تفسیر ادبی
| اہم تفاسیر | |
|---|---|
| شیعہ تفاسیر | تفسیرابوالجارود150-160ھ. • تفسیر قمی 307ھ • تفسیر عیاشی 320ھ • تفسیر تبیان 460ھ • تفسیر مجمع البیان 548ھ • جوامع الجامع 548ھ • تفسیر الصافی 1091ھ • تفسیر المیزان 1402ھ |
| سنی تفاسیر | تفسیر طبری 310ھ • تفسیر ابن عطیہ 541ھ • تفسیر قرطبی 671ھ • تفسیر ابن کثیر 774ھ • تفسیر جلالین 864/911ھ |
| تفسیری رجحان | |
| تقابلی تفسیر • علمی تفسیر • عصری تفسیر • تاریخی تفسیر • فلسفی تفسیر • کلامی تفسیر • عرفانی تفسیر • ادبی تفسیر • فقہی تفسیر | |
| تفسیری روشیں | |
| تفسیر قرآن بہ قرآن • تفسیر روایی • تفسیر عقلی • تفسیر اجتہادی | |
| اقسام تفسیر | |
| ترتیبی تفسیر • موضوعی تفسیر | |
| اصطلاحات علم تفسیر | |
| اسباب نزول • ناسخ و منسوخ • محکم و متشابہ • تحدی • اعجاز قرآن • جری | |
ادبی تفسیر ایک ایسا طریقہ ہے جس میں قرآن کی آیات کو عربی زبان کے ادبی علوم کے ذریعے سمجھایا جاتا ہے، جیسے صَرف، نحو، بلاغت اور الفاظ شناسی۔ ادبی تفسیر کی شاخوں میں لغوی، نحوی اور بلاغی تفسیر شامل ہیں، جو آیات کے معنی کو زیادہ دقیق انداز سے جاننے میں مدد دیتی ہیں۔ شیعہ اماموں نے بھی قرآن کی تفسیر میں اس طریقہ کار کو استعمال کیا ہے۔
ادبی تفسیر کی ابتداء اسلام کے اوائل سے ہوئی اور لغت، نحو و بلاغت کے تخصصی کتب کی تدوین کے ساتھ یہ منظم اور وسیع پیمانے پر ترقی پزیر ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ ادبی تفسیر چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں اپنے عروج کو پہنچی، اور چودہویں صدی ہجری میں موضوعی اور علمی نقطہ نظر کے تحت دوبارہ اس کی تجدید ہوئی۔
ادبی تفسیر پر کچھ نقد بھی کی گئی ہیں: مثلاً واضح قواعد کا فقدان، مختلف معانی کو تحقیق و تنقید کے بغیر بیان کرنا، غلط تأویلات کا افراطی طور پر استعمال اور بغیر کسی ترجیح کے متعدّد معانی پیش کرنا جو آیتوں کو سمجھنے میں پیچیدگی بنا سکتے ہیں۔
مفہوم شناسی اور مقام
ادبی تفسیرِ قرآن سے مراد آیت کی تفسیر عربی ادب کے علوم کی مدد سے بیان کرنا، قرآن کے مشکل الفاظ کے معنی بیان کرنا اور مختلف قرآنی قرائتوں کی تحقیق کرنا ہے۔[1] عربی ادبیات کے علوم میں علمِ صَرف، نحو، بلاغت، اور لغت شامل ہیں۔[2]
کہا جاتا ہے کہ تفسیر قرآن کی سب سے بنیادی بنیاد، ادبی تفسیر ہے؛ اس طرح سے کہ تمام تفاسیر کی اقسام؛ جیسے تفسیر کلامی، فقہی، عرفانی وغیرہ، اس پر منحصر ہیں۔[3] ادبی تفسیر کو بعض مواقع پر روایی تفسیر کے برعکس سمجھا جاتا ہے۔[4] یہ تفسیر اجتہادی تفاسیر میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔[5]
تاریخی پسِ منظر
ادبی تفسیر کو قرآن کی قدیم ترین اور اصلی ترین تفسیری طریقہ سمجھا جاتا ہے،[6] اور طولِ تاریخ میں اس میں بڑے تحول آے ہیں۔ اس کا آغاز لغوی پراکندہ اور بکھری ہوئی کوششوں سے ہوئی اور بعد میں لغت، نحو، اِعراب، قراءت، معانی قرآن، اور قرآن کے اعجازِ ادبی کے موضوعات پر مخصوص کتب تدوین ہوئیں، اور آخر کار مختلف شعبوں میں ادبی جامع تفاسیر وجود میں آئیں۔[7]
