مجہول المالک
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
مجہول المالک، اس مال کو کہا جاتا ہے جس کے مالک کا علم نہ ہو یا اس کے مالک یا اس کے وارثین تک رسائی ممکن نہ ہو۔ مشہور شیعہ فقہاء کے مطابق مجہول المالک مال کو حاکم شرع کی اجازت سے مالک کی طرف سے صدقہ دینا واجب ہے اور حاکم شرع کی اجازت کے بغیر اس میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔ فقہ میں مجہول المالک مال کے کچھ مصادیق ذکر ہوئے ہیں؛ ان میں سے ایک وہ قرضہ ہے جسے واپس کرنے کے لئے اس کے مالک تک رسائی ممکن نہ ہو۔
تعریف اور حکم شرعی
مجہول المالک اس مال کو کہا جاتا ہے جس کے مالک یا اس کے رہنے کی جگہ کا علم نہ ہو اور اس تک یا اس کے وارثوں تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہ ہو۔[1]
شیعہ فقہاء کے مطابق مجہول المالک مال کو اس کے مالک تک پہنچانے سے ناامید ہونے کے بعد اس کے مالک کی طرف سے صدقہ دینا واجب ہے۔ البتہ بعض فقہاء جیسے صاحب جواہر[2] اور امام خمینی[3] اس بات کے معتقد ہیں کہ اس کام کے لئے حاکم شرع سے اجازت لینا بھی واجب ہے۔ ان کے مقابلے میں آیۃ اللہ خوئی مجہول المالک مال کو اس کے مالک کی طرف سے صدقہ دینے میں حاکم شرع کی اجازت کو ضروری نہیں سمجھتے ہیں۔[4] عراق میں مقیم معاصر مرجع تقلید آیۃ اللہ بشیر نجفی اس مسئلے میں بطور احتیاط مستحب حاکم شرع کی اجازت کو ضروری سمجھتے ہیں۔[5]
اسی طرح کہا گیا ہے کہ احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مجہول المالک اموال کا اختیار حاکم شرع کے پاس ہے اور مقتضائے مصلحت اس میں تصرف کر سکتا ہے۔[6]
مصادیق
فقہی کتابوں میں بعض موارد کو مجہول المالک مال کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے من جملہ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- لُقَطہ (گم شدہ مال): گم شدہ مال کی مالیت اگر ایک درہم سے زیادہ ہو تو اس مال کے پیدا کرنے والے پر فرض ہے ایک سال تک اس کا اعلان کرے اگر اس مدت کے بعد اس کے مالک کا پتہ نہ چلے تو ان امور میں سے ایک کو انجام دے: اپنے لئے رکھ لے، مالک کی طرف سے صدقہ دے، بطور امانت محفوظ رکھے[7] یا حاکم شرع کے حوالہ کر دے۔[8] گفتہ شدہ سپردن آن بہ حاکم شرع از باب مجہول المالک بودن است۔[9]
- سود کا مال، غصبی، چوری اور جوے کی کمائی: وہ اموال جو ربا، غصب، چوری یا جوے کے ذریعے حاصل ہو اگر ان کے مالک کا پتہ نہ ہو اور اس تک پہنچنے کی کوئی امید بھی نہ ہو تو مجہول المالک کے حکم میں ہیں۔[10]
- آثار قدیمہ اور عتیقہ جات: بعض فقہا کے مطابق آثار قدیمہ اگر کسی ایسی زمین سے ملے جس کا کوئی مالک نہ ہو یا بنجر زمین جسے آباد کرنے کے لئے خریدی گئی ہو اور یہ جانتا ہو کہ کسی مسلمان کا ہے لیکن اسے نہ جانتا ہو تو مجہول المالک کے حکم میں ہے۔[11]
- غائب شخص سے لیا ہو قرض: وہ قرضہ جسے واپس دینے کی تاریخ آگئی ہو لیکن قرض دینے والے تک رسائی نہ ہو اسے حاکم شرع کو دے دینا واجب ہے اگر حاکم شرع موجود نہ ہو تو مشہور کے مطابق یہ بھی مجہول المالک کے حکم میں ہے اور اسے اس کے مالک کی طرف سے صدقہ دینا واجب ہے۔[12]
- لا وارث اموال: ان اشخاص کے اموال جن کا کوئی وارث نہ ہو مجہول المالک شمار ہو گی۔[13]
- عارضی بنجر زمین (وہ زمین جو پہلے آباد تھی لیک اب بنجر ہو گئی ہو): اس قسم کی زمینوں میں سے ایک وہ زمین ہے جس کے مالک کا پتہ نہ ہو۔ معاصر فقیہ اور قانون دان سید مصطفی محقق داماد کے مطابق بعض فقہاء اس قسم کی زمین کو بھی مجہول المالک کے حکم میں قرار دیتے ہیں، لیکن مشہور فقہاء اس قسم کی زمینوں کو قابل تملک قرار دیتے ہیں۔[14]
