صلح امام حسن علیہ السلام

ویکی شیعہ سے
شیعہ
اصول دین (عقائد)
بنیادی عقائدتوحیدعدلنبوتامامتمعاد یا قیامت
دیگر عقائدعصمتولایتمہدویت: غیبتانتظارظہوررجعتبداء • ......
فروع دین (عملی احکام)
عبادی احکامنمازروزہخمسزکاتحججہاد
غیر عبادی احکامامر بالمعروف اور نہی عن المنکرتولاتبرا
مآخذ اجتہادقرآن کریمسنت (پیغمبر اور ائمہ کی حدیثیں)عقلاجماع
اخلاق
فضائلعفوسخاوتمواسات • ...
رذائلكبرعُجبغرورحسد • ....
مآخذنہج البلاغہصحیفۂ سجادیہ • .....
اہم اعتقادات
امامتمہدویترجعتبداشفاعتتوسلتقیہعصمتمرجعیت، تقلیدولایت فقیہمتعہعزاداریمتعہعدالت صحابہ
شخصیات
شیعہ ائمہامام علیؑامام حسنؑامام حسینؑامام سجادؑامام باقرؑامام صادقؑامام کاظمؑامام رضاؑامام جوادؑامام ہادیؑامام عسکریؑامام مہدیؑ
صحابہسلمان فارسیمقداد بن اسودابوذر غفاریعمار یاسر
صحابیہخدیجہؑفاطمہؑزینبؑام کلثوم بنت علیاسماء بنت عمیسام ایمنام سلمہ
شیعہ علماادباعلمائے اصولشعراعلمائے رجالفقہافلاسفہمفسرین
مقدس مقامات
مسجد الحراممسجد النبیبقیعمسجدالاقصیحرم امام علیمسجد کوفہحرم امام حسینؑحرم کاظمینحرم عسکریینحرم امام رضاؑ
حرم حضرت زینبحرم فاطمہ معصومہ
اسلامی عیدیں
عید فطرعید الاضحیعید غدیر خمعید مبعث
شیعہ مناسبتیں
ایام فاطمیہمحرّم ، تاسوعا، عاشورا اور اربعین
اہم واقعات
واقعۂ مباہلہغدیر خمسقیفۂ بنی ساعدہواقعۂ فدکخانۂ زہرا کا واقعہجنگ جملجنگ صفینجنگ نہروانواقعۂ کربلااصحاب کساءافسانۂ ابن سبا
الکافیالاستبصارتہذیب الاحکاممن لایحضرہ الفقیہ
شیعہ مکاتب
امامیہاسماعیلیہزیدیہکیسانیہ


صُلح امام حسنؑ اس قرارداد کو کہا جاتا ہے جو شیعوں کے دوسرے امام، امام حسنؑ اور معاویۃ بن ابی سفیان کے درمیان سنہ 41 ہجری کو منعقد ہوا۔ یہ صلح نامہ معاویہ کی طرف سے امام حسنؑ کی بعنوان خلیفہ مسلمین بیعت سے انکار کے نتیجے میں شروع ہونے والی جنگ کے بعد منعقد ہوا۔

اس صلح کے مختلف علل و اسباب ہیں جن میں سے امام حسنؑ کے بعض کمانڈروں کی خیانت، حفظ مصلحت مسلمین، شیعوں کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اور خوارج کی طرف سے اسلام کو نقصان پہچانے کا خطرہ وہ اہم ترین عوامل میں سے ہیں جن کی وجہ سے امام عالی مقام اس صلح نامے پر راضی ہونے پر مجبور ہوئے۔ اس صلح نامے کے مطابق امام حسنؑ نے کئی شرائط کے ساتھ خلافت کو معاویہ کے سپرد کردیا۔ ان شرائط میں سے اہم ترین شرط یہ تھا کہ معاویہ اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کرے گا اور امامؑ اور آپ کے پیروکاروں کی جان مال عزت و آبرو محفوظ رہے گا۔ لیکن معاویہ نے ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا۔

پیش خیمہ

امام حسنؑ کی امامت

امام علی علیہ السلام کی شہادت اور تدفین کے بعد عراق، مکہ اور مدینہ سمیت اس وقت کے تمام اسلامی ممالک میں موجود مسلمانوں بالاخص پیغمبر اکرمؐ کے بڑے بڑے اصحاب نے آپ کے فرزند امام حسنؑ کے ہاتھ پر بعنوان خلیفۃ المسلمین بیعت کی۔ جبکہ معاویہ جو شام اور مصر پر حکومت کرتا تھا، نے امام علیؑ کی طرح امام حسنؑ کی بیعت سے بھی انکار کردیا۔ جب امام حسنؑ کی خلافت کی خبر شام میں پہنچی تو معاویہ نے اپنے جاسوس عراق روانہ کیا اور امام اور آپ کے سپاہیوں کی تحرکات کی رپورٹ ہر لحظہ اسے پہنچتی تھی۔ دوسری طرف سے امام حسنؑ نے معاویہ کو اپنی بیعت کرنے کی دعوت دی اور مختلف خطوط کے ذریعے اسے بیعت سے انکار پر جنگ کی دھمکی دی جس کے مقابلے میں معاویہ بھی اپنے آپ کو خلافت کا سزاوار سمجھتا تھا۔ [1]

امام حسنؑ کا صلح کی طرف تمائل

بعض مورخین امام حسنؑ کو ایک صلح پسند انسان معرفی کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہیں کہ امام حسنؑ شروع سے ہی معاویہ کے ساتھ صلح کرنے کے درپے تھے۔ اس نظریے کے مطابق جسے ابن شہاب زہری جو بنی امیہ کی طرف تمائل رکھتا تھا نے تاریخ طبری میں نقل کیا ہے، اس وقت کے عراق میں موجود مسلمان معاویہ کے ساتھ جنگ کرنا چاہتے تھے اس لئے ابتداء میں امام حسنؑ اپنے سپاہیوں کی چاہت پر عمل کرنے پر مجبور ہوئے درحالیکہ خود امامؑ جنگ کی طرف کبھی تمائل نہیں رکھتا تھے۔[2] اس سلسلے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ امام حسنؑ اپنی بیعت کے ابتدائی دنوں سے ہی اپنے لشکر کے ان سپاہیوں کے مخالف تھے جو معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے کے خواہاں تھے۔ طبری کے مطابق پہلا شخص جس نے امام حسنؑ کی بعت کی وہ قیس بن سعد بن عبادہ تھا اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ قرآن و سنت پر عمل کرنے اور منحرفین کے ساتھ جنگ کرنے کی شرط پر آپ کی بیعت کرتا ہوں۔ امام حسنؑ نے اس سے کہا: قرآن و سنت کی بیس پر بیعت کرو تمام چیزیں انہی دو چیزوں میں مضمر ہیں یعنی امام نے غیر مستقیم طور پر قیس کی دوسری شرط کو رد کردیا۔ قیس نے بعت کیا اور کچھ نہیں کہا۔[3] ان دو نظریوں کے حامی اپنی بات کی تائید نیں کہتے ہیں: امام نے اپنی اسی حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر اپنے لشکر کی کمانڈ عبیداللہ بن عباس کے سپرد کیا نہ کہ قیس بن سعد بن عبادہ کے جو سختی سے معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے پر مصر تھے۔[4]

ان کے مقابلے میں ایک تیسرا نظریہ بھی ہے جو عموما تمام شیعیان حیدر کرار کا مورد تائید بھی ہے، اس نظریے کے مطابق امام حسنؑ نے اپنی بعت کی ابتدائی دنوں سے ہی معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن بعد اپنی سپاہیوں کا جنگ سے بیزار ہونے اور معاویہ کی طرف سے امام کے لشکریوں کو دینے والے طمع اور لالچ کی وجہ سے آپ معاویہ کے ساتھ صلح کرنے پر مجبور ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق امام حسنؑ نے عراق کے لوگوں کو معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے کی طرف دعوت دی جو عراق کی جانب پیشروی کرنے میں مصروف تھے۔ لیکن کسی نے آپ کی صدا پر لبیک نہیں کہا اور آخرکار اپنے بعض باوفا اصحاب منجملہ "عدی بن حاتم" ، قبیلہ طی کے بزرگان اور" قیس بن سعد بن عبادہ" کی کوششوں سے 12 ہزار سپاہیوں پر مشتمل لشکر جنگ کیلئے آمادہ ہوئے۔[5]

