مندرجات کا رخ کریں

تفسیر کلامی

ویکی شیعہ سے
(کلامی تفسیر سے رجوع مکرر)
علم تفسیر
اہم تفاسیر
شیعہ تفاسیرتفسیرابوالجارود150-160ھ. • تفسیر قمی 307ھ • تفسیر عیاشی 320ھ • تفسیر تبیان 460ھ • تفسیر مجمع البیان 548ھ • جوامع الجامع 548ھ • تفسیر الصافی 1091ھ • تفسیر المیزان 1402ھ
سنی تفاسیرتفسیر طبری 310ھ • تفسیر ابن عطیہ 541ھ • تفسیر قرطبی 671ھ • تفسیر ابن کثیر 774ھ • تفسیر جلالین 864/911ھ
تفسیری رجحان
تقابلی تفسیرعلمی تفسیرعصری تفسیرتاریخی تفسیرفلسفی تفسیرکلامی تفسیرعرفانی تفسیرادبی تفسیرفقہی تفسیر
تفسیری روشیں
تفسیر قرآن بہ قرآنتفسیر رواییتفسیر عقلیتفسیر اجتہادی
اقسام تفسیر
ترتیبی تفسیرموضوعی تفسیر
اصطلاحات علم تفسیر
اسباب نزولناسخ و منسوخمحکم و متشابہتحدیاعجاز قرآنجری


کلامی تفسیر، تفسیر قرآن کے اجتہادی طریقوں میں سے ایک ہے، جس میں مفسر اعتقادی اور کلامی تعلیمات کو آیاتِ قرآنی سے استخراج اور اخذ کرتا ہے۔ اس طرح کی طرزِ تفسیر دو طریقوں پر ظاہر ہو سکتی ہے۔ پہلا طریقہ کلامی-روایی ہے جو اعتقادی روایات اور احادیث پر مبنی ہوتا ہے اور دوسرا طریقہ کلامی-فلسفی ہے جس میں عقل اور استدلال کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ کلامی تفسیر تفسیر کے دیگر شعبے جیسے فلسفی، ادبی-لغوی، عرفانی، سائنسی اور سماجی تفاسیر سے مختلف ہے کہ اس میں دینی اصولوں اور عقلی ہم آہنگی پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔

کہا گیا ہے کہ بعض اوقات مفسر کی کلامی پیش فرضیات، تفسیر پر اثر انداز ہو سکتی ہیں؛ جس سے ممکن ہے قرآن سے کسی اعتقادی تعلیم کو اخذ کرنے کے بجائے، پہلے سے موجود ایک عقیدہ، قرآن پر تھوپا جائے۔ یہ طرز تفسیر عباسی دور میں کلامی اور فرقہ وارانہ مباحث کے آغاز کے ساتھ زیادہ نمایاں ہوا اور اس دور کے مشہور مفسرین نے کلامی انداز میں تفاسیر لکھی۔ ان تفاسیر میں بطور خاص زیرِ بحث آنے والے اہم اعتقادی موضوعات میں امامت، ایمان، کبیرہ گناہ کا ارتکاب، جبر و اختیار اور عدلِ الٰہی شامل ہیں۔ محمد حسین روحانی کی کتاب تفسیر کلامی اس طرز تفسیر سے لکھی گئی کتابوں میں سے ایک ہے۔

کلامی تفسیر کی نوعیت و اہمیت

کلامی تفسیر، قرآن کریم کی اجتہادی اور عقلی تفسیر کی اقسام میں سے ایک ہے جس میں مفسر عقلی استدلال اور علم کلام کے مباحث کو مدنظر رکھ کر عقائد کا دفاع اور ان کو بیان کرتا ہے اور کلامی تعلیمات کو قرآن کی آیات سے اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔[1] تفسیر قرآن میں علم کلام کی طرزِ تفسیر کلامی-روایی ہوسکتی ہے جس میں اعتقادی روایات اور احادیث پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ جبکہ دوسرا طریقہ کلامی-فلسفی ہے جس میں مفسر قرآن سے اعتقادی مسائل سمجھنے کے لئے زیادہ تر عقلی استدلال پر توجہ دیتا ہے۔[2]