قرآن کی ادبی تفسیر کی گرائش اور رجحان غالباً دوسری صدی ہجری کے اواخر میں شروع ہوا ہے۔ اس دور کے نمایاں مصنّفات میں مُعَمّر بن مُثنی (ابوعُبَیدہ) کی تالیف "مجاز القرآن"، اور فَرّاء کی کتاب "معانی القرآن" شامل ہیں۔[8] چوتھی صدی ہجری میں معتزلہ متکلمین کی طرف سے ادبی مطالعے پھیل گئے اور تفسیر "النُّکت فی اِعجاز القرآن" اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔[9] کہا گیا ہے کہ پانچویں صدی ہجری میں زَمَخشَری معتزلی کی "حَقائق غَوامِضِ التَّنزیل" کے ذریعے ادبی تفسیر اپنے عروج کو پہنچی۔[10]
چودہویں صدی ہجری میں اہل سنت کے تین عالم دین محمد عَبدُہ، ان کے شاگرد طہ حسین اور ان کے بعد امین الخولی نے ادبی تفسیر کو دوبارہ اجاگر کیا۔[11] امین الخولی نے پہلی بار ادبی تفسیر کے لیے منظم اسلوب پیش کیا۔[12]
ادبی تفسیر کی اقسام
ادبی تفاسیر عربی ادبی علوم کے مطابق مختلف اقسام میں تقسیم ہوئی ہیں:[13]
تفسیر لغوی
قرآن کی لغوی تفسیر سے مراد قرآن کے مشکل یا نامانوس الفاظ کی تشریح اور توضیح دینا ہے۔[14] اس حوالے سے سب سے پہلی کتاب امام محمد باقرؑ اور امام صادقؑ کے شاگرد ابان بن تغلّب نے لکھی تھی۔ یہ کتاب آج کل دسترس میں نہیں ہے اور ضائع ہوچکی ہے۔[15] اس کے بعد ابوعُبَیدہ مُعمّر بن مُثنّی (متوفی 210ھ) کی لکھی ہوئی کتاب "مجاز القرآن" اس زمینے کی اہم ترین کتاب ہے۔ اسے کبھی "غریب القرآن" سے بھی یاد کیا جاتا ہے جس کی تالیف سنہ 188ھ میں شروع ہوئی تھی۔[16]
کہا جاتا ہے کہ قرآن کے الفاظ کی تشریح اور وضاحت کا علم پانچویں صدی ہجری کے آغاز میں راغب اصفہانی (متوفی 425ھ) کے ذریعے اس وقت عروج کو پہنچا،[17] جب انہوں نے اپنی مشہور و معروف کتاب "مُفرداتُ ألفاظِ القرآن" تحریر کی۔ اس موضوع پر لکھی جانے ولی مشہور کتابوں میں ابنِ قُتَیبہ کی "غریب القرآن" اور ابنِ عزیز سَجِستانی (متوفی 330ھ) کی "غریب القرآن" شامل ہیں ان کی تألیف میں تقریبا 15 سال لگے۔[18]
نحوی تفسیر
علم نحو عربی زبان میں کلام کے معنی جاننے اور متکلم کے مقصود کو سمجھنے کے لیے ایک بنیادی مقدمہ ہے[19] اور اسے قرآنی مفسرین کی اہم ترین ضروریات میں شمار کیا گیا ہے۔[20] نحوی تفسیر میں دو طرح کے بنیادی منابع پائے جاتے ہیں:
- کتبِ "معانی القرآن": دوسری صدی ہجری کے دوسرے نصف میں، قرآن کی تفسیر کے میدان میں "معانی القرآن" کے نام سے کچھ کتابیں لکھی گئیں، جو پانچویں صدی تک جاری رہیں۔ ان کتابوں میں ادبی علوم کی بنیاد پر قرآن کے معانی کو سمجھنے کی کوشش کی گئی، اور یہ بعد کے دور کی تفاسیرِ ادبی کے اہم مآخذ شمار ہوتی ہیں۔[21] ان میں سب سے پہلی کتاب شیعہ نحوی اور قاری اَبان بن تَغلب (متوفی 141ھ) کی تصنیف "معانی القرآن" ہے۔[22] ابنِ ندیم نے اس موضوع پر 25 کتابوں کا ذکر کیا ہے۔[23]
- کتبِ "اعراب القرآن": یہ کتابیں بھی "معانی القرآن" جیسی ہی ہیں، لیکن ان کا محور قرآن کے الفاظ کا نحوی، صرفی اور اعرابی پہلو، مختلف قراءتوں کا نحوی و صرفی اعتبار سے تجزیہ اور بعض اوقات مشکل الفاظ کے معانی اور بلاغت اور بیان کے نکات بیان کرنا ہے، البتہ ان کتابوں میں زیادہ زور نحوی تجزیے اور مشکل و پیچیدہ آیتوں کے اعراب کی وضاحت پر دیا گیا ہے اور ساتھ ہی اعراب کی مختلف صورتوں اور امکانات کو دوسرے مباحث پر غلبہ دیا گیا ہے۔[24]
بلاغی تفسیر
