مندرجات کا رخ کریں

"اصول دین" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 35: سطر 35:
یا ایک [[حدیث]] میں [[امام محمد باقر علیہ السلام|امام باقر(ع)]] سے مروی ہے کہ اسلام کے پانچ ستون ہیں: [[نماز]]، [[زكات]]، [[روزہ]]، [[حج]] اور [[ولایت]]، اور ولایت سب سے اہم ہے۔<ref>كلینی‌، الکافی، ج2 ص18۔</ref> [جو ان کے قیام و نفاذ کی ضمانت ہے]۔ یہ [[حدیث|احادیث]] جو [[ائمۂ شیعہ]] سے منقول ہیں، بتا رہی ہیں کہ دین سے متعلق معارف و تعلیمات کا ایک حصہ ایسا ہے کہ ان پر یقین نہ رکھنا انکار دین کے مترادف (ہم معنی) ہے، جبکہ ان تعلیمات کا ایک حصہ اس سے مختلف ہے۔
یا ایک [[حدیث]] میں [[امام محمد باقر علیہ السلام|امام باقر(ع)]] سے مروی ہے کہ اسلام کے پانچ ستون ہیں: [[نماز]]، [[زكات]]، [[روزہ]]، [[حج]] اور [[ولایت]]، اور ولایت سب سے اہم ہے۔<ref>كلینی‌، الکافی، ج2 ص18۔</ref> [جو ان کے قیام و نفاذ کی ضمانت ہے]۔ یہ [[حدیث|احادیث]] جو [[ائمۂ شیعہ]] سے منقول ہیں، بتا رہی ہیں کہ دین سے متعلق معارف و تعلیمات کا ایک حصہ ایسا ہے کہ ان پر یقین نہ رکھنا انکار دین کے مترادف (ہم معنی) ہے، جبکہ ان تعلیمات کا ایک حصہ اس سے مختلف ہے۔


== یقین یا ظن ==
== اصول دین میں یقین یا ظن ==


اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے کہ اصول دین پر [[ایمان]]  رکھنا لازمی ہے لیکن بحث اس میں ہے کہ کیا اصول دین پر ایمان یقینی اور قطعی و جزمی علم پر استوار ہونا چاہئے یا صرف ظنی (اور گمان غالب پر مبنی) معرفت کافی ہے؟ اور اگر اصول دین پر ایمان کو قطعی علم پر استوار ہونا چاہئے تو کیا یہ علم دلیل و برہان کے ذریعے حاصل ہونا چاہئے یا تقلید کے ذریعے حاصل ہونے والا علم کافی ہے؟ اور اس سلسلے میں اقوال مختلف ہیں۔ اکثریت کی رائے ہے کہ اصول دین پر ایمان یقینی اور جزمی علم و معرفت پر استوار ہونا چاہئے اور ظنی معرفت کافی نہیں ہے۔
اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے کہ اصول دین پر [[ایمان]]  رکھنا لازمی ہے لیکن بحث اس میں ہے کہ کیا اصول دین پر ایمان یقینی اور قطعی و جزمی علم پر استوار ہونا چاہئے یا صرف ظنی (اور گمان غالب پر مبنی) معرفت کافی ہے؟ اور اگر اصول دین پر ایمان کو قطعی علم پر استوار ہونا چاہئے تو کیا یہ علم دلیل و برہان کے ذریعے حاصل ہونا چاہئے یا تقلید کے ذریعے حاصل ہونے والا علم کافی ہے؟ اور اس سلسلے میں اقوال مختلف ہیں۔ اکثریت کی رائے ہے کہ اصول دین پر ایمان یقینی اور جزمی علم و معرفت پر استوار ہونا چاہئے اور ظنی معرفت کافی نہیں ہے۔