مسکن کی طرف لشکر کشی

تاریخی منابع میں امام حسنؑ کی سپاہیوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ ایک قول کی بنا پر امام کے سپاہیوں کی تعداد 12 ہزار اور انکی کمانڈ عبیداللہ بن عباس کر رہے تھے اور قیس بن سعد بن عبادہ اور سعید بن قیس اس کے مشاورین میں سے تھے۔ ایک اور قول کی بنا پر امام کے سپاہیوں کی تعداد 40 ہزار تھی اور اس کا ہراول دستہ قیس بن سعد بن عبادہ کی سرکردگی میں مسکن روانہ ہوا۔ [6]

کوفہ سے امام کا لشکر مسکن کی طرف روانہ ہوا جبکہ امام حسنؑ خود مدائن تشریف لے گئے اور وہاں سے اپنے لشکریوں کی طرف روانہ ہونا تھا۔ امام کا اس دوران مدائن سفر کرنے کی وجہ خاص مشخص نہیں ہے لیکن ظاہرا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فوج جمع کرنے کی خاطر آپ نے مدائن کا سفر کیا تھا۔ [7] جبکہ ایک اور قول کی بنا پر معاویہ نے اپنی فوج کا ایک دستہ مدائن بھیجا تھا اور امام ان سےمقابلہ کیلئے مدائن سفر کیا تھا۔[8]

مدائن میں امام حسنؑ پر حملہ

مدائن میں امامؑ پر حملہ ہوا اور اس حملے میں آپ کا خیمہ جلایا گیا اور آپؑ بھی زخمی ہوئے۔ یہ حملہ کیوں اور کیسے ہوا؟ اس بارے میں مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں۔ ایک قول کی بنا پر امام حسنؑ نے مدائن میں لوگوں کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے غیر مستقیم طور پر معاویہ کے ساتھ جنگ نہ کرنے کی ذاتی تمائل ظاہر کیا تھا۔ [9] امام حسنؑ کی اس بات سے لوگ ناراض ہوئے اور آپ کی تقریر کے بعد کچھ لوگوں نے خوارج کی طرز پر امامؑ کو کافر کہنا شروع کیا اسی دوران مجمع میں سے کسی ایک نے امام پر حملہ کیا اور اپنی خنجر کے ذریعے امام کو زخمی کیا۔ یہاں یہ بات ذکر نہیں کیا گیا ہے کہ امام کا اس بات کی طرف اشارہ کرنے کی وجہ اور علت کیا تھی۔ [10]

یہاں پر بعض محققین یہ سوال اٹھاتے ہوئے کہ اگر امام جنگ کرنا نہیں چاہتے تھے تو کوفہ سے اپنے سپاہیوں کو کیوں مسکن کر طرف روانہ کرتے؟، اس قول کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور صلح امام حسنؑ کی بنیادی وجہ کو ایک طرف سے امام کے سپاہیوں کی سستی اور کاہلی اور دوسری طرف سے معاویہ کے لشکریوں کی طرف سے پھیلائے جانے والے غلط پروپیگنڈے بیان کرتے ہیں جس کی بنا پر امامؑ صلح قبول کرنے پر مجبور ہوئے۔ [11]

بعض دیگر اقوال مدائن میں امام پر ہونے والے حملے کو بعض عوامل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ واقعہ اس طرح پیش آیا کہ در اصل صلح نامے کی بات امام کی طرف سے نہیں بلکہ یہ بات معاویہ کی سازش کا حصہ تھا جو اس نے مدائن میں بروئے کار لایا تھا۔ معاویہ کے کارندوں نے مدائن میں یہ پروپیگنڈا مہم چلائی کہ امام حسنؑ نے صلح کی پیش کش کی ہے۔ قضیہ یوں پیش آتا ہے؛ معاویہ امام سے مذاکرات کے بہانے مغیرہ بن شعبہ اور عبداللہ بن عامر کو مدائن بھیجتا ہے اورجب یہ دونوں امام کے خیمے سے باہر آتے ہیں تو یہ افواہ پھیلاتے ہیں کہ امام نے معاویہ کے ساتھ صلح کرنے کو قبول کیا ہے۔ اس خبر سے لوگ ناراض ہو جاتے ہیں اوراسی دوران ایک گروہ امام پر حملہ آور ہوتا ہے۔[12]

ایک اور قول اس بارے میں یہ ہے کہ مدائن میں امام کے سپاہیوں کے درمیان کسی نے یہ خبر پھیلائی کہ "قیس بن سعد بن عبادہ" نے معاویہ کے ساتھ جنگ میں شکست کھایا ہے۔ اس خبر نے امام کے سپاہیوں میں افراتفری پھیلا دی اسی دوران لوگوں کے ایک گروہ نے امامؑ کے خیمے کو آگ لگا دی اور اسے غارت کرنے لگا۔ یہاں پر امام کی طرف سے صلح نامے کی پیش کش وغیرہ کی طرف کوئی اشارہ نہیں کی گیا ہے۔[13]

لشکر عراق کا تتربتر ہونا اور امام کی طرف سے صلح نامہ قبول کرنا

خلافت بنوامیہ

سلاطین

عنوان


معاویہ بن ابی سفیان
یزید بن معاویہ
معاویہ بن یزید
مروان بن حکم
عبدالملک بن مروان
ولید بن عبدالملک
سلیمان بن عبدالملک
عمر بن عبدالعزیز
یزید بن عبدالملک
ہشام بن عبدالملک
ولید بن یزید
ولید بن عبدالملک
ابراہیم بن الولید
مروان بن محمد

مدت سلطنت


41-61ھ
61-64ھ
64-64ھ
64-65ھ
65-86ھ
86-96ھ
96-99ھ
99-101ھ
101-105ھ
105-125ھ
125-126ھ
126-126ھ
126-127ھ
127-132ھ

مشہور وزراء اور امراء

مغیرۃ بن شعبہ ثقفی
زیاد بن ابیہ
عمرو عاص
مسلم بن عقبہ مری
عبیداللہ بن زیاد
حجاج بن یوسف ثقفی

اہم واقعات

صلح امام حسن
واقعہ عاشورا
واقعہ حرہ
قیام مختار
قیام زید بن علی

بعض اقوال کی بنا پر عبیداللہ بن عباس 12 ہزار سپاہیوں کو لے کر معاویہ سے جنگ کی خاطر مسکن روانہ ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جس دن مدائن میں امامؑ پر حملہ ہوا ادھر مسکن میں بھی اسی دن عراق اور شام کے لشکر کے درمیان مختصر درگیری وجود میں آگئی۔ رات کو معاویہ نے عبیداللہ بن عباس کو یہ پیغام بھیجا کہ مدائن میں امام حسنؑ نے صلح کرنے کو قبول کیا ہے اور میری بیعت کرنے کیلئے آمادہ ہوا ہے اور اگر تم بھی ابھی مجھ سے ملحق ہوتے ہو تو میں تمہیں دس لاکھ درہم دوں گا۔ عبیداللہ نے اس معاویہ کی اس تجویز کو قبول کیا اور راتوں رات معاویہ کی طرف چلا گیا۔ قیس بن سعد بن عبادہ نے عبیداللہ کے بعد لشکر کی کمانڈ سنبھال لیا اور امام کی طرف سے یقینی طور پر صلح کے قبول کرنے کی تائید ہونے پر امام کے سپاہی قیس کی سرکردگی میں کوفہ واپس لوٹ آئے۔ [14]

ایسے منابع جو امام کے لشکر کی سپہ سالاری کو عبیداللہ بن عباس کی جگہ قیس بن سعد بن عبادہ کو قرار دیتی ہیں اس ماجرا کو کسی اور طرح بیان کرتی ہیں۔ ان منابع کے مطابق عراق اور شام کے لشکریوں کے درمیان مختصر درگیری وجود میں آتی رہتی تھی لیکن جب مدائن میں امام پر ہونے والے حملے کی خبر پھیلی تو قیس نے موقتا جنگ روک لیا تاکہ صحیح خبریں دریافت کر سکیں لیکن اس دوران امام کے سپاہیوں میں سے کثیر تعداد لشکر شام کے ساتھ ملحق ہوگئی۔ قیس نے اس صورتحال کا مشاہدہ کرنے کے بعد امامؑ کی طرف پیغام بھیجا جب امامؑ کو لشکر عراق کی ناگفتہ بہ حالت کا علم ہوا تو آپؑ نے لوگوں کو جمع کرکے عراقیوں کی طرف سے آپؑ اور آپ کے والد گرامی حضرت علیؑ کے ساتھ منافقانہ رویہ اختیار کرنے پر گلہ شکوہ کیا اور آخر میں صلح قبول کرنے پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا۔ [15]

صلح نامہ اور اس کے شقوق

تاریخی منابع میں صلح نامہ اور اس کے مفاد کے بارے میں فاش اور واضح اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض منابع کے مطابق امام حسنؑ نے درج ذیل شرائط کے ساتھ صلح نامہ قبول کیا:

  1. کوفہ کے خزانے میں موجود 50 لاکھ درہم خود امام اپنے لئے رکھے گا۔
  2. دارابگرد فارس کی سالانہ آمدنی خود امام سے مختص ہوگی۔
  3. امام حسن کی موجودگی میں امام علیؑ پر منابر سے سب و شتم نہیں ہوگی۔
  4. عراق سمیت دیگر مناطق میں موجود اہل بیتؑ کے پیروکار عفو عمومی کے تحت مورد عفو قرار پائے گا۔ [16]

کتاب الفتوح ابن اعثم کوفی نے صلح نامے کی ایک اور مفاد کو نقل کیا ہے جس کے تحت صلح نامے کے شرائط مذکورہ شرائط سے مکمل متفاوت ہے اور اکثر شیعہ محققین اس قول کو اس حوالے سے صحیح ترین قول قرار دیتے ہیں۔ [17]

ابن اعثم کی مطابق امام حسنؑ نے ابتداء میں عبداللہ بن نوفل بن حارث کو صلح کی مذاکرات کیلئے معاویہ کے پاس بھیجا اور ان کے ذریعے امامؑ نے معاویہ کو پیغام بھیجا کہ اس شرط پر میں تمہارے ساتھ صلح کرونگا کہ ہمارے چاہنے والوں کی جان مال ہر حال میں محفوظ رہے گی اور ان کو کسی قسم کی کوئی آزار و اذیت نہیں پہنچائی جائے۔ عبداللہ جب معاویہ کے پاس گیا تو اس نے امام کے بیان کردہ شرائط کے علاوہ اپنی طرف سے بھی کچھ شرائط بیان کر ڈالا منجملہ ان میں سے یہ کہ کوفہ کے خزانے میں موجود 50 لاکھ درہم اور دارابگرد فارس کی سالانہ آمدنی امام حسنؑ سے مختص ہوگی اور یہ کہ خلافت معاویہ کے بعد امام حسنؑ کا حق ہوگا۔ معاویہ نے تمام شرائط کو قبول کیا بلکہ اس نے ایک سفید کاغذ پر دستخط کر کے عبداللہ نوفل کے حوالے کر دیا تاکہ امام جو بھی چاہے شرط رکھ سکیں۔ لیکن امام حسنؑ نے عبداللہ کی طرف سے مطرح کرنے والے کسی بھی شرط کی حمایت نہیں کی بلکہ اپنی طرف سے بعض دیگر شرائط کا اضافہ کیا ان میں سے کوئی ایک بھی بعد مالی نہیں رکھتا تھا۔ صلح نامے کیلئے امامؑ کی طرف سے مطرح کرنے والی شرائط درج ذیل ہیں:

  1. معاویہ کتاب خدا، سنت پیغمبرؐ اور خلفای راشدین کی سیر پر عمل پیرا ہوگا۔
  2. معاویہ کسی کو اپنا ولیعہد اور جانشین مقرر نہیں کرے گا بلکہ خلیفہ کا انتخاب مسلمانوں کی شورا پر چھوڑے گا۔
  3. تمام لوگ جہاں کہیں بھی ہو امن و امان میں ہوگا۔
  4. شیعیان علی اور آپ کے پیروکا کی جان، مال، اور عزت و ناموس محفوظ ہوگی۔
  5. معاویہ امام حسنؑ، امام حسینؑ اور خاندان اہل بیتؑ کے کسی دوسرے فرد کے خلاف کوئی سازش نہیں کرے گا اور انہیں کسی قسم کی کوئی آزار و اذییت نہیں پہنچائے گا۔

یوں امام حسنؑ نے اس صلح نامے کے ذریعے معاویہ کو خلافت کے موروثی کرنے سے باز رکھا اور شیعیان علی اور عراق کے دوسرے مکینوں کی جان، مال اور عزت و ناموس کی حفاظت کو یقینی بنایا۔[18]

زمان و مکان صلح نامہ

صلح کی قرارداد پر مَسکِن میں دستخط ہوئے اور اس سرزمین پر شامیوں کی بڑی تعداد کی موجودگی میں صلحنامے سے متعلق قواعد و ضوابط کا اعلان ہوا اور انہیں نافذ کیا گیا۔[19] باقر شریف قرشی اپنی کتاب حیاة الحسن میں لکھتے ہیں: صلح کے وقت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے؛ چنانچہ ربیع الاول کو بھی صلح کے انعقاد اور نفاذ کا مہینہ جانا گیا ہے اور ربیع الاخر اور جمادی الاولی کو بھی۔[20]

بلا فاصلہ عہد شکنی

بہر صورت سنہ 41 کے نصف اول میں امام حسنؑ کی متعینہ شرطوں اور [اور نوشتہ نکات صلح] سے ترتیب یافتہ صلح نامے پر دستخط ہوئے۔[21] لیکن معاویہ نے ان شرطوں کو قبول کرنے کے باوجود، کوفہ میں اپنی پہلی آمد کے دوران ـ جس کا اہتمام دو لشکروں کی ملاقات کے لئے کیا گیا تھا ـ کوفیوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنے تمام وعدوں اور عہد و پیمان کو ناقابل عمل سمجھا۔ اس نے دعوی کیا کہ صلح کی درخواست امام حسنؑ نے کی تھی؛ اور پھر امام علیؑ کے خلاف دشنام طرازی کی۔ امام حسینؑ نے اسی وقت اس کا جواب دینا چاہا لیکن بھائی امام حسنؑ نے امام حسینؑ کو ایسا نہیں کرنے دیا اور خود اٹھے اور ایک خطبہ دے کر لوگوں کے لئے معاہدے کی تصویر کشی کی اور معاویہ کی طرف سے صلح کی پیشکش کی وضاحت کی اور پھر بہت فصیح و بلیغ بیان کے ساتھ اپنے والد کی بےحرمتی کے جواب میں اپنے اصل و نسب اور معاویہ کے اصل و نسب کا تقابلی جائزہ پیش کیا۔[22][23][24][25][26] امامؑ کا یہ عمل معاویہ پر بہت گراں گذرا۔[27]

صلح کے مخالفین

حجر بن عدی، عدی بن حاتم، مسیب بن نجبہ، مالک بن ضمرہ، سفیان بن ابی لیلی، بشیر ہمدانی، سلیمان بن صرد، عبداللہ بن زبیر، ابو سعید اور قیس بن سعد اصحاب امام حسنؑ میں سے ہیں جو صلح کے خلاف تھے اور ان کی گفتگو تاریخی کتب میں محفوظ ہے۔[28]

معاویہ کے ساتھ امام حسنؑ کی صلح کے دلائل

امام حسنؑ کی صلح نہایت مفید اور پر ثمر تھی اور ہم جانتے ہیں کہ جو مصالحت اہداف حصول پر منتج ہو وہ اس جنگ سے بہتر ہے جس سے مقاصد کا حصول پردہ ابہام میں ہو یا پھر اس سے نقصان کے سوا کچھ بھی نہ مل رہا ہو؛ چنانچہ صلح امام حسن علیہ السلام آپ ؑ کی فتح ہے۔

اپنی اور شیعیان آل محمدؐ کا جانی تحفظ

امیرالمؤمنینؑ کے اکثر اصحاب و انصار جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان میں جام شہادت نوش کرگئے تھے اور ان میں سے قلیل ساتھی باقی تھے اور جنگ چھڑ جاتی تو عراقی عوام کی کمزور و ضعف کے پیش نظر امام حسنؑ اور آپ کے شیعہ و پیروکاروں کو ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا کیونکہ معاویہ اس صورت حال میں انہیں مدت سے کچل دیتا۔[29]

ابو سعید العقیصا کا کہنا ہے: میں امام حسنؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے فرزند رسول خدا! اس کے باوجود کہ آپ حق پر ہیں، آپ نے معاویہ جیسے گمراہ اور ستمگر سے مصالحت کیوں کی؟ آپ نے فرمایا:

اگر میں یہ کام نہ کرتا روئے زمین پر ایک شیعہ بھی زندہ نہ رہتا اور یہ (معاویہ اور اس کے حامی) سب کو [چن چن کر] قتل کرتے۔[30]

