مندرجات کا رخ کریں

اشعث خاندان

ویکی شیعہ سے
اشعث خاندان
عمومی معلومات
منشعب ازقبیلہ کندہ
عصراسلام تا اواخر بنی امیہ
اسلام لانافتح مکہ کے بعد
شخصیات
مشاہیرمحمد بن اشعث بن قیس کندیجعدہقیس بن اشعث کندیعبد الرحمن بن محمد بن اشعث کندی


اشعث خاندان سے مراد اَشْعَث بن قَیْس کِنْدی اور ان کی اولاد ہے جنہوں نے تین اماموں یعنی امام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی شہادت میں کردار ادا کیا۔ اشعث نے امام علیؑ کو قتل کرنے میں ابن ملجم مرادی کی مدد کی۔ ان کی بیٹی جَعْدَہ نے بھی امام حسنؑ کو زہر دے دیا۔ یہ خاندان، کِنْدی قبیلہ کی ایک شاخ تھی۔ انہوں نے جنگ صفین اور یوم عاشورا میں شرکت کی اور عمر بن خطاب، عثمان بن عفان، امام علیؑ، معاویہ اور مختار کے زمانے میں ہونے والے کچھ واقعات اور جنگوں میں حصہ لیا۔

اشعث خاندان کا مقام

اشعث خاندان سے مراد اشعث بن قیس کِنْدی اور ان کی اولاد ہے۔ یہ خاندان ایک عرب قبیلے سے ہے اور کِنْدی قبیلہ کی ایک شاخ ہے۔[1] اشعث اسلام سے پہلے یمن کے علاقہ حضرموت میں رہتا تھا۔[2] وہ اپنے قبیلے کے کچھ لوگوں کے ساتھ فتح مکہ کے بعد 10 ہجری میں[3] رسول اللہؐ کے پاس مدینہ گیا اور اسلام قبول کیا۔[4]

امام صادقؑ کی ایک روایت کے مطابق اس خاندان کے بعض افراد امام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی شہادت میں شریک تھے۔[5]

امام حسن مجتبیٰؑ کی زوجہ جعدہ، محمد بن اشعث، قیس بن اشعث اور عبد الرحمٰن بن محمد بن اشعث اسی خاندان سے ہیں۔ یہ خاندان، عمر بن خطاب،[6] عثمان بن عفان، امام علیؑ[7] اور امویوں کے زمانے میں با اثر سمجھا جاتا تھا۔ اشعث نے عمر بن خطاب کے دور میں جنگ یرموک اور دیگر جنگوں میں حصہ لیا۔[8] وہ عثمان کے دَور میں آذربائیجان کا گورنر بھی رہا اور امام علیؑ کے دور میں بھی اس عہدے پر باقی رہا۔[9]

امام صادق(ع):
إِنَّ الْأَشْعَثَ بْنَ قَيْسٍ شَرِكَ فِي دَمِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع وَ ابْنَتُہُ جَعْدَةُ سَمَّتِ الْحَسَنَ ع وَ مُحَمَّدٌ ابْنُہُ شَرِكَ فِي دَمِ الْحُسَيْنِ ع.
درحقیقت اشعث بن قیس امیر المومنین کے خون میں شریک تھا اور اس کی بیٹی جعدہ نے امام حسنؑ کو زہر دیا اور اشعث کا بیٹا محمد امام حسینؑ کے خون میں شریک تھا۔
کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص167، ح187.


امام علیؑ کی شہادت میں اشعث کا کردار

اشعث پیغمبر اکرمؐ کا صحابی[10] اور جنگ صفین میں امام علیؑ کے کمانڈروں میں سے ایک تھا۔[11] مورخین کا کہنا ہے کہ امام علیؑ کی شہادت میں بھی اس کا اہم کردار رہا ہے۔[12] امام صادقؑ کی ایک روایت میں بھی امام علیؑ کی شہادت میں اشعث کا کردار بیان ہوا ہے۔[13] مؤرخ یعقوبی نے لکھا ہے کہ جب ابن ملجم مرادی امام علیؑ کو قتل کرنے کے لیے کوفہ گیا تو کچھ مدت تک اشعث کے گھر میں رہا۔[14] اہل سنت مورخ ابن سعد (متوفی 230ھ) کے مطابق، ابن ملجم، امام کو قتل کرنے، اشعث کے کہنے پر فجر سے پہلے مسجد گیا۔[15]