مفسر اس طرز کے تفسیر میں ہر ممکن موقع پر اپنے یا دوسروں کے عقائد کو قرآن سے ثابت یا رد کرنے کی کوشش کرتا ہے اور عقائد سے مربوط آیاتوں کو بحث کا محور بناتا ہے۔[3] کہا گیا ہے کہ قرآن مجید کی آیتوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق براہِ راست عقائد سے ہے، ان آیتوں میں سابقہ ادیان کی معرفی و نقد اور اسلام کی حقانیت کے اثبات پر بات ہوئی ہے؛ جیسے اصول دین میں سے توحید، نبوت اور معاد پر بات ہوئی ہے۔[4] اس کے باوجود تفسیر کے شیعہ محقق سید محمد حسین روحانی (متوفی: 1378ش) کے مطابق، کلامی تفسیر میں اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ مفسر کس حد تک غیر جانبدار ہو کر، عقلی اور نقلی منابع (قرآن و سنت و عقل) کی روشنی میں، اصولِ دین کے اثبات کے لیے درست طریقے سے قرآن کی تفسیر کرتا ہے، اور یہ دیکھنا ہوگا کہ تفسیر کلامی میں قرآن مفسروں کے لئے رہنما ہے یا وہ لوگ محض اپنے عقائد کو قرآن سے ثابت کرنے اور ان کی قرآن سے تائید لینے کی کوشش کرتے ہیں۔[5]

کلامی تفسیر کا امتیاز

قرآن فہمی میں "تفسیر کلامی" کو خاص اہمیت حاصل ہے جو تفسیر کے دوسرے اقسام سے مختلف ہے۔ اس نوعیت کے تفسیر کا موازنہ دوسرے تفسیری طریقوں سے کچھ یوں کیا جا سکتا ہے:

تفسیر فلسفی

فلسفی تفسیر میں مفسر قرآن کے مفاہیم کو فلسفی مبانی کی روشنی میں بیان کرتا ہے۔ [6]کہا جاتا ہے کہ بعض اوقات فلسفی تفسیر فلسفی گہری تاویلوں پر مشتمل ہوتی ہے جو ممکن ہے دین کے ظاہر سے کوسوں دور ہو۔[7] اگرچہ کلامی تفسیر کی خصوصیات میں سے ایک یہی ہے کہ اس میں عقل سے استفادہ کیا جاتا ہے لیکن اس کا بنیادی مقصد آیات سے استفادہ کو دینی اصولوں اور کلامی تعلیمات سے ہما آہنگی کو تحفظ دینا ہے۔[8] مثلاً، ابن سینا (متوفی: 428ھ) نے آیہ نور میں "مشکاۃ" کو عقلِ ہیولانی اور "مصباح" کو عقلِ بالفعل سے تعبیر کیا ہے،[9] جب کہ شیخ طوسی نے "مشکاۃ" کو پیغمبر اکرمؐ کا دلِ اور "مصباح" کو قرآن قرار دیا ہے۔[10]

ادبی-لغوی تفسیر

ادبی تفسیر کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں اس میں الفاظ، تراکیب اور زبان پر زور دیا جاتا ہے۔[11] جبکہ کلامی تفسیر میں الفاظ اور ترکیب سے زیادہ الفاظ کے معانی کا اعتقادی اور عقلانی مبانی سے ہم آہنگی دیکھی جاتی ہے۔[12] مثال کے طور پر زمخشری (متوفی: 538ھ) نے آیت "إِلَىٰ رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ"[13] میں مفعول (الی ربہا) کا مقدم ہونے سے پروردگار کی نظر کا قیامت میں منحصر ہونے کو سمجھا ہے۔ انہوں نے پھر دوسری چیزوں کی طرف نگاہ کے امکان کو دیکھتے ہوئے "نظر" کو "رحمت الٰہی کی امید" سے تعبیر کیا ہے،[14] جب کہ علامہ طباطبائی نے اپنی کتاب تفسیر المیزان میں عقلی دلائل کے کی بناپر اللہ تعالی کا نظر آنا ممکن نہ ہونے کی وجہ سے، اس آیت میں پروردگار کی نظر سے مراد "قلبی مشاہدہ" لیا ہے۔[15]

