حضرت فاطمہؑ کی تشییع و تدفین
حضرت فاطمہؑ کی تشییع و تدفین کا موضوع سنہ 11 ہجری کے اہم واقعات میں سے ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا(س) کی وصیت کی تھی کہ آپ کی تشییع و تدفین رات مخفیانہ طور کو انجام پائے تاکہ خلیفہ اول اور خلیفہ دوم اس میں شریک نہ ہو سکیں۔ یہ وصیت رسول اکرمؐ کی وفات کے بعد پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے بنت رسول کی خلیفہ سے ناراضگی کو واضح کرتی ہے۔
حضرت فاطمہ(س) کے جنازہ میں چند انگشت شمار افراد یعنی امام علیؑ، امام حسن، امام حسینؑ، عقیل بن ابی طالب، عباس ابن عبد المطلب، عمار یاسر، مقداد بن اسود، زبیر بن عوام، ابوذر غفاری اور سلمان فارسی نے شرکت کی اور ابوبکر اور عمر سے چھپا کر نامعلوم مقام پر آپ کو دفن کیا گیا۔
حضرت فاطمہ زہرا کی رات کی تاریکی میں تدفین کی خبر جب لوگوں میں پھیل گئی تو عمر بن خطاب نے بی بی کی نبش قبر کرنے اور ان پر پھر سے نماز جنازہ پڑھائے جانے کا مطالبہ کیا، لیکن حضرت علیؑ کی جانب سے جب اس جسارت کا شدت سے مقابلہ کیا گیا تو اس نے اپنا مطالبہ واپس لے لیا۔
حضرت فاطمہ زہرا کی شہادت
دختر پیغمبر حضرت فاطمہ زہرا پیغمبر کی وفات بعد پیش آنے والے حادثات کی وجہ سے شدید بیمار پڑ گئیں اور سنہ 11 ہجری میں آپ کی شہادت ہوگئی۔[1] آپ کی تاریخ شہادت بارے میں پیغمبر اکرم کی وفات کے بعد چالیس دن سے آٹھ ماہ تک کا اختلاف پایا جاتا ہے۔[2] وفات پیغمبر کے ۹۵ دن بعد والی روایت [3] کی بنیاد پرآپ کی شہادت 3 جمادی الثانی کو واقع ہوئی[4] اور یہی شیعہ علما کی نزدیک میں معروف ترین روایت ہے۔[5] اور ۷۵ دن والی روایت کے مطابق آپ کی شہادت 13 جمادی الاول کو ہوئی۔[6] لیکن یہ روایت معروف نہیں ہے۔
تشییع جنازہ کے لئے لوگوں کا اجتماع
حضرت فاطمہ زہرا کا انتقال غروب آفتاب کے بعد ہوا۔[7] صاحب روضۃ الواعظین فتال نیشاپوری کے مطابق لوگ روتے ہوئے اور نالہ و شیون کرتے ہوئے امام علیؑ کے گھر گئے۔ [8] اور نماز جنازہ میں شرکت کا انتظار کرنے لگے لیکن حضرت ابوذر نے لوگوں کے درمیان جاکر کہا کہ دختر پیغمبر کی تشییع جنازہ میں تاخیر ہے جسے سن کر لوگ اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔[8] پیغمبر کے چچا عباس بن عبد المطلب نے امام علیؑ کو مشورہ دیا کہ مہاجرین و انصار کو شییع اور نماز جنازہ کے لئے اکٹھا کریں کیونکہ یہ دین کا ایک خوبصورت عمل ہے لیکن حضرت علیؑ نے ان کے مشورے اور نصیحت پر عمل سے معذرت خواہی کی کیونکہ حضرت فاطمہ کی وصیت ہے کہ رات میں ان کے تکفین و تدفین و نماز جنازہ پڑھی جائے۔[9] سلیم بن قیس کی روایت کی بنیاد پر جس شب حضرت فاطمہ زہرا کا انتقال ہوا ابوبکر اور عمر نے حضرت علیؑ سے تقاضا کیا کہ اُن کے آنے سے پہلے حضرت فاطمہ کی نماز جنازہ نہ پڑھیں۔[10]
غسل و کفن اور نماز
حضرت فاطمہ نے وصیت کی تھی کہ اُن کے شوہر حضرت علیؑ اُن کو غسل دیں۔[11] اور اسماء بنت عمیس سے چاہا کہ غسل دینے میں حضرت علیؑ کی مدد کریں۔[12] حضرت فاطمہ کی وصیت کے مطابق امام علیؑ اور اسماء نے اُنہیں غسل دیا۔[11] اور کفن دیا۔[13] حسین بن عبد الوہاب عیون المعجزات میں [14] اور محمد بن جریر طبری دلائل الامامہ میں [15] پانچویں صدی ہجری کے شیعہ علما سے نقل کرتے ہیں کہ امام علیؑ اور امام حسنؑ و امام حسینؑ نے حضرت فاطمہ کے جنازے پر نماز پڑھی۔ بعض کتابوں میں نماز جنازہ میں شرکت کرنے والوں کی تعداد زیادہ بتائی گئی ہے۔ جیسے ہانچویں اور چھٹی صدی ہجری کے شیعہ عالم فتال نیشاپوری روضۃ الواعظین میں[8] اور چھٹی صدی کے عالم فضل بن حسن طبرسی اعلام الوری میں [16] نقل کرتے ہیں کہ حضرت علیؑ کے بھائی عقیل، عمار، مقداد، زبیر، سلمان، بریدہ بن حصیب اور بنی ہاشم کے بعض افراد بھی حضرت فاطمہ کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے۔ علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں نقل کیا ہے کہ حضرت فاطمہ کے جنازے میں سلمان فارسی، مقداد بن اسود، ابوذر غفاری، عبداللہ بن مسعود، عباس بن عبدالمطلب اور زبیر بن عوام نے شرکت کی۔[17] کتاب سلیم ابن قیس میں آیا ہے کہ پیغمبر کے چچا عباس نے حضرت فاطمہ کی نماز جنازہ پڑھائی۔[18]
لوگوں کو باخبر نہ کرنے کی وجہ
حضرت فاطمہؑ کی خفیہ نماز جنازہ اور تدفین کی وجہ اُن کی وصیت تھی۔ فتال نیشاپوری کے مطابق حضرت فاطمہؑ نے حضرت علیؑ کو وصیت کی تھی کہ جن لوگوں نے ان پر ظلم کیا ہے اور ان کے حق کو غصب کیا ہے وہ ان کے جنازے میں شریک نہ ہونے پائیں۔[19] اور ان کی یہ وصیت بھی تھی کہ انہیں اس وقت دفن کیا جائے جب رات کی تاریکی ہو اور لوگ سو جائیں۔ [19] شیخ صدوق لکھتے ہیں کہ جب لوگوں نے امام علیؑ سے حضرت فاطمہ کو مخفی طور پر دفن کرنے کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا: فاطمہ کچھ لوگوں سے ناراض تھیں اور نہیں چاہتی تھیں کہ وہ ان کے جنازے میں شریک ہوں۔ [20] تیسری صدی ہجری کے سنی عالم ابن قتیبہ دینوری لکھتے ہیں کہ فاطمہ نے رات میں اپنی تدفین کی وصیت کی تاکہ ابوبکر ان کے جنازے میں شریک نہ ہوسکے۔[21]
تدفین
تیسری صدی کی اہم تاریخی کتاب تاریخ یعقوبی میں آیا ہے کہ حضرت فاطمہؑ کے جنازے کو رات میں دفن کیا اور تدفین کے وقت صرف سلمان، ابوذر اور مقداد حاضر تھے۔[22] فتال نیشاپوری نے جنازے میں حاضر افراد کی تعداد زیادہ لکھی ہے۔ [8]امام علیؑ کی روایت کے مطابق حضرت فاطمہ کو دفن کرتے وقت پیغمبر اکرمؐ کے ہاتھوں کے طرح کے دو ہاتھ قبر سے ظاہر ہوئے اورانہوں حضرت فاطمہ کی تدفین میں مدد کی۔ امام علیؑ نے حضرت فاطمہؑ کو دفن کرنے کے بعد قبر کے آثار کو مٹا دیا تاکہ ان کی قبر کا پتہ نہ چل سکے۔[23] حضرت فاطمہؑ کی قبر کون سی ہے اور کس جگہ یہ یہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔آپ کے قبر کے بارے میں مختلف اقوال نقل کئے گئے ہیں ۔[24] جیسے:
- روضۃ رسول[15]
- حضرت فاطمہؑ اور امام علیؑ کا گھر۔ بنی امیہ کے زمانے میں مسجد النبیؐ کی توسیع کے موقع پر اس جگہ کو مسجد کا حصہ بنا لیا گیا۔[25]
- بعض مآخذ میں مطلق طور پر آپ کی قبر کی جگہ کو قبرستان بقیع بتایا گیا ہے۔[26]
- حضرت عقیل بن ابی طالب کا گھر۔ [27] حضرت عقیل کا گھر قبرستان بقیع کے پاس ایک بہت بڑا گھر تھا [28] جس میں حضرت فاطمہ بنت اسد، عباس بن عبدالمطلب اور کچھ شیعہ ائمہ کے دفن ہونے کے بعد رہاشی گھر سے زیارت گاہ میں تبدیل ہوگیا۔[29]
تدفین کے بعد کے واقعات
