مالک بن نویرہ کا قتل

ویکی شیعہ سے
مالک بن نُوَیْرہ کا قتل
واقعہ کی تفصیلمالک بن نُوَیْرہ کا خالد بن ولید کے ہاتھوں ابوبکر کی تائید سے قتل
زمان11ھ رسول اللہ کی رحلت کے بعد
دورہخلافت ابوبکر
مکانعلاقہ بُطاح
سببابوبکر کی خلافت کو نامشروع سمجھ کر زکات دینے سے انکار • خالد بن ولید کی اخلاقی برائی
مقاصدحکومت مخالفوں کی سرکوبی
عناصرابوبکرخالد بن ولید
اثراتشیعوں کی طرف سے عدالت صحابہ کے نظریے کی رد • خالد بن ولید کو پاک ثابت کرنے کے لئے بعض اہل سنت کی طرف سے مالک پر ارتداد کی نسبت
عکس العملعُمَر بن خَطّاب اور بعض صحابہ کا اعتراض
مربوطرِدّہ کی جنگیں


مالک بن نُوَیْرہ کا قتل، ابوبکر کی خلافت کے دور کا ایک واقعہ ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ کا ایک صحابی مالک بن نویرہ، خالد بن وَلید کے ہاتھوں مارا گیا۔ اور شیعہ اور سنیوں کے مابین کلامی مباحث کا باعث بنا۔ خالد کی اخلاقی برائی کے ارتکاب اور مالک کے قتل کی وجہ سے شیعہ عدالت صحابہ کے نظرئے کو نہیں مانتے ہیں۔ شیعہ محققین کا کہنا ہے کہ مالک نے ابوبکر کی خلافت کو غیر مشروع قرار دیتے ہوئے ان کو زکات دینے سے انکار کر دیا اور اسی سبب وہ مارا گیا۔

بعض اہل سنت محققین خالد کے اس عمل کی توجیہ میں مالک کو مُرتَدّ سمجھتے ہیں؛ لیکن شیعہ اور بعض اہل سنت، مالک کے مسلمان ہونے پر بعض اصحاب کی گواہی اور ابوبکر کی طرف سے مالک کی دیت کا بیت المال سے ادا کرنے کے سبب مالک کا مرتد ہونے کو انکار کرتے ہیں؛ جیسا کہ عُمَر بن خَطّاب، خالد بن ولید کو مالک کے قتل میں قصاص کا مستحق اور ان کی بیوی سے ہمبستری کے سبب سنگسار کا حقدار سمجھتا تھا؛ ان کے برخلاف ابوبکر اسے خالد کی اجتہادی غلطی سمجھتا تھا۔

مالک بن نویرہ جاہلیت اور اسلام کے دور میں سرمایہ دار اور بزرگوں میں شمار ہوتا تھا۔ رسول اللہؐ کے دَور میں اسلام لے آیا اور آنحضرتؐ کے وصال کے بعد مالک نے ابوبکر کی خلافت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اکرمؐ کے فرمان کے مطابق خلافت، امام علیؑ کے سپرد کیوں نہیں کی گئی۔ شیخ عباس قمی کا کہنا ہے کہ مالک کو قتل کرنے کا سبب ان کی اہل بیتؑ سے محبت تھی۔

مالک کے قتل کے موضوع پر مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے ایک علی لباف کی کتاب «ماجرای قتل مالک بن نویرہ» ہے۔

علم کلام کے مباحث میں واقعہ کی اہمیت

مالک بن نویرہ کا قتل شیعہ اور اہل سنت کے کلامی مباحث میں زیادہ بحث ہونے والا ایک موضوع ہے۔[1] خالد بن ولید کے ہاتھوں مالک بن نویرہ کا قتل اور ان کی بیوی سے ہمبستری، ردہ کی جنگوں کے سب سے زیادہ بحث ہونے والے واقعات میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔[2] شیعہ محققین اس واقعے سے استناد کرتے ہوئے اہل سنت کا عدالت صحابہ کے نظرئے کو رد کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ عدالت صحابہ کا نظریہ بعض صحابہ کے نازیبا حرکتوں کی توجیہ کے لئے بنایا گیا ہے۔[3] چوتھی صدی ہجری کے مورخ مَقْدِسی کے مطابق امامت کے بعد مسلمانوں میں سب سے زیادہ اختلاف ردہ کی جنگوں میں ظاہر ہوا؛ اگرچہ ابوبکر کا نظریہ تھا کہ اہل رِدہ سے جنگ کی جائے لیکن مسلمانوں نے ان کی مخالفت کی اور ایک نہ سنی[4]

