مندرجات کا رخ کریں

"اصحاب کہف" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
[[ملف:سنگ نگاره اصحاب کهف واقع در بوسنی هرزگوین.jpg|تصغیر|[[بوسنیا و ہرزیگووینا]] میں پتھر پر اصحاب کہف کی تحریر]]
[[ملف:سنگ نگاره اصحاب کهف واقع در بوسنی هرزگوین.jpg|تصغیر|[[بوسنیا و ہرزیگووینا]] میں پتھر پر اصحاب کہف کی تصویر]]
'''اَصْحابِ کَہْف''' یا '''غار کے لوگ'''، ان با [[ایمان]] جوانوں کو کہا جاتا ہے جو روم باستان کے حکمران دقیانوس (201-251 ء) کے دور میں زندگی گزارتے تھے۔ یہ لوگ سوائے ایک چرواہا اور اس کے کتے کے سب کے سب امراء اور حکومت کے درباریوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت اور  دقیانوس کے مظالم سے بچنے کیلئے ایک غار میں پناہ لیا۔ وہاں پہنچ کر تھکاوٹ کی وجہ سے سب پر نیند طاری ہو گئی جو 300 سال طول پکڑ گئی۔ [[قرآن کریم]] میں [[سورہ کہف]] کی [[آیت]] نمبر 8 سے 26 میں ان کی داستان کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح عیسائی منابع میں بھی اس داستان سے متعلق وقایع کا تذکرہ ملتا ہے۔ [[شیعہ]] [[احادیث]] میں اصحاب کہف کو [[امام مہدیؑ]] کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے۔
'''اَصْحابِ کَہْف''' یا '''غار کے لوگ'''، ان با [[ایمان]] جوانوں کو کہا جاتا ہے جو روم باستان کے حکمران دقیانوس (201-251 ء) کے دور میں زندگی گزارتے تھے۔ یہ لوگ سوائے ایک چرواہا اور اس کے کتے کے سب کے سب امراء اور حکومت کے درباریوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت اور  دقیانوس کے مظالم سے بچنے کیلئے ایک غار میں پناہ لیا۔ وہاں پہنچ کر تھکاوٹ کی وجہ سے سب پر نیند طاری ہو گئی جو 300 سال طول پکڑ گئی۔ [[قرآن کریم]] میں [[سورہ کہف]] کی [[آیت]] نمبر 8 سے 26 میں ان کی داستان کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح عیسائی منابع میں بھی اس داستان سے متعلق وقایع کا تذکرہ ملتا ہے۔ [[شیعہ]] [[احادیث]] میں اصحاب کہف کو [[امام مہدیؑ]] کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے۔



نسخہ بمطابق 08:20، 12 جولائی 2018ء

بوسنیا و ہرزیگووینا میں پتھر پر اصحاب کہف کی تصویر

اَصْحابِ کَہْف یا غار کے لوگ، ان با ایمان جوانوں کو کہا جاتا ہے جو روم باستان کے حکمران دقیانوس (201-251 ء) کے دور میں زندگی گزارتے تھے۔ یہ لوگ سوائے ایک چرواہا اور اس کے کتے کے سب کے سب امراء اور حکومت کے درباریوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت اور دقیانوس کے مظالم سے بچنے کیلئے ایک غار میں پناہ لیا۔ وہاں پہنچ کر تھکاوٹ کی وجہ سے سب پر نیند طاری ہو گئی جو 300 سال طول پکڑ گئی۔ قرآن کریم میں سورہ کہف کی آیت نمبر 8 سے 26 میں ان کی داستان کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح عیسائی منابع میں بھی اس داستان سے متعلق وقایع کا تذکرہ ملتا ہے۔ شیعہ احادیث میں اصحاب کہف کو امام مہدیؑ کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے۔

یہ واقعہ کس جگہ رونما ہوا اور مذکورہ غار کہاں پر واقع ہے؟ اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مشہور قول کی بنا پر یہ غار موجودہ ترکی کے صوبہ ازمیر میں اِفِسوس (اِفِسُس) نامی شہر میں واقع ہے۔ ایرانی ٹیلی ویژن پر مردان آنجلس نامی ٹی وی سیریل اسی واقعہ پر بنایا گیا ہے جس کا اردو میں ترجمہ، "اصحاب کہف" کے نام سے کیا گیا ہے۔

داستان

اَصْحابِ کَہْف (غار کے لوگ) حضرت عیسی کے ماننے والے ان با ایمان جوانوں کو کہا جاتا ہے جو روم باستان کے حکمران دقیانوس (201-251 ء) کے دور میں زندگی گزارتے تھے۔[1] یہ لوگ سوائے ایک چرواہا اور اس کے کتے کے سب کے سب امراء اور حکومت کے درباریوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت اور دقیانوس کے مظالم سے بچنے کیلئے ایک غار میں پناہ لیا۔[2] وہاں پہنچ کر تھکاوٹ کی وجہ سے سب پر نیند طاری ہو گئی جو 300 سال طول پکڑ گئی۔[3]

