تفسیر قرآن بالقرآن
| اہم تفاسیر | |
|---|---|
| شیعہ تفاسیر | تفسیرابوالجارود150-160ھ. • تفسیر قمی 307ھ • تفسیر عیاشی 320ھ • تفسیر تبیان 460ھ • تفسیر مجمع البیان 548ھ • جوامع الجامع 548ھ • تفسیر الصافی 1091ھ • تفسیر المیزان 1402ھ |
| سنی تفاسیر | تفسیر طبری 310ھ • تفسیر ابن عطیہ 541ھ • تفسیر قرطبی 671ھ • تفسیر ابن کثیر 774ھ • تفسیر جلالین 864/911ھ |
| تفسیری رجحان | |
| تقابلی تفسیر • علمی تفسیر • عصری تفسیر • تاریخی تفسیر • فلسفی تفسیر • کلامی تفسیر • عرفانی تفسیر • ادبی تفسیر • فقہی تفسیر | |
| تفسیری روشیں | |
| تفسیر قرآن بہ قرآن • تفسیر روایی • تفسیر عقلی • تفسیر اجتہادی | |
| اقسام تفسیر | |
| ترتیبی تفسیر • موضوعی تفسیر | |
| اصطلاحات علم تفسیر | |
| اسباب نزول • ناسخ و منسوخ • محکم و متشابہ • تحدی • اعجاز قرآن • جری | |
تفسیر قرآن بالقرآن (قرآن کی تفسیر قرآن سے) ایک ایسا تفسیری طریقہ ہے جس میں کسی آیت کے مفہوم اور معنی کو سمجھنے کے لیے دوسری آیات سے مدد لی جاتی ہے جو اس آیت کے ساتھ موضوع یا معنی میں مشابہ ہوتی ہیں۔ اس طریقۂ تفسیر کو اہل بیتؑ اور مفسرین کے کلام میں "تصدیق" اور "توضیح" جیسے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔ شیعہ مفسرین میں علامہ طباطبائی، اور اہلِ سنت کے علما میں ابن تیمیہ اور شنقیطی جیسے علما، اس طریقے کو سب سے درست تفسیری روش سمجھتے ہیں۔ شیعہ تفاسیر میں المیزان اور تفسیر تسنیم، اور اہل سنت تفاسیر میں أضواء البیان اسی طریقے سے لکھی گئی تفاسیر ہیں۔
اس روش کے حامی اس کی صحت کو قرآنی دلائل، اس کے عقلی ہونے، اور پیغمبر اکرمؐ و ائمہ اہل بیتؑ کے اس طریقے سے تفسیر کرنے کے ذریعے ثابت کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف، بعض مخالفین اس طریقہ میں قرآن کے ظاہر کو سمجھنے کی دشواریوں اور آیات کے باہمی تضاد کے امکان کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور بعض نے اسے اہل سنت کی طرف سے ایجاد کردہ ایک بدعت بھی قرار دیا ہے۔
قرآن کی تفسیر قرآن سے کرتے وقت احادیث کے کردار کے بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ ان میں احادیث کو تفسیری منابع میں سے ایک کے طور پر استعمال کرنا، تفسیر کرنے میں حد اکثر قرآن پر اکتفاء کرنا اور سنت کو کم سے کم استفادہ کرنا، اور سنت کا ہدفمند اور تجزیاتی انداز میں استعمال کرتے ہوئے قرآن کی تفسیر قرآن سے کرنا شامل ہیں۔
تعریف اور پس منظر
قرآن کی تفسیر قرآن سے کرنا (تفسیر قرآن بالقرآن) ایک ایسا تفسیری طریقہ ہے جس میں کسی آیت کے مفہوم اور معنی کو سمجھنے کے لیے دوسری آیات سے مدد لی جاتی ہے جو موضوع اور معنی کے اعتبار سے اس آیت سے مشابہ یا مربوط ہوتی ہیں۔[1] تفسیر کی اس روش کو آیتوں کا ایک دوسرے سے موازنہ اور تطبیق دینا، ایک آیت کو دوسری کے لیے شاہد اور مؤید بنانا، اور آیتوں کے سمجھنے کے لئے ان آیات کو ایک دوسرے کے لئے استدلال کرنا قرار دیا گیا ہے۔[2]