کسی نے گستاخانہ لہجہ اختیار کرکے امام حسن مجتبیؑ سے کہا: "یا مُذِلَّ المُؤمِنینَ" (اے مؤمنوں کو ذلیل کرنے والے)، تو آپ نے فرمایا: میں "مذل المؤ‎منین" نہیں ہوں بلکہ "مُعِزُّ المؤمنین" (مؤمنوں کو عزت دینے والا] ہوں؛ کیونکہ جب میں نے دیکھا کہ تم (پیروان آل محمدؐ) میں سپاہ شام کا مقابلہ کرنے کی قوت نہیں ہے تو میں نے اپنی حکومت واگذار کردی تا کہ میں اور تم باقی رہیں۔ جس طرح کہ ایک زیرک آدمی ایک کشتی کو معیوب کردیتا ہے تا کہ وہ اپنے مالکوں اور مسافروں کے لئے باقی رہے[31]، میری اور تمہاری داستان یہی ہے تا کہ ہم اور تم دشمنوں اور مخالفین کے درمیان زندہ اور باقی رہیں۔[32] یا امام حسن ایک مفصل حدیث کے ضمن میں فرماتا ہے: "۔۔۔والله الذي عملت خير لشيعتي مما طلعت عليه الشمس أو غربت۔۔۔"۔(ترجمہ: خدا کی قسم جو کچھ میں نے کیا وہ میرے پیروکاروں کے لئے بہتر ہے ہر اس چیز سے جس پر سورج کا طلوع یا غروب ہوتا ہے)۔[33]

صلح کے بعد حجر بن عدی امام حسن کی خدمت میں حاضر ہوا اور اعتراض کرتے ہوئے کہا: "سودت وجوه المؤمنين"۔ (ترجمہ: آپ نے مؤمنین کو روسیاہ کیا)! تو امامؑ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: "ما كل أحد يحب ما تحب ولا رأيه كرأيك، وإنما فعلت ما فعلت إبقاء عليكم"۔ (ترجمہ: ایسا نہیں ہے کہ سب وہی چاہتے ہوں جو تم چاہتے ہو یا سب تمہاری طرح سوچتے ہوں اور جو کچھ میں نے کیا وہ تمہاری جانوں کے تحفظ اور تمہاری بقاء کے سوا کسی اور مقصد کے لئے نہ تھا۔[34]

امام حسنؑ اور عوامی حمایت کا فقدان

امام حسنؑ نے معاویہ کے خلاف جنگ کے لئے لوگوں کی آمادگی آزمانے کے لئے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا: "اگر جنگ کے لئے تیار ہو تو ہم صلح کی پیشکش کو مسترد کريں اور اپنی شمشیر کا سہارا لے کر انجامِ کار کو اللہ کے سپرد کریں؛ لیکن اگر بقاء چاہتے ہو تو صلح کی پیشکش قبول کریں اور تمہارے لئے امان حاصل کریں!"؛ اس اثناء میں پوری مسجد سے آوازیں آنے لگیں: "البقیة، البقیة" (یعنی بقاء، بقاء)، اور یوں انھوں نے صلح کی تائید کرلی۔[35]

شیخ مفید ارشاد میں رقمطراز ہیں: "امام حسنؑ کے لئے آشکار ہوگیا کہ لوگوں نے آپ کو تنہا چھوڑ دیا ہے اور خوارج کے کافر کہنے اور دشنام طرازی کرنے کی وجہ سے بددل ہوگئے ہیں اور انھوں نے آپ کے خون کو مباح سمجھا ہے اور آپ کے اموال کو لوٹ کر لے گئے ہیں؛ اور ان کے سوا ایسا کوئی باقی نہ تھا جن کے ناپاک عزائم سے امامؑ محفوظ ہوں؛ سوائے ان قلیل اقارب اور شیعیان آل رسولؐ کے، جو آپ کے والد اور آنجناب کے شیعہ تھے اور یہ اس قدر قلیل تھے کہ شام کی بڑی سپاہ کے سامنے استقامت نہیں کرسکتے تھے۔ [36]

سلیم بن قیس ہلالی سے مروی ہےکہ: معاویہ کوفہ آیا، تو امام حسنؑ اس کی موجودگی میں منبر پر چلے گئے اور اللہ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا: "فاقسم بالله لو ان الناس بايعوني واطاعوني ونصروني، لاعطتهم السماء قطرها، والارض بركتها، ولما طمعتم فيها يا معاوية"۔ (ترجمہ: پس خدا کی قسم! اگر لوگ میری بیعت کرتے اور میرے اطاعت گزار و فرمانبردار ہوجاتے اور میری مدد کرتے تو آسمان انہیں اپنی بارش عطا کرتا اور زمین اپنی برکت عطا کرتی اور تم بھی اس میں طمع نہ کرتے اے معاویہ[37]

امام حسن نے ایک خطبے کے ضمن ميں اشارہ کیا کہ "لوگ آپ کی حمایت نہیں کررہے تھے اور آپ کو اپن باوفا اصحاب کی قلت کا سامنا تھا"؛ فرمایا: "اگر مجھے یار و یاور اور ناصر و مددگار ملتا تو حکومت کو معاویہ کے حوالے نہ کرتا کیونکہ حکومت بنو امیہ پر حرام ہے۔ است۔[38]، جب ایک شخص نے صلح کو مورد تنقید ٹہرایا تو آپ نے فرمایا: " والله ما سلمت الامر إليه الا اني لم أجد أنصارا ولو وجدت أنصارا لقاتلته ليلي ونهاري حتى يحكم الله بيني وبينه"۔ (ترجمہ: میں نے حکومت اس وجہ سے معاویہ کو واگذار کردی کہ میرا کوئی مددگار نہ تھا اور اگر میرے مددگار ہوتے تو اس کے خلاف شب و روز لڑتا حتی کہ خداوند متعال میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کرتا)۔[39]

خونریزی کا سدّ باب

امام حسنؑ نے معاویہ کے ساتھ صلح کے اسباب بیان کرتے ہوئے اپنے خطبے میں فرمایا:" فرأيت أن أسالم معاوية وأضع الحرب بيني وبينه ورأيت حقن الدماء خير من سفكها ولم أرد بذلك إلا صلاحكم و بقاءكم"۔ (ترجمہ: اور میں نے اسی کو مصلحت سمجھا کہ معاویہ کے ساتھ مسالمت آمیز رویہ اپناؤں اور اپنے اور اس کے درمیان جنگ کو بند کردوں؛ میں نے دیکھا کہ خون کا تحفظ خون بہانے سے بہتر ہے اور اس کام سے میرا ارادہ تمہاری خیر خواہی اور بقاء کے سوا کچھ نہ تھا۔ [40]

یا پھر آپ نے فرمایا: "كانت جماجم العرب بيدي يسالمون من سالمت ويحاربون من حاربت فتركتها ابتغاء وجه الله وحقن دماء المسلمين"۔ (بےشک عربوں کی کھوپڑیاں میرے ہاتھ میں تھیں اور میں جس کے ساتھ صلح کرتا وہ بھی اس کے ساتھ صلح کرتے تھے اور جس سے لڑتا وہ بھی اس سے لڑتے تھے پس میں نے انہیں اللہ کی خاطر اور مسلمانوں کے خون کے تحفظ کے مقصد سے جانے دیا۔[41] امامؑ نے سلیمان بن صرد خزاعی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: "أری غير ما رأيتم، وما أردت بما فعلت إلا حقن الدماء"۔ (ترجمہ: میں نے جو کچھ دیکھا وہ مختلف تھا اس سے جو تم نے دیکھا؛ اور جو کچھ میں نے کیا اس سے میرا مقصد سوائے تمہارے خون کی حفاظت کے، کچھ بھی نہ تھا[42]

نیز آپ نے ایک موقع پر فرمایا: "ورأيت حقن الدماء خير من سفكها"۔ (ترجمہ: میں نے دیکھا کہ خون کا تحفظ خون بہانے سے بہتر ہے)۔[43]

جب معاویہ نے آپ سے کہا کہ خوارج کے ساتھ جنگ میں شرکت کریں تو آپ نے جواب دیا: "لو آثرت أن أقاتل أحداً من أهل القبلة لبدأت بقتالك، فإني تركتك لصلاح الأمة وحقن دمائها"۔ (ترجمہ: اگر میں اہل قبلہ میں سے کسی کے خلاف جنگ کرنا چاہتا تو اپنی جنگ کا آغاز تم سے کرتا لیکن میں نے تمہیں امت کی مصلحت و خیرخواہی اور اس کے خون کے تحفظ کے لئے اپنے حال پر چھوڑ دیا)۔[44]

دین کا تحفظ

صلح امام حسنؑ کا ایک اہم سبب دین کا تحفظ گردانا جاسکتا ہے، کیونکہ اسلامی معاشرے کی حالت کچھ ایسی تھی کہ معاویہ کے ساتھ جنگ دین ہی کو جڑ سے اکھاڑ سکتی تھی کیونکہ اس زمانے میں جنگ نہ تو کوفیوں کے مفاد میں تھی اور نہ ہی شامیوں کے، بلکہ یہ جنگ رومیوں کی طرف سے عالم اسلام پر بہت بڑے حملے کا سبب فراہم کررہی تھی۔ یعقوبی کا کہنا ہے کہ معاویہ سنہ 41 میں شام واپس چلا گیا اور اس کے خبر ملی کہ رومیوں نے بہت بڑا لشکر تیار کیا ہے اور وہ جنگ کا ارادہ رکھتے ہیں تو ایک شخص کو رومیوں کی طرف روانہ کیا اور ایک لاکھ دینار دے کر ان سے صلح کرلی!۔[45]

