عباس بن عبد المطلب

ویکی شیعہ سے
(عباس ابن عبد المطلب سے رجوع مکرر)
عباس بن عبد المطلب
کوائف
مکمل نامعباس بن عبد المطلب بن ہاشم
کنیتابو الفضل
محل زندگیمکہ،مدینہ
اقاربرسول اللہ، عبد المطلب، عبد اللہ بن عباس
وفات32 ہجری۔
مدفنمدینہ
دینی معلومات
جنگوں میں شرکتغزوۂ حنین
وجہ شہرتصحابی،رسول اللہ کے چچا


عَبّاس بن عَبدُالمُطَّلِب ( ہجرت سے ۵۶ سال پہلے - ۳۲ ہجری) رسول اکرم(ص) کے چچااور عباسی خلفا کے جد ہیں۔ وہ رسول خدا کے بچپن کے ساتھی تھے۔ان کے اسلام قبول کرنے کے زمانے میں اختلاف ہے۔ مسلمان ہونے سے پہلے ان کی کوشش ہوتی کہ رسول اللہ کی حمایت کریں۔ہجرت سے پہلے ان کا اسلام لانا مشہور ہے۔ ہجرت سے پہلے پیمان عقبہ میں رسول کی حمایت کی۔ عثمان بن عفان کی خلافت کے زمانہ میں فوت ہوئے اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔

نسب

  • نسب:عباس بن عبدالمطلب (شیبہ) بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرّه بن کعب بن لؤی۔
پیامبر اکرم(ص) کے چچا اور رسول اکرم کے دادا عبدالمطلب کے بیٹے ہیں۔ ماں کا نام نُتَیلہ تھا۔[1] عام الفیل سے تین سال پہلے پیدا ہوئے [2] اورہجرت سے ۵۶ سال پہلے مکہ میں رہے اور خاندان قریش میں پیدا ہوئے۔ عبدالمطلب[3] کی اولاد میں سب سے چھوٹے اور رسول اللہ سے تین سال بڑے تھے۔ [4]

بعثت سے پہلے

پیغمبر اکرم(ص) کے ہم سن ہونے، رسول اللہ کے عبدالمطلب کے گھر میں ہونے، بچپن کے ساتھی اور دوست ہونے اور نوجوانی میں کعبہ کی تعمیر میں دونوں کندھوں پر اٹھا کر لانے .[5] کے لحاظ سے عباس شروع سے ہی بچپن اور نوجوانی میں رسول اللہ کے ساتھ ساتھ رہے چنانچہ جو کوئی بھی آپ سے کسی کے بارے میں پوچھتا تو آپ اسے عباس کے پاس میں بھیج دیتے تھے۔ [6]

عباس دوسرے قرشیوں کی مانند تاجر[7] تھے اور قریش کے ثروت مند آدمی جانے جاتے تھے۔ ابو طالب کی زندگی میں اور اس کے بعد سقایت و رفادت کے منصب کے عہدیدار تھے۔ [8] بعد میں عمارت مسجدالحرام کا منصب بھی ان کے حوالے ہوا ۔[9] مکہ کے قحط سالی کے دوران ابو طالب کی زندگی کا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے جعفر کو اپنے گھر لے گئے۔ [10]

بعثت کے بعد

عباس یوم الدار کے ماجرا میں موجود تھے ۔[11] اگرچہ وہ بعثت کے بعد کچھ مدت تک اسلام نہیں لائے لیکن انہوں نے صرف پیغمبر کی مخالفت ہی نہیں کی بلکہ مسلسل انکی حمایت کرتے رہے ۔ [12] شعب کے محاصرے کے دوران تین سال تک دوسرے بنی ہاشم کے ساتھ شعب ابی طالب میں رہے ۔[13]

عقبہ کا دوسرا عہد نامہ جو رات کو لکھا گیا اس میں صرف آپ موجود تھے اور آپ نے سب سے پہلے رسول کی حمایت میں گفتگو کی اور انصار سے محکم اور موکد پیمان لیا .[14]

عباس نے "لبابہ کبرا" (ام الفضل) بنت حارث بن حزن[15] سے شادی کی جو بنی عامر سے تھیں اور بادشاہ ربیعہ کے نام سے منسوب تھیں ۔