کہا گیا ہے کہ شیعہ اماموں کے اقوال میں اس تفسیری روش کو "تَصدیق"،[3] "نُطق"[4] اور "شہادت"[5] جیسے الفاظ سے یاد کیا گیا ہے۔[6] بعض مسلمان علما جیسے شیعہ مفسر علامہ طباطبائی، محمد ہادی معرفت، محمد امین استرآبادی، اور حنبلی عالم ابن تیمیہ نے اس طریقہ تفسیر کو معارف الٰہی تک پہنچنے کا سب سے معتبر طریقہ قرار دیا ہے۔[7] اس روش کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے ان آیات سے استدلال کیا جاتا ہے جو قرآن کو "نور"،[8] "تبیان"،[9] "اختلاف سے پاک"،[10] "ہم آہنگ"،[11] اور "محکم آیات کا مرجع ہونے"[12] پر دلالت کرتی ہیں۔[13]
یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ تفسیر قرآن بالقرآن کی روش رسول خداؐ کے زمانے سے رائج ہے اور آنحضرتؐ نے خود بھی اس روش سے قرآن کی تفسیر فرمائی ہے۔[14] اسی طرح بعض مفسرین نے بعض روایات کے ذریعے[15] یہ ثابت کیا ہے کہ یہ روش ائمہؑ کی طرف سے بھی تفسیر کا رائج طریقہ تھا۔[16]
مشہور سَلَفی مؤرخ اور محدث، شمس الدین ذہبی، تفسیر قرآن بالقرآن کی روش کو صحابہ کے دور میں تفسیری ذرائع میں سے ایک معتبر ذریعہ مانتے تھے۔[17] وہ ابن عباس کی تفاسیر کا حوالہ دے کر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ صحابہ اور خود رسول اللہؐ بھی اس طریقہ سے فائدہ اٹھاتے تھے،[18] اور یہ طریقہ تابعین کے دور میں بھی جاری رہا ہے۔[19]
اقسام
تفسیر قرآن بالقرآن (قرآن کی تفسیر قرآن سے) کی مختلف اقسام بیان کی گئی ہیں۔ سید محمد حسین طباطبائی نے اس تفسیر کی اس روش کے دو طریقے بیان کیے ہیں: ایک آیت کے الفاظ کے ذریعے دوسری آیت کی تفسیر کرنا اور ایک آیت کے معنی کے ذریعے دوسری آیت کا معنی بیان کرنا۔[20] اسی طرح، عبداللہ جوادی آملی نے تفسیر کی اس روش کی دس اقسام ذکر کی ہیں، تاہم ان کا ماننا ہے کہ صرف یہی اقسام ہی اس روش کی قسمیں نہیں ہیں۔[21]
اسی طرح محمد ہادی معرفت نے بھی تفسیر قرآن بالقرآن کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے: ایک آیات کے درمیان براہِ راست تعلق کی بنیاد پر ابہام دور کرنا (جیسے شب قدر کی آیات)،[22] جبکہ دوسری قسم آیات کے درمیان براہِ راست تعلق نہ ہونے کے باوجود، دوسری آیات سے فائدہ اٹھانا؛ جیسے چوری کے حکم کی تفسیر میں امام جوادؑ کا سورہ جن کی آیت نمبر 18 سے استناد کرنا۔[23]
قرآنی اور روائی مبانی اور مستندات
علامہ طباطبائی قرآن کی تفسیر کے لیے واحد معتبر مرجع قرآن ہی کو مانتے ہیں۔[24] وہ سورہ نحل کی آیت نمبر 89 اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر 85 سے استناد کرتے ہوئے[25] کہتے ہیں کہ آیات کا مفہوم دوسری آیات کی مدد سے ہی سمجھا جانا چاہیے، اور قرآن میں تدبر، الٰہی مقصود تک رسائی کا بنیادی راستہ ہے۔ علامہ طباطبائی کے مطابق، قرآن کی آیات ایک منظم اور ہم آہنگ ساختار رکھتی ہیں[26] اور ان کے درمیان کسی قسم کا تضاد نہیں پایا جاتا ہے۔ اور بعض آیات تو واضح طور پر دوسری آیتوں پر ناظر ہیں جیسے کہ سورہ زمر کی آیت 23 اس ہم آہنگی کی ایک واضح مثال ہے۔[27]