نسخہ بمطابق 05:45، 9 مئی 2015ء



شیعہ
اصول دین (عقائد)
بنیادی عقائدتوحیدعدلنبوتامامتمعاد یا قیامت
دیگر عقائدعصمتولایتمہدویت: غیبتانتظارظہوررجعتبداء • ......
فروع دین (عملی احکام)
عبادی احکامنمازروزہخمسزکاتحججہاد
غیر عبادی احکامامر بالمعروف اور نہی عن المنکرتولاتبرا
مآخذ اجتہادقرآن کریمسنت (پیغمبر اور ائمہ کی حدیثیں)عقلاجماع
اخلاق
فضائلعفوسخاوتمواسات • ...
رذائلكبرعُجبغرورحسد • ....
مآخذنہج البلاغہصحیفۂ سجادیہ • .....
اہم اعتقادات
امامتمہدویترجعتبداشفاعتتوسلتقیہعصمتمرجعیت، تقلیدولایت فقیہمتعہعزاداریمتعہعدالت صحابہ
شخصیات
شیعہ ائمہامام علیؑامام حسنؑامام حسینؑامام سجادؑامام باقرؑامام صادقؑامام کاظمؑامام رضاؑامام جوادؑامام ہادیؑامام عسکریؑامام مہدیؑ
صحابہسلمان فارسیمقداد بن اسودابوذر غفاریعمار یاسر
صحابیہخدیجہؑفاطمہؑزینبؑام کلثوم بنت علیاسماء بنت عمیسام ایمنام سلمہ
شیعہ علماادباعلمائے اصولشعراعلمائے رجالفقہافلاسفہمفسرین
مقدس مقامات
مسجد الحراممسجد النبیبقیعمسجدالاقصیحرم امام علیمسجد کوفہحرم امام حسینؑحرم کاظمینحرم عسکریینحرم امام رضاؑ
حرم حضرت زینبحرم فاطمہ معصومہ
اسلامی عیدیں
عید فطرعید الاضحیعید غدیر خمعید مبعث
شیعہ مناسبتیں
ایام فاطمیہمحرّم ، تاسوعا، عاشورا اور اربعین
اہم واقعات
واقعۂ مباہلہغدیر خمسقیفۂ بنی ساعدہواقعۂ فدکخانۂ زہرا کا واقعہجنگ جملجنگ صفینجنگ نہروانواقعۂ کربلااصحاب کساءافسانۂ ابن سبا
الکافیالاستبصارتہذیب الاحکاممن لایحضرہ الفقیہ
شیعہ مکاتب
امامیہاسماعیلیہزیدیہکیسانیہ


"اصول دین" علم کلام کے شیعہ علماء کی ایک اصطلاح ہے۔ یہ اصطلاح اسلام کے ان بنیادی اعتقادات کے مجموعے کیلئے استعمال ہوتی ہے جو دین اسلام کی اساس کو تشکیل دیتے ہیں اور ہر مسلمان کا ان پر عقیدہ اور یقین رکھنا ضروری ہوتا ہے ورنہ وہ مسلمان نہیں ہوتا ہے؛ یعنی اصول دین میں سے کسی ایک کا انکار موجب کفر اور عذاب خداوندی کا باعث ہے۔

شیعہ عقیدے کے مطابق سعادت کاملہ اور صحیح دین تک پہنچنے کیلئے اصول دین : توحید، عدل،نبوت، امامت اور قیامت پر اعتقاد رکھنا ضروری ہے البتہ عدل اور امامت کو دیگر اصولوں سے الگ بھی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ جو شخص توحید، نبوت اور قیامت کا انکار کرے تو اسے بنیادی طور پر مسلمان قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن اگر کوئی عدل اور امامت کا انکار کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا تاہم وہ تشیع سے خارج اور خالص اسلام سے دور ہوگیا ہے۔ اسی بنا پر ان دو اصولوں (یعنی عدل اور امامت) کو اصول مذہب کا نام دیا گیا ہے۔

علماء کی رائے کے مطابق اصول دین میں تقلید جائز نہیں ہے جبکہ فروع دین میں احتیاط پر عمل نہ کرنے یا مجتہد نہ ہونے کی صورت میں تقلید واجب ہے۔ پس ہر مسلمان کیلئےاصول دین میں ظنی معرفت کی بجائے غور و فکر کرنا اور ان کی یقینی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے۔

اصول دین کے معنی

اصول دین ایک کلامی اصطلاح ہے جو فروع دین کے مقابلے میں استعمال ہوتی ہے اور اس کا اطلاق اعتقادات کے اس مجموعے پر ہوتا ہے جو دین اسلام کی اساس کو تشکیل دیتے ہیں اور ہر مسلمان کو ان پر عقیدہ اور یقین رکھنا پڑتا ہے ورنہ وہ مسلمان شمار نہیں ہوتا ہے؛ یعنی اصول دین میں سے ہر ایک کا انکار موجب کفر اور باعث عذاب خداوندی ہے۔

