باب حطہ
باب حطہ بیت المقدس میں واقع ایک دروازے کا نام ہے۔ بنی اسرائیل کو چالس سال تک سرزمین تِیہ میں آوارہ اور سرگردان رہنے کے بعد سرزمین مقدس میں داخل ہوتے وقت گناہوں کی مغفرت کے لئے "حطہ" کہتے ہوئے اس دروازے سے گزرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
شیعہ اور اہل سنت روایات میں امام علیؑ اور اہل بیتؑ کو باب خطہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ان احادیث کے مطابق جو بھی اہل بیتؑ کی پناہ میں آجائے اسے نجات ملے گی۔
بنیاسرائیل کو باب حطہ سے گزرنے کا حکم
قرآن مجید کے مطابق جب بنی اسرائیل نے سرزمین مقدس کی شہروں میں سے کسی ایک شہر میں داخل ہونا چاہا تو اللہ تعالی کی طرف سے "حطہ" کہتے ہوئے ایک مخصوص دروازے سے داخل ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔[1]احادیث میں اس دروازے کو «باب حطہ» کہا گیا ہے۔[2] اکثر مفسرین [3] یہاں تک کہ قریہ سے شہر «اریحا» مراد لینے والے مفسرین نے بھی[4] لفظ «الباب» سے بیت المقدس کے دروازوں میں سے ایک دروازے مراد لیتے ہیں۔[5]
لفظ حطہ کے معنی مقام میں تنزلی اور انسان کے کاندھے سے کسی سنگین چیز یا گناہ کے بوجھ کو اٹھانے کے ہیں۔[6] طبرسی تفسیر مجمع البیان میں باب حطہ کے بارے میں کہتے ہیں: خدا نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس میں داخل ہوتے وقت باب حطہ سے تواضع کے ساتھ "حطہ" کہتے ہوئے جھک کر داخل ہونے کا حکم دیا تھا۔ لیکن بنی اسرائیل مقرر دروازے کے علاوہ کسی اور دروازے سے داخل ہوئے اور حکم خدا کا مزاق اڑاتے ہوئے مطلوبہ کلمے میں بھی تحریف کرتے ہوئے سریانی زبان میں «ہاطا سماقاتا» ...«حطا سماقاتا» کہتے ہوئے داخل ہوئے جس کے معنی جو ملے ہوئے سرخ رنگ کی گندم ہے۔[7]
اہل بیت کی باب حطہ سے تشبیہ
شیعہ مآخذ میں اہل بیتؑ کو باب حطہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث نبوی میں آیا ہے:
- جس نے میرا دین قبول کیا، میری سیرت پر عمل کیا اور میری سنت کی پیروی کی اسے چاہیے کہ میری اہل بیت سے ائمہ معصومینؑ کو پوری امت سے افضل اور برتر ہونے کا عقیدہ رکھے۔ میری امت میں میری اہل بیتؑ، بنی اسرائیل میں «باب حطہ» کی مانند ہے۔[8]
اہل سنت کے مآخذ میں میں بھی رسول اکرمؐ کی ایک روایت ابوسعید خدری سے نقل ہوئی ہے:
- تمہارے درمیان میری اہل بیتؑ کی مثال بنی اسرائیل میں باب حطہ کی سی ہے جو بھی اس میں سے داخل ہوگا، بخشا جائے گا۔[9]
اس تشبیہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: جس طرح سے بنی اسرائیل کی ایمان اور عقیدے کا معیار و میزان باب حطہ تھا اسی طرح سے حضرت علیؑ اور اہل بیتؑ بھی پیغمبر اکرمؐ کی امت کی ایمان کا معیار ہیں۔[10] ان احادیث کے مطابق اہل بیتؑ اس دروازے کی مانند ہیں، بنی اسرائیل میں سے جو بھی اس کی پناہ لے آتا اس کے گناہ معاف ہوجاتے اسی طرح جو بھی پیغمبر اکرمؐ کی اہلبیت کی پناہ مانگے وہ بھی نجات پائے گا۔[11] اسی طرح دسویں صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین ابنحجر ہیتمی حدیث باب حِطّۃ نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس طرح خدا نے بنی اسرائیل کے باب حِطّہ سے گزرنے کو ان کی گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ قرار دیا ہے، امت محمدی میں بھیمودت اہل بیتؑ کو گناہوں کی بخشش کا ذریعہ قرار دیا ہے۔[12]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ ۵۸.