اسلام

عباس کے اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں روایات مختلف ہیں جن میں سے اوائل ظہور اسلام[16]، شب ہجرت،[17] جنگ بدر سے پہلے [18] بدر کی اسیری کے بعد [19] یہاں تک کہ فتح خیبر کہا گیا ہے ۔[20] ذہبی لکھتا ہے: ظاہر امر یہ ہے کہ وہ بدر کے بعد اسلام لائے .[21] جبکہ ابن اثیر عباس کے قتل نہ کرنے کے فرمان پیغمبر(ص) کو بدر سے پہلے اسلام قبول کرنے کی دلیل شمار کرتے ہیں۔[22]

دوسری جانب بعض منابع کے مطابق عباس کی زوجہ "امّ الفضل" اسلام لانے والی دوسری خاتون ہے۔ [23] پیغمبر اکرم(ص) نے ہجرت کے بعد جب زینب نے اسلام قبول کیا اور اسکے شوہر ابوالعاص نے اسلام قبول نہیں کیا تھا تو آپ نے ان دونوں کے درمیان جدائی کا حکم دیا اور چھ سال تک یہ جدائی باقی رہی یہاں تک کہ وہ اسلام لے آیا [24] یہ واقعہ بیان کرتا ہے کہ کم سے کم کافر و مسلم میاں بیوی کے درمیان جدائی کا حکم ہجرت کے بعد نافذ ہوا تھا۔اس بنا پر اگر عباس مشرک ہوتے تو رسول ان کے درمیان جدائی کا حکم دیتے۔

ہجرت کے بعد

جنگ بدر

جنگ بدر پہلی فوجی کاروائی تھی جو قریش نے رسول اللہ کے خلاف کی ۔مشرکین مکہ اپنے تجارتی قافلے کو نجات دینے کیلئے مدینے کی طرف آئے اور وہ عباس سمیت بنی ہاشم کے چند افراد کو زبردستی اپنے ہمراہ لائے۔[25] عباس نے اپنے انکے ساتھ آنے کے سبب سے پیغمبر کو آگاہ کیا۔ [26] ایک روایت کی بنا پر انہوں نے رسول اکرم کو ایک خط میں لکھا کہ ممکن ہوا تو وہ قریش کو شکست سے دو چار کرے گا۔ [27]

عباس کے اسیر ہونے کے بعد ان کے اور رسول کے درمیان بدر کے اسیروں کے خون بہا کی گفتگو ہوئی۔ [28] بعض منابع کی منقول روایات کی بنا پر سورہ انفال کی آیت ۷۰ اسی کے بارے میں ہے :

اے نبی! ان قیدیوں سے کہو جو آپ کے قبضہ میں ہیں کہ اگر اللہ نے تمہارے دلوں میں کچھ نیکی اور بھلائی پائی تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں عطا فرمائے گا۔ اور تمہیں بخش بھی دے گا کیونکہ وہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (70)

ابن ہشام نے مشرکین مکہ کے اسیروں میں عباس کا نام ذکر نہیں کیا ہے ۔[29]

جنگ بدر کے بعد

عباس جنگ بدر کی اسیری کے بعد مکہ واپس چلے گئے اور رسول خدا (ص) سے مکہ سے مدینے کی طرف ہجرت کی اجازت مانگی۔آپ نے اس کے جواب میں لکھا:

تم اپنی جگہ ہی رہو کیونکہ خداوند ہجرت کو تمہارے حق میں اختتام کرے گا جس طرح نبوت کو میرے حق میں اختتام دے گا۔

عباس نے بدر سے پہلے اور بدر کے بعد رسول سے کئی مرتبہ ہجرت کی اجازت مانگی، لیکن ہر دفعہ ایسا ہی جواب آپ سے حاصل ہوا۔ [30]

اس بنا پر رسول اکرم کے حکم پر مکہ میں رہے تاکہ قریش کے رسول کے خلاف ہونے والے اقدامات سے آگاہ رہیں۔ انہوں نے بدر، احد اور احزاب میں رسول اللہ کو خط لکھے اور انہیں قریش کے ارادوں سے آگاہ کرتے رہے۔ [31] آخرکار فتح مکہ سے کچھ پہلے مدینے ہجرت کر کے رسول اکرم سے مل گئے۔ فتح مکہ میں، قریش کے بغیر کسی شرط و شروط کے تسلیم ہو جانے میں عباس نے اہم کردار ادا کیا۔[32]