خدا نے ان پر ایک ایسی حالت طاری کی تھی کہ جو بھی انہیں دیکھتے وہ یہی گمان کرتے تھے کہ یہ لوگ بیدار ہیں حالانکہ یہ لوگ سوئے ہوئے تھے۔[4] اتنی مدت سونے کے بعد جب یہ لوگ بیدار ہوئے تو یہی خیال کرتے تھے کہ وہ چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں سوئے ہیں۔[5] یہ خیال ان کے ذہن میں اس لئے آیا چونکہ جس وقت یہ لوگ غار میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت دن کا آغاز تھا اور جب بیدار ہوئے تو دن کا آخری پهر تھا۔[6]بیدار ہونے کے بعد انہوں نے ایک کو شہر بھیجا تاکہ کچھ کھانے پینے کا بندوبست کیا جا سکے۔[7]

کھانہ لینے کیلئے کون گیا تھا اس حوالے سے قرآن میں کچھ نہیں کہا گیا لیکن بعض احادیث کے مطابق یملیخا یا تملیخا اس کام کیلئے رضاکارانہ طور پر تیار ہوا تھا۔[8] جب وہ شہر میں داخل ہوا تو دیکھا شہر بالکل تبدیل ہو چکا ہے اس لئے وہ بہت حیران و پریشان ہوا۔[9]

نام اور تعداد

حوالہ جات

  1. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۴۱۱۔
  2. طبری، ترجمہ تفسیر طبری(جامع البیان)، ۱۳۵۶ش، ج‌۱۵، ص‌۲۲۵۔
  3. سورہ کہف،آیہ۲۵۔
  4. طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج‌۱۳، ص‌۲۵۶۔
  5. سورہ کہف،آیہ۱۸و۱۹
  6. طبرسی، جوامع الجامع، ۱۳۷۲ش، ج‌۲، ص‌۳۵۷۔ و مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج‌۱۲، ص‌۳۷۳۔
  7. سورہ کہف،آیات۱۸و۱۹
  8. بحرانی، البرہان، ۱۳۳۴ش، ج‌۳، ص‌۶۲۴۔
  9. بحرانی، البرہان، ۱۳۳۴ش، ج‌۳، ص‌۶۲۴و۶۲۵۔

مآخذ

  • المجدوب، احمد علی، اصحاب کہف در تورات، انجیل و قرآن، مترجم: سیدمحمد صادق عارف، تہران، رشد، ۱۳۸۰ش۔
  • الحکیم، توفیق، اصحاب الکہف، ترجمہ: بتول مشیریان، چاپ اول، تہران، ارمغان، ۱۳۸۲۔
  • بحرانی، سیدہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، چاپ محمودبن جعفر موسوی زرندی، تہران ۱۳۳۴ش۔
  • بی‌آزار شیرازی، عبدالکریم، باستان شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ۱۳۸۰ش۔
  • دیلمی، حسن بن ابی الحسن، ارشاد القلوب، ترجمہ ترجمہ رضایی، تہران، اسلامیہ، ۱۳۷۷ش۔
  • سامی، شمس‌الدین، قاموس الاعلام ترکی، تہران، بنیاد اندیشہ اسلامی، ۱۳۸۲ش۔
  • صافی گلپایگانی، لطف اللہ، منتخب الأثر فی أحوال الإمام الثانی عشر، قم، دفتر آیت اللہ صافی، ۱۳۸۰ش۔
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ترجمہ محمدباقر موسوی، قم، دفتر نشر اسلامی، چاپ پنجم، ۱۳۷۴ش۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، ۱۳۷۲ش۔
  • طبری، محمد بن جریر، ترجمہ تفسیر طبری، تصحیح: حبیب یغمایی، تہران، توس، ۱۳۵۶ش۔
  • طبسی، نجم‌الدین، چشم‌اندازی بہ حکومت مہدی(عج)، قم، بوستان کتاب، ۱۳۹۱ش۔
  • قمی، علی‌بن ابراہیم، تفسیر قمی، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۱۲ق۔
  • گیپون، ادوارد، انحطاط و سقوط امپراطوری روم، مترجم: فرنگیس شادمان، تہران، ققنوس، ۱۳۹۳ش۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بہ تحقیق جمعی از محققان، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق۔
  • معموری، علی، تحلیل ساختار روایت در قرآن، تہران، نگاہ معاصر، ۱۳۹۲ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ش۔
  • پایگاہ گنجور، سنائی،قصیدۂ شمارۂ ۱۴۔ تاریخ بازدید: ۲۰ دی ۱۳۹۶۔
  • پایگاہ گنجور، مولوی،غزل شمارۂ ۶۷۶۔ تاریخ بازدید: ۲۰ دی ۱۳۹۶۔
  • پایگاہ گنجور، گلستان سعدی،باب اول در سیرت پادشاہان، حکایت شمارۂ ۴۔ تاریخ بازدید: ۲۰ دی ۱۳۹۶۔
  • پایگاہ اطلاع رسانی روزنامہ شرق،خیلی دور، خیلی نزدیک۔ تاریخ بازدید: ۲۰ دی ۱۳۹۶۔
  • پایگاہ اطلاع رسانی افکار نیوز،مخالفت سلفی‌ہا با پخش سریال «مردان آنجلس»۔ تاریخ درج خبر: ۱۳۹۲/۰۳/۲۲، تاریخ بازدید: ۲۰ دی ۱۳۹۶۔