کتاب مکاتب تفسیری کے مصنف نے سورہ آلعمران کی آیت 7 میں "ام الکتاب" کی تفسیر کے بارے میں مفسرین کے نظریات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آیاتِ محکم، مفسر کے لیے آیات متشابہ کو سمجھنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں اور آیات محکم کے ذریعے سے بعض مبہم آیات واضح ہوجاتی ہیں۔[28] اسی طرح شریف رضی (مرتب نہجالبلاغہ) نے بھی آیات متشابہ کو آیاتِ محکم کے ذریعے تفسیر کرنے کو تفسیر کی اساس قرار دیا ہے۔[29] علامہ طباطبائی بھی اس پر اصرار کرتے ہیں کہ محکمات کا استعمال صرف متشابہات تک محدود نہیں، بلکہ ہر تفسیری مقام پر قابلِ استعمال ہے۔[30] اس کے علاوہ اسی بات پر بعض روایات میں بھی زور دیا گیا ہے کہ متشابہات کو محکمات کی طرف ارجاع دینا چاہیے۔[31]
روشیں
قرآنی محقق محمد علی رضایی اصفہانی کے مطابق مفسرین نے قرآن بالقرآن تفسیر کے مختلف طریقے اختیار کیے ہیں، جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- متشابہات کو محکمات کی طرف لوٹانا: مبہم آیات کی تفسیر واضح آیتوں کے ذریعے کی جاتی ہیں؛ جیسے آیہ «لَیْسَ كَمِثْلِہِ شَیْءٌ» کے ذریعے خدا کی جسمانیت کی نفی کرنا۔[32]
- کلی آیات کی تفسیر محدود کرنے والی آیتوں سے کرنا: مثلاً بعض آیتوں میں آیا ہے کہ "نماز قائم کرو" یہ ایک عمومی حکم ہے، لیکن دوسری آیت میں کہا گیا ہے کہ «نماز کو زوال آفتاب سے اندھیری رات تک قائم کرو» اس آیت کے ذریعے سے وقت کو محدود کیا گیا ہے۔[33]
- خاص آیتیں عام آیتوں کی وضاحت کرتی ہیں: جیسے بعض آیتوں میں بعض عورتوں سے نکاح، حرام ہونے کا حکم۔[34]
- کلی آیتیں جزئی آیات کے ذریعے واضح ہوتی ہیں: جیسے شب قدر کے بارے میں قرآن میں تین مختلف آیات آئی ہیں،[35] جنہیں جمع کر نے سے معلوم ہوتا ہے کہ شب قدر رمضان میں ہے اور اسی رات قرآن نازل ہوا ہے۔[36]
- کلی آیات کے مصادیق دوسری آیات میں بیان ہونا: مثلاً سورہ حمد میں "صراط الذین انعمت علیہم" (یعنی ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے نے انعام و احسان کیا) کا مصداق سورہ نساء آیت 69 میں بیان ہوا ہے: فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَيْہِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ" (ترجمہ: ایسے لوگ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے خاص انعام کیا ہے۔ یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین) یعنی الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ" کے مصداق انبیاءؑ صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں۔[37]
سنت اور احادیث کا مقام
پیغمبر اکرمؐ اور ائمہؑ کی احادیث کا تفسیرِ قرآن بالقرآن میں کردار کے بارے میں مختلف نقطہ نظر ہیں۔ قرآنی محقق محمد اسعدی نے اس نقطہ نظر کو یوں بیان کیا ہے:[38]
- ترکیبی اور سنت پذیر: اس روش میں قرآن کی تفسیر صرف قرآن سے نہیں بلکہ حدیث، عقل اور لسانیات سے بھی کی جاتی ہے۔ طبری، ابن کثیر، شیخ طوسی، اور طبرسی جیسے مفسرین نے اس روش کی پیروی کی ہے۔