غزوه حنین

فتح مکہ کے کچھ مدت بعد ہی غزوہ حنین ہوا جس میں عباس نے نہایت مؤثر کردار ادا کیا۔اس جنگ میں مشرکین کے شب خون کی وجہ سے مسلمان لشکر رسول خدا کو تنہا چھوڑ کر فرار کر گیا تو پیغمبر(ص) کے دائیں جانب عباس بائیں جانب ان کے بیٹے فضل اور سامنے علی(ع) جنگ کر رہے تھے۔ انہوں نے اس قدر استقامت کا مظاہرہ کیا کہ درج ذیل آیت نازل ہوئی :[33]

ثمّ أَنزَلَ الله سَکینَتَه عَلَی رَسولِهِ وَ عَلَی المؤمِنین

روایت کے مطابق جنگ حنین میں عباس پیغمبر کی سواری کے استر کو پکڑے ہوئے تھے کہ اسی دوران دشمنوں کے ایک گروہ نے رسول کی جان لینے کا قصد کیا۔ عباس نے ان میں سے ایک کے نزدیک ہو کر اسے دبوچ لیا اور پیغمبر کے ایک غلام کو صدا دی اور کہا مار ڈالو! مت ڈرو ہم میں سے کوئی ایک بھی قتل ہو جائے۔ غلام نے دشمن کو قتل کر ڈالا۔اس روایت کے مطابق عباس نے دشمن کے دیگر چھ افراد کے ساتھ یہی کیا۔ پھر پیغمبر(ص) کا بوسہ لیا اور انکے حق میں دعا کی۔[34]

شمائل عباس

عباس شریف، عاقل، رعب دار، بردبار، بخشنے والے، خوبصورت، رنگت بہت سفید، بلند قامت، صحت مند اور بلند آواز کے مالک تھے ۔ [35] ذہبی لکھتا ہے: عباس بلندترین، زیباترین، ابهت‌ ترین،، بردبارترین شخص تھے ۔[36] قد کی بلندی میں یہی کافی ہے کہ وہ جب کعبہ میں طواف کرتے تو قد میں سب سے زیادہ بلند سفید کجاوہ کی مانند تھے ۔[37]

وفات

تخریب کے بعد عباس بن عبدالمطلب کی قبر

ایک روایت کے مطابق عباس بن عبدالمطلب جمعہ کے دن 14 رجب سال ۳۲ ه‍.ق. عثمان کے عہد میں ۸۸ یا ۸۹ سال کی عمر پا کر اس جہان سے رخصت ہوئے۔ [38] علی(ع) اور عباس کے بیٹوں نے انہیں غسل دیا خلیفۂ وقت انکی اجازت سے ان کی تدفین کی رسومات میں شریک ہوئے۔ بنی ہاشم کے علاوہ اطراف مدینہ میں عثمان کی جانب سے کئے گئے اعلانات کی بنا پر عباس کی تشییع جنازہ میں اس قدر لوگ شریک ہوئے کہ اتنی تعداد میں اس سے پہلے کسی کے جنازے میں بھیڑ اکٹھی نہیں ہوئی تھی۔ ہجوم کے زیادہ ہونے کی وجہ سے نماز کا مقام تنگ پڑ گیا۔اس وجہ سے بقیع میں عثمان کی امامت میں نماز پڑھی گئی۔ دفن کے موقع پر انہیں دیکھنے والوں کے ہجوم کی وجہ سے دفن کرنے میں مشکل پیش آئی۔ ازدحام کی وجہ سے جنازے کا کپڑا ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ خلیفہ نے یہ صورت حال دیکھتے ہوئے سپاہیوں کو بھیجا کہ تا کہ وہ لوگوں کو دور ہٹا سکیں اور بنی ہاشم اسے دفن کر سکیں۔ بہرحال عوام کی کم نظیر شرکت کے ساتھ انہیں بقیع میں دفنایا گیا۔ [39]

عباس کے دفن کے وقت حضرت علی(ع)، امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) موجود تھے جبکہ دفن کرنے کیلئے عبدالله ،عبیدالله اور قُثَم (فرزندان عباس) قبر میں اترے۔[40] کیونکہ وہ قوی ہیکل اور جسیم الجثہ تھے۔