- ↑ ملاحظہ کریں: صدوق، الامالی، ۱۳۷۶، ص۷۴، ح۶.
- ↑ ملاحظہ کریں: طبری، جامعالبیان، دار المعرفۃ، ج۱، ص۴۲۶؛طَبرِِسی، مجمعالبیان، ۱۳۸۳، ج۱، ص۲۴۷؛ ابن عادل، اللباب فی علوم الکتاب، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۹۵.
- ↑ طبری، جامعالبیان، دار المعرفۃ، ج۱، ص۴۲۶؛ ابن عادل، اللباب فی علوم الکتاب، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۹۳.
- ↑ طبری، جامعالبیان، دار المعرفة، ج۱، ص۴۲۷؛ ابن عادل، اللباب فی علوم الکتاب، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۹۵.
- ↑ فیروزآبادی، القاموس المحیط، دارالکتب العلمیه، ج۲، ص۸۹۴-۸۹۵، ذیل «حط»؛ زبیدی، تاجالعروس، ج۱۰، ص۲۱۶-۲۱۷، ذیل «حطط».
- ↑ طبرسی، تفسیر مجمع البیان، الناشر : دار المعرفة، ج۱، ص۲۴۸.
- ↑ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۷۴، ح۶ .
- ↑ ہیثمی، الصواعق المحرقۃ، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص ۱۷۹؛ سیوطی و مناوی، جامع الأحادیث، ۱۴۱۴ق، ۱۰ق، ج۸، ح ۸۹۵۶؛ ہیثمی، مجمع الزوائد، ۱۴۱۴ق، ج۹، ص۱۶۸؛ طبرانی، المعجم الصغیر، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۸۲.
- ↑ حسینی میلانی، جواهر الکلام فی معرفة الإمامة والإمام، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۱۶۷.
- ↑ خوانساری، شرح آقا جمال خوانساری بر غررالحکم و دررالکلم، ۱۳۶۶ش، ج۶، ص ۱۸۶.
- ↑ ہیتمی، الصواعق المحرقہ، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۴۴۷.
مآخذ
- ابن حجر ہیثمی، احمد، الصواعق المحرقۃ، تحقیق عبد الرحمن بن عبد اللہ التركی و كامل محمد الخراط، لبنان، مؤسسۃ الرسالۃ، چاپ اول، ۱۴۱۷ھ۔
- ابن عادل، عمر بن علی، اللباب فی علوم الکتاب، بیروت، دارالكتب العلمیۃ، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
- حسینی میلانی، سیدعلی، جواہر الکلام فی معرفۃ الإمامۃ والإمام، قم، مرکز الحقایق الاسلامیہ، ۱۳۹۲شمسی ہجری
- خوانساری، محمد بن حسین، شرح آقا جمال خوانساری بر غررالحکم و دررالکلم، تصحیح میرجلال الدین حسینی ارموی، تہران، دانشگاہ تہران، چاپ چہارم، ۱۳۶۶شمسی ہجری
- زبیدی، محمد بن محمد، تاجالعروس، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۴ھ۔
- سیوطی و مناوی، عبدالرحمن بن ابیبکر و عبد الرؤرف بن محمد، جامع الأحادیث، ۱۴۱۴ھ۔
- صادقی تہرانی، محمد، الفرقان، قم، فرہنگ اسلامی، ۱۳۶۶شمسی ہجری
- صدوق، محمد بن علی، الامالی، تحقیق محمدباقر کمرہای، تہران، کتابچی، ۱۳۷۶شمسی ہجری
- طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الصغیر، تحقیق محمد شكور محمود الحاج أمریر، بیروت-عمان، دار عمار، چاپ اول، ۱۴۰۵ھ۔
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان، بیروت، دار المعرفۃ، بیتا.
- فیروزآبادی، مجدالدین، القاموس المحیط، بیروت، دارالکتب العلمیہ، بیتا.
- ہیثمی، علی بن ابوبکر، مجمع الزوائد، تحقیق حسین سلیم أسد الدّارانی، دمشق، دَارُ المَأْمُون لِلتُّرَاثِ، ۱۴۱۴ھ۔