عرفانی تفسیر

عرفانی تفسیر، باطنی معانی اور رموز کو کشف کرنے پر زور دیتی ہے۔ اور زیادہ تر شہود اور روحانی انکشافات پر توجہ دیتی ہے۔[16] جبکہ کلامی تفسیر میں آیات کو سمجھنے کے لئے اس کے ظاہری معنی پر تاکید کرتے ہوئے عقلی استدلال اور منطقی اصولوں سے استفادہ کیا جاتا ہے۔[17] مثال کے طور پر ابن عربی (متوفی: 638) نے آیت "فَأَیْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اللَّہِ"[18] سے وحدتِ وجود اخذ کیا ہے؛[19] جب کہ معتزلی متکلم قاضی عبد الجبار نے اس سے خدا کا ہر جگہ موجود ہونا مراد لیا ہے۔[20]

سائنسی تفسیر

علمی تفسیر میں جدید سائنسی معلومات کو قرآن پر منطبق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔[21] جبکہ کلامی تفسیر اس کے برخلاف ہے اور اس میں دینی تعلیمات کو تجرباتی علوم پر منطبق کرنے کے بجائے عقلانی اور وحیانی اصولوں کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔[22] مثلاً، سید محمود طالقانی (متوفی: 1358 ش) نےعلم نجوم سے استفادہ کرتے ہوئے سورہ انشقاق کی پہلی آیت میں آسمان پھٹنے کے مفہوم کو راہ شیری کہکشاں کے پھٹنے اور نظام شمسی کے تشکیل سے تعبیر کیا ہے،[23] لیکن کلامی تفسیر میں مفسرین کلامی نے زمین کے آسمان کا قیامت میں پھٹنے سے تفسیر کیا ہے۔[24]

سماجی تفسیر

سماجی تفسیر میں قرآن کو ایک معاشرتی دستور اور ہدایت کی کتاب کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اور کوشش ہوتی ہے کہ قرآنی آیات سے معاشرتی مشکلات کے حل اور معاشرے کی اصلاح کے لئے راہ نکالا جاسکے۔[25] مثال کے طور پر علامہ طباطبائی نے اپنی کتاب المیزان میں سورہ آل عمران کی آیت نمبر 200 کی تفسیر میں "كلام فى المرابطۃ فى المجتمع الاسلامى" کے عنوان سے تقریبا 40 صفحے لکھے ہیں؛[26] جبکہ کلامی طرز تفسیر کے مفسروں نے اس آیت میں "صَابِرُوا" اور "رَابِطُوا" کو دینی استقامت اور دشمنان الہی کے مقابلے میں صبر کرنے سے تفسیر کیا ہے۔[27]

تفسیر کلامی کی تاریخی ترقی

پہلی صدی ہجری میں چونکہ علمی، کلامی، فلسفی اور عرفانی اصول تدوین نہیں ہوئے تھے اس لئے قرآن کریم کی تفسیر ان مبانی کے مطابق نہیں ہوتی تھی۔[28]

قرآن کی کلامی تفسیر کی تدریجی پیش رفت، کلامی اور فرقہ وارانہ مباحث کے آغاز سے ہوئی اور عباسی دَور میں اس میں مزید شدت آئی۔ معتزلہ، امامیہ اور اشاعرہ جیسے فرقے کلامی افکار کی تدوین اور انہیں فروغ دینے میں مصروف ہو گئے۔ ہر مذہب نے یہ کوشش کی کہ اپنے عقائد کو قرآن سے ثابت کرے، اور اس مقصد کے لیے آیات کی ایسی تأویل کی جانے لگی جو ان کے نظریاتی موقف سے ہم آہنگ ہو۔[29] یہ عمل دوسری صدی ہجری سے تیزی سے شروع ہوا[30] اور چوتھی صدی اور چھٹی صدی ہجری میں عروج کو پہنچا۔[31] اس دور میں شیخ طوسی، سید مرتضی، اور قاضی عبد الجبار معتزلی جیسے ممتاز مفسرین نے کلامی اور استدلالی انداز میں قرآن کی تفسیر کی، اور ان کی تالیفات میں تفسیر اور علمِ کلام کے باہمی گہرے تعلقات کی واضح جھلک ملتی ہے چاہے وہ شیعہ مکتب ہو یا اہلِ سنت۔ اس دور میں "عقل" کو آیات کے فہم میں "نقل" کے ساتھ ساتھ اہم ذریعہ سمجھا گیا، اور توحید، عدل، نبوت، امامت اور معاد جیسے عقائد کو نمایاں انداز میں تفاسیر میں بیان کیا گیا۔[32]