- قرآن محوری اور محدود پیمانے پر حدیث سے استفادہ: اس نظرئے میں تفسیر کا دارومدار قرآن پر ہوتا ہے لیکن حدیث صرف تائید یا توضیح کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ محمد عبدہ نے تفسیر المنار میں، اور احمد مصطفی المراغی نے تفسیر المراغی میں، اور ایران میں سید محمود طالقانی نے پرتوی از قرآن میں اس طرح کی روش سے استفادہ کیا ہے۔
- تحلیل کی محوریت اور سنت کا با ہدف استعمال: اس روش کو علامہ طباطبائی نے اپنی کتاب تفسیر المیزان اپنایا ہے، جس میں قرآن کو خود اپنا بہترین مفسر قرار دیا ہے، البتہ معتبر روایات کو بھی عقلی اور دقیق انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عبد اللہ جوادی آملی اور محمد صادقی تہرانی (متوفی:1390 شمسی) اس روش کے پیرو ہیں۔[39]
- سنت کا کلی انکار: قرآنیوں کے نام سے معروف یہ گروہ صرف قرآن کو حجت مانتے ہیں اور سنت کو رد کرتے ہیں، جیسے توفیق صدقی المنار میگزین کے بعض مقالات میں اس روش کے پیروکار شمار ہوتے ہیں۔[40] کہا گیا ہے کہ یہ روش آیات کے سمجھنے میں غلطی کا سبب بن جاتی ہے، کیونکہ اس میں قرآن کے باہر سے کوئی قرینہ قبول نہیں ہوتاہے۔[41]
موافقین کے دلائل

قرآن بالقرآن تفسیر کے حامی اور مدافعین اس روش کے صحیح ہونے پر قرآن اور ائمہؑ کی تفسیری روش اور عقل سے مختلف دلائل پیش کرتے ہیں:
- قرآن کا اپنے بارے میں بیان کی جانے والی توصیفات: علامہ طباطبائی کہتے ہیں کہ قرآن کی آیتیں خود ہی ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں اور قرآن سمجھنے کے لئے کسی دوسرے تفسیری روش کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اس نظرئے کے لئے دو دلیل پیش کرتے ہیں:[42] پہلی دلیل قرآن کا اپنے لیے بیان کئے جانے والی صفات ہیں؛ جیسے تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ، وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا، أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ؛ یعنی اگر قرآن ہر چیز کو بیان کرنا والا ہے تو پھر خود کو بھی بیان کرے اس صورت میں پھر کسی دوسرے منبع یا مآخذ کی ضرورت نہیں رہے گی۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ قرآن کو روایات کی صحت کا معیار قرار دیا گیا ہے اسی لئے اس کا سمجھنا کسی اور دلیل کے تابع نہیں ہونا چاہئے۔[43]
- تفسیر قرآن بالقرآن کی روش سے استفادہ، عقلی ہونا: کہا گیا ہے کہ یہ طریقہ عقل کے مطابق ہے،[44] کیونکہ قرآن نے اپنے الفاظ اور معانی کو دوسروں تک منتقل کرنے کے لئے عام انسانوں کی زبان میں کلام کیا ہے جو روزمرہ محاوروں میں استعمال ہوتے تھے۔[45] قرآن کی زبان کا عرفی ہونا، قرآن کا مخاطب تمام لوگوں کا ہونا، آیات تحدی اور سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 4 قرآنی دلائل میں شمار ہوتے ہیں۔[46]