بقیع میں عباس کی قبر کے پاس بعد میں حضرت امام حسن(ع)، امام سجاد(ع)، امام باقر(ع) اور امام صادق(ع) دفن ہوئے۔ان کی قبور پر با عظمت گنبد تعمیر ہوئے جو وہابیوں کے حجاز پر قبضے تک باقی رہے وہابیوں نے انہیں ویران کر دیا۔ [41]

اولاد و ازواج

بیٹے:فضل:اسی نام کی مناسبت سے ان کی کنیت ابو الفضل تھی،عبد اللہ حبر مشہور مفسر قرآن ان کی کنیت ابو العباس تھی، عبید اللہ، قثم، معبد، عبد الرحمن؛ان کی ماں کا نام لبابہ بنت الحارث بن حزن تھا جو عباس کی بیوی اور ان کی کنیت ام الفضل تھی۔ حارث، کثیر اور تمام ان کے بیٹے ہیں۔[42][43] عون نام بھی مذکور ہے۔[44]

بیٹیاں: ام حبیب: ان کی ماں کا نام لبابہ تھا[45]،آمنہ:اسے امینہ بھی کہا جاتا تھا اور صفیۃ،[46][47] ہیں۔

اعتراضات

حوالہ جات

  1. بلاذری، انساب الاشراف ج ۱، ص۶۶، یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۱، ص۲۵۹.
  2. ابن قتیبہ، المعارف ص۱۲۱، ابن سعد، طبقات ج ۴، ص۲۱ و ۲۲.
  3. ابن اسحاق، سیره، ص۶۸، تحقیق سہیل زکار، چاپ اول، دارالفکر، بیروت، ۱۹۷۸ م، و انتشارات اسماعیلیان قم، ۱۴۱۰.
  4. ابن قتیبہ، المعارف، ص۱۲۱.
  5. ابن اسحاق، سیره، ص۷۹.
  6. ابن ہشام، ج ۱، ص۸۲. تحقیق مصطفی السقاء و ابراہیم الابیاری و عبد الحفیظ شبلی چاپ دوم، انتشارات قم مصطفوی، قم ۱۳۶۸.
  7. ابن اسحاق، سیره ص۱۳۸.
  8. بلاذری، انساب الاشراف، ج ۳، ص۱۵ و ۱۶.
  9. ابن اثیر، اسدالغابہ، ج ۳، ص۱۰۹، انتشارات اسماعیلیان، تہران.
  10. ابن ہشام، سیره، ج ۲، ص۳۰۱.
  11. ابن اسحاق، سیره ص۱۴۶.
  12. بلاذری، انساب الاشراف، ج ۱، ص۱۲۶ و ۲۳۵. شش جلد، تحقیق عبدالعزیز الدوری، چاپ اول،‌دار النشر، بیروت، ۱۳۹۸ ق.
  13. بلاذری، ج ۱، ص۲۳۵.
  14. ابن ہشام، سیره ج ۲، ص۸۲-۸۴؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج ۳، ص۱۷۳.
  15. بلاذری، انساب الاشراف، ج ۳، ص۱، مقاتل الطالبین، ص۳۶.
  16. بلاذری، انساب الاشراف، ج ۳، ص۱ و ۳.
  17. ابن عساکر، تہذیب ج ۷، ص۲۳۲. تحقیق عبدالقادر بدران.
  18. ابن ہشام، سیره، ج ۲، ص۳۰۱.
  19. یعقوبی، تاریخ ج ۲، ص۴۶. دو جلد منشورات الشریف الرضی، قم، ۱۴۱۴.
  20. بلاذری، انساب الاشراف، ج ۳، ص۱، ۳.
  21. ذہبی، سیر اعلام النبلاء ج ۲، ص۹۹. تحقیق شعیب الارنوط، چاپ نهم، موسسہ قاہرہ، ۱۹۶۰ م.
  22. ابن اثیر، اسدالغابہ، ج ۳، ص۱۱۰.
  23. بلاذری، انساب الاشراف، ج ۳، ص۱ و ۳.
  24. ابن حبیب، المحبر، ص۵۳.
  25. ابن سعد، طبقات ج ۴ ص۹-۱۰،‌دار صادر و‌دار احیاء التراث العربی، بیروت ۱۴۰۵ ق.
  26. بلاذری، انساب الاشراف، ج ۳، ص۳.
  27. بلاذری، انساب الاشراف، ج ۳، ص۳.
  28. ابن اسحاق، سیره ص۳۰۷. ابن سعد، طبقات ج ۴، ص۱۵.
  29. ابن ہشام، سیره ج ۳، ص۳.
  30. بلاذری، انساب الاشراف، ج ۳، ص۲۰ و ۲۱ و ج ۱ ص۳۵۵. ابن اثیر، اسدالغابہ، ج ۳، ص۱۱۰.
  31. بلاذری، انساب الاشراف، ج ۳، ص۳.
  32. ابن سعد، طبقات ج ۴، ص۱۸، ذہبی، سیر اعلام النبلاء ج ۲، ص۸۷.
  33. مفید، ارشاد، ج ۱، ص۱۴۱.
  34. مفید، ارشاد، ج ۱، ص۱۴۱.
  35. بلاذری، انساب الاشراف، ج ۳، ص۲۲.
  36. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج ۲، ص۷۹، ۹۵.
  37. ابن قتیبہ، المعارف ص۵۹۲ – مسعودی، مروج الذہب، ج ۲، ص۷۰۸ (ترجمہ فارسی).
  38. بلاذری، انساب الاشراف، ج ۳، ص۱، ۲۲.
  39. ابن سعد، طبقات ج ۴، ص۲۳ – ۲۲.
  40. بلاذری، انساب الاشراف، ج ۳، ص۲۲.
  41. آغا بزرگ، الذریعہ، ج ۱۸، ص۹، سید محسن امین، کشف الارتیاب، ص۳۲ – ۳۳.
  42. زبيري، نسب قريش ، 1/25دار النشر : دار المعارف - القاہرة
  43. بن حزم الأندلسي القرطبي الظاہري (المتوفى: 456هـ)،جمہرة أنساب العرب،1/18، دار الكتب العلميہ - بيروت
  44. ابن عبد البر،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ذیل تمام بن عباس،1/196،دار الجيل، بيروت
  45. بلاذری،جمل من انساب الاشراف،4/22،دار الفكر - بيروت
  46. زبيري، نسب قريش ، 1/25دار النشر : دار المعارف - القاہرة
  47. بن حزم الأندلسي القرطبي الظاہري (المتوفى: 456هـ)،جمہرة أنساب العرب،1/18، دار الكتب العلميہ - بيروت