شیعہ اور بعض اہل سنت، مالک مرتد ہونے کی بات کو صحیح نہیں سمجھتے ہیں اور اسے مسلمان سمجھتے ہیں۔[5] بعض صحابہ کا ان کے مسلمان ہونے پر گواہی، ابوبکر کی طرف سے مالک کی دیت دینا اور ابوبکر کی طرف خالد کو مالک کی بیوی سے الگ ہونے کا حکم، مالک کا مسلمان ہونے کی بعض دلائل ہیں؛[6] البتہ ان کا مسلمان ہونے کے بارے میں اہل سنت سب کا ایک جیسا نظریہ نہیں ہے اور ان میں سے بعض مالک کو مُرتَدّ سمجھتے ہیں۔[7] محمد حسین ہِیْکَل خالد کی حرکتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں مالک کا قتل اور ان کی بیوی سے ہمبستری، خالد کی اسلام کے لئے کی جانے والی خدمات کے سامنے ہیچ ہیں۔[8]

مالک بن نویرہ

تفصیلی مضمون: مالک بن نویرہ

مالک بن نُوَیرۃ بن جَمْرَۃ تَمیمی رسول اللہ کے صحابی اور زمانہ جاہلیت اور عصر اسلامی میں ان کا شمار اشراف و بزرگان میں ہوتا تھا۔[9] مالک شاعر تھے اور ان کے اشعار کا ایک دیوان بھی تھا۔[10] آپ پیغمبر اکرم کے پاس جاکر مسلمان ہوئے۔[11] رسول اللہ نے اسے اپنے قبیلے میں زکات جمع کرنے کے لئے اپنا نمائندہ بنایا۔[12]

چودہویں صدی ہجری کے محدث شیخ عباس قمی کہتے ہیں کہ مالک بن نویرہ اہل بیتؑ سے محبت کی وجہ سے مارا گیا۔[13] فضل بن شاذان کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ کی ارتحال کے بعد مالک بن نویرہ مدینہ آئے تو اسے ابوبکر کی خلافت کا پتہ چلا تو اس پر اعتراض کیا کہ رسول اللہ کے فرمایشات کے تحت خلافت امام علیؑ کو کیوں نہیں دی گئی ہے۔[14] اس اعتراض پر ابوبکر کے حکم سے قُنْفُذ اور خالد بن ولید نے مالک کو مسجد سے باہر نکال دیا۔[15]

ردہ کی جنگوں میں مالک کا قتل

شیعہ مورخین علامہ امینی[16] اور رسول جعفریان،[17] کا کہنا ہے کہ مالک بن نویرہ، خالد بن ولید کی اخلاقی انحراف کی وجہ سے مارا گیا۔ مالک زکات ابوبکر کو نہیں دیتا تھا اور وہ اپنی قوم میں تقسیم کرتا تھا۔[18] کتاب النص و الاجتہاد کے مصنف سید عبد الحسین شرف الدین کہتے ہیں کہ مالک ابوبکر کو زکات نہیں دیتے تھے کیونکہ وہ ان کی خلافت کو مشروع نہیں سمجھتے اور ان کو زکات دینا صحیح نہیں سمجھتے تھے۔[19]

خالد بن ولید ابوبکر کے حکم سے مالک اور ان کے قبیلے سے ارتداد کا مقابلہ کرنے بُطاح کا علاقہ گیا۔[20] ابوبکر نے حکم دیا تھا کہ جنگ سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ وہ نماز پڑھتے ہیں یا نہیں تاکہ مرتد ہونا واضح ہوجائے۔[21] مالک کو جب خالد اور اس کی لشکر کے آنے کا پتہ چلا تو حُسن نیت دکھانے اور اس گمان کو دور کرنے کے لئے کہ کہیں یہ نہ سوچیں کہ مالک نے جنگ کے لئے لشکر تیار کیا ہے، اپنے قبیلے کے افراد کو منتشر کردیا تاکہ جنگ کا گمان ختم ہوجائے۔[22] بعض انصار نے جب مالک اور اس کے قبیلے کو نماز کے پابند پایا تو خالد بن ولید کی مخالفت کی لیکن خالد نے ان کی ایک نہ سنی۔[23]

مالک خود کا مرتد نہ ہونے کو ثابت کرنے کے لئے اپنی بیوی اُم ّ تَمیم کے ہمراہ خالد کے پاس گیا، اس کی بیوی ایک خوبرو خاتون تھی اس لئے خالد نے مالک کو قتل کیا اور اسی رات اس کی بیوی سے شوہر کی وفات کے عِدّہ کی حالت میں ہمبستری کیا۔[24]تیسری صدی ہجری کے مورخ یعقوبی کے مطابق جب خالد نے ام تمیم کو دیکھا تو یہ کہتے ہوئے کہ «خدا کی قسم جو تمہارے پاس ہے تجھے قتل کئے بغیر میرے ہاتھ نہیں آئے گا» مالک کو قتل کیا۔[25] دوسری صدی ہجری کے مورخ واقدی کے مطابق خالد کافی عرصے سے ام تمیم کے تعاقب میں تھا اور مالک نے اس کے قتل کی وجہ اس کی بیوی کی خوبصورتی بیان کیا تھا۔[26] ان کے قتل کو 11ھ کے واقعات میں ذکر کیا ہے۔[27]