- ائمہؑ کی تفسیری روش: تفسیر قرآن بالقرآن کی طرف بعض احادیث کے اشارے[47] کے علاوہ ائمہ اپنے زمانے میں بھی مختلف فیصلوں، استدلال اور تفسیری سوالات کے جوابات میں قرآنی آیات کو ایک دوسرے کی طرف حوالہ دیتے تھے۔ مثال کے طور پر امام علیؑ کی ایک حدیث میں سورہ حمد کی آخری آیت کی تفسیر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ "المغضوب علیہم" کا مصداق "قُلْ ہَلْ أُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذَٰلِكَ مَثُوبَۃً عِنْدَ اللَّہِ مَنْ لَعَنَہُ اللَّہُ وَغَضِبَ عَلَيْہِ"[48] (ترجمہ: کہیئے! کیا میں بتاؤں؟ کہ اللہ کے نزدیک انجام کے اعتبار سے زیادہ بُرا کون ہے؟ وہ ہے جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر وہ غضبناک ہے۔)کی روشنی میں کو یہود اور "الضالین" کا مصداق آیت مجیدہ "قُلْ يَا أَہْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَہْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ"[49] (ترجمہ:کہیئے! اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو۔ اور ان لوگوں کی خواہشات اور ذاتی خیالات کی پیروی نہ کرو جو پہلے خود گمراہ ہو چکے ہیں۔ اور بہت سوں کو گمراہ کر چکے ہیں اور راہ راست سے بھٹک گئے ہیں۔) کی روشنی میں نصاریٰ قرار دیا گیا ہے۔[50] اسی طرح کہا گیا ہے کہ جب زرارہ نے امام باقرؑ سے پوچھا کہ آیہ شریفہ "وَ إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاۃِ"[51] (ترجمہ: اور جب تم زمین میں سفر کرو۔ تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے (بلکہ واجب ہے کہ) نماز میں قصر کر دو۔) سے نمازِ مسافر کے قصر ہونا کا وجوب کیسے اسنتباط ہوتا ہے تو اس بارے میں آپؑ نے فرمایا کہ اس آیت میں "فلا جناح" کا لفظ آیہ شریفہ "فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِہِمَا"[52] (ترجمہ:لہٰذا جو شخص خانہ کعبہ کا حج یا عمرہ بجا لائے، اس پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ ان دونوں کے درمیان چکر لگائے) میں مذکور "لاجناح" جیسا ہے اور اس سے مراد کسی کام کا لازمی طور پر انجام دینا ہے اور صرف رجحان یا بہتر ہونا نہیں ہے[53] امام جوادؑ نے "وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّہِ" سے استناد کرتے ہوئے اس آیت کو "وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَہُمَا" سے ضمیمہ کرتے ہوئے چور کی سزا میں ہاتھ کی انگلیوں کو کاٹنے کا حکم بیان کیا ہے۔[54]
مثالیں اور تالیفات
پیغمبر اکرمؐ اور ائمہؑ کی سیرت میں قرآن بہ قرآن تفسیر کی جانے والی مثالیں شیعہ تفسیری کتابوں میں موجود ہیں۔[55] اسی طرح صحابہ،[56] تابعین سے منقول تفسیری نظریات[57] میں اور اسی طرح بعض مشہور مفسرین جیسے: عبداللہ بن عباس، سعید بن جبیر، مقاتل بن سلیمان، مجاہد بن جبیر، عکرمہ بن عبداللہ اور زید بن ثابت نے اس روش کو تفسیر میں استعمال کیا ہے۔[58]
ابتدائی ادورا کے مفسروں کی تفسیری کتابیں جیسے جامع البیان فی تفسیر القرآن،[59] التبیان فی تفسیر القرآن،[60] الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل[61] اور مجمع البیان فی تفسیر القرآن[62] میں بھی مفسرین نے جہاں کسی نظرئے کو بیان کرنا ہوتا تھا وہاں پر آیات کو دوسری آیات کے اپنی دلیل کو مستحکم کیا ہے۔