دوسری طرف سے لوگ بھی تعلیم و تربیت اور تہذیب و ثقافت کے لحاظ سے ایسی حالت میں تھے کہ مزید جنگ اور خونریزی ان کے درمیان دین کی نسبت بدگمانیوں کا سبب بن سکتی تھی؛ چنانچہ شاید ان ہی وجوہات کی بنا پر امام حسنؑ نے مالک بن ضمرہ کی تلخ باتوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: "إني خشيت أن يجتث المسلمون عن وجه الأرض فأردت أن يكون للدين ناعي"۔ (ترجمہ: مجھے ڈر تھا کہ مسلمانوں کی جڑیں روئے زمین سے اکھڑ جائیں چنانچہ میں نے ارادہ کیا کہ دین کی محافظت کی جائے [اور میں نے صلح کرلی])۔[46]

لوگوں کا جنگ سے اکتا جانا

مسلمانوں نے رسول اللہؐ کی ہجرت کے بعد اور اسلامی حکومت کی تشکیل سے 40 برس کے عرصے میں غزوات اور سرایا کے علاوہ خلفاء ثلاثہ کے دور میں بھی روم، ایران اور جزیرہ نمائے عرب کے پڑوسی ممالک کے ساتھ طویل المدت لڑنے کے علاوہ امیرالمؤمنینؑ کے دور میں بھی تین بڑی اندرونی جنگیں بھی برداشت کی تھیں۔ چنانچہ ان میں جنگ و پیکار کا حوصلہ دکھائی نہيں دے رہا تھا؛ اور معدودے چند مخلص شیعیا علیؑ اور جنگجو نوجوانوں کے علاوہ باقی مسلمان عافیت طلبی کے سامنے ہتھیار ڈالے ہوئے تھے اور حالات حاضرہ کو تسلیم کرچکے تھے۔ چنانچہ جب امام حسنؑ اور آپ کے قریبی اصحاب [یعنی] حجر بن عدی اور قیس بن سعد انصاری نے عوام کو عام لام بندی کے لئے آپ کی لشکرگاہ میں آنے کی دعوت دی تو بہت کم لوگوں نے مثبت جواب دیا اور باقی لوگوں نے کوئی رغبت نہ دکھلائی۔[47]

امام حسنؑ نے اپنے ساتھ بیعت کرنے والوں ـ جو آپ سے تعاون اور نصرت کا وعدہ کئے ہوئے تھے ـ سے مخاطب ہوکر فرمایا: "اگر تم اپنے قول میں سچے ہو تو ہماری وعدہ گاہ مدائن کی چھاؤنی ہے، پس وہاں مجھ سے آملو۔ پس آنجناب مدائن کی طرف روانہ ہوئے اور جنگ کا ارادہ کرنے والے بھی آپ کے ساتھ روانہ ہوئے لیکن ایک بڑی تعداد نے وعدہ خلافی کی اور اپنے دیئے ہوئے وعدے کے پابند نہیں رہ سکے، اور وعدہ گاہ میں حاضر نہیں ہوئے اور آپ کو دھوکا دیا؛ جس طرح کہ انھوں نے قبل ازاں آپ کے والد امیرالمؤمنینؐ کو دھوکا دیا تھا۔[48]

امام حسن نے اپنی سپاہیوی کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: " يا عجبا من قوم لا حياء لهم ولا دين، ولو سلمت له الأمر فأيم الله لا ترون فرجا أبدا مع بني امية، والله ليسومونكم سوء العذاب"۔ (ترجمہ: حیرت ہے اس قوم سے جس میں کوئی حیاء ہے نہ ہی کوئی دین، اور اگر میں امر حکومت واگذار کروں تو خدا کی قسم! تم بنو امیہ کی حکومت میں کبھی بھی فراخی نہ دیکھ سکو گے، خدا کی قسم! بدترین عذاب و آزار و اذیت کے ساتھ وہ تمہیں نہایت بری طرح تکلیفیں پہنچائیں گے)۔[49]

یا آپ نے ایک اور موقع پر فرمایا: "إني رأيت هوى عظم الناس في الصلح، وكرهوا الحرب، فلم أحب أن أحملهم على ما يكرهون"۔ (ترجمہ: میں دیکھا کہ زیادہ تر لوگ صلح کی طرف راغب اور جنگ سے روگردان ہیں چنانچہ میں نے نہیں چاہا کہ ان پر ایسی چیز (جنگ) پر مجبور کروں جس کو وہ ناپسند کرتے ہیں)۔[50]

خوارج کا خطرہ

کتاب احکام القرآن کا مؤلف، ابن عربی، کہتا ہے: صلح امام حسنؑ کا ایک سبب یہ تھا کہ آپ دیکھ رہے تھے کہ خوارج نے آپ کو گھیر لیا ہے اور جان گئے کہ اگر معاویہ کے خلاف جنگ جاری رکھیں اور اس جنگ میں مصروف ہوجائیں تو خوارج اسلامی ممالک کی طرف دست درازی کریں گے اور ان پر مسلط ہوجائیں گے اور اگر خوارج کے ساتھ میدان جنگ میں اتریں اور انہیں دفع کرنے میں مصروف ہوجائیں تو معاویہ اسلامی ممالک اور آپ کے قلمرو پر مسلط ہوجائے گا۔[51]

غیرمتوازن لشکر

شیخ مفید الارشاد میں لکھتے ہیں: امام حسنؑ کی معیت میں ہر قسم کے لوگ تھے: آپ اور آپ کے والد کے بعض شیعہ اور [جنگ صفین میں] حکمیت کے بعض حامی (خوارج)، جو مختلف حیلوں بہانوں سے معاویہ کے خلاف لڑنے کے درپے تھے، اور افراتفری (انارکی) کے حامی اور جنگی غنائم کے شائقین کا ایک گروہ، اور بعض اہل شک اور قبائلی عصبیتوں سے سرشار لوگ، جو اپنے قبائل کے سرداروں کے پیرو تھے اور ان کا محرک دین نہیں تھا۔[52]

جو لشکر اس طرح کے عناصر ترکیبی سے تشکیل پایا تھا، کسی بھی حادثے کے نتیجے میں خطرے میں پڑسکتا تھا اور ہر قسم کا خطرہ پیش آنے کی صورت میں دو یا دو سے زیادہ دھڑوں میں تقسیم ہوسکتا تھا اور ایسی صورت میں لشکر اور فوج اپنے ہی قائدین کے خلاف قیام کرسکتی ہے "خوارج حسنؑ کے ساتھ تھے لیکن ان کا مقصد فتنہ انگیزي کے سوا کچھ نہیں تھا؛ وہ جہاد کی راہ پر گامزن ضرور تھے مگر ان کا مقصد فساد کے سوا کچھ نہ تھا۔[53]

امام مجتبیؑ نے صلح پر اعتراض کرنے والے شخص کا جواب دیتے ہوئے اپنے اقدام کے عوام و اسباب کو یوں بیان فرمایا: "رأيت أهل الكوفة قوماً لا يثق بهم أحد أبداً إلا غلب، ليس أحد منهم يوافق آخر في رأي ولا هواء، مختلفين لا نية لهم في خير ولا شر"۔" (ترجمہ: اہل کوفہ ایسے لوگ ہیں کہ ان پر جو بھی اعتما کرتا ہے وہ مغلوب ہوجاتا ہے کیونکہ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کے ساتھ فکر اور آرزوؤں میں اتفاق رائے نہیں رکھتا وہ نہ خیر میں اور نہ ہی شر میں کسی قسم کا ارادہ نہیں رکھتے)۔[54]

امام حسنؑ کے پاس صلح قبول کرنے اور جنگ ترک کرنے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کیونکہ آپ کے پیروکار آپ کی نسبت عقیدتی لحاظ سے کمزور اور ضیعف النفس تھے اور جیسا کہ دیکھا گیا انھوں نے آپ کی مخالفت تک کا منصوبہ بنایا تھا اور ان میں سے بہت ایسے بھی تھے جو آپ کو دشمن کی تحویل میں دینا چاہتے تھے اور آپ کا خون مباح سمجھنے لگے تھے اور آپ کے چچا زاد بھائی عبید اللہ بن عباس نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا اور دشمن سے جا ملا اور عام طور پر ان لوگوں نے دو دن کی دنیا کی طرف مائل ہوگئے اور آخرت کی نعمتوں سے آنکھیں پھیر لیں۔ [55]