یہ اصطلاح دو معانی کیلئے استعمال ہوتی ہے:

  • اصول دین کا لفظ فروع دین کے مقابلے میں تمام اسلامی اعتقادات کیلئے بولا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اصول دین میں وہ تمام اعتقادی مسائل شامل ہونگے جن میں غور و فکر کرنا مطلوب ہے اور فروع دین میں وہ تمام مسائل شامل ہونگے جن کا انجام دینا یا ترک کرنا مطلوب ہے۔[1]

اصول دین کا لفظ اگرچہ موجودہ شیعہ علم کلام اور انکی دیگر علوم کی کتب میں " توحید،عدل ،نبوت، امامت اور قیامت" کیلئے استعمال ہوتا ہے لیکن سید مرتضی نے اس لفظ کو معتزلہ کے نزدیک اعتقادات کے ایک مجموعے: توحید،عدل ، وعد ووعید، منزلہ بین المنزلتین اور امر بالمعروف و النہی عن المنکر، کیلئے ذکر کیا ہے۔[2]۔ معتزلی علماء کے نزدیک انہیں ہی "اصول خمسہ" کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔[3] ۔ نیز سید مرتضی نے کہا کہ متاخرین اصول دین میں صرف توحید اور عدل شمار کرتے ہیں ۔ [4] ۔لیکن اس کے ساتھ ہی بعض دیگر کتب میں اصول دین کی تعداد چار : توحید ، عدل، نبوات اور شرائع ذکر ہوئی ہے ۔

وجۂ تسمیہ

  • شیعہ متکلمین کے مطابق حدیث، فقہ اور تفسیر جیسے دوسرے تمام دینی علوم "اصول دین" کی بنیاد پر استوار ہیں کیونکہ تمام دینی علوم رسول خداؐ کی صداقت پر موقوف ہیں اور رسول خداؐ کی صداقت رسول بھیجنے والے کے وجود، اس کی صفات اور اس کی عدالت کے اثبات پر موقوف ہے۔ اس بنا پر ان اعتقادات کو "اصول دین" کا نام دیا گیا ہے۔[5]

کتاب و سنت کی روشنی میں اصول دین

اصول دین کی اصطلاح متکلمین نے وضع کی ہے اور قرآن یا حدیث نے دینی تعلیمات کو اصول اور فروع میں تقسیم نہیں کیا ہے۔

البتہ احادیث میں ایسے اشارے ملتے ہیں کہ اسلام کچھ اصول اور مبادیات پر استوار ہے؛ مثال کے طور پر امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ "اسلام کے اصول کیا ہیں اور کن امور کی معرفت واجب ہے جن میں کوتاہی اور قصور کی وجہ سے انسان کا دین اور عقیدہ فاسد ہوجاتا ہے اور اگر کوئی ان کی معرفت حاصل کرے تو اس کا دین و عقیدہ صحیح ہوتا ہے اور اس کا عمل مقبول بارگاہ ربانی ہے؟ فرمایا: یہ کہ وہ توحید (اور اللہ کی وحدانیت) اور محمد(ص) کی نبوت کی گواہی دے؛ جو کچھ آپ(ص) خدا کی جانب سے لائے ہیں اس کی تصدیق کرے، اپنے اموال میں وجوب زکوۃ کا اقرار کرے اور زکات ادا کرے، اور آل محمد(ص) کی ولایت کا اقرار کرے۔[8]

یا ایک حدیث میں امام باقر(ع) سے مروی ہے کہ اسلام کے پانچ ستون ہیں: نماز، زكات، روزہ، حج اور ولایت، اور ولایت سب سے اہم ہے۔[9] [جو ان کے قیام و نفاذ کی ضمانت ہے]۔ یہ احادیث جو ائمۂ شیعہ سے منقول ہیں، بتا رہی ہیں کہ دین سے متعلق معارف و تعلیمات کا ایک حصہ ایسا ہے کہ ان پر یقین نہ رکھنا انکار دین کے مترادف (ہم معنی) ہے، جبکہ ان تعلیمات کا ایک حصہ اس سے مختلف ہے۔