ساتویں سے دسویں صدی ہجری تک، مغل حملوں کے باعث شیعہ مکتب فکر میں نمایاں تفسیری کام سامنے نہ آ سکا۔ لیکن جب صفوی دور آیا اور تشیع، حکومت کا رسمی مذہب بنا، تو کلامی تفسیر کو زبردست فروغ ملا۔[33] اس دَور کے علما، جیسے کہ فیض کاشانی (وفات: 1091ھ)، نے پچھلے تفسیری ورثے سے وفاداری کے ساتھ، قرآن اور اہل بیتؑ کی روایات کی روشنی میں شیعہ اعتقادات کی توضیح اور تقویت کا عمل جاری رکھا۔[34]

قاجار اور مشروطہ دور میں جب مسلمانوں کا مغربی دنیا سے رابطہ بڑھ گبا اور نئے افکار سامنے آئے، تو قرآنی تفاسیر بھی اس کے اثر سے خالی نہ رہیں۔[35] کہا جاتا ہے کہ بعد میں سید محمد حسین طباطبائی نے اپنی تفسیر "المیزان" میں قرآن کی عقلی اور فلسفی تفسیر کی طرف توجہ دی۔"تفسیر المیزان" کو ایک نقطۂ عطف سمجھا جاتا ہے جو کلامی، فلسفی اور سماجی تفسیر کا امتزاج ہے۔ اس میں قرآن کی آیات کو آپس میں تفسیر کیا گیا ہے، اور کلامی و اعتقادی مسائل کو عقلی اسلوب اور اہل بیتؑ کی تعلیمات کی مدد سے وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔[36]

کلامی تفاسیر کے اہم مسائل

کلامی تفاسیر میں لکھی گئی کتابوں میں بعض اہم عقائدی و اعتقادی موضوعات کو نمایاں انداز میں زیرِ بحث لایا گیا ہے جن میں سے درج ذیل مسائل قابلِ ذکر ہیں:

  • پیغمبر اکرمؐ کی خلافت اور جانشینی: شیعہ علما نے قرآنی آیات کو امامت منصوص من اللہ ہونے[37] اور حضرت علیؑ کی جانشینی[38] پر دلیل قرار دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں اہلِ سنت نے بھی امامت کے مسئلے میں شوریٰ (مشورے) کے تصور کو قرآن کی بعض آیات سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔[39]
  • گناہِ کبیرہ کے مرتکب کا ایمان: خوارج نے گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر قرار دیا ہے اور اس پر پیش کی جانے والی دلائل میں سے ایک سورہ تغابن کی آیت نمبر 2 ہے۔[40] ان کے مقابلے میں مرجئہ نےاس عمل کو ایمان سے الگ تصور کیا ہے۔[41] معتزلہ نے بھی قرآن کی آیات کی روشنی میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ گناہِ کبیرہ کے مرتکب کو قرآن نے ایمان اور کفر کے درمیان قرار دیا ہے۔[42]
  • جبر و اختیار: انسان کے افعال کو خود اس کی طرف منسوب کرنے یا اللہ کی طرف نسبت دینے میں اختلاف ہے:معتزلہ نظریہ تفویض کے مطابق انسان کو اس کے افعال کا مکمل فاعل سمجھتے ہیں،[43]اور اشاعرہ کا کہنا ہے کہ حقیقی فاعل اللہ ہے، انسان صرف اپنے عمل کو کسب کرتا ہے۔[44] جبکہ امامیہ (شیعہ) نے "الامر بین الامرین" کا نظریہ پیش کیا ہے جس کے مطابق انسان اور خدا دونوں عمل کے فاعل حقیقی ہیں۔[45]
  • کلامِ الٰہی کا حادث یا قدیم ہونا: اشاعرہ کا عقیدہ ہے کہ اللہ کا کلام قدیم (ازلی) ہے[46] جبکہ معتزلہ[47] اور امامیہ[48] اللہ کے کلام کو حادث (یعنی مخلوق و محدث) سمجھتے ہیں۔
  • عدلِ الٰہی: اشاعرہ کا نظریہ ہے کہ نیکی اور بدی کا معیار صرف اللہ کا حکم ہے (یعنی حسن و قبح شرعی)؛ جو اللہ کہے وہی اچھا، اور جو نہ کہے وہی برا ہے۔[49] اس کے برخلاف، عدلیہ (معتزلہ اور امامیہ) کا کہنا ہے کہ اعمال کی اچھائی یا برائی ان کی ذاتی حقیقت سے وابستہ ہے، اور اللہ تعالیٰ انہی حقیقی خوبیوں یا برائیوں کی بنیاد پر احکام صادر کرتا ہے۔[50]