14ویں صدی ہجری میں شیعہ اور سنی مفسرین نے اس روش پر مبنی تفاسیر لکھی ہیں، مثلاً: شیعہ تفاسیر میں محمد جواد بلاغی کی آلاء الرحمن فی تفسیر القرآن، علامہ طباطبائی کی المیزان فی تفسیر القرآن، محمد صادق تہرانی کی الفرقان فی تفسیر القرآن بالقرآن والسنہ اور عبداللہ جوادی آملی کی تفسیر تسنیم قابل ذکر ہیں۔ جبکہ اہل سنت تفاسیر میں عبدالکریم خطیب کی التفسیر القرآنی للقرآن اور محمد امین شنقیطی کی تفسیر أضواء البیان فی إیضاح القرآن بالقرآن قابل ذکر ہیں۔[63]
حوالہ جات
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1293ھ، ج1، ص11؛ عمید زنجانی، مبانی و روشہای تفسير قرآن، 1387شمسی، ص361.
- ↑ ابوطبرہ، المنہج الأثری فی تفسیر القرآن الکریم، 1373شمسی، ص65.
- ↑ شیخ صدوق، التوحید، 1416ھ، ص255؛ متقی، کنز العمال فی سنن الأقوال و الأفعال، 1419ھ، ج1، ص619.
- ↑ نہجالبلاغہ، خطبہ 133.
- ↑ نہجالبلاغہ، خطبہ 133.
- ↑ مدبر، تفسیر قرآن با قرآن در آینہ روایات، 1396شمسی، ج1، ص46.
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1293ھ، ج8، ص87؛ معرفت، التفسیر والمفسرون فی ثوبۃ القشیب، 1418ھ، ج2، ص25-22؛ استرآبادی، الفوائد المدنیۃ، 1426ھ، ص48-47؛ ابنتیمیہ، مجموع الفتاوی، 1416ھ، ج6، ص21.
- ↑ سورہ نساء، آیہ 74.
- ↑ سورہ نحل، آیہ 89.
- ↑ سورہ نساء، آیہ 82.
- ↑ سورہ زمر، آیہ 23.
- ↑ سورہ آلعمران، آیہ 7.
- ↑ برای نمونہ نگاہ کنید بہ علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1293ھ، ج1، ص8-6 و ج3، ص64.
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1293ھ، ج1، ص14-12؛ سیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، 1394ھ، ج4، ص196.
- ↑ برای نمونہ نگاہ کنید بہ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص599.
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1293ھ، ج1، ص12؛ جوادی آملی، تسنیم، 1380شمسی، ج1، ص71-69.
- ↑ ذہبی، التفسیر والمفسرون، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص37.
- ↑ ذہبی، التفسیر والمفسرون، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص41.
- ↑ ذہبی، التفسیر والمفسرون، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص37، 44 و 99.
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1293ھ، ج3، ص87.
- ↑ جوادی آملی، تسنیم، 1380شمسی، ج1، ص111.
- ↑ معرفت، التفسیر والمفسرون فی ثوبۃ القشیب، 1418ھ، ج2، ص25-22.
- ↑ معرفت، التفسیر والمفسرون فی ثوبۃ القشیب، 1418ھ، ج2، ص25-22.
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1293ھ، ج3، ص77.
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1293ھ، ج1، ص11
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1293ھ، ج17، ص255.
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1293ھ، ج17، ص255.
- ↑ بابایی، مکاتب تفسیری، 1381شمسی، ج2، ص45.
- ↑ سید رضی، حقائق التأویل، 1406ھ، ص23.