علم بلاغت، جو کہ علم معانی و بیان پر مشتمل ہے، قرآن کی آیات کے معانی کو سمجھنے میں ایک اہم اور مؤثر کردار ادا کرتا ہے[25] اور کہا جاتا ہے کہ اس علم کی مدد سے قرآن کی باریک بینیوں اور اسرار و رموز کو دریافت کیا جا سکتا ہے۔[26] اسی بنیاد پر، مسلمان مفسرین ادوات، حروف، جملوں کی ساخت اور اسلوب؛ جیسے کنایہ، استعارہ، تشبیہ، تمثیل، مجاز، تقدیم و تأخیر وغیرہ کا سہارا لے کر آیات کی تفسیر کرتے ہیں۔[27]
تیسری صدی ہجری میں، قرآن کے بیان کے اسرار اور اس کی نادر و بدیع نظم کے حوالے سے مختلف کوششیں کی گئیں اور چوتھی صدی ہجری میں ایک خود مستقل علم "اِعجاز القرآن" کی شکل اختیار کر گیا۔[28] اس موضوع پر قدیم ترین کتاب ابوعبیدہ** (متوفی 210ھ) کی "مجاز القرآن" ہے، جو بعد کی لغوی اور ادبی تحقیقات کے لیے ایک اہم ماخذ ہے۔[29] اس کے ساتھ ساتھ فرّاء (متوفی 207ھ) کی تصنیف "معانی القرآن" ہے جو اس کی تکمیل سمجھا جاتا ہے۔[30] تیسری صدی ہجری میں جاحظ (متوفی 250ھ) نے بلاغتِ قرآن پر وسیع تحقیق کی اور "نَظمُ القرآن" جیسی کتابیں تصنیف کیں۔[31]
چوتھی صدی ہجری میں "اعجاز القرآن" کے عنوان سے کئی کتابیں لکھی گئیں، جن میں محمد بن یزید واسطی** (متوفی 307ھ) کی" اعجاز القرآن"، علی بن عیسی رُمّانی (متوفی 386ھ) کی "النُّکتُ فی اِعجاز القرآن" اور باقلانی (متوفی 403ھ) کی"اعجاز القرآن" شامل ہیں۔[32] پانچویں صدی ہجری میں عبدالقاہر جرجانی (متوفی 471ھ) نے قرآن کے بیانی اور نظم کے اعجاز کے بارے میں "دلائل الاعجاز" اور قرآن کی بیانی صورتوں کے بارے میں "اَسرارُ البلاغۃ" جیسی دو اہم تصانیف لکھیں اور علم معانی و بیان کے دو اہم شعبوں کی بنیاد رکھی۔[33] زَمَخشَری نے اپنی تفسیر الکشاف میں انہی دو کتابوں کے اصولوں کو اپنے کام میں شامل کیا۔[34]
شیعہ اماموں کا تفسیر قرآن میں نظریہ
شیعہ اماموں نے قرآنی آیات کے معانی سمجھنے کے لئے نہ صرف عربی زبان سیکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے[35] بلکہ کئی مواقع پر قرآنی آیات کی تفسیر میں ادبی تفسیر کا استعمال بھی کیا ہے۔ خاص طور پر لغوی معنی کی وضاحت، یا صرفی، نحوی اور بلاغی اصولوں پر اعتماد کیا ہے۔[36] انہوں نے اصلی مفسرینِ قرآن کے عنوان سے[37] مختلف تفسیری روشوں، بالخصوص ادبی تفسیر سے فائدہ اٹھایا ہے[38] جس کی بعض مثالیں درج ذیل ہیں:
- تفسیر لغوی: امام رضا علیہ السلام نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 7 میں لفظ "ختم" کو کافروں کے دل پر مہر لگنے کے معنی میں لیا ہے[39] اور امام صادق علیہ السلام نے سورہ اسراء کی آیت 31 میں لفظ "املاق" کو "غربت و فقر" کے معنی میں تفسیر کیا ہے۔[40]
- تفسیر نحوی: امام رضا علیہ السلام نے سورہ یوسف کی آیت نمبر 24 میں بعض مفسرین کے برخلاف "ہَمَّ بہا" کی عبارت کو "بِقتلہا" تقدیر میں لے کر ذولیخا کی نامشروع خواہش پر حضرت یوسفؑ کا ذولیخا قتل کرنے کا ارادہ کرنے کے معنی میں تفسیر کیا ہے اور حضرت یوسفؑ کو گناہ کی طرف رغبت سے پاک کیا ہے۔[41]