شیعہ برجستہ کلامی تفاسیر

ابن شہر آشوب کی متشابہ القرآن و مختلفہ

شیعہ تفاسیر میں کلامی طرزِ فکر بعض اوقات صرف ایک ضمنی پہلو کے طور پر، اور بعض اوقات مرکزی و بنیادی نظرئے کے طور پر سامنے آتی ہے۔ وہ شیعہ تفاسیر جو کلامی انداز کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • تفسیر التبیان،بقلم شیخ طوسی (460ھ): اس تفسیر کو جامع تفسیر سمجھا جاتا ہے جس میں کلامی تفسیری انداز زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔[51]
  • تفسیر حدائق ذات بہجۃ، بقلم عبد السلام قزوینی (488ھ): اسے تفسیر قزوینی بھی کہا جاتا ہے۔ عربی میں لکھی گئی یہ کتاب کلامی اور اعتقادی انداز میں لکھی گئی تھی جس میں قرآن کی تمام آیتیں شامل ہیں اور اہل بیتؑ کی روایات سے استفادہ کیا گیا ہے: یہ کتاب اگرچہ صفویہ دور تک موجود تھی لیکن بتدریج ضائع ہوگئی ہے۔[52]
  • تفسیر مجمع البیان، تالیف طبرسی (548ھ): اس کتاب میں اعتقادی مباحث پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔[53]
  • متشابہ القرآن و مختلفہ بقلم ابن شہر آشوب (583ھ): عربی میں لکھی گئی یہ کتاب آیاتِ متشابہ پر زیادہ متمرکز ہے اور امامیہ کلامی موضوعات جیسے توحید، عدل اور امامت پر زیادہ تاکید کی ہے اور شعر اور عربی ادب سے بھی استفادہ کیا ہے۔[54]
  • "بلابل القلاقل" ، "دقائق التأویل" اور "حقائق التنزیل" بقلم ابو المکارم محمود حسنی: آپ ساتویں صدی ہجری کے شیعہ متکلم تھے آپ نے فارسی میں لکھی گئی تفسیر "بلابل القلاقل" میں "قل" سے شروع ہونے والی آیتوں کے ذریعے شیعہ عقائد کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک اور تفسیر دقائق التأویل میں بلابل سے کچھ زیادہ وسیع پیمانے پر "یا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا" اور "إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا" جیسی آیتوں کی تفسیر کی ہے۔ نیزاحادیث اور صحابہ و تابعین کے اقوال کے ذریعے شیعہ کلامی مباحث اور حضرت علیؑ کی امامت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔[55]
  • جلاء الاذہان و جلاء الاحزان، المعروف تفسیر گازر بقلم ابو المحاسن جرجانی آٹھویں صدی ہجری کے امامیہ متکلم۔ یہ کتاب، ابوالفتوح رازی کی تفسیر روض الجنان کا نیا کلامی انداز اور خلاصہ ہے۔ ابو المحاسن نے اس کتاب میں شیعہ عقائد کا دفاع کیا ہے۔ اگرچہ اس کی تألیف سابقہ کتابوں سے مأخوذ ہے لیکن اس کا ڈھانچہ اور ساختار نیا ہے اور کلامی اور روائی مباحث پر تاکید ہوئی ہے جو اصلی کتاب سے زیادہ نمایاں ہے۔[56]
  • لوامع التنزیل وسواطع التأویل بقلم ابو القاسم رضوی لاہوری (1324ھ): ایک مفصل تفسیر جو تیس جلدوں پر مشتمل ہے جسے اہل بیتؑ کی احادیث سے استناد کرتے ہوئے شیعہ عقائد کے دفاع میں لکھی گئی ہے۔[57]
  • المیزان فى تفسیر القرآن، تألیف علامہ طباطبائی (متوفی: 1402ھ): مؤلف نے شیعہ عقائد کا عقلی دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ فلسفی اور سماجی مسائل کے تجزیہ تحلیل پر بھی توجہ دی ہے۔[58]
  • الفرقان فى تفسیر القرآن بالقرآن و السنّۃ بقلم محمد صادقی تہرانی (1402ھ): مؤلف نے اس کتاب میں اعتقادی، فقہی اور اخلاقی موضوعات پر تحلیل اور استدلال کیا ہے اور قرآنی آیات اور معصومینؑ کی معتبر احادیث سے استفادہ کیا ہے۔[59]