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1293ھ، ج3، ص64.
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1293ھ، ج3، ص64.
- ↑ رضایی اصفہانی، درسنامہ روشہا و گرایشہای تفسیری، 1382شمسی، 99-87.
- ↑ رضایی اصفہانی، درسنامہ روشہا و گرایشہای تفسیری، 1382شمسی، 99-87.
- ↑ رضایی اصفہانی، درسنامہ روشہا و گرایشہای تفسیری، 1382شمسی، 99-87.
- ↑ سورہ دخان، آیہ 3؛ سورہ قدر، آیہ 1؛ سورہ بقرہ، آیہ 185.
- ↑ رضایی اصفہانی، درسنامہ روشہا و گرایشہای تفسیری، 1382شمسی، 99-87.
- ↑ رضایی اصفہانی، درسنامہ روشہا و گرایشہای تفسیری، 1382شمسی، 99-87.
- ↑ اسعدی، تفسیرشناسی، 1396شمسی، ص319-313.
- ↑ اسعدی، تفسیرشناسی، 1396شمسی، ص319-313.
- ↑ اسعدی، تفسیرشناسی، 1396شمسی، ص319-313.
- ↑ مؤدب، روشہای تفسیری، 1398شمسی، ص56-55.
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1293ھ، ج1، ص20-14.
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1293ھ، ج1، ص8-6.
- ↑ فتحی، «مبانی قرآنی تفسیر قرآن بہ قرآن»، ص24.
- ↑ خویی، البیان فی تفسیر القرآن، دار الزہراء، ص270-269.
- ↑ فتحی، «مبانی قرآنی تفسیر قرآن بہ قرآن»، ص24.
- ↑ نہجالبلاغہ، خطبہ 133؛ شیخ صدوق، التوحید، 1416ھ، ص255؛ متقی، کنز العمال فی سنن الأقوال و الأفعال، 1419ھ، ج1، ص619.
- ↑ سورہ مائدہ: آیت نمبر 60
- ↑ سورہ مائدہ: آیت 77
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1406ھ، ج1، ص108.
- ↑ سورہ نساء: آیت نمبر 101
- ↑ سورہ بقرہ آیت نمبر 158
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1416ھ، ج8، ص517.
- ↑ عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج1، ص319-320.
- ↑ ملاحظہ کریں: طبرسی، مجمع البیان، 1406ھ، ج4، ص506؛ ابنحنبل، مسند الإمام احمد بن حنبل، دار صادر، ج1، ص378؛ فیض کاشانی، التفسیر الصافی، 1416ھ، ج5، ص14؛ حویزی، نور الثقلین، 1415ھ، ج1، ص148.
- ↑ ذہبی، التفسیر والمفسرون، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص41-40.
- ↑ ملاحظہ کریں: خضیری، تفسیر التابعین، 1420ھ، ج2، ص627-611؛ ذہبی، التفسیر والمفسرون، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص40.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1406ھ، ج7، ص105؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج9، ص20-114.
- ↑ طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 1422ھ، ج1، ص440.
- ↑ شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار إحیاء التراث العربی، ج1، ص64.
- ↑ زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، 1407، ج3، ص185.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1407ھ، ج7، ص63.
- ↑ اسعدی، تفسیرشناسی، 1396شمسی، ص319-313.
مآخذ
- ابو طبرہ، ہدی جاسم محمد، المنہج الأثری فی تفسیر القرآن الکریم: حقیقتہ ومصادرہ وتطبیقاتہ، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، 1373ہجری شمسی۔
- ابن تیمیہ، احمد بن عبد الحلیم، مجموع الفتاوی، تحقیق عبدالرحمن بن محمد بن قاسم، مدینۃ النبویۃ، نشر مجمع الملک فہد، 1416ھ۔
- ابن حنبل، احمد بن حنبل، مسند الإمام احمد بن حنبل، بیروت، دار صادر، بیتا.