- تفسیر بلاغی: سورہ توبہ کی آیت نمبر 43 میں، جہاں اللہ تعالیٰ نبی اکرمؐ کو تنبیہ کرتا ہے کہ انہوں نے کچھ لوگوں کو جنگ سے کنارہ کشی کی اجازت کیوں دی ہے۔ امام رضا علیہ السلام نے اس آیت کو ان لوگوں کے بارے میں کنایہ سمجھا ہے جو جنگ میں رسول اللہؐ کی ہمراہی سے انکار کرتے تھے۔ اور اس آیت کا اصلی مخاطب انہی لوگوں کو قرار دیا ہے۔[42]
معاصر ادبی تفسیر کا نیا طریقہ کار
معاصر دور کی ادبی تفسیر میں قرآن کو ایک ادبی متنِ واحد تصور کیا جاتا ہے، اور مفسر ادبیاتِ عرب اور متعلقہ علوم کی بنیاد پر قرآن مجید کی تفسیر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔[43] اس طرح کی تفسیر کی سب سے اہم خصوصیت اس کا منظم طریقہ کار کا ہونا ہے۔[44]
اہل سنت مفسرِ قرآن محمد عبدہ نے قرآن سمجھنے میں ادبی طریقہ کار کو دوبارہ زندہ کیا اور ان کے شاگرد طہ حسین نے ادبی تفسیر اور تجزیے کو کچھ مزید ترقی دی اور مصری اہل سنت محققِ قرآن امین الخولی نے اس کو ایک تفسیری مکتب کی شکل دی۔[45] یہ طرزِ تفسیر سلفی روایتی روایات پر مبنی تفاسیر اور صوفی متعارف کردہ باطنی تفاسیر کے مقابلے میں دیکھا گیا ہے۔[46]
ادبی تفسیرِ معاصر کے اجزاء و اصول
اہل سنت ادیب اور قرآنی محقق امین الخولی (متوفی: 1966ء) کی نظر میں قرآن عربی زبان کا سب سے بڑا ادبی متن ہے، اور ادبی تفسیر کا لازمہ یہ ہے کہ نزول کا تاریخی پسِ منظر اور ماحول دیکھا جائے۔[47]مصر کے قرآنی محقق بنت الشاطی (متوفی: 1998ء) نے ادبی تفسیر کے لئے کچھ اصول اور ضوابط ذکر کئے ہیں؛ ان میں قرآن کو موضوعی اور نزول کی ترتیب کے مطابق تفسیر کرنا، عصرِ نزول کے لوگوں کی سمجھ کے مطابق الفاظ کی تفسیر کرنا، ایک جیسے معنی کے الفاظ کا مترادف تفسیر کرنے سے اجتناب، قرآنی آیات کو نحوی اور ادبی قواعد اولویت دینا، آیات کی سماجی اور نفسیاتی طور پر تحلیل کرنا، ان چیزوں کے بیان سے اجتناب کرنا جنہیں آیت نے بیان نہیں کیا ہے،[48] آیات کی دلالت کو ان کے سیاق و سباق تک محدود کرنا اور معنی کی مختلف صورتیں بیان کرنے سے اجتناب کرنا، شامل ہیں۔[49]
قرآن کی معاصر ادبی تفسیر کے لیے کچھ دیگر خصوصیات اور رویّے (رویکرد) بھی بیان کیے گئے ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
- تفسیری احادیث کو ترک کرنا اور ان کو قرآن کی تفسیر میں شامل نہ کرنا، البتہ اسبابِ نزول اور اس جیسی روایات سے استفادہ کرنا؛
- تفسیر میں اسرائیلیات کے داخل ہونے سے سختی سے روکنا؛
- آیات کی تاویل، خاص طور پر نحوی تاویلات، کو کم سے کم کرنا؛
- قرآن کے ان امور میں داخل نہ ہونا جنہیں خود قرآن نے مبہم بیان کیا ہے اور تفصیل نہیں دیا ہے؛
- غیبی امور میں داخل نہ ہونا، جو صرف صحیح احادیث سے ہی معلوم ہو سکتے ہیں، نیز قیامت کے دن کے تفصیلی امور جیسے مسائل سے اجتناب؛
- قرآنی قصّوں کی تفسیر میں خرافات اور غیر حقیقی باتوں کے اثر اور نفوذ کو روکنا؛
- تفسیر کو فلسفہ، علم کلام اور دیگر علوم کی اصطلاحات سے دور رکھنا؛
- قرآن کی آیات کے سماجی پہلوؤں پر توجہ دینا، کائنات اور معاشرے پر جاری سنّتوں کا تجزیہ کرنا، انسانی معاشروں کے مسائل پر غور کرنا اور ان کے قرآنی حل بیان کرنا؛
- عقل کو میدان دینا اور قرآنی آیات میں غور و فکر کے لئے عقل کو زمینہ فراہم کرنا اور آزادی کو وسعت دینا۔[50]
مشہور تألیفات