امام علیؑ نے حضرت فاطمہؑ کی قبر کو مخفی رکھنے کے لئے جہاں ان کے قبر کے آثار کو مٹایا[30] وہیں ان کی سات قبریں [31] یا ایک روایت کے مطابق چار قبریں بنائیں۔[26] سلیم بن قیس کی کتاب میں آیا ہے کہ جس رات حضرت فاطمہ کو دفن کیا گیا اس کے اگلی صبح ابوبکر اور عمر لوگوں کے ساتھ نماز جنازہ پڑھنے آئے تو حضرت مقداد نے انہیں بتایا کہ انہیں رات میں دفن کر دیا گیا ہے۔[32] لوگ یہ جان کر کہ وہ پیغمبر کی بیٹی کے جنازے میں شریک نہیں ہوسکے خود کی ملامت کرنے لگے اور افسوس کا اظہار کرنے لگے۔[26][15] سلیم بن قیس کی روایت کے مطابق عمر نے ابوبکر سے کہا: میں تم سے کہا تھا کہ یہ لوگ ایسا ہی کریں گے۔[33] عمر نے عباس بن عبدالمطلب کے ساتھ اس سلسلے میں کچھ تکرار بھی کی۔ اور بنی ہاشم پر حسد کی تہمت لگائی۔ عباس بن عبدالمطلب نے حضرت فاطمہؑ کی وصیت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی وصیت تھی کہ تم دونوں میں جنازے میں شریک نہ ہونے دیا جائے۔ [34] بحار الانوار کی روایت کے مطابق عمر بن خطاب نے کہا: مدینے کی کچھ عورتوں کو بلا کر لایا جائے تاکہ وہ قبر کو کھودیں اور فاطمہ کا جنازہ نکالا جائے تاکہ نماز جنازہ پڑھ کر انہیں دوبارہ دفن کیا جائے اور اُن کی قبر کی زیارت کی جائے۔ [34] جب یہ خبر امام علیؑ کو ملی آپ کو شدید غصہ آیا اور تلوار لے کر قبرستان بقیع پہنچ گئے۔ [35]عمر ابن خطاب اور امام علیؑ کے درمیان بحث و تکرار ہوئی [36]جس کے بعد امام علیؑ نے فرمایا: اگر میری تلوار نیام سے نکل آئی تو تمہیں قتل کئے بغیر اندر نہیں جائے گی۔ [34]اور جو لوگ نبش قبر کا ارادہ رکھتے تھے ان سے فرمایا: اگر کسی نے ایک پتھر بھی ہٹایا وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ [36] امام علیؑ کی گفتگو کے بعد عمر نے اپنی بات واپس لے لی [34] اور ایک روایت کے مطابق ابوبکر نے امام علیؑ کو یقین دلاتے ہوئے کہا: جو کام آپ کو پسند نہیں وہ ہم ہرگز نہیں کریں گے۔ [36]
حوالہ جات
- ↑ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۷۹۳۔
- ↑ شہیدی، زندگانی فاطمہ زہرا، ۱۳۶۳ش، ص۱۵۴۔
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۰۰۔
- ↑ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۷۹۳۔
- ↑ شبیری، «شہادت فاطمہ(س)»، ص۳۴۷۔
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۲۴۱ و ۴۵۸۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۴۳، ص۲۰۰۔
- ↑ 8.0 8.1 8.2 8.3 فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۵۱-۱۵۲۔
- ↑ شیخ طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ھ، ص۱۵۶۔
- ↑ سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، ۱۴۰۵ھ، ج۲، ص۸۷۰۔
- ↑ 11.0 11.1 یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج۲، ص۱۱۵۔
- ↑ ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ۱۳۷۹ق، ج۳، ص۳۶۴۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۴۳، ص۲۰۱۔
- ↑ ابن عبدالوہاب، عیون المعجزات، قم، ص۵۵۔
- ↑ 15.0 15.1 15.2 طبری آملی، دلائل الامامہ، ۱۴۱۳ھ، ص۱۳۶۔
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ھ، ج۱، ص۳۰۰۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۴۳، ص۲۰۰۔
- ↑ سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، ۱۴۰۵ھ، ج۲، ص۸۷۰۔
- ↑ 19.0 19.1 فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۵۱
- ↑ شیخ صدوق، الأمالی، ۱۴۰۰ق، ص۶۵۸۔
- ↑ ابنقتیبہ، تأویل مختلف الحدیث، ۱۹۹۹م، ص۴۲۷۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج۲، ص۱۱۵۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۴۳، ص۱۹۳۔