اصول دین میں یقین یا ظن

اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے کہ اصول دین پر ایمان رکھنا لازمی ہے لیکن بحث اس میں ہے کہ کیا اصول دین پر ایمان یقینی اور قطعی و جزمی علم پر استوار ہونا چاہئے یا صرف ظنی (اور گمان غالب پر مبنی) معرفت کافی ہے؟ اور اگر اصول دین پر ایمان کو قطعی علم پر استوار ہونا چاہئے تو کیا یہ علم دلیل و برہان کے ذریعے حاصل ہونا چاہئے یا تقلید کے ذریعے حاصل ہونے والا علم کافی ہے؟ اور اس سلسلے میں اقوال مختلف ہیں۔ اکثریت کی رائے ہے کہ اصول دین پر ایمان یقینی اور جزمی علم و معرفت پر استوار ہونا چاہئے اور ظنی معرفت کافی نہیں ہے۔ شہید ثانی کے بقول[10] اس نظریئے کی سند وہ آیات و احادیث ہیں جن میں ظن و گمان کی پیروی کو مذموم قرار دیا گیا ہے جیسا کہ :

وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلاَّ ظَنّاً إَنَّ الظَّنَّ لاَ يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئاً۔
ترجمہ: اور ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جو نہیں پیروی کرتے مگر ایک طرح کے گمان کی، بلاشہ گمان حق تک پہنچنے میں کچھ فائدہ نہیں دیتا۔
وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ۔
ترجمہ: اور اس زمین کے رہنے والوں کی اکثریت کا اگر تم کہنا مانو تو تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے، وہ نہیں پیروی کرتے مگر گمان کی اور نہیں وہ باتیں کرتے مگر اٹکل پچو۔
  • سورہ جاثیہ آیت 24:

وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ۔
ترجمہ: اور انہوں نے کہا کہ نہیں ہے سوا اس دنیوی زندگی کے یہی مرنا ہے، یہی جینا ہے اور ہمیں ہلاک نہیں کرے گا مگر یہی دور زمانہ حالانکہ انہیں اس کا کوئی علم نہیں ہے، نہیں رکھتے وہ مگر ایک وہم وگمان۔ اس رائے کے مقابلے میں بعض محققین نے ظن قوی (یا گمان غالب) کو کافی گردانا ہے اور کہا ہے کہ کہ ظن قوی سکون نفس کا سبب ہے اور شارع مقدس کے نزدیک بھی علم معتبر وہی ہے جو سکون نفس کا سبب بنے۔[11]۔[12] چنانچہ جو کچھ اصول دین پر ایمان کے سلسلے میں لازمی ہے، وہ اطمینان ہے جو "یقینِ عرفی" بھی کہلاتا ہے؛ یقین عرفی میں مخالف امکان کو کو مکمل طور پر خارج نہیں کیا جاتا، لیکن چونکہ یہ احتمال و امکان ضعیف ہے اسی لئے اس کو لائق اعتنا نہیں سمجھا جاتا؛ "یقینِ منطقی بالمعنی الأخصّ" کے برعکس جس میں مخالف امکان مکمل طور پر خارج سمجھا جاتا ہے۔

اصول دین میں تحقیق یا تقلید‌

بہت سے علماء کی رائے ہے کہ اصول دین میں تقلید جائز نہیں ہے اور اصول دین کی شناخت کا حصول تحقیق کے نتیجے میں حاصل ہونا چاہئے۔ اس رائے پر اجماع کا دعوی بھی کیا گیا ہے۔[13]۔[14]

اصول دین میں تقلید کے عدم جواز پر ایک استدلال:

"مقلد یا تو اپنے مقلَد[15] کے بر حق ہونے پر واقف ہے یا واقف نہیں ہے؛ اگر واقف نہیں ہے تو اس صورت میں وہ اس کے خطاکار ہونے کو ممکن سمجھتا ہے، چنانچہ اس فرض میں اس کی تقلید قبیح ہے، کیونکہ وہ خود بھی جہل و خطا سے محفوظ نہیں ہے؛ اگر وہ جانتا ہے کہ اس کا مقلَد برحق ہے تو یہ دو صورتوں سے خارج نہيں ہے: یا یہ کہ یہ آگہی اور واقفیت اسے بدیہی طور پرحاصل ہوئی ہے یا وہ تحقیق کے ذریعے اس آگہی تک پہنچا ہے؛ ان دو صورتوں میں پہلی شق باطل ہے اور دوسری شق میں یا مقلَد کے برحق ہونے کی دلیل غیر تقلیدی ہے یا پھر تقلید کے ذریعے حاصل ہوئی ہے؛ اگر تقلید سے حاصل ہوئی ہے تو ان لوگوں کی تعداد کی کوئی انتہا نہ ہوگی جن کی تقلید ضروری ہے؛ پس صرف واحد فرضِ معقول (Reasonable assumption) یہ ہے کہ وہ شخص دلیل و برہان کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اس کا مقلَدبرحق ہے، اور یہ تقلید نہیں بلکہ تحقیق ہے پس اصول دین میں تقلید جائز نہیں ہے۔[16]

امامیہ کے نزدیک‌ اصول‌ دین‌

مشہور رائے یہ ہے کہ اصول دین تین موضوعات پر مشتمل ہے: توحید، نبوت اور معاد (یا قیامت)؛ تاہم عدل اور امامت کو بھی اصول دین میں شامل کرنا چاہئے۔ بالفاظ دیگر اگر کوئی اصول دین میں سے ایک کا انکار کرے وہ کافر ہے؛ لیکن اگر اول الذکر تین اصولوں کا اقرار کرے اور عدل و امامت کا منکر ہو تو وہ کافر نہیں لیکن وہ شیعہ بھی نہیں ہے۔[17]

جمہور شیعہ متکلمین کے مطابق متذکرہ پانچ اصول کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

توحید:

اللہ کی معرفت اور اس حقیقت کی تصدیق کہ وہ ازل سے ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا اور وہ اپنی ذات میں واجب الوجود ہے، اللہ کی صفات ثبوتیہ ـ جیسے علم و حیات و قدرت ـ کی تصدیق؛ اور صفات سلبیہ ـ جیسے جہل و عجز و بےبسی ـ سے اس ذات کی تنزیہ؛ اور اس حقیقت پر یقین کہ خدا کی صفات عین ذات ہیں [اور اس پر عارض نہیں ہوئی ہیں] اور کوئی صفت اس کی ذات پر زائد نہیں ہے۔

عدل:

اس حقیقت کی معرفت کہ خدا عادل و حکیم ہے یعنی یہ کہ وہ کوئی برا کام انجام نہیں دیتا اور کبھی بھی ان افعال کو ترک نہیں کرتا جو اس کو انجام دینے چاہئے۔ خداوند متعال انسانوں سے سرزد ہونے والے برے اعمال اور بھونڈے افعال سے ہرگز راضی و خوشنود نہیں ہے اور در حقیقت انسان خدا کے دی ہوئی قدرت و اختیار کے ذریعے اپنے اعمال انجام دیتے ہیں چنانچہ وہ اپنے اچھے اور برے اعمال کے حوالے سے جوابدہ ہیں۔

نبوت:

اس حقیقت کی تصدیق کہ حضرت محمد(ص) اللہ کے نبی و پیغمبر ہیں اور وہ جو کچھ بھی وحی کے عنوان سے لائے ہیں برحق ہے۔ البتہ اس موضوع میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ جو کچھ آپ(ص) خدا کی طرف سے لائے ہیں اس کی اجمالی تصدیق کافی ہے یا یہ کہ یہ تصدیق تفصیلی ہونی چاہئے۔ قابل ذکر ہے کہ بعض علمائے امامیہ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ(ص) کی عصمت اور ختم نبوت کی تصدیق بھی لازمی ہے۔

امامت:

بارہ اماموں کی امامت کی تصدیق۔ تمام شیعہ متکلمین کا اجماع ہے یہاں تک کہ یہ اصول اس مذہب کی ضروریات() کے زمرے میں قرار دیا گیا ہے۔ ائمہ(ع) سب کے سب معصوم اور حافظ شریعت ہیں اور وہ انسانوں کو حقیقت کا راستہ دکھاتے ہیں اور لازمی ہے کہ ان سب کی اطاعت کریں۔ البتہ امام زمانہ(عج) زندہ اور غائب ہیں اور ایک دن اللہ کے اذن سے ظہور کریں گے [اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے جس طرح کہ یہ ظلم و جور سے پر ہوچکی ہوگی]۔