امام حسنؑ کے لشکر میں تھے ایسے کوفی عمائدین جو بظاہر آپ کے تابع و فرمانبردار تھے لیکن انھوں نے خفیہ طور پر معاویہ کو خطوط لکھے اور اپنی اطاعت و فرمانبرداری کی یقین دہانی کرائی اور اس کو اپنی جانب آنے کی رغبت دلائی اور اپنے ذمے لیا کہ جب وہ اپنا لشکر لے کر امام حسن کے لشکر کے قریب پہنچیں تو وہ آپ کو گرفتار کرکے معاویہ کی تحویل میں دیں گے یا پھر آنجناب کو اچانک گھیر کر قتل کریں گے!۔[56]

زید بن وہب جہنی کہتا ہے: جب بعض لوگوں نے امام حسنؑ پر حملہ کیا اور آپ کو خنجر مار کر زخمی کیا اور مدائن میں زخمی اور بیمار ہوکر بستر سے لگے ہوئے تھے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپ کے کیا ارادے ہیں کیونکہ لوگ حیران و پریشان ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: "أَرىٰ والله معاوية خيراً لي من هؤلاء يزعمون انهم لي شيعة ابتغوا قتلي وانتهبوا ثقلي، واخذوا مالي"۔ (ترجمہ: خدا کی قسم! میں معاویہ کو اپنے لئے ان لوگوں سے بہتر سمجھتا ہوں جو گمان کرتے ہیں کہ میرے شیعہ ہیں لیکن میرے قتل کے منصوبے بناتنے ہیں اور میرا مال و اسباب لوٹ کر لے جاتے ہیں میرا مال و متاع چھین لیتے ہیں۔۔۔)۔[57]

شیخ صدوق(رح) اپنی کتاب علل الشرائع میں اپنی سند سے ابو سعید العقیصا سے روایت کی ہے کہ انھوں نے امام حسنؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: اے فرزند رسول خداؐ! آپ جانتے تھے کہ حق آپ کی جانب ہے تو پھر گمراہ اور ظالم معاویہ کے ساتھ صلح کیوں کی؟

امامؑ نے جواباً فرمایا:

يا أبا سعيد ألست حجة الله تعالى ذكره على خلقه وإماما عليهم بعد أبي عليه السلام؟ قلت: بلی!

قال: ألست الذي قال رسول الله صلى الله عليه وآله لي ولأخي الحسن والحسين إمامان قاما أو قعدا؟ قلت بلى

قال: فانا اذن امام لو قمت و انا امام اذا قعدت یا با سعید علة مصالحتی لمعاویة علة مصالحة رسول اللهؐلبنی ضمرة و بنی اشجع، و لاهل مکة حین انصرف من الحدیبیة، اولئک کفار بالتنزیل و معاویة و اصحابه کفار بالتاویل، یا أبا سعید اذا کنت اماما من قبل الله تعالی ذکره لم یجب ان یسفه رایی فیما اتیته من مهادنة او محاربة، و ان کان وجه الحکمة فیما اتیته ملتبسا۔

قال فأنا إذن إمام لو قمت وأنا إمام إذ لو قعدت، يا أبا سعيد علة مصالحتي لمعاوية علة مصالحة رسول الله صلى الله عليه وآله لبني ضمرة وبني اشجع ولاهل مكة حين انصرف من الحديبية أولئك كفار بالتنزيل ومعاوية وأصحابه كفار بالتأويل،

يا أبا سعيد إذا كنت إماما من قبل الله تعالى ذكره لم يجب ان يسفه رأيى فيما أتيته من مهادنة أو محاربة وإن كان وجه الحكمة فيما أتيته ملتبساً۔

ألا ترى الخضر عليه السلام لما خرق السفينة وقتل الغلام وأقام الجدار سخط موسى عليه السلام فعله لاشتباه وجه الحكمة عليه حتى أخبره فرضى؛

هكذا أنا، سخطتم علي بجهلكم بوجه الحكمة فيه ولولا ما أتيت لما ترك من شيعتنا على وجه الارض أحد إلا قتل۔

ترجمہ: اے ابا سعید! کیا میں خدائے تعالی کی مخلوق پر اس کی حجت اور تمہارا امام و رہبر نہیں ہوں؟

کیوں نہیں؟
کیا میں وہی نہیں ہوں کہ رسول اللہؐ نے میرے اور میرے بھائی حسینؑ کے بارے میں فرمایا: "حسن اور حسین دونوں امام ہیں چاہے وہ قائم ہوں [اور حکومت قائم کئے ہوئے ہوں]، چاہے بیٹھے ہوں [اور حکومت سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہوں]؟
کیوں نہیں!
پس میں امام اور رہبر ہوں خواہ قیام کروں خواہ نہ کروں۔ اے ابا سعید! معاویہ کے ساتھ میری مصالحت کا سبب وہی ـ حدیبیہ کے بعد مدینہ واپسی کے وقت بنو ضمرہ اور بنو اشجع اور کوفی عوام کے ساتھ ـ رسول اللہؐ کی مصالحت کا سبب ہی ہے۔ وہ (قرآن) تنزیل کے کافر (ومنکر) تھے [اور قرآن کے نزول کے ہی انکاری تھے] اور معاویہ اور اس کے اصحاب قرآن کی تاویل (اور باطن قرآن) کے منکر ہیں۔

اے ابا سعید! جب میں خدائے تعالی کی طرف سے امام ہوں چنانچہ جو کچھ میں نے کیا ہے ـ خواہ وہ صلح ہو خواہ جنگ ہو ـ اس میں مجھے خطاکار نہيں سمجھا جاسکتا؛ اگر چہ جو کچھ میں نے کیا ہے اس کا راز دوسروں کے لئے آشکار نہ ہو۔

کیا تم نے خضرؑ کو نہیں دیکھا جب انھوں نے کشتی میں سوراخ کردیا اور اس لڑکے کو قتل کیا اور اس دیوار کو تعمیر کیا؟ ان کے اس کام کو حضرت موسی علیہ السلام کی تنقید کا نشانہ بننا پڑا کیونکہ انہيں اس کام کا راز معلوم نہ تھا؛ اور جب خضرؑ نے اپنے اعمال کا راز موسیؑ کو بتایا تو وہ راضی ہوئے۔

یہی ہے میرا معاملہ؛ کہ چونکہ تم میرے اس اقدام کے اسرار سے ناواقف ہو مجھ پر اعتراض کررہے ہو۔ [میرے اس اقدام کا ایک راز یہ ہے کہ] اگر میں یہ کام نہ کرتا تو ہمارے پیروکاروں اور شیعیان آل محمدؐ میں سے حتی ایک فرد بھی روئے زمین پر باقی نہ رہتا۔ اور وہ سب کو قتل کردیتے۔[58]۔

صلح کا انجام

معاویہ نے صلح کے تمام شقوق کو پامال کرکے رکھ دیا

صلح کے بعد معاویہ نے مسجد کوفہ میں تقریر کی اور کہا: "ألا إني كنتُ شرطت شروطا أردت بها الأُلفة ووضع الحرب، ألا وإنها تحت قدمي"۔ ترجمہ: جان لو کہ میں نے کچھ شرطیں رکھیں [اور صلح کی] جس سے میرا مقصد الفت اور جنگ بندی تھی؛ جان لو کہ میں صلح کے معاہدے کو پاؤں تلے روندتا ہوں)۔ اس موقع پر اس نے امیرالمؤمنین کی توہین کی اور پھر امام حسن کی شان میں گستاخی کی جس پر امام حسن مجتبیؑ نے کھڑے ہوکر نہایت فصیح و بلیغ اور طویل خطبہ دیا۔[59]

گوکہ امام حسن مجتبیؑ کو اپنے ساتھیوں کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا تھا لیکن آپ صلحنامے کے پہلے شق کے پابند رہے اگرچہ آپ شرطوں میں تبدیلی کرنے کے سلسلے میں صاحب اختیار تھے کیونکہ خلافت کی واگذاری مشروط تھی؛ تاہم معاویہ نے حتی ایک شرط کا بھی پابند نہ رہا۔ "اولاد زنا کو نسب سے ملحق کرنا، نماز جمعہ روز چہارشنبہ (بدھ) قائم کرنا[60]، حدود الہیہ کو معطل کرنا، ربا (سود) کو جائز قرار دینا، نماز عید میں اذان کو رواج دینا، نماز عید سے قبل خطبہ پڑھنے کا حکم وضع کرنا، عطیات پر زکوٰة لاگو کرنا، ہرزگی اور بےشرمی کو ترویج دینا اور وضع حدیث کو رونق دینا،[61] وغیرہ وغیرہ معاویہ کی بدعتوں اور سنت دشمن اعمال میں سے ہیں۔ معاویہ نے اپنے بعد یزید کو ولیعہد مقرر کرکے صلحنامے کے دوسرے نکتے کو بھی پامال کردیا۔[62]

