱۹ق.
  • خلیفہ بن خیاط، الطبقات، کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۹۶۶ م.
  • ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، کوشش شعیب ارنؤوط و حسین اسد، بیروت، ۱۴۰۵ق/ ۱۹۸۵ م.
  • زہری، محمد بن مسلم، المغازی النبویہ، کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۴۰۱ق/ ۱۹۸۱ م.
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، کوشش حمدی عبدالمجید سلفی، بغداد، وزاره الاوقاف.
  • طبری، تاریخ؛ ظاہریہ، ریان، خطی (تاریخ).
  • کلاعی، سلیمان بن موسی، الاکتفا، نسخہ خطی کتابخانہ چستربیتی، شم ۳۸۹۲.
  • کلبی. ہشام بن محمد، جمہره النسب، کوشش ناجی حسن، بیروت، ۱۴۰۷ق/ ۱۹۸۶ م.
  • محبّ طبری، احمد بن محمد، الریاض النضره فی مناقب العشره، بیروت، ۱۴۰۵ق/ ۱۹۸۴ م.
  • مزی، ‌یوسف بن عبدالرحمن، تحفه الاشراف، بمبئی، ۱۳۹۲ق/ ۱۹۷۲ م.
  • مسلم بن حجاج نیشابوری، صحیح، کوشش فؤاد عبدالباقی، قاہره، ۱۹۵۵ م.
  • موسی بن عقبہ، «المغازی» (نک : مل، زاخاو).
  • واقدی،‌محمد بن عمر، الرده، کوشش محمد حمیداللہ، پاریس، ۱۹۸۹ م.
  • واقدی، المغازی، کوشش مارسدن جونز، لندن، ۱۹۶۶ م.
  • یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ، بیروت، دارصادر،‌ بی‌تا.

Sachau, E., ”Das Berliner Frament des Musa ibn‘Ukba…“, Sitzungsberichte… der Berliner, Akademie der wissenschaften, Berlin, 1904, vol. XXV.

بیرونی روابط