قیامت:

اس اصول کے مطابق انسان موت کے بعد زندہ ہونگے اور ان کے اچھے اور برے اعمال کا حساب ہوگا۔ عام مسلمان معاد کے جسمانی ہونے کے قائل ہیں؛ یعنی موت کے بعد کی زندگی میں انسانوں کے اخروی بدن جسمانی بدن ہوگا۔[18]

پاورقی حاشیے

  1. الأنوار الإلهیة فی المسائل العقائدیة، ص74 مسائل أُصول الدين۔
  2. رسائل المرتضى،الشريف المرتضى ج 1 ص 165
  3. شرح الاصول الخمسہ
  4. رسائل المرتضى،الشريف المرتضى ج 1 ص 166۔ شرح الاصول الخمسہ ص 122۔
  5. علامة حلی‌، شرح‌ باب‌ حادی‌ عشر، 4، 6۔
  6. بحرانی، ابن میثم، قواعد المرام فی علم الكلام، ص20۔
  7. نمونے کے طور پر دیکھیں: محقق طوسی، تلخیص المحصّل، ص1 و حاجي خليفة، كشف الظنون، ج2، ص1503۔
  8. كلینی‌، الکافی، ج2 ص 19و20۔20۔
  9. كلینی‌، الکافی، ج2 ص18۔
  10. شهید ثانی‌، حقائق الإیمان، ص56۔
  11. السيد عبد اللّه شبر، حق اليقين في معرفة اصول الدين، ص571و 575۔
  12. جرجانی‌، شرح المواقف، ج8، ص331۔
  13. ملامهدی نراقی، انیس الموحدین، ص22۔
  14. شهید ثانی‌، حقائق الایمان، ص59۔
  15. مقلَّد وہ ہے جس کی تقلید کی جائے اور مقلِّد وہ ہے جو تقلید کرے۔
  16. سیدمرتضی‌، الذخیرة، 164- 165۔
  17. میرزای‌ قمی‌، اصول‌ دین‌، 5۔
  18. شهید ثانی‌، حقائق الایمان، ص59۔