معاصر ادبی تفسیر کے میدان میں متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے اکثر تفسیر موضوعی کی صورت میں ہیں[51] امین الخولی کا "مِن ہُدی القرآن" کے نام سے لکھا گیا مجموعہ، شُکری محمد عَیّاد کی لکھی ہوئی کتاب "مِن وصف القرآن لیوم الدین والحساب"، بنت الشاطی کی لکھی ہوئی تین کتابیں؛ "التفسیرُ البیانی"، "الاعجاز البیانی" اور" القرآن و قضایا الانسان"، محمد احمد خلَف اللہ کی لکھی ہوئی دو کتابیں؛ "الفنُّ القصصی فی القرآن الکریم" اور "الاُسس القرآنیة للتقدم والجَدَل فی القرآن" اور مہدی عَلّام کی لکھی ہوئی کتاب" العفوُ فی القرآن" ان تفاسیر میں شامل ہیں۔[52]
ادبی تفاسیر

ادبی تفسیر کو مختلف شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جیسے: تفسیر لغوی (الفاظ و لغات کی وضاحت)، تفسیر نحوی، تفسیر بلاغی اور جامع ادبی تفسیری کتب۔[53]درایتی-اجتہادی جامع تفاسیر کو چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں فروغ ملا، جن کا ایک نمایاں اور اہم پہلو، آیاتِ قرآن کی تفسیر میں ادبیاتی علوم پر زور دینا تھا۔ اس سلسلے میں دو مشہور جامع تفسیری کتب شیخ طوسی (وفات: 460ھ) کی "التبیان" اور فضل بن حسن طبرسی (وفات: 548ھ)کیمجمع البیان ہیں۔[54] بعض دوسری تفاسیر جو ادبی اعتبار سے مشہور ہیں وہ درج ذیل ہیں:
- الکَشّافُ عَن غَوامِضِ التَّنزیلِ وعُیونِ الاَقاویلِ فی وُجوہِ التَّأویلِ: یہ کتاب اہل سنت معتزلی عالم دین زمخشری (متوفی: 538ھ) کی لکھی ہوئی ہے جو ادبی تفاسیر میں سب سے کامل اور جامع سمجھی جاتی ہے۔[55]
- المُحَرَّرُ الوَجیزُ فی تفسیر الکتابِ العزیزِ: یہ کتاب اہل سنت مالکی مذہب کے فقیہ اور مفسر ابن عطیہ اَندُلُسی (متوفی 546ھ) نے لکھی ہے جس میں ادبی مباحث کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف قرائتوں کو ادبی پہلو سے بھی بیان کیا ہے۔[56]
- جَوامِعُ الجامِع: یہ کتاب فضل بن حسن طبرسی (متوفی 548ھ) کی تألیف ہے جس میں تفسیر الکشاف کی طرح علم لغت، نحو، صرف، اِعراب اور بلاغت کو بیان کیا ہے۔[57]
- البَحرُ المحیطُ فی تفسیر القرآنِ الکریمِ: یہ کتاب ابو حیان محمد بن یوسف بن نَحوی اَندلسی غَرناطی (متوفی 754ھ) کی لکھی ہوئی ہے جسے ادبی نکات پر مشتمل جامع تفسیر قرار دیا گیا ہے۔[58]
قرآنی محققین نے جن تفسیروں کو ادبی تفاسیر سے یاد کیا ہے درج ذیل ہیں: [59]
| نمبر شمار | نام کتاب | مؤلف | نوعیت | مذہب | تاریخ |
|---|---|---|---|---|---|
| 1 | التبیان فی تفسیر القرآن | شیخ طوسی | تفسیر جامع | شیعہ | 5ویں صدی ہجری |
| 2 | مجمع البیان | فضل بن حسن طبرسی | تفسیر جامع | شیعہ | چھٹی صدی ہجری |
| 3 | الکشاف عن غوامض التنزیل | زمخشری | تفسیر جامع | اہل سنت | چھٹی صدی ہجری |
| 4 | المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز | ابن عطیہ اندلسی | تفسیر جامع | اہل سنت | چھٹی صدی ہجری |
| 5 | جوامع الجامع | فضل بن حسن طبرسی | تفسیر جامع | شیعہ | چھٹی صدی ہجری |
| 6 | البحر المحیط فی تفسیر القرآن الکریم | محمد اندلسی غرناطی | تفسیر جامع | اہل سنت | 8ویں صدی ہجری |
| 7 | انوار التنزیل وأسرار التأویل | عبداللہ بن عمَر بیضاوی | تفسیر جامع | اہل سنت | 8ویں صدی ہجری |
