تفسیر تاریخی
| اہم تفاسیر | |
|---|---|
| شیعہ تفاسیر | تفسیرابوالجارود150-160ھ. • تفسیر قمی 307ھ • تفسیر عیاشی 320ھ • تفسیر تبیان 460ھ • تفسیر مجمع البیان 548ھ • جوامع الجامع 548ھ • تفسیر الصافی 1091ھ • تفسیر المیزان 1402ھ |
| سنی تفاسیر | تفسیر طبری 310ھ • تفسیر ابن عطیہ 541ھ • تفسیر قرطبی 671ھ • تفسیر ابن کثیر 774ھ • تفسیر جلالین 864/911ھ |
| تفسیری رجحان | |
| تقابلی تفسیر • علمی تفسیر • عصری تفسیر • تاریخی تفسیر • فلسفی تفسیر • کلامی تفسیر • عرفانی تفسیر • ادبی تفسیر • فقہی تفسیر | |
| تفسیری روشیں | |
| تفسیر قرآن بہ قرآن • تفسیر روایی • تفسیر عقلی • تفسیر اجتہادی | |
| اقسام تفسیر | |
| ترتیبی تفسیر • موضوعی تفسیر | |
| اصطلاحات علم تفسیر | |
| اسباب نزول • ناسخ و منسوخ • محکم و متشابہ • تحدی • اعجاز قرآن • جری | |
تفسیر تاریخی تفسیر کا ایک طریقہ ہے جس میں قرآن کی آیات کے معانی اور مقاصد کو سمجھنے میں تاریخ کے کردار پر انحصار ہوتا ہے۔
یہ نقطۂ نظر تین مختلف طریقوں سے اپنایا جاتا ہے: قرآنی تاریخی آیات کی تفسیر تاریخی منابع کی مدد سے کی جاتی ہے جس میں تاریخی غیر قرآنی ذرائع کی مدد سے قرآن کی تاریخی داستانوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ نزولِ قرآن کے دور کے تاریخی، معاشرتی اور لسانی پس منظر کی بنیاد پر تفسیر کی جاتی ہے اور قرآن کے متن سے انسانی تاریخ میں الہی سنتوں کی دریافت کی جاتی ہے جس کا مقصد، موجودہ انسان کے لیے تمدنی نمونے پیش کرنا ہے۔
اہمیت
تاریخی تفسیر، قرآن کی تفسیری روشوں میں سے ایک ہے، جس میں آیات کے معانی و مقاصد کو سمجھنے کے لیے تاریخ کی اہمیت پر توجہ دی جاتی ہے۔[1] یہ اصطلاح تین مخصوص تفسیری روشوں میں استعمال ہوتی ہے، جن میں سے ہر ایک کا اپنا مقصد اور اہداف ہوتے ہیں اور ان کے اعتبار اور افادیت کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں:
- قرآن کی تاریخی آیات کی تفسیر تاریخی منابع کی بنیاد پر؛
- آیات کے نزول کے تاریخی، معاشرتی اور لسانی بستر کی روشنی میں مفاہیم کو بہتر طور پر سمجھنا؛
- قرآن میں موجود تاریخی واقعات کا جائزہ لے کر انسانی تاریخ میں الہی سنتوں اور تاریخی آیات کے نظام کو کشف کرنا۔[2]
قرآنی تاریخی آیات کی تفسیر
تفسیر کی اس روش میں مفسر تاریخی موضوعات سے متعلق آیات کا انتخاب کرتا ہے، جیسے: انبیاء کے قصے، جاہلیت کی رسوم و روایات وغیرہ۔ پھر مفسر قابلِ اعتماد تاریخی ذرائع سے ان آیات کی وضاحت کرتا ہے۔ یہ کام یا تو ترتیب نزولی کے لحاظ سے انجام پاتا ہے، یا کسی خاص تاریخی موضوع سے متعلق تمام آیات کو جمع کر کے ان کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔[3] اس طریقے پر دو اعتراضات کیے گئے ہیں:
- اس میں صرف ان آیات پر غور کیا جاتا ہے جو براہِ راست تاریخی واقعات سے مربوط ہیں، جب کہ قرآن کی دیگر آیات کو تجزیے میں شامل نہیں کیا جاتا؛
- اس طریقے سے قرآن کے تاریخی نقطۂ نظر کی جامع اور حتمی تفہیم حاصل نہیں ہوتی۔[4]
اس طرح کی تفسیر کرنے والی کتابوں میں یعقوب جعفری کی کتاب"تاریخ اسلام از منظر قرآن کریم" قابل ذکر ہے جس میں جاہلیت کے دور سے لے کر بعثت، ہجرت اور وفاتِ پیغمبر اکرمؐ تک کی تاریخ سے مربوط قرآنی آیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔[5]
نزولِ قرآن کے دور کے تاریخی و سماجی حالات کی بنیاد پر تفسیر
اس طریقے میں مفسر زمان و مکان، الفاظ کے تاریخی مفاہیم، اور عصرِ نزول کے ثقافتی و سماجی حالات کو مدِنظر رکھ کر قرآن کی تفسیر کرتا ہے۔ اس طریقے کے بنیادی اصول درج ذیل ہیں:
- قرآن کی زبان، عصرِ نزول کی زبان اور ثقافت سے متاثر ہے؛
- آیات کی درست تفہیم کے لیے اس وقت کے تاریخی، سیاسی اور معاشرتی حالات کو سمجھنا ضروری ہے؛
- قرآنی مفاہیم وقت کے ساتھ معنوی تبدیلی کا شکار ہو سکتے ہیں۔[6]

نزولِ قرآن کے دور کے تاریخی و سماجی حالات کی بنیاد پر بعض تفسیریں لکھی گئی ہیں جن میں مہدی بازرگان کی کتاب پا بہ پائے وحی قابل ذکر ہے۔[7] اس نوعیت کی تفسیر پر کئے جانے والے اعتراضات میں؛ تاریخی الفاظ کی اعتبار پر کم توجہ؛ تفسیر بالرأے[8] کا خطرہ اور دینی احکام کو صرف زمانۂ نزول تک محدود کر دینا[9] شامل ہیں۔
قرآن میں موجود تاریخی سنتوں کی دریافت
اس نوعیت کی تفسیر میں مفسر، قرآن میں بیان کزمرہ تاریخی واقعات اور قصوں کا تقابلی تجزیہ کرتا ہے تاکہ وہ انسانی تاریخ میں جاری الٰہی قوانین کو دریافت کر سکے، جیسے؛ حق کا باطل پر غلبہ یا ظالم حکومتوں کا زوال، وغیرہ۔ اس طریقے میں قرآن کو صرف ایک "روایتی داستانوں کی کتاب" نہیں بلکہ انسانی تاریخ کا تجزیاتی نسخہ سمجھا جاتا ہے، جس کا مقصد انسانی معاشروں کے عروج و زوال کی وجوہات کا ادراک اور انسانِ معاصر کے لئے تربیتی و تمدنی نمونے پیش کرنا ہے۔[10]
سید محمد باقر صدر (متوفی:1359ش) اپنی کتاب "السنن التاریخیۃ فی القرآن" میں بیان کرتے ہیں کہ قرآن کے مطابق تاریخ کی دنیا، کائنات کے دیگر حصوں کی طرح، الہی سنتوں اور قوانین کے تحت چلتی ہے۔ قرآن ان قوانین کو کبھی عمومی اصولوں کی شکل میں اور کبھی مخصوص مثالوں کے ذریعے مصادیق اور مثالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کرتا ہے۔[11] سید محمد باقر صدر اس حوالے سے قرآن مجید کی مختلف آیتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن میں سورۂ یونس آیت نمبر 49 اور سورۂ اعراف آیت نمبر 34 شامل ہیں۔[12]
حوالہ جات
- ↑ نکونام، «تفسیر تاریخی قرآن کریم»، ص45.
- ↑ رضایی اصفہانی و مؤمننژاد، «تفسیر تاریخی قرآن کریم»، ص35-38.
- ↑ رضایی اصفہانی و مؤمننژاد، «تفسیر تاریخی قرآن کریم»، ص35-36.
- ↑ رضایی اصفہانی و مؤمننژاد، «تفسیر تاریخی قرآن کریم»، ص36.
- ↑ رضایی اصفہانی و مؤمننژاد، «تفسیر تاریخی قرآن کریم»، ص36.
- ↑ ابوزید، مفہوم النص، 2000م، ص9؛ مجتہد شبستری، نقدی بر قرائت رسمی از دین، 1379شمسی، ص128-130.
- ↑ معرفت، تفسیر و مفسران، 1379شمسی، ج2، ص521.
- ↑ مصباح یزدی، قرآنشناسی، 1392شمسی، ج2، ص156-157.
- ↑ مصباح یزدی، تعدد قرائتہا، 1394شمسی، ص48-49.
- ↑ رضایی اصفہانی و مؤمننژاد، «تفسیر تاریخی قرآن کریم»، ص38.
- ↑ صدر، السنن التاريخيۃ في القرآن، 1432ق، ص54.
- ↑ صدر، السنن التاريخيۃ في القرآن، 1432ق، ص55.
مآخذ
- ابو زید، نصر حامد، مفہوم النص، بیروت، المرکز الثقافي العربي، 2000ء۔
- رضایی اصفہانی، محمد علی، و ابوالحسن مؤمن نژاد، «تفسیر تاریخی قرآن کریم»، در مجموعہ مقالات قرآن و علم، قم، پژوہشہای تفسير و علوم قرآن، 1386ہجری شمسی۔
- صدر، سید محمد باقر، السنن التاریخیۃ في القرآن، بیروت، دار إحياء التراث العربي، 1432ھ۔
- مجتہد شبستری، محمد، نقدی بر قرائت رسمی از دین، تہران، طرح نو، 1379ہجری شمسی۔
- مصباح یزدی، محمد تقی، تعدد قرائتہا، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی(رہ)، 1394ہجری شمسی۔
- مصباح یزدی، محمد تقی، قرآنشناسی، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی(رہ)، 1392ہجری شمسی۔
- معرفت، محمد ہادی، تفسیر و مفسران، قم، مؤسسہ فرہنگی انتشاراتی التمہيد، 1379ہجری شمسی۔
- نکو نام، جعفر، «تفسیر تاریخی قرآن کریم»، در مجلہ پژوہش دینی، شمارہ 19، 1388ہجری شمسی۔