مالک کے قتل پر صحابہ کا اعتراض

خالد کے غیر شرعی کاموں پر ابو قَتادَہ انصاری اور عبداللہ بن عمر جیسے بعض صحابہ نے اعتراض کیا[28] خالد کے سپاہ کی رپورٹ جب مدینہ پہنچی تو خالد کے غیر شرعی کاموں کے بارے میں عُمَر بن خَطّاب، ابوبکر کے پاس گیا اور ان سے خالد کو منصب سے برطرف کرنے کی درخواست کی۔[29] عمر بن خطاب، خالد بن ولید کو مالک کا قاتل اور انہیں قصاص کا حقدار اور نیز مالک کی بیوی سے زنا کی سزا میں سنگسار کا مستحق سمجھتے تھے۔[30] لیکن ابوبکر نے عمر کی درخواست کو رد کرتے ہوئے خالد کے فعل کو اجتہاد میں اشتباہ قرار دیا۔[31]

مالک کے بھائی مُتَمِّم بن نویرہ نے جب اپنے بھائی کے خونخواہی کا مطالبہ کیا تو ابوبکر نے خون بہا بیت المال سے دینے کا حکم دیا۔[32] اور اس نے خالد کو مالک کی بیوی سے جدا ہونے کا بھی حکم دیا لیکن خالد کو ابوبکر نے سپہ سالاری سے عزل نہیں کیا۔[33]مصری مورخ محمد حسین ہِیْکَل کہتے ہیں کہ جب تک ابوبکر کو اپنی حکومت میں خالد کی ضرورت تھی اسے استعمال کیا۔[34]، لیکن عمر کے ذہن سے اس کی غلطی کبھی نہیں گئی اسی لئے ابوبکر کی وفات کے بعد جب خلافت پر آیا تو خالد کو اپنے منصب سے برطرف کیا۔[35]

مونوگراف

مالک بن نویرہ کے بارے میں لکھی جانے والی کتابوں میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • «ماجرای قتل مالک بن نویرہ» علی لَبّاف؛ یہ کتاب سید مرتضی عسکری کی کتابوں سے اقتباس ہے جسے انتشارات منیر تہران نے منتشر کیا۔[36]
  • «پژوہشی در حیات سیاسی و مبارزاتی مالک بن نویرہ» بقلم حسن علی پور وحید؛ یہ کتاب 1395شمسی کو دفتر انتشارات اسلامی سے چھپ گئی یہ کتاب 685 صفحوں پر مشتمل ہے۔[37]
  • «مالک بن نویرہ» حسن علی پور وحید کی دوسری کتاب؛ اس کتاب میں مؤلف نے مالک بن نویرہ کے واقعے کے بارے میں اہل سنت کے مآخذ سے تجزیہ و تحلیل کیا ہے۔[38] یہ کتاب انتشارات دلیل ما سے 1402 ہجری شمسی کو 616 صفحوں پر مشتمل چھپ گئی[39]

