رؤیائے صادقہ

ویکی شیعہ سے
(سچے خواب سے رجوع مکرر)

رؤیائے صادقہ یا سچا خواب وہی کشف و شہود ہے جو خواب میں واقع ہوتا ہے۔ رؤیائے صادقہ کو رؤیائے حَسَنہ اور رؤیائے صالحہ کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔ احادیث میں آیا ہے کہ انبیاء اور ائمہ معصومینؑ کے علاوہ مؤمنین بھی رؤیائے صادقہ دیکھتے ہیں اور یہ دنیا میں خدا کی طرف سے مؤمنین کے لئے بشارت ہے۔

رؤیائے صادقہ کو تین اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔ 1۔ وہ خواب جو تعبیر یا تاویل کے محتاج نہیں؛ جیسے حضرت ابراہیمؑ کا حضرت اسماعیلؑ کو ذبح کرنے کا خواب، 2۔ وہ خواب جس کا کچھ حصہ تعبیر کا محتاج ہے اور کچھ حصے کی تعبیر نہیں؛ جیسے حضرت یوسفؑ کا خواب جس میں سورج، چاند اور ستاروں کی تعبیر درکار ہے لیکن سجدے کی تعبیر ضرورت نہیں تھی؛ 3۔ وہ خواب جو مکمل تعبیر کا محتاج ہے، جیسے حضرت یوسفؑ کے زمانے میں مصر کے بادشاہ کا خواب۔

قرآن کریم میں بعض رؤیائے صادقہ کا ذکر آیا ہے جیسے: فتح مکہ سے پہلے پیغمبر اسلامؐ کا خواب جس کے مطابق آپؐ اور آپ کے اصحاب، مکہ آکر حج بجا لائے۔ سورہ فتح کی 27ویں آیت میں اس خواب کی تعبیر کو سچا کر دکھانے کا وعدہ دیا گیا ہے۔ اسی طرح سورہ اسراء کی 60ویں آیت میں شجرہ ملعونہ کے بارے میں رسول اکرمؐ کے دیکھے ہوئے خواب کا تذکرہ آیا ہے۔ اس خواب کی تعبیر، پیغمبر اکرمؐ کے وصال کے بعد بنی امیہ کی خلافت تھی۔

نفس کی پاکی اور ریاضت رؤیائے صادقہ کے عوامل اور گناہ، شکم پری اور ناسالم مزاج اس کے موانع میں سے شمار کیئے جاتے ہیں۔

تعریف اور اہمیت

رؤیائے صادقہ اس خواب کو کہا جاتا ہے جو حقیقت کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔[1] احادیث میں رؤیائے صادقہ کو "رؤیائے حسنہ"[2] اور "رؤیائے صالحہ"[3] کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔ مسلم فلاسفہ اور عرفاء رؤیائے صادقہ کو ایک طرح سے کشف و شہود سمجھتے ہیں جو خواب میں رونما ہوتے ہیں۔[4]

شیعہ[5] اور اہل سنت حدیثی منابع[6] میں بہت ساری احادیث میں رؤیائے صادقہ کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔ احادیث میں رؤیائے صادقہ کو خدا کی جانب سے بشارت[7] اور انبیاء کی نبوت کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔[8]

اسی طرح مسلم فلاسفہ اور عرفاء کے آثار میں رویائے صادقہ کو مکاشفہ اور وحی کے زمرے میں ذکر کرتے ہوئے اس کی حقیقت اور علل و اسباب کے بارے میں بحث ہوئی ہے۔[9] علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں رویائے صادقہ سے مفصل بحث کی ہیں اور اس سلسلے میں فلاسفہ کے نظریات پر تنقید بھی کی ہیں۔[10]

رؤیائے صادقہ دیکھنے والے

مسلمان دانشوروں کے مطابق انبیاء رؤیائے صادقہ کے مالک ہوتے ہیں جو حقیقت میں وحی ہے۔ شیعہ ائمہ بھی رؤيائے صادقہ کے مالک ہوتے ہیں اگرچہ ان پر وحی نہیں ہوتی لیکن یہ وحی کے حکم میں ہوتے ہیں۔[11] احادیث کے مطابق مؤمنین بھی رؤیائے صادقہ دیکھتے ہیں۔[12] پیغمبر اکرمؐ سے منقول احادیث میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا میرے بعد رؤیائے صادقہ کے علاوہ نبوت کے تمام اجزاء ختم ہونگے۔[13]

اسی طرح شیعہ اور اہل سنت منابع حدیث میں آیہ: لَہُمُ الْبُشْرى‏ فِي الْحَياۃِ الدُّنْيا وَ فِي الْآخِرَۃِ (ترجمہ: ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔)[؟؟] [14] کے ذیل میں نقل ہونے والی احادیث میں آیا ہے کہ دنیا میں مؤمن کو دی جانے والی بشارت وہی رؤیائے صادقہ ہے جو وہ دنیا میں خواب میں دیکھتا ہے۔[15]