مآخذ

  • آمدی‌، علی‌، الاحكام‌ فی‌ اصول‌ الاحكام‌، به‌ كوشش‌ ابراهیم‌ عجوز، بیروت‌، 1405ہجری/1985عیسوی۔
  • ابن‌ تیمیه‌، احمد، موافقة صحیح‌ المنقول‌ لصریح‌ المعقول‌، بیروت‌، 1405ہجری/1985عیسوی۔
  • ابن‌ میثم‌ بحرانی‌، میثم‌، قواعد المرام‌ فی‌ علم‌ الكلام‌، به‌ كوشش‌ احمد حسینی‌ و محمود مرعشی‌، تهران‌، 1406ہجری۔
  • ابن‌ ندیم‌، الفهرست‌۔
  • ابواسحاق‌ شیرازی‌، ابراهیم‌، التبصرة فی‌ اصول‌ الفقه‌، به‌ كوشش‌ محمدحسن‌ هیتو، دمشق‌، 1403ہجری/1983عیسوی۔
  • ابوالحسین‌ بصری‌، المعتمد فی‌ اصول‌ الفقه‌، به‌ كوشش‌ محمد حمیدالله‌ و دیگران‌، دمشق‌، 1385ہجری/1965عیسوی۔
  • اشعری‌، علی‌، رسالة فی‌ استحسان‌ الخوض‌ فی‌ علم‌ الكلام‌، حیدرآباد دكن‌، 1400ہجری/1979عیسوی۔
  • بخاری‌، محمد، صحیح‌، استانبول‌، 1981عیسوی۔
  • بغدادی‌، عبدالقاهر، اصول‌ الدین‌، بیروت‌، 1401ہجری/1981عیسوی۔
  • بخاری‌، الفرق‌ بین‌ الفرق‌، به‌ كوشش‌ محمد زاهد كوثری‌، قاهره‌، 1367ہجری/1948عیسوی۔
  • جرجانی‌، علی‌، شرح‌ المواقف‌، قاهره‌، 1325ہجری/1907عیسوی۔
  • سراج‌الدین‌ ارموی‌، محمود، التحصیل‌ من‌ المحصول‌، به‌ كوشش‌ عبدالحمید ابوزنید، قاهره‌، 1393ہجری/1973عیسوی۔
  • سیدمرتضی‌، علی‌، الذخیرة، به‌كوشش‌ احمد حسینی‌، قم‌، 1411ہجری۔
  • شهید ثانی‌، زین‌الدین‌، حقائق‌ الایمان‌، به‌كوشش‌ مهدی‌ رجایی‌، قم‌، كتابخانة آیت‌الله‌ مرعشی‌۔
  • شهید ثانی‌، زین‌الدین‌، حقائق‌ الایمان‌، چ‌ سنگی‌، مجموعة الرسائل‌، قم‌، 1304ہجری۔
  • طالقانی‌، نظرعلی‌، كاشف‌ الاسرار، به‌ كوشش‌ مهدی‌ طیب‌، تهران‌، 1373ہجری شمسی۔
  • شیخ طوسی‌، محمد بن حسن، الاقتصاد فيما يتعلق بالاعتقاد؛ قم‌، 1400ہجری۔
  • علامة حلی‌، حسن‌، شرح‌ باب‌ حادی‌ عشر، تهران‌، 1370ہجری شمسی۔
  • علامة حلی‌، كشف‌ الفوائد، مجموعة الرسائل‌، قم‌، 1404ہجری۔
  • فخرالدین‌ رازی‌، اصول‌ دین‌، چهارده‌ رساله‌، به‌كوشش‌ محمدباقر سبزواری‌، تهران‌، 1340ہجری شمسی۔
  • فخرالدین‌ رازی‌، كتاب‌ الاربعین‌ فی‌ اصول‌الدین‌، حیدرآباد دكن‌، 1353ہجری۔
  • قرآن‌ كریم‌؛ ترجمہ از سید علی نقی نقوی(نقن)۔
  • قرافی‌، احمد، شرح‌ تنقیح‌ الفصول‌، به‌ كوشش‌ طه‌ عبدالرئوف‌ سعد، بیروت‌، 1393ہجری/1973عیسوی۔
  • كلینی‌، محمد، الاصول‌ من‌ الكافی‌، به‌ كوشش‌ علی‌اكبر غفاری‌، تهران‌، 1388ہجری۔
  • مانكدیم‌، [ تعلیق‌ ] شرح‌ الاصول‌ الخمسة، به‌كوشش‌ عبدالكریم‌ عثمان‌، نجف‌، 1383ہجری/1963عیسوی۔
  • معتقد الامامیه‌، به‌ كوشش‌ محمدتقی‌ دانش‌پژوه‌، تهران‌، 1339ہجری شمسی۔
  • میرزای‌ قمی‌، ابوالقاسم‌، اصول‌ دین‌، به‌ كوشش‌ رضا استادی‌، تهران‌، مسجد جامع‌۔
  • میرزای‌ قمی‌، ابوالقاسم‌، قوانین‌ الاصول‌، تهران‌، 1303ہجری۔
  • انیس الموحدین، ملامهدی نراقی، انتشارات پیام مهدی (عج)، قم، 1386ہجری شمسی۔
  • حقائق الإیمان، زین الدین العاملی، منشورات مكتبة المرعشی، قم، 1409ہجری۔
  • ابو جعفر محمد بن محمد حسن طوسي، معروف به خواجه نصيرالدين طوسي و محقق طوسی، (متوفٰی 672 ہجری)، تلخيص المحصل، انتشارات اسماعيليان، (1414ہجری)۔
  • مصطفى بن عبدالله الشهير بحاجي خليفة، كشف الظنون عن اسامى الكتب والفنون، تحقیق: شہاب الدین مرعشی نجفی، دار إحياء التراث العربي بيروت – لبنان۔
  • السيد عبد اللّه شبر (متوفی 1370ہجری)، حق الیقین في معرفة أصول الدین، المطبوع في مطبعة دار النشر والتأليف نجف، سنة 1360ہجری۔