- استر آبادی، محمد امین، الفوائد المدنیۃ، تحقیق رحمتاللہ رحمتی اراکی، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، چاپ دوم، 1426ھ۔
- اسعدی، محمد، تفسیر شناسی: مبانی، منابع، قواعد، روشہا و گرایشہا، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، چاپ اول، 1396ہجری شمسی۔
- بابایی، علی اکبر، مکاتب تفسیری، تہران، سازمان مطالعہ و تدوین کتب علوم انسانی دانشگاہہا، 1381ہجری شمسی۔
- جوادی آملی، عبد اللہ، تسنیم، قم، نشر اسراء، 1380ہجری شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ الی تحصیل مسائل الشریعہ، قم، مؤسسہ آل البیت(ع) لإحیاء التراث، 1416ھ۔
- حویزی، عبد العلی بن جمعہ، تفسیر نور الثقلین، تصحیح ہاشم رسولی محلاتی، قم، نشر اسماعیلیان، 1415ھ۔
- خضیری، محمد بن عبداللہ، تفسیر التابعین، ریاض، دار الوطن للنشر، 1420ھ۔
- خویی، سید ابو القاسم، البیان فی تفسیر القرآن، قم، نشر دار الزہراء، بیتا.
- ذہبی، محمد حسین، التفسیر و المفسرون، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا.
- رضایی اصفہانی، محمد علی، درسنامہ روشہا و گرایشہای تفسیری قرآن، قم، مرکز جہانی علوم اسلامی، 1382ہجری شمسی۔
- زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل وعیون الأقاویل فی وجوہ التأویل، بیروت دار الکتب العربی، چاپ سوم، 1407ھ۔
- سید رضی، محمد بن حسین، حقائق التأویل فی متشابہ التنزیل، بیروت، دار الأضواء، 1406ھ۔
- سید رضی، محمد بن حسین، نہجالبلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، مؤسسہ دار الہجرہ، 1414ھ۔
- سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، الإتقان في علوم القرآن، مصر، الہیئۃ المصريۃ العامۃ للکتاب، 1394ق/ 1974م.
- شیخ صدوق، محمد بن علی، التوحید، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، 1416ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا(ع)، تصحیح سید مہدی لاجوردی، تہران، منشورات جہان، بیتا.
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تصحیح احمد حبیب عاملی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بیتا.
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، بیروت، دار المعرفۃ، 1406ھ۔
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، تحقیق عبداللہ بن عبدالمحسن ترکی، قاہرہ، نشر ہجر، 1422ھ۔
- علامہ طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ سوم، 1393ھ۔
- عمید زنجانی، عباس علی، مبانی و روشہای تفسير قرآن، تہران، نشر وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1387ہجری شمسی۔
- عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تہران، المطبعۃ العلمیۃ، 1380ھ۔
- فتحی، علی، «مبانی قرآنی تفسیر قرآن بہ قرآن»، در مجلہ معرفت، سال ہجدہم، شمارہ اول، فروردین 1388ہجری شمسی۔
- فیض کاشانی، محسن، التفسیر الصافی، تصحیح و مقدمہ حسین اعلمی، تہران، منشورات مکتبۃ الصدر، 1416ق/ 1374ہجری شمسی۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علیاکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ق.
- مؤدب، سیدرضا، و محمدرضا عزتی فردوئی، روشہای تفسیری، قم، نشر پژوہشگاہ حوزہ و دانشگاہ، 1398ہجری شمسی۔
- متقی، علی بن حسامالدین، کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال، تحقیق محمود عمر دمیاطی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1419ھ۔
- مدبر، علی، تفسیر قرآن با قرآن در آینہ روایات، قم، پژوہشکدہ فرہنگ و معارف قرآن، 1396ہجری شمسی۔
- معرفت، محمدہادی، التفسیر والمفسرون فی ثوبۃ القشیب، مشہد، نشر الجامعۃ الرضویۃ، 1418ھ۔