صلح نامے کا تیسرا نکتہ امیر المؤمنینؑ پر سبّ و لعن کا سد باب کرنے سے متعلق تھا جبکہ معاویہ سمجھتا تھا کہ گویا اس کی حکومت کا استحکام ہی امام علیؑ پر سبّ اور دشنام طرازي اور آپؑ کے خلاف انتقامی کاروائیوں پر منحصر ہے؛ چنانچہ اس کے کارگزار اور والی اس قدر اس موضوع پر اصرار کرتے تھے کہ امیر المؤمنینؑ پر سبّ و لعن کو نماز جمعہ کا جزء سمجھتے تھے؛ اور ان میں سے جو کوئی ایسا کرنے سے اجتناب کرتا اس کو سرکاری مناصب سے ہٹا دیا جاتا تھا۔[63]

صلحنامے کی چوتھی شق کے مطابق دارابگرد کا خراج امامؑ کے حوالے کیا جانا تھا لیکن اس پر بھی عمل نہيں ہوا اور بصرہ کے عوام نے اس پر قبضہ کیا اور کہا کہ "اس مال غنیمت کا تعلق ہم سے ہے"،[64] اور وہاں کے عوام نے یہ عمل معاویہ کے حکم پر انجام دیا[65] کیونکہ معاویہ کے حکم کے بغیر ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔

واضح رہے کہ قرار داد کے اس حصے پر مندرجہ بالا سطور میں جرح ہوئی ہے اور اور بیان ہوا ہے کہ امامؑ اس قسم کی شرطوں سے برتر و بالاتر ہیں اور یہ اموی اور عباسی تحریفات کے نتیجے میں صلح کی قرارداد میں قرار دیا گیا ہے۔[66]

معاویہ نے پانچویں شق کی بھی خلاف ورزی کی اور اپنے کارگزاروں اور والیوں کو ایک ہدایت نامہ لکھا کہ "جان لو کہ اگر ثابت ہوجائے کہ کوئی علیؑ سے محبت کرتا ہے اس کا نام تنخواہ اور وظیفہ لینے والوں کی فہرست سے حذف کرو"، اور پھر دوسرا ہدایت نامہ لکھا اور حکم دیا: "جو بھی اس گروہ سے محبت کا ملزم ٹہرے اس کو قیدخانوں میں ڈال دو اور اس کا گھر منہدم کرو"۔[67]

امام حسنؑ بھی محفوظ نہ رہے

امام حسنؑ نے صلح کی مکمل پابندی کی مگر معاویہ نے اس کے تمام نکات کی خلاف ورزی کی اور سبّ علیؑ کا سلسلہ جاری رہا، شیعیان آل محمدؐ محفوظ نہ رہے، حتی کہ امام حسنؑ خود بھی معاویہ کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہ رہے۔

معاویہ نے کئی بار امام حسن کو مسموم کرکے شہید کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہتا تھا[68] اور آخر کار آپ کی زوجہ جعدہ بنت اشعث کو فریب دیا اور یوں امام حسن مجتبی علیہ السلام کو زہر دلوا کر شہید کردیا[69] اور امام حسن، کو قتل کرکے معاویہ نے قرارداد کی آخری شق کو بھی پامال کردیا۔

صلح امام حسن کے بارے میں میں لکھی گئی کتابیں

امام حسنؑ کی صلح کے بارے میں لکھی گئی بعض کتابوں کا نام فہرستوں میں آیا ہے لیکن خود ان کتابوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے وہ درج ذیل ہیں:

  • صلح الحسن و معاويۃ؛ تأليف: احمد بن محمد بن سعيد بن عبد الرحمن السبيعى الہمدانى متوفى بسال 333 ہجرى۔
  • صلح الحسن عليہ السلام؛ تأليف: عبد الرحمن بن كثير الہاشمى (جو بنو ہاشم کے موالی میں سے ہیں اور خود خاندان [[بنو ہاشم سے تعلق نہیں رکھتے)۔
  • قيام الحسن عليہ السلام تأليف: ابراہيم بن محمد بن سعيد بن ہلال بن عاصم بن سعد بن مسعود الثقفى متوفى' 283 ہجرى۔
  • قيام الحسن عليہ السلام تأليف: ہشام بن محمد بن السائب۔
  • كتاب عبد العزيز بن يحيى الجلودى البصرى امام حسنؑ کے واقعے کے بارے میں۔
  • اخبار الحسن عليہ السلام و وفاتہ تأليف: ہيثم بن عدى الثعلبى متوفى بسال 207 ہجرى۔
  • اخبار الحسن بن على عليہ السلام تأليف: ابى اسحاق ابراہيم بن محمد الاصفہانى الثقفى‏۔[70]