مونوگراف

تفسیر کلامی قرآن مجید نامی کتاب کا جلد

کتاب "تفسیر کلامی قرآن"، محمد حسین روحانی کی تصنیف ہے جو قرآن کی کلامی تفسیر کے موضوع پر اختصاصی طور پر لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے، جن میں قرآنِ مجید کی تفسیر اور تأویل کو کلامی زاویے سے بیان کیا گیا ہے:[60] پہلا حصہ تفسیر کی تعریف، اس کے مختلف طریقے؛ جیسے قرائت کی تحقیق، شانِ نزول اور اس کا علمِ کلام اسلامی سے تعلق بیان کیا گیا ہے۔ دوسرا حصہ جس میں "تأویل" کے مفہوم، تفسیر اور تأویل میں فرق، اور تأویل کے بارے میں قرآن کے موقف کو بیان کیا گیا ہے کہ قرآن تأویل کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ تیسرا حصہ جس میں قرآنی آیات کی روشنی میں عقائدی اصول جیسے ایمان بالغیب، توحید، اور معاد کا تجزیہ کیا گیا ہے، اور ساتھ ہی تفسیر و تأویل سے متعلق اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا ہے۔[61]

حوالہ جات

  1. مؤدب، روشہای تفسیر قرآن، 1380شمسی، ص245؛ جمعی از مؤلفان، تفسیر قرآن (تاریخچہ، اصول، روش ہا)، 1388شمسی، ص69؛ کریمی نیا، «روش شناسى تفسیر فقہى»، ص90۔
  2. مؤدب، روشہای تفسیر قرآن، 1380شمسی، ص245۔
  3. رضایی اصفہانی، درس نامہ روش ہا و گرایش ہای تفسیری قرآن، 1382شمسی، ص428۔
  4. علوی مہر، روش ہا و گرایش ہای تفسیری، 1381شمسی، ص231۔
  5. روحانی، تفسیر کلامی قرآن، 1370شمسی، ص25-26۔
  6. رضایی اصفہانی، درس نامہ روش ہا و گرایش ہای تفسیری قرآن، 1382شمسی، ص440-441۔
  7. رضایی اصفہانی، درس نامہ روش ہا و گرایش ہای تفسیری قرآن، 1382شمسی، ص440-441۔
  8. مؤدب، روشہای تفسیر قرآن، 1380شمسی، ص245۔
  9. ابن سینا، الرسائل فی الحکمۃ و الطبیعیات، دار العرب، ص125۔
  10. شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار إحیاء التراث العربی، ج7، ص437۔
  11. رضایی اصفہانی، درس نامہ روش ہا و گرایش ہای تفسیری قرآن، 1382شمسی، ص452۔
  12. علوی مہر، روش ہا و گرایش ہای تفسیری، 1381شمسی، ص233-234۔
  13. سورہ قیامۃ: آیت23۔
  14. زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج4، ص662۔
  15. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1373شمسی، ج20، ص112۔
  16. علوی مہر، روش ہا و گرایش ہای تفسیری، 1381شمسی، ص219۔
  17. روحانی، تفسیر کلامی قرآن، 1370شمسی، ص26-27۔
  18. سورہ بقرہ:115۔
  19. ابن عربی، تفسیر ابن عربى‏، 1422ھ، ج1، ص50۔
  20. قاضی عبدالجبار، متشابہ القرآن، مکتبۃ دار التراث، ج1، ص105۔
  21. جمعی از مؤلفان، تفسیر قرآن (تاریخچہ، اصول، روش ہا)، 1388شمسی، ص90۔
  22. مؤدب، روشہای تفسیر قرآن، 1380شمسی، ص245-246۔
  23. طالقانی، پرتوی از قرآن، 1362شمسی، ج5، ص271-274۔
  24. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: بلخی، تفسیر مقاتل بن سلیمان، 1423ھ، ج4، ص633؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج31، ص96-97۔
  25. مؤدب، روشہای تفسیر قرآن، 1380شمسی، ص279۔
  26. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1373شمسی، ج4، ص92-133۔
  27. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار إحیاء التراث العربی، ج3، ص95؛ طبرسی، مجمع البیان، 1408ھ، ج2، ص918۔
  28. ذہبی، التفسیر والمفسرون، 1396ھ، ج1، ص97-98؛ جلالیان، تاریخ تفسیر قرآن کریم، 1378شمسی، ص68۔
  29. اسدی نسب، الـمناہج التفسیریۃ عند الشیعۃ والسنۃ، 1431ھ، ص31۔