اشعث کی جنگ صفین میں امام علیؑ کی تجویز کی مخالفت

مؤرخین کے مطابق، جنگ صفین میں لیلۃ الہریر کے بعد، جب بہت سے لوگ مارے گئے اور امام علیؑ فتح کے قریب تھے[16] تو اشعث نے جنگ جاری رہنے پر امام علیؑ کی مخالفت کی اور کِندیوں کے درمیان کھڑا ہوگیا اور ایک خطبے میں، ایک مؤثر لہجے میں مزید خونریزی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔[17] معاویہ نے جب یہ حالت دیکھی تو قرآن کو نیزوں پر اٹھایا۔ قرآن کو دیکھ کر اشعث نے امام علیؑ کو جنگ بند کرنے کے لیے موت کی دھمکی دی اور امام کو حکمیت قبول کرنے پر مجبور کیا۔[18] امام نے ثالثی کے لئے پہلے مالک اشتر اور پھر ابن عباس کا نام دیا۔ لیکن اشعث نے مخالفت کی اور دوسروں کو بھی ابو موسیٰ اشعری کی طرف لے گیا۔[19] اس نے ابو موسیٰ اشعری کی حمایت کی اور جنگ کو جاری رکھنے میں رکاوٹ بن گیا۔[20]

جنگ نہروان کے بعد بھی جب امام علیؑ نے فوج کو معاویہ کے ساتھ جنگ ​​کی تیاری کا حکم دیا تو اشعث کا خیال تھا کہ سپاہی تھک چکے ہیں اور معاویہ کے ساتھ جنگ ​​کو مناسب نہیں سمجھا۔[21]

ائمہ معصومینؑ کی شہادت میں اولادِ اشعث کا کردار

دائیں: انوشیروان ارجمند اشعث کے روپ میں۔ بائیں طرف: کریم اکبری مبارکہ امام علی کی سیریل میں ابن ملجم کے روپ میں

جعدہ بنت اشعث: جعدہ امام حسنؑ کی بیوی تھی، اور کہا جاتا ہے کہ معاویہ نے یزید سے اس کی شادی کا وعدہ دیا۔[22] جعدہ نے امام حسنؑ کو زہر پلا کر شہید کیا۔ تاہم امام حسنؑ کی شہادت کے بعد معاویہ نے جعدہ کی یزید سے شادی کی مخالفت کی۔[23]

محمد بن اشعث: امام صادقؑ کی روایت کے مطابق، ابن اشعث امام حسینؑ[24] کی شہادت میں شریک تھا؛[25] اس نے مسلم بن عقیل کے اردگرد موجود لوگوں کو منتشر کرنے اور مسلم کو گرفتار کرنے میں بھی مدد کی۔[26] اِبْنِ حَبَّان کے مطابق محمد بن اشعث کو مختار کے ہاتھوں مصعب بن زبیر کی مختار کے ساتھ جنگ ​​میں قتل کیا گیا۔[27]

قیس بن اشعث: قیس واقعہ کربلا کے وقت عمر بن سعد کے سپاہیوں میں تھا۔ اس نے امام حسینؑ کے رو پوش (چادر) کو لوٹ لیا اور اس وجہ سے وہ "قیس قَطِیفَہ" کے نام سے مشہور ہوا۔[28] اسی طرح وہ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے شہدائے کربلا کے سروں کو ابن زیاد کے پاس لے گئے تھے۔[29]

عبد الرحمٰن بن محمد بن اشعث: عبد الرحمٰن، مُصْعَب اور مختار کی جنگ میں مصعب کی فوج میں تھا۔ مختار کے مارے جانے کے بعد، اس نے باقی تمام شیعوں کو قتل کرنے کی رائے دی۔[30] عبد الرحمن بعد میں اموی کمانڈر بن گیا۔[31] لیکن رفتہ رفتہ بنی امیہ کے بارے میں اس کی رائے بدل گئی اور ان کے خلاف بغاوت کی۔ اس کی بغاوت کو حجاج بن یوسف ثقفی نے کچل دیا۔[32]