حوالہ جات

  1. شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص158۔
  2. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۱۵۸؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج/
  3. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۱۵۸
  4. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۱۵۸
  5. اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۷۰؛ نک: جعفریان، تاریخ خلفا، ص۳۷۴
  6. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۱۵۹
  7. جعفریان، تاریخ خلفا، ص۳۷۹
  8. دینوری، اخبار الطوال، ص۲۱۶
  9. اخبار الطوال، ص۲۱۶
  10. دینوری، اخبار الطوال،‌ص۲۶۵
  11. جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ص۱۷۴؛ جعفریان، تاریخ خلفا، ص۳۷۸
  12. تاریخ الیعقوبی، ج۲،ص۲۱۵
  13. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۱۵۹
  14. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۲۱۴
  15. ابن اعثم، الفتوح، ج ۴،‌ ص۲۹۰
  16. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۱۶۰؛ دینوری، اخبار الطوال،ص۲۱۸
  17. جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ص۱۸۰؛ جعفریان، تاریخ خلفا، ص۳۹۲-۳۹۴
  18. ابن اعثم، الفتوح، ص۲۹۰-۲۹۱
  19. قرشی، حیاة الحسن، ص 471
  20. باقر شریف قرشی، حیاةالحسن ص 471
  21. خلیفہ بن خیاط، تاریخ، باہتمام اکرم ضیاء عمری، دمشق/بیروت، 1397ق، ص 203۔
  22. طبری، ج 4، صص 124-125، 128-129۔
  23. ابوالفرج، 45 اور بعد کے صفحات۔
  24. ابن شعبه 232 اور بعد کے صفحات۔
  25. رسائل الامام حسنؑ، باہتمام زینب حسن عبدالقادر، قاہرہ، 1411ق/1991م، ص 29 اور بعد کے صفحات۔
  26. حاج منوچہری، دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج 20، مدخل امام حسنؑ، ص 538۔
  27. حاج منوچہری، وہی ماخذ۔
  28. قرشی، حیاة الحسن، ص 507 تا 499
  29. امام حسن ؑ کیوں؟ صلح کے ثمرات۔
  30. شیخ صدوق، علل الشرائع، ج‏1، ص: 211
  31. حضرت موسیؑ اور مرد دانا کے قصے کی طرف اشارہ؛ سورہ کہف (18)، آیت 79: جہاں ارشاد ہوتا ہے: "أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْباً"۔ (ترجمہ: وہ جو کشتی تھی، وہ کچھ غریبوں کی تھی جو دریا میں کام کرتے تھے تو میں نے چاہا کہ اسے ناقص بنا دوں اور ادھر ایک بادشاہ ہے جو ہر (ثابت) کشتی پر زبردستی قبضہ کر لیتا ہے۔
  32. مجلسی، بحار، ج‏75 ص 287
  33. مجلسی، بحار، ج‏44، ص19
  34. شریف مرتضی، تنزیه الأنبیاء، ص: 170؛ مجلسی، ج44 صص 28-29۔
  35. ابن اثیر،الکامل فی التاریخ، ج 3، ص 406
  36. مفید،الإرشاد ج‏2، ص: 10
  37. طبرسی،احتجاج، ج‏2، ص289۔ مجلسی، بحارالانوار ج44 ص22۔"ايها الناس ان معاوية زعم: اني رأيته للخلافة اهلا ولم ار نفسي لها اهلا وكذب معاوية، انا أولى الناس بالناس في كتاب الله وعلى لسان نبي الله، فاقسم بالله لو ان الناس بايعوني واطاعوني ونصروني، لاعطتهم السماء قطرها، والارض بركتها، ولما طمعتم فيها يا معاوية"۔ (ترجمہ: لوگو! معاویہ نے گمان کیا ہے کہ میں نے اس کو خلافت کے لئے اہل سمجھا اور خلافت اس کے سپرد کی ہے جبکہ معاویہ نے جھوٹ بولا ہے؛ میں کتاب اللہ اور رسول اللہؐ کے زبانی مسلمانوں کے معاملہ میں ان سے بھی زيادہ دخل دینے کا حقدار ہوں؛ پس خدا کی قسم! اگر لوگ میری بیعت کرتے اور میرے اطاعت گزار و فرمانبردار ہوجاتے اور میری مدد کرتے تو آسمان انہیں اپنی بارش عطا کرتا اور زمین اپنی برکت عطا کرتی اور تم بھی اس میں طمع نہ کرتے اے معاویہ۔
  38. راوندی، الخرائج و الجرائح، ج‏2، ص: 576۔ "فأيم الله لا ترون فرجا أبدا مع بني أمية، والله ليسومنكم سوء العذاب، حتى تتمنون أن يلي عليكم حبشيا ولو وجدت أعوانا ما سلمت له الامر، لانه محرم علي بني أمية"۔ (ترجمہ: اور اللہ کی قسم! تمہیں کبھی بھی بنو امیہ کی حکومت میں فراخی حاصل نہ ہوگی؛ خدا کی قسم! وہ تمہیں بدترین عذاب اور آزار و اذیت پہنچا کر تم پر حکومت کریں گے حتی کہ تم آرزو کروگے کہ کاش کوئی حبشی تم پر حکومت کرتا۔ اگر مجھے یار و یاور ملتا تو حکومت کبھی بھی بنو امیہ کے سپرد نہ کرتا کیونکہ حکومت بنو امیہ پر حرام ہے)۔
  39. طبرسی،الإحتجاج، ج‏2، ص: 291۔ "والله ما سلمت الامر إليه الا اني لم أجد أنصارا، ولو وجدت أنصارا لقاتلته ليلي ونهاري حتى يحكم الله بيني وبينه، ولكني عرفت أهل الكوفة، وبلوتهم، ولا يصلح لي منهم من كان فاسدا، انهم لا وفاء لهم۔ ولا ذمة في قول ولا فعل، انهم لمختلفون، ويقولون لنا: ان قلوبهم معنا، وان سيوفهم لمشهورة علينا"۔ (خدا کی قسم! میں نے حکومت اس کے سپرد نہیں کی مگر یہ کہ مجھے انصار و اعوان نہیں ملے اور اگر میرے اعوان و انصار ہوتے تو میں دن رات اس کے خلاف لڑتا حتی کہ اللہ میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کرتا لیکن میں نے اہل کوفہ کو پہچان لیا اور انہیں آزما لیا اور جو ان میں برا ہے وہ میرے لئے مناسب نہیں ہے وہ بے وفا ہیں وہ اپنے قول و فعل کی ذمہ داری قبول کرنے والے نہيں ہیں اور ان کے قول و فعل میں اختلاف ہے؛ وہ ہم سے کہتے ہیں کہ ان کے دل ہمارے ساتھ ہیں حالانکہ ان کی تلواریں ہمارے خلاف نیام سے باہر آچکی ہیں)۔
  40. اربلی، کشف الغمه، ج‏1، ص: 571۔
  41. اربلی، کشف الغمة، ج‏1، ص: 523
  42. راوندی، تنزیه الأنبیاء، ص: 172۔ بحار الانوار، ج 44، صص 28-21۔"أنتم شيعتنا و أهل مودتنا فلو كنت بالحزم في أمر الدنيا أعمل، و لسلطانها أركض و أنصب، ما كان معاوية بأبأس مني بأسا، و لا أشد شكيمة و لا أمضی عزيمة و لكني أری غير ما رأيتم، و ما أردت بما فعلت إلا حقن الدماء"۔ (ترجمہ: تم ہمارے شیعہ اور پیروکار، ہماری مودت کرنے والے ہو پس اگر میں دنیا کے لئے کام کرنے والا ہوتا اور تسلط جمانے اور اقتدار کے لئے کام کرتا تو معاویہ ہرگز مجھے سے زیادہ طاقتور، نہ تھکنے والا اور صاحب عزم صمیم نہ تھا؛ لیکن میں نے جو کچھ دیکھا وہ مختلف تھا اس سے جو تم نے دیکھا؛ اور جو کچھ میں نے کیا اس سے میرا مقصد سوائے تمہارے خون کی حفاظت کے، کچھ بھی نہ تھا)۔
  43. طبرسی، الإحتجاج، ج‏1، ص: 282 ، الكامل في التاريخ, الجزء (3)، الصفحة (409)
  44. ابن اثیر،الکامل فی التاریخ، ج 3 ص 409
  45. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 144 و 145۔
  46. قرشی، حياة الإمام الحسن بن علي عليهما السلام دراسة وتحليل، ص 131۔
  47. مفید،الارشادج‏2، ص: 6
  48. راوندی، الخرائج و الجرائح، ج‏2، ص: 574
  49. راوندی، الخرائج و الجرائح، ج‏2، ص: 576
  50. دینوری،اخبار الطوال، ص 220
  51. ابن عربی،احکام القرآن، ج 3 ص 152
  52. راضی آل یاسین، صلح الحسن، ص 170
  53. راضی آل یاسین، صلح الحسن، ص 177
  54. ابن اثیر،الکامل فی التاریخ، ج 3 دارالکتب العلميةو بيروت - لبنان۔ الطبعة الاولی 1987ـ 1407۔صص273و274۔
  55. مفید، الإرشاد، ج‏2، ص10۔
  56. مفید،الإرشاد، ج‏2، ص: 9
  57. طبرسی، الاحتجاج، طبع نجف 1386 ه‍ - 1966 م،ج2 ص10۔
  58. ابوجعفر محمد علی بابویہ(شیخ صدوق)، علل الشرائع، ص 200۔ اسی طرح کی روایت طبرسی نےاحتجاج میں بھی نقل کی ہے: رجوع کریں: مجلسی، بحار الانوار، ج 44، ص19۔
  59. اربلی،کشف الغمه، ج 2 ص 341
  60. راضی آل یاسین،صلح الحسن، ص 192
  61. قرشی، حیاة الحسن ترجمه حجازی،ص 410 ـ 402
  62. راضی یاسین، صلح الحسن، ص 409
  63. قرشی، حیاة الحسن، صص 555 ـ 554
  64. ابن جریرطبری، تاریخ طبری، ص 126
  65. ابن اثیر،الکامل فی التاریخ، ج 3 ص 405
  66. اسی مضمون میں ڈاکٹر سید جعفر شہیدی کا تجزیہ دیکھئے۔
  67. قرشی، حیاة الحسن، ص 568
  68. مفید، الارشاد، ص 357
  69. مفید، الارشاد، ج 2 ص 13
  70. صلح امام حسن، ترجمہ: آیت الله خامنه ای، ص 32۔

مآخذ

  • نرم افزار جامع الاحادیث، نسخہ 3/5 مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی نور
  • نرم افزار نورالسیرہ 2 مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی نور
  • عاملی، تحلیلی از زندگی امام حسن مجتبی، مترجم: سپہری، انتشارات دفتر تبلیغات، 1376
  • جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، انتشارات انصاریان 1381
  • مفید، الجمل، ناشر مکتب الاعلام الاسلامی، 1371
  • جریر طبری، تاریخ طبری، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات بیروت، بی تا
  • راضی یاسین، صلح الحسن، ترجمہ سید علی خامنہ‌ای، انتشارات گلشن چاپ سیزدہم 1378
  • یعقوبی، تاریخ یعقوبی ترجمہ محمد ابراہیم آیتی انتشارات علمی و فرہنگی 1362
  • طبرسی، الاحتجاج، انتشارات اسوہ 1413 ہ۔ق
  • اربلی، کشف الغمہ، ناشر مجمع جہانی اہل بیتؑ 1426 ہ ۔ ق
  • مفید، الارشاد، ترجمہ خراسانی انتشارات علمیہ اسلامیہ 1380
  • باقر شریف قرشی، الحیاۃ الحسن، ترجمہ فخرالدین حجازی، انتشارات بعثت، 1376
  • شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا، ترجمہ علی اکبر غفاری، چاپ اختر شمال، 1373
  • سیوطی، تاریخ الخلفاء، بی جا بی تا
  • شہیدی، سیدجعفر، تاریخ تحلیلی اسلام، تہران: مرکز نشر دانشگاہی، 1390ش۔
  • شیخ صدوق، امالی، ترجمہ کمرہ ای 1363
  • شیخ صدوق، امالی، انتشارات کتابخانہ اسلامی1362