  30. معرفت، التفسیر و المفسرون فی ثوبہ القشیب، 1418ھ، ج1، ص432۔
  31. جلالیان، تاریخ تفسیر قرآن کریم، 1378شمسی، ص102-103۔
  32. حیدری و فضایی، سیر تکاملی تاریخ قرآن و تفسیر، مؤلفین، ص322-325۔
  33. حیدری و فضایی، سیر تکاملی تاریخ قرآن و تفسیر، مولفین، ص286۔
  34. روحانی، تفسیر کلامی قرآن، 1370شمسی، ص172-173۔
  35. نفیسی، عقلگرایی در تفاسیر قرن چہاردہم، 1379شمسی، ص48-51۔
  36. نفیسی، عقلگرایی در تفاسیر قرن چہاردہم، 1379شمسی، ص85؛ اوسی، روش علامہ طباطبائی در تفسیر المیزان، 1381شمسی، 369-383؛ جمعی از مؤلفان، تفسیر قرآن (تاریخچہ، اصول، روش ہا)، 1388شمسی، ص77۔
  37. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1373شمسی، ج1، ص268-276؛ عراقی، نظریۃ النص علی الإمامۃ فی القرآن الکریم، 1428ھ، ص59۔
  38. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار إحیاء التراث العربی، ج3، ص559؛ صادقی تہرانی، الفرقان فی تفسیر القرآن بالقرآن و السنۃ، 1406ھ، ج9، ص44۔
  39. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1419ھ، ج7، ص193؛ شیبۃ، التفسیر الموجز و دروس من القرآن الکریم، 1435ھ، ج6، ص290۔
  40. قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسہ، 1412ھ، ص491؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1415ھ، ج8، ص113-118۔
  41. شہرستانی، الملل والنحل، دار المعرفہ، ج1، ص139۔
  42. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: قاضی عبدالجبار، متشابہ القرآن، مکتبۃ دار التراث، ج1، ص43 و ص98 و ص160۔
  43. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: قاضی عبدالجبار، متشابہ القرآن، مکتبۃ دار التراث، ج2، ص528 و ص585 و ص676؛ جبایی، تفسیر أبی علی الجبائی، 1428ھ، ص136 و ص464۔
  44. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج5، ص348 و ج8، ص313 و ج22، 161۔
  45. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1373شمسی، ج1، ص93-110 و ج7، ص318۔
  46. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج21، ص538۔
  47. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: جبایی، تفسیر أبی علی الجبائی، 1428ھ، ص
  48. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار إحیاء التراث العربی، ج1، ص432۔
  49. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج10، ص61۔
  50. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1373شمسی، ج1، ص95؛ قاضی عبدالجبار، متشابہ القرآن، مکتبۃ دار التراث، ج1، ص119-120۔
  51. رضایی اصفہانی، درس نامہ روش ہا و گرایش ہای تفسیری قرآن، 1382شمسی، ص433۔
  52. مؤدب، روشہای تفسیر قرآن، 1380شمسی، ص248۔
  53. رضایی اصفہانی، درس نامہ روش ہا و گرایش ہای تفسیری قرآن، 1382شمسی، ص433؛ علوی مہر، روش ہا و گرایش ہای تفسیری، 1381شمسی، ص249۔
  54. مؤدب، روشہای تفسیر قرآن، 1380شمسی، ص248۔
  55. مؤدب، روشہای تفسیر قرآن، 1380شمسی، ص249۔
  56. مؤدب، روشہای تفسیر قرآن، 1380شمسی، ص250-251۔
  57. مؤدب، روشہای تفسیر قرآن، 1380شمسی، ص251-252۔
  58. جمعی از مؤلفان، تفسیر قرآن (تاریخچہ، اصول، روش ہا)، 1388شمسی، ص77۔
  59. مؤدب، روشہای تفسیر قرآن، 1380شمسی، ص252۔
  60. روحانی، تفسیر کلامی قرآن، 1370شمسی، شناسنامہ کتاب۔
  61. روحانی، تفسیر کلامی قرآن، 1370شمسی، ص3۔