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ھ، ج۱، ص۳۰۰۔
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۴۶۱۔
- ↑ 26.0 26.1 26.2 ابن عبدالوہاب، عیون المعجزات، قم، ص۵۵۔
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۱۱، ص۵۹۹۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج۴، ص۳۳۔
- ↑ نجمی، «قبر فاطمہ(س) یا قبر فاطمہ بنت اسد»، ص۱۰۰۔
- ↑ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۵۲۔
- ↑ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ۱۳۷۹ھ، ج۳، ص۳۶۳۔
- ↑ سلیم ابن قیس، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، ۱۴۰۵ھ، ج۲، ص۸۷۰-۸۷۱۔
- ↑ سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الهلالی، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۸۷۱۔
- ↑ 34.0 34.1 34.2 34.3 مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۲۸، ص۳۰۴۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۴۳، ص۲۱۲۔
- ↑ 36.0 36.1 36.2 طبری آملی، دلائل الإمامہ، ۱۴۱۳ھ، ص۱۳۷۔
مآخذ
- ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق: محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیة، چاپ اول، ۱۴۱۰ھ۔
- ابن شہر آشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب علیہ السلام، قم، انتشارات علامه، چاپ اول، ۱۳۷۹ھ۔
- ابن عبد الوہاب، حسین، عیون المعجزات، قم، مکتبۃ الداوری، چاپ اول، بےتا۔
- ابن قتیبہ دینوری، عبداللہ بن مسلم، تأویل مختلف الحدیث، ، الاشراق، ۱۹۹۹ء۔
- سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، محقق و مصحح: محمد انصاری زنجانی خوئینی، قم، نشر الہادی، چاپ اول، ۱۴۰۵ھ۔
- شبیری، سید محمد جواد، «شہادت فاطمہ(س)»، دانشنامہ فاطمی(س)، ج۱، تہران، پژوہشگاه فرہنگ و اندیشہ اسلامی، چاپ اول، ۱۳۹۳ش۔
- شہیدی، سید جعفر، زندگانی فاطمہ زہرا(س)، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ۱۳۶۳ش۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، الامالی، اعلمی، بیروت، چاپ پنجم، ۱۴۰۰ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد و سلاح المتعبّد، بیروت، مؤسسة فقہ الشیعہ، چاپ اول، ۱۴۱۱ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم، دار الثقافہ، چاپ اول، ۱۴۱۴ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری بأعلام الہدی، قم، مؤسسہ آل البیت، چاپ اول، ۱۴۱۷ھ۔
- طبری آملی، محمد بن جریر، دلائل الامامہ، قم، بعثت، چاپ اول، ۱۴۱۳ھ۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق: ابراہیم، محمد ابوالفضل، بیروت، دارالتراث، چاپ دوم، ۱۳۸۷ھ۔
- فتال نیشابوری، محمد بن احمد، روضۃ الواعظین و بصیرة المتعظین، قم، انتشارات رضی، چاپ اول، ۱۳۷۵ش۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علیاکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الإسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
- نجمی، محمد صادق، «قبر فاطمہ(س) یا قبر فاطمہ بنت اسد»، میقات حج، شماره۷: بہار ۱۳۷۳ش۔
- نہج البلاغہ، ترجمہ عبدالمحمد آیتی، تہران، نشر و پژوہش فرزان روز، ۱۳۷۷ش۔
- یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، چاپ اول، بےتا۔