| 8 | تفسیر غریب القرآن | منسوب بہ زید بن علی | تفسیر لغوی | شیعہ | دوسری صدی ہجری |
| 9 | مجاز القرآن | ابوعبیدہ معمر بن مثنی | تفسیر لغوی-بلاغی | اہل سنت | دوسری صدی ہجری |
| 10 | تفسیر غریب القرآن | فراء | تفسیر لغوی-نحوی-بلاغی | اہل سنت | دوسری صدی ہجری |
| 11 | تفسیر غریب القرآن | ابوبکر سجستانی | تفسیر لغوی | اہل سنت | تیسری صدی ہجری |
| 12 | تفسیر غریب القرآن | ابن قتیبہ دینوری | تفسیر لغوی | اہل سنت | تیسری صدی ہجری |
| 13 | مفردات الفاظ القرآن | راغب اصفہانی | تفسیر لغوی | اختلافی | 5ویں صدی ہجری |
| 14 | تفسیر الوجوہ والنظائر | حسین بن محمد دامغانی | تفسیر لغوی | اہل سنت | 8ویں صدی ہجری |
| 15 | تفسیر مبہمات القرآن | محمد بن علی بلنسی | تفسیر لغوی | اہل سنت | 8ویں صدی ہجری |
| 16 | التحقیق فی کلمات القرآن الکریم | حسن مصطفوی | تفسیر لغوی | شیعہ | 15ویں صدی ہجری |
| 17 | معانی القرآن | اخفش | تفسیر نحوی | اہل سنت | دوسری صدی ہجری |
| 18 | معانی القرآن وإعرابہ | زجاج | تفسیر نحوی | اہل سنت | چوتھی صدی ہجری |
| 19 | معانی القرآن | نحاس | تفسیر نحوی | اہل سنت | چوتھی صدی ہجری |
| 20 | إعجاز القرآن | محمد بن زید واسطی | تفسیر بلاغی | اہل سنت | تیسری صدی ہجری |
| 21 | النکت فی إعجاز القرآن | علی بن عیسی رمانی | تفسیر بلاغی | اہل سنت | چوتھی صدی ہجری |
| 22 | إعجاز القرآن | باقلانی | تفسیر بلاغی | اہل سنت | چوتھی صدی ہجری |
انتقادات
کہا گیا ہے کہ ادبی تفسیر اگرچہ قرآن کی آیات کے حقیقی مقاصد کو دریافت کرنے میں ایک خاص کردار رکھتی ہےلیکن اس میں بعض کمزوریاں بھی پائی جاتی ہیں۔ ان میں سب سے اہم: واضح منصوبہ بندی اور شفاف اصولوں کا فقدان،[60] قرآن کی مختلف قراءتوں، خاص طور پر غیر معتبر قراءتوں کو حد سے زیادہ بیان کرنا، ہیں۔[61] تفسیر ادبی پر بعض دوسرے انتقادات بھی ہوئے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
- کسی آیت یا عبارت کے مختلف اعرابی و ادبی احتمالات بیان کرنا، لیکن تنقیدی تجزیہ یا کسی صحیح رائے کا اظہار کئے بغیر؛[62]
- کسی لفظ کے مختلف معانی میں کسی ایک کو باقیوں پر ترجیح دئے بغیر سب کو بیان کرنا؛[63]
- آیات میں غلط تأویلوں کے ذریعے ادبی تاویل میں افراط کرنا، اور بعض الفاظ کو اضافی اور غیر ضروری قرار دینا، مثلاً سورہ انسان آیت نمبر 17 اور سورہ مریم آیت نمبر 29 میں "کَانَ" کو زائد قرار دینا۔[64]
- غیر مناسب جگہوں پر تقدیر میں کچھ لینا، مثلاً سورہ بقرہ کی آیت 35 میں لفظ "لِتُسکِن" کو تقدیر میں رکھنا۔[65]
حوالہ جات
- ↑ طیب حسینی، «روش تفسیر ادبی»، 806؛ احمد ناصح، «تفسیر لغوی و ادبی قرآن از منظر روایات معصومان(ع)»، ص179۔
- ↑ طیب حسینی، «روش تفسیر ادبی»، 806؛ احمد ناصح، «تفسیر لغوی و ادبی قرآن از منظر روایات معصومان(ع)»، ص179۔
- ↑ طیب حسینی، «آسیب شناسی روش تفسیر ادبی»، ص32۔
- ↑ طیب حسینی، «آسیب شناسی روش تفسیر ادبی»، ص32۔
- ↑ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1388شمسی، ج10، ص287؛ حسینی زادہ و علوی مہر، «تفسیر اجتہادی»، ص132۔
- ↑ طیب حسینی، «آسیب شناسی روش تفسیر ادبی»، ص29۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص154۔