مآخذ

  • ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغہ، بیروت، اعلمی، 1415ھ۔
  • ابن سینا، حسین بن عبداللہ، الرسائل فی الحکمۃ و الطبیعیات، قاہرۃ، دار العرب، بی تا.
  • ابن عربی، محی الدین بن علی، تفسیر ابن عربى‏، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1422ھ۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1419ھ۔
  • اسدی نسب، محمد علی، المناہج التفسیریۃ عند الشیعۃ والسنۃ، تہران، المجمع العالمی للتقریب بین المذاہب الاسلامیۃ، 1431ھ۔
  • اوسی، علی رمضان، روش علامہ طباطبائی در تفسیر المیزان، ترجمہ حسین میرجلیلی، تہران، سازمان تبلیغات اسلامی. شركت چاپ و نشر بین الملل، 1381ہجری شمسی۔
  • بلخی، مقاتل بن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان‏، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1423ھ۔
  • جبایی، محمد بن عبد الوہاب، تفسیر أبی علی الجبائی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1428ھ۔
  • جلالیان، حبیب اللہ، تاریخ تفسیر قرآن کریم، تہران، اسوہ، 1378ہجری شمسی۔
  • جمعی از مؤلفان، تفسیر قرآن (تاریخچہ، اصول، روش ہا)، تہران، کتاب مرجع، 1388ہجری شمسی۔
  • حیدری، محمد، و یوسف فضایی، سیر تکاملی تاریخ قرآن و تفسیر، تہران، مؤلفین، بی تا.
  • ذہبی، محمدحسین، التفسیر و المفسرون، قاہرۃ، دار الکتب الحدیثۃ، 1396ھ۔
  • رضایی اصفہانی، محمد علی، درس نامہ روش ہا و گرایش ہای تفسیری قرآن، قم، مرکز جہانی علوم اسلامی، 1382ہجری شمسی۔
  • روحانی، محمد حسین، تفسیر کلامی قرآن، تہران، توس، 1370ہجری شمسی۔
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف، بیروت، دار الکتب العربی، 1407ھ۔
  • شہرستانی، محمد بن عبد الکریم، الملل و النحل، بیروت، دار المعرفہ، 1415ھ۔
  • شیبۃ، محمد بن شامی، التفسیر الموجز و دروس من القرآن الکریم، بی جا، بی نا، 1435ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بی تا.
  • صادقی تہرانی، محمد، الفرقان فی تفسیر القرآن بالقرآن و السنۃ، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1406ھ۔
  • طالقانی، محمود، پرتوی از قرآن، تہران، شرکت سہامی انتشار، 1362ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، اسماعیلیان، 1373ہجری شمسی۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، بیروت، دار المعرفۃ، 1408ھ۔
  • عراقی، محسن، نظریۃ النص علی الإمامۃ فی القرآن الکریم، قم، المجمع العالمی لاہل البیت (علیہم السلام)، 1428ھ۔
  • علوی مہر، حسین، روش ہا و گرایش ہای تفسیری، قم، اسوہ، 1381ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1420ھ۔
  • قاضی عبد الجبار، عبد الجبار بن احمد، شرح الاصول الخمسہ، بہ کوشش سمیر مصطفی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1412ھ۔
  • قاضی عبد الجبار، عبد الجبار بن احمد، متشابہ القرآن، قاہرۃ، مکتبۃ دار التراث، بی تا.
  • کریمی نیا، محمد مہدی، «روش شناسى تفسیر فقہى»، مجلہ قرآن و علم، سال 6، شمارہ 11، پاییز و زمستان 1391ہجری شمسی۔
  • مؤدب، رضا، روشہای تفسیر قرآن، قم، دانشگاہ قم-انتشارات اشراق، 1380ہجری شمسی۔
  • معرفت، محمد ہادی، التفسیر و المفسرون فی ثوبہ القشیب، مشہد، الجامعۃ الرضویۃ للعلوم الإسلامیۃ، 1418ھ۔
  • نفیسی، شادی، عقلگرایی در تفاسیر قرن چہاردہم، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، 1379ہجری شمسی۔