- سرکاری اموال: بعض فقہاء کے مطابق وہ اموالی جو حکومتی اداروں کی ملکیت میں ہے مجہول المالک کے حکم میں ہے کیونکہ ان کے مطابق حکومت ان اموال کا مالک بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔[15]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ سیفی مازندرانی، دلیل تحریر الوسیلۃ - الوقف، 1430ھ، ص434۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 136ش، ج38، ص336۔
- ↑ امام خمینی، رسالہ توضیح المسائل، ص466۔
- ↑ خویی، موسوعۃ الامام الخویی، مؤسسۃ الامام الخوئی الاسلامیۃ، ج35، ص788،
- ↑ نجفی، بحوث فقہیۃ معاصرۃ، 1427ھ، ص104۔
- ↑ سنایی و دیگران، «مدیریت اموال مجہولالمالک با توجہ بہ شرایط جامعہ امروزی»، ص460۔
- ↑ محقق داماد یزدی، قواعد فقہ، 1406ھ، ج1، ص262؛ قانون مدنی، مادہ 162 اصلاحی و 163 اصلاحی۔
- ↑ حائری، «لقطہ و مجہول المالک(3)»،1388ش، ص42۔
- ↑ حائری، «لقطہ و مجہول المالک(3)»،1388ش، ص52۔
- ↑ علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء، ج10، ص209و210؛ سیفی مازندرانی، دلیل تحریر الوسیلۃ: فقہ الربا، 1430ھ، ص133۔
- ↑ ہاشمی شاہرودی، «آثار باستانی»، ج1، ص106۔
- ↑ ہاشمی شاہرودی، «دَین»، ج3، ص681؛ نجفی، جواہر الکلام، 1362ش، ج25، ص44۔
- ↑ محقق داماد یزدی، وصیت: تحلیل فقہی و حقوقی، 1420ھ، ص123۔
- ↑ محقق داماد یزدی، قواعد فقہ، 1406ھ، ج1، ص243۔
- ↑ نجفی، بحوث فقہیۃ معاصرۃ، 1427ھ، ص86-99۔
مآخذ
- امام خمینی، سید روحاللہ، تحریر الوسیلہ، قم، دارالعلم، بےتا۔
- امام خمینی، سید روحاللہ، رسالہ توضیح المسائل امام خمینی، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1381ہجری شمسی۔
- حائری، سید کاظم، «لقطہ و مجہولالمالک(3)»، در فصلنامہ فقہ اہل بیت(ع)، شمارہ 58و59، تابستان و پاییز 1388ہجری شمسی۔
- خوئی، سید ابوالقاسم، موسوعۃ الامام الخوئی، مؤسسۃ الامام الخوئی الاسلامیۃ، بےتا۔
- سنایی، حسین، و دیگران، «مدیریت اموال مجہول المالک با توجہ بہ شرایط جامعہ امروزی»، پژوہشہای فقہی، دورہ 15، شمارہ3، پاییز 1398ہجری شمسی۔
- سیفی مازندرانی، علیاکبر، دلیل تحریر الوسیلۃ - الوقف، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ اول، 1430ھ۔
- سیفی مازندرانی، علیاکبر، دلیل تحریر الوسیلۃ - فقہ الربا، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ اول، 1430ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرۃ الفقہاء، قم، مؤسسہ آلالبیت(ع)، چاپ اول، 1414ھ۔
- قانون مدنی جمہوری اسلامی ایران۔
- محقق داماد یزدی، سید مصطفی، قواعد فقہ، تہران، مرکز نشر علوم اسلامی، چاپ دوازدہم، 1406ھ۔
- محقق داماد یزدی، سید مصطفی، وصیت: تحلیل فقہی و حقوقی، تہران، مرکز نشر علوم اسلامی، چاپ سوم، 1420ھ۔
- نجفی، بشیر حسین، بحوث فقہیۃ معاصرۃ، نجف، دفتر آیت اللہ نجفی، چاپ اول، 1427ھ۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، تصحیح علی آخوندی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔
- ہاشمی شاہرودی، سید محمود، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، قم، دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت(ع)، ج1و2و3، چاپ اول،1426ھ۔