قرآن میں رؤیائے صادقہ کا تذکرہ

کہا جاتا ہے کہ قرآن میں کم از کم سات سچے خوابوں کا تذکرہ آیا ہے:

  • فتح مکہ سے پہلے پیغمبر اسلامؐ کا خواب جس میں آپ دیکھتے ہیں کہ آپ اور آپ کے اصحاب مکہ جا کر حج ادا کرتے ہیں۔ سورہ فتح کی آیت نمبر 27 میں اس خواب کے محقق ہونے کا وعدہ دیا گیا ہے۔
  • شجرہ ملعونہ کے بارے میں پیغمر اکرمؐ کا خواب جس کا تذکرہ سورہ اِسرا کی آیت نمبر 60 میں آیا ہے۔ اس خواب میں پیغمبر اکرمؐ دیکھتے ہیں کہ کچھ بندر آپ کے منبر کے اوپر بیٹھ رہے ہیں۔ اس خواب کی تعبیر حضور ختمی مرتبتؐ کے بعد بنی امیہ کی حکومت ہے۔
  • حضرت ابراہیم کا اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو ذبح کرنے کا خواب جس کا تذکرہ سورہ صافات کی آیت نمبر 102 میں آیا ہے۔ اس سورے کی آیت نمبر 104 اور 105 میں اس خواب کے صحیح ہونے کی تائید کی گئی ہے۔
  • حضرت یوسف کا بچپنے میں دیکھنے والا خواب جس میں آپ دیکھتے ہیں کہ سورج اور چاند کے ساتھ گیارہ ستارے آپ کو سجدہ کرتے ہیں (سورہ یوسف، آیہ 4)۔ قرآنی آیات کے مطابق یہ خواب سالوں بعد جب حضرت یوسف عزیز مصر کے عہدے پر فائز تھے ان کے گیارہ بھائی، حضرت یعقوب اور ان کی بیوی کا حضرت یوسف کی تعظیم کرنے کے ساتھ متحقق ہوا (سورہ یوسف، آیہ 100)۔
  • حضرت یوسف کے ساتھ زندان میں موجود دو قیدیوں کے خواب جی میں ایک انگور سے شراب بناتا ہے جبکہ دوسرے کے سر پر سے پرندے روٹیاں کھا جاتے ہیں۔(سورہ یوسف، آیہ 36)۔ سورہ یوسف کی 41ویں آیت کے مطابق حضرت یوسف نے ان دونوں کو ان کے خواب کی تعبیر یوں بتائی، پہلا جس نے انگور سے شراب بنانے کا خواب دیکھا تھا، زندان سے آزاد ہو گا اور وہ بادشاہ کا ساقی بنے گا جبکہ دوسرے کو پھانسی دی جائے گی۔
  • بادشاہ مصر کا خواب جس میں سات کمزور گائیں سات طاقتور گائیں کو کھا جاتی ہیں اور گندم کے سات خشک اور سات ہرے بالیوں کو دیکھتا ہے(سورہ یوسف، آیہ 43)۔ سوره یوسف کی آیت نمبر 46 اور 47 کے مطابق حضرت یوسف نے اس خواب کی تعبیر سات سال فراوانی اور سات سال قحطی سے کیا۔[16]

اقسام

گیارہویں اور بارہویں صدی ہجری کے اصطلاح شناس تَھانَوی رؤیائے صادقہ کو تین قسموں میں تقسیم کرتے ہیں:

  1. وہ خواب جو تأویل اور تعبیر کا محتاج نہیں ہے؛ جیسے حضرت ابراہیم کا اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو ذبح کرنے کا خواب۔
  2. وہ خواب جس کا ایک حصہ تعبیر کا محتاج ہے جبکہ دوسرا حصہ محتاج نہیں ہے؛ جیسے حضرت یوسف کا خواب جس میں سورج، چاند اور ستارے تعبیر کے محتاج تھے لیکن ان کا سجدہ تعبیر کا محتاج نہیں تھا۔
  3. وہ خواب جو مکمل طور پر تعبیر کا محتاج ہو؛ جیسے حضرت یوسف کے زمانے میں بادشاہ مصر کا خواب۔[17]

رؤیائے صادقہ کے عوامل اور موانع

اسلامی منابع میں رؤیائے صادقہ کے کچھ عوامل اور موانع کا تذکرہ ہوا ہے۔ ملا صدرا نفس کی پاکیزگی، دنیا سے بیزاری اور ریاضت نفس کو رؤیائے صادقہ کے عوامل میں سے قرار دیتے ہیں۔[18] اسی طرح گناہ، پرخوری، ناسالم مزاج اور مستی کو اس کے موانع میں شمار کئے گئے ہیں۔[19]

حوالہ جات

  1. جمعی از محققان، فرہنگ‌نامہ علوم قرآنی، ۱۳۹۴ش، ص۵۷۳؛ مکارم شیرازی و دیگران، پیام قرآن، ۱۳۶۸ش، ج۱، ص۲۷۸۔
  2. ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۹۰-۹۱؛ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۳۳-۱۳۴؛ ابن ‌فہد حلی، عدۃالداعی، ۱۴۰۷ق، ص۲۷۸۔
  3. ملاحظہ کریں: ابن ‌ابی ‌جمہور، عوالی‌ اللئالی، ۱۴۰۵ق، ج۱، ص۱۶۲؛ ابن ‌فہد حلی، عدۃ الداعی، ۱۴۰۷ق، ص۲۷۸؛ بحرانی، البرہان، ۱۳۷۴ش، ص۴۱۔
  4. سجادی، فرہنگ علوم اسلامی، ۱۳۷۳ش، ج۲، ص۹۲۸۔
  5. ملاحظہ کریں: ابن‌ شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ش، ج۲، ص۳۵۶؛ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۹۰-۹۱؛ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۳۳-۱۳۴؛ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۵۸۴؛ ابن‌ فہد حلی، عدۃ الداعی، ۱۴۰۷ق، ص۲۷۸؛‌ابن ‌ابی ‌جمہور، عوالی‌ اللئالی، ۱۴۰۵ق، ج۱، ص۱۶۲؛ ابن‌ فہد حلی، عدۃ الداعی، ۱۴۰۷ق، ص۲۷۸؛ بحرانی، البرہان، ۱۳۷۴ش، ج۳، ص۴۱۔
  6. ملاحظہ کریں: متقی ہندی، کنز العمال، ۱۴۰۹ق، ص۳۶۲-۳۷۲۔
  7. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۸، ص۱۹۲۔
  8. ملاحظہ کریں: ابن‌ فہد حلی، عدۃ الداعی، ۱۴۰۷ق، ص۲۷۷؛ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۵۸۴۔
  9. ملاحظہ کریں: ابن‌سینا، المبدأ و المعاد، ۱۳۶۳ش، ص۱۱۷-۱۱۹؛ ملا صدرا، المبدأ و المعاد، ۱۳۵۴ش، ص۴۶۷-۴۶۹۔
  10. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۸، ص۱۹۵-۲۱۹۔
  11. ملاحظہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۸، ص۲۱۰۔
  12. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۸، ص۱۹۰-۱۹۲۔
  13. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۸، ص۱۹۲۔
  14. سورہ یونس، آیہ ۶۴۔
  15. بحرانی، البرہان، ۱۳۷۴ش، ج۳، ص۴۱؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۳، ص۳۱۱۔
  16. مکارم شیرازی و دیگران، پیام قرآن، ۱۳۶۸ش، ج۱، ص۲۷۸-۲۸۷۔
  17. التہانوی، کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم، ۱۹۹۶م، ج۱، ص۸۸۶۔
  18. ملا صدرا، المبدأ و المعاد، ۱۳۵۴ش، ص۴۶۷۔
  19. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۸، ص۲۰۹-۲۱۰۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • ابن‌ ابی‌ جمہور، محمد بن زين ‌الدين، عوالي اللئالي العزيزيۃ في الاحاديث الدينيۃ، تحقیق و تصحیح مجتبی عراقى، ‏دار سيد الشہداء للنشر، چاپ اول،‏ ۱۴۰۵ق۔
  • ابن‌ سینا، حسین بن عبداللہ، المبدأ و المعاد، تہران، مؤسسہ مطالعات اسلامی، چاپ اول، ۱۳۶۳ش۔
  • ابن‌ شہر آشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل‌ ابی ‌طالب علیہم ‌السلام، قم، ‏علامہ، ‏چاپ اول، ۱۳۷۹ق۔
  • ابن ‌فہد حلی، احمد بن محمد، عدۃ الداعي و نجاح الساعي‏، تحقیق و تصحیح احمد، موحدى قمى، دار الكتب الاسلامي، ‏چاپ اول، ‏۱۴۰۷ق۔
  • بحرانی، سيد ہاشم بن سليمان، ‏البرہان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسہ بعثہ، ‏چاپ اول،‏ ۱۳۷۴ش۔
  • تہانوی، محمد علی بن محمد، موسوعۃ کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم، بیروت، ناشرون، چاپ اول، ۱۹۹۶م۔
  • جمعی از محققان، فرہنگ ‌نامہ علوم قرآنی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، چاپ اول، ۱۳۹۴ش۔
  • سجادی، جعفر، فرہنگ معارف اسلامی، تہران، کومش، ۱۳۷۳ش۔
  • سیوطی، جلال ‌الدين، ‏الدر المنثور فى تفسير المأثور، قم، ‏كتابخانہ آيت ‌اللہ مرعشى نجفى‏، ۱۴۰۴ق۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، تحقیق و تصحیح علی ‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ دوم، ۱۴۱۳ق۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌ اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق۔
  • متقی ہندی، علی بن حسام‌الدین، کنز العمال فی سنن و الاقوال، بیروت، مؤسسۃالرسالہ، ۱۴۰۹ق۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار، بیروت، دار احیاء‌ التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق۔
  • مکارم شیرازی، ناصر و دیگران، پیام قرآن، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۶۸ش۔
  • ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، المبدأ و المعاد، تہران، انجمن حکمت و فلسفہ ايران، ۱۳۵۴ش۔