- ↑ طیب حسینی، «روش تفسیر ادبی»، 805۔
- ↑ طیب حسینی، «روش تفسیر ادبی»، 805۔
- ↑ طیب حسینی، «روش تفسیر ادبی»، 805۔
- ↑ طیب حسینی، «روش تفسیر ادبی»، 805۔
- ↑ طیب حسینی، «روش تفسیر ادبی»، 805۔
- ↑ جمعی از نویسندگان، تفسیر قرآن، 1388شمسی، ص49۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص144۔
- ↑ جمعی از نویسندگان، تفسیر قرآن، 1388شمسی، ص52؛ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص145۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص145۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص144۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص145۔
- ↑ سیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، 1421ھ، ج1، ص543۔
- ↑ حجار، الاسس المنہجیہ، 1433ھ، ص221۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص146۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص146۔
- ↑ ابن ندیم، الفہرست، تحقیق ابراہیم رمضان، 1417ھ، ص53-54۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص147۔
- ↑ حجار، الاسس المنہجیہ، 1433ھ، ص276۔
- ↑ حجار، الاسس المنہجیہ، 1433ھ، ص276۔
- ↑ مؤدب، روش ہای تفسیر قرآن، 1380شمسی، ص221؛ حجار، الاسس المنہجیہ، 1433ھ، ص280-300۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص147۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص147-148۔
- ↑ زغلول سلام، اثر القرآن الکریم فی تطور النقد العربی، دارالمعارف، ص48۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص148۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص149۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص150۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص150۔
- ↑ مؤدب، روش ہای تفسیر قرآن، 1380شمسی، ص215۔
- ↑ احمد ناصح، «تفسیر لغوی و ادبی قرآن از منظر روایات معصومان(ع)»، ص179۔
- ↑ بابائی و طیب حسینی، «درآمدی بر رویکرد بلاغی معصومان در تفسیر قرآن»، ص67۔
- ↑ معرفت، تفسیر و مفسران، 1379شمسی، ج2، ص446-447۔
- ↑ احمد ناصح، «تفسیر لغوی و ادبی قرآن از منظر روایات معصومان(ع)»، ص181۔
- ↑ احمد ناصح، «تفسیر لغوی و ادبی قرآن از منظر روایات معصومان(ع)»، ص181۔
- ↑ بابائی و طیب حسینی، «درآمدی بر رویکرد بلاغی معصومان در تفسیر قرآن»، ص76-77۔
- ↑ بابائی و طیب حسینی، «درآمدی بر رویکرد بلاغی معصومان در تفسیر قرآن»، ص86۔
- ↑ طیب حسینی، «تأملاتی در گرایش تفسیر ادبی معاصر»، ص149۔
- ↑ طیب حسینی، «تأملاتی در گرایش تفسیر ادبی معاصر»، ص149۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص155۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص158-159۔
- ↑ ویلانت، «تفسیر قرآن در دورہ جدید و معاصر»، ص100۔
- ↑ طیب حسینی، «روش تفسیر ادبی»، 807۔
- ↑ طیب حسینی، «تأملاتی در گرایش تفسیر ادبی معاصر»، ص156۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص159۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص159۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص160۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص144-150۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص150۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص150۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص150۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص152۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص152۔
- ↑ رضایی اصفہانی، درسنامہ روش ہا و گرایش ہای تفسیری قرآن، 1382شمسی، ص453-455؛ جمعی از نویسندگان، تفسیر قرآن، 1388شمسی، ص57-61؛ مؤدب، روش ہای تفسیر قرآن، 1380شمسی، ص216-232؛ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص144-154۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص154۔
- ↑ طیب حسینی، «تفسیر ادبی»، ص154۔
- ↑ طیب حسینی، «آسیب شناسی روش تفسیر ادبی»، ص33۔
- ↑ طیب حسینی، «آسیب شناسی روش تفسیر ادبی»، ص34-35۔
- ↑ طیب حسینی، «آسیب شناسی روش تفسیر ادبی»، ص37۔
- ↑ طیب حسینی، «آسیب شناسی روش تفسیر ادبی»، ص38-39۔
مآخذ
- ابن ندیم، محمد بن اسحاق، الفہرست، تحقیق ابراہیم رمضان، بیروت، دارالمعرفہ، چاپ دوم، 1417ھ۔
- احمد ناصح، علی، «تفسیر لغوی و ادبی قرآن از منظر روایات معصومان(ع)»، در فصلنامہ پژوہش ہای ادبی قرآن، سال1، دورہ1، خرداد 1392ہجری شمسی۔
- بابائی، علیرضا، و سید محمود طیب حسینی، «درآمدی بر رویکرد بلاغی معصومان در تفسیر قرآن»، در مجلہ حدیث حوزہ، سال1، شمارہ1، خرداد 1399ہجری شمسی۔
- جمعی از نویسندگان، تفسیر قرآن، تہران، کتاب مرجع، 1388ہجری شمسی۔
- حجار، عدی، الأسس المنہجیة فی تفسیر النص القرآنی، کربلا، العتبة الحسینیة المقدسہ، 1433ھ۔
- حسینی زادہ، سید عبدالرسول، و حسین علوی مہر، «تفسیر اجتہادی»، دائرةالمعارف قرآن کریم، ج8، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، 1392ہجری شمسی۔
- رضایی اصفہانی، محمدعلی، درسنامہ روش ہا و گرایش ہای تفسیری قرآن، قم، مرکز جہانی علوم اسلامی، 1382ہجری شمسی۔
- زغلول سلام، محمد، اثر القرآن فی تطور النقد العربی، قاہرہ، دارالمعارف، بی تا.
- سیوطی، عبدالرحمن بن ابی بکر، الإتقان فی علوم القرآن، تحقیق فواز احمد زمرلی، بیروت، دار الکتب العربی، 1421ھ۔
- طیب حسینی، سید محمود، «روش تفسیر ادبی»، در ہمایش ملی قرآن پژوہی پیشرفت و روش شناسی تفسیری (مجموعہ مقالات ہمایش ملی قرآن پژوہی).
- طیب حسینی، سید محمود، «تأملاتی در گرایش تفسیر ادبی معاصر»، قرآن شناخت، سال دوم، شمارہ دوم، پاییز و زمستان 1388ہجری شمسی۔
- طیب حسینی، سید محمود، «آسیب شناسی روش تفسیر ادبی»، فصلنامہ مشکاة، شمارہ2، تابستان 1389ہجری شمسی۔
- طیب حسینی، سید محمود، «تفسیر ادبی»، دایرة المعارف قرآن کریم، ج8، قم، بوستان کتاب، چاپ دوم، 1392ہجری شمسی۔
- مؤدب، رضا، روش ہای تفسیر قرآن، قم، انتشارات اشراق، 1380ہجری شمسی۔
- معرفت، محمد ہادی، التمہید فی علوم القرآن، قم، مؤسسہ فرہنگی انتشاراتی التمہید، 1388ہجری شمسی۔
- معرفت، محمد ہادی، تفسیر و مفسران، قم، مؤسسہ فرہنگی انتشاراتی التمہید، 1379ہجری شمسی۔
- ویلانت، راتورد، «تفسیر قرآن در دورہ جدید و معاصر»، در قرآن پژوہی خاورشناسان، شمارہ1، سال دوم، تابستان 1386ہجری شمسی۔