عیون اخبار الرضا (کتاب)

ویکی شیعہ سے
عیون اخبار الرضا
مشخصات
مصنفشیخ صدوق (متوفی 381 ق)
موضوعروایات امام رضا (ع)، حالات زندگی
زبانعربی
طباعت اور اشاعت
ناشرمؤسسہ الأعلمی للمطبوعات


عُیونُ أخْبارِ الرّضا یا عیون الأخبار عربی زبان میں شیعہ امامیہ عالم دین شیخ صدوق (متوفی 381 ق) کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں حضرت امام علی بن موسی رضا (ع) کے حالات زندگی اور ان سے مروی روایات مذکور ہیں۔ یہ کتاب 69 ابواب پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ایک حصہ خود امام علی بن موسی رضا کی احادیث اور کچھ حصوں میں ان کی وہ احادیث ہیں جو انہوں نے اپنے سے پہلے آئمہ سے روایت کی ہیں۔ عیون اخبار الرضا کسی ایک موضوع کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس میں فقہی، اخلاقی، سیرت اور کلام سے متعلق احادیث ہیں۔ یہ شیعہ مکتب کی مصدر کتابوں میں سے ایک ہے۔

مؤلف

تفصیلی مضمون: شیخ صدوق

محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی مشہور بنام شیخ صدوق چوتھی صدی ہجری کے بزرگ