حوالہ جات

  1. صیامیان گرجی، «ردہ، جنگ ہا»، ص695۔
  2. غلامی، «جنگ ہای ارتداد و بحران جانشینی پس از پیامبر(ص)»، ص39۔
  3. نیکزاد، «عدالت صحابہ در ترازوی نقد»، ص42-44۔
  4. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ، ج5، ص123۔
  5. ملاحظہ کریں: ابن أثیر، اسد الغابۃ، 1409ھ، ج4، ص277؛ غلامی، «جنگ ہای ارتداد و بحران جانشینی پس از پیامبر(ص)»، ص40۔
  6. ملاحظہ ہو: ابن أثیر، اسد الغابۃ، 1409ھ، ج4، ص277؛ غلامی، «جنگ ہای ارتداد و بحران جانشینی پس از پیامبر(ص)»، ص40۔
  7. ملاحظہ کریں: ابن اثیر، اسد الغابۃ، 1409ھ، ج4، ص277۔
  8. ہِیْکَل، الصدیق ابوبکر، دار المعارف، ص141۔
  9. ابن أثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج4، ص276۔
  10. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج9، ص264۔
  11. ذہبی، تاریخ الاسلام، 1413ھ، ج3، ص33۔
  12. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص122۔
  13. قمی، منتہی الآمال، 1379ھ، ج1، ص311۔
  14. ابن شاذان، الفضائل، 1363شمسی، ص76۔
  15. ابن شاذان، الفضائل، 1363شمسی، ص76۔
  16. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج7، ص219-220۔
  17. جعفریان، تاریخ خلفا، 1394شمسی، ص38۔
  18. ابن حجر، الإصابہ، 1415ھ، ج5، ص560۔
  19. شرف الدین، النص و الاجتہاد، 1404ھ، ص118۔
  20. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، 1408ھ، ج2، ص495۔
  21. سید مرتضی، الشافی فی الإمامہ، 1410ھ، ج4، ص163۔
  22. شرف الدین، النص و الاجتہاد، 1404ھ، ص118-119۔
  23. واقدی، الردہ، 1410ھ، ص106-107۔
  24. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص131-132۔
  25. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص131۔
  26. واقدی، الردہ، 1410ھ، ص107۔
  27. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج3، ص278۔
  28. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج5، ص159۔
  29. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج3، ص278-279۔
  30. ابی الفداء، تاریخ ابی الفداء، 1417ھ، ج1، ص222۔
  31. ابن کثیر، البدایۃ و النہایہ، 1407ھ، ج6، ص323۔
  32. ابن اثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج4، ص277۔
  33. ابن حجر، الإصابہ، 1415ھ، ج2، ص218۔
  34. ہِیْکَل، الصدیق ابوبکر، دار المعارف، ص157۔
  35. ہِیْکَل، الصدیق ابوبکر، دار المعارف، ص138۔
  36. لباف، ماجرای قتل مالک بن نویرہ، 1391ہجری شمسی۔
  37. علی پوروحید، پژوہشی در حیات سیاسی و مبارزاتی مالک بن نویرہ، 1395ہجری شمسی۔
  38. علی پوروحید، مالک بن نویرہ، 1402ہجری شمسی۔
  39. علی پوروحید، مالک بن نویرہ، 1402ہجری شمسی۔

مآخذ

  • آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دار الأضواء، 1403ھ۔
  • ابن أثیر، علی بن ابی الکرم، اُسُد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت، دارالفکر، 1409ھ۔
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابۃ فی تمییز الصحابہ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1415ھ۔
  • ابن خلدون، عبدالرحمن بن محمد، تاریخ ابن خلدون، بیروت، دار الفکر، 1408ھ۔
  • ابن شاذان، فضل، الفضائل، قم، رضی، 1363ہجری شمسی۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایہ، بیروت، دار الفکر، 1407ھ۔
  • ابی الفداء، اسماعیل بن علی، تاریخ ابی الفداء، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1417ھ۔
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیہ، 1416ھ۔
  • جعفریان، رسول، تاریخ خلفا، قم، دلیل ما، 1394ہجری شمسی۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، بیروت، دار الکتاب العربی، 1413ھ۔
  • سید مرتضی، علی بن الحسین، الشافی فی الإمامہ، تہران، مؤسسۃ الصادق(ع)، 1410ھ۔
  • شرف الدین، سید عبدالحسین، النص و الاجتہاد، قم، ابومجتبی، 1404ھ۔
  • صیامیان گرجی، زہیر، «ردہ، جنگ ہا»، در جلد 24 دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، تہران، مرکز دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، 1398ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت دار التراث1387ھ۔
  • علی پوروحید، حسن، پژوہشی در حیات سیاسی و مبارزاتی مالک بن نویرہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1395ہجری شمسی۔
  • علی پوروحید، حسن، مالک بن نویرہ، قم، دلیل ما، 1402ہجری شمسی۔
  • غلامی، علی، «جنگ ہای ارتداد و بحران جانشینی پس از پیامبر(ص)»، در مجلہ معرفت، شمارہ 40، فروردین 1380ہجری شمسی۔
  • قمی، عباس، منتہی الآمال ، قم، دلیل ما، 1379ھ۔
  • لَبّاف، علی، ماجرای قتل مالک بن نویرہ، تہران، منیر، 1391ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، تحقيق: السيد إبراہيم الميانجي ، محمد الباقر البہبودي، بیروت، دارالرضا، 1403ھ۔
  • مَقْدِسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بیروت، پورت سعید، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ، بی تا۔
  • نیکزاد، عباس، «عدالت صحابہ در ترازوی نقد»، در مجلہ رواق اندیشہ، شمارہ 28، فروردین 1383ہجری شمسی۔
  • واقدی، محمد بن عمر، الردہ، بیروت، دار الغرب الاسلامی، 1410ھ۔
  • ہِیْکَل، محمد حسین، الصدیق ابوبکر، قاہرہ، دار المعارف، بی تا۔
  • یعقوبی، احمد بن أبی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بی تا۔