حوالہ جات

  1. ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج1، ص133۔
  2. ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج1، ص133۔
  3. ابن اثیر، اسد الغابه، 1409ھ، ج1، ص118.
  4. ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج1، ص133۔
  5. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص167، ح187.
  6. ابن اثیر، اسدالغابه، 1409ھ، ج1، ص118.
  7. دینوری، اخبارالطوال، 1368ش، ص156؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج2، ص200
  8. ابن اثیر، اسدالغابه، 1409ھ، ج1، ص118.
  9. دینوری، اخبارالطوال، 1368ش، ص156؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج2، ص200.
  10. ابن حجر، الاصابه، 1415ھ، ج1، ص239.
  11. منقری، وقعۃ صفین، 1382ھ، ص137۔
  12. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص212؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج3، ص26۔
  13. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص167، ح187۔
  14. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص212۔
  15. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج3، ص26۔
  16. منقری، وقعۃ صفین، 1382ھ، ص477-480۔
  17. ابن مزاحم، وقعۃ صفین، 1403ھ، ص480-481؛ دینوری، الاخبار الطوال، 1960ء، ص188-189۔
  18. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج2، ص188-189۔
  19. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج2، ص189۔
  20. منقری، وقعۃ صفین، 1382ھ، ص480-481۔
  21. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص89؛ ثقفی، الغارات، 1355شمسی، ج1، ص24-25؛ دینوری، اخبارالطوال، 1368شمسی، ص211؛ ابن عدیم، بغیۃ الطلب، 1409ھ، ج4، ص1911۔
  22. مادلونگ، جانشینی حضرت محمد، 1377شمسی، ص453. (منبع اصلی: Madelung, The Succession T0 Muhamad, p.331)
  23. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، 1385ھ، ص48۔
  24. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص167، ح187.
  25. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص167، ح187.
  26. دینوری، اخبار الطوال، 1368شمسی، ص239؛ اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دارالمعرفۃ، ص107؛ ابن اثیر، الکامل، 1385ھ، ج4، ص33۔
  27. ابن حَبَّان، الثقات، 1393ھ، ج5، ص352۔
  28. بلاذری، انساب الاشراف،1417ھ، 1996ء، ج3، ص204و207
  29. دینوری، اخبارالطوال، 1373شمسی،نشر شریف رضی، ص259۔
  30. طبری، محمد بن جریر؛ تاریخ الامم و الملوک،الناشر: دار التراث ج 6، ص 116۔
  31. طبری، محمد بن جریر؛ تاریخ الامم و الملوک، ج 6، ص 328۔
  32. طبری، محمد بن جریر؛ تاریخ الامم و الملوک، الناشر : دار التراث، ج 6، ص 389-391۔

مآخذ

  • ابو الفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، نجف، مکتبۃ الحیدریۃ، 1385ھ۔
  • ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، بیروت، دار الفکر، 1409ھ/1989ء۔
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، دارالکتب العلمیہ، 1415ھ/1995ء۔
  • ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1410ھ/1990ء۔
  • ابن عبد البر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق علی محمد بجاوی، بیروت، دارالجیل، 1412ھ/1992ء۔
  • دینوری، احمد بن داود، الاخبار الطوال، تحقیق عبد المنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال، قم، منشورات الرضی، 1368ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، دارالتراث، بیروت، 1387ھ/1967ء۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، دارالکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • مادلونگ، ویلفرد، ترجمہ احمد نمایی و دیگران، جانشینی حضرت محمد، مشہد، آستان قدس رضوی: بنیاد پژوہش ہای اسلامی، 1377ہجری شمسی۔
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفہ حجج اللہ علی العباد، تصحیح مؤسسہ آل البیت، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • منقری، نصربن مزاحم، وقعہ صفین، تحقیق عبدالسلام محمد ہارون، قاہرہ، الموسسۃ العربیۃ الحدیثۃ، 1382ھ/1962ء، افست (قم، منشورات مکتبۃ المرعشی النجفی)، 1404ھ۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دارصادر، بی تا.