مآخذ

  • ابن اثیر، اسدالغابہ، انتشارات اسماعیلیان، تہران.
  • ابن اسحاق، سیره، تحقیق سہیل زکار، چاپ اول، دارالفکر، بیروت، ۱۹۷۸ م، و انتشارات اسماعیلیان قم، ۱۴۱۰.
  • ابن حبیب، ابو جعفر محمد بن حبيب بن اميہ الہاشمى البغدادي، المحبر، تحقيق ايلزة ليختن شتيتر، بيروت، دار الآفاق الجديدة، بى تا
  • ابن سعد، طبقات، ‌دار صادر و‌دار احیاء التراث العربی، بیروت ۱۴۰۵ ق.
  • ابن عساکر، تہذیب، تحقیق عبدالقادر بدران.
  • ابن قتیبہ، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبہ، المعارف، تحقيق ثروت عكاشہ، القاہرة، الہيئہ المصريہ العامہ للكتاب، ط الثانيہ، 1992م
  • ابن ہشام، سیره، تحقیق مصطفی السقاء و ابراہیم الابیاری و عبد الحفیظ شبلی چاپ دوم، انتشارات قم مصطفوی، قم ۱۳۶۸.
  • امین، سید محسن، کشف الارتیاب،
  • آغا بزرگ، الذریعہ،
  • بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق عبدالعزیز الدوری، چاپ اول،‌دار النشر، بیروت، ۱۳۹۸ ق.
  • ذہبی، سیر اعلام النبلاء، تحقیق شعیب الارنوط، چاپ نہم، موسسہ قاہرہ، ۱۹۶۰ م.
  • مسعودی، أبو الحسن على بن الحسين، مروج الذہب، ترجمہ ابو القاسم پاينده، تہران، انتشارات علمى و فرہنگى، چ پنجم، 1374ش
  • مفید، الارشاد،
  • ابو الفرج اصفہانی، على بن الحسين، مقاتل الطالبین، تحقيق سيد احمد صقر، بيروت، دار المعرفہ، بى تا
  • یعقوبی، احمد بن واضح، تاریخ، منشورات الشریف الرضی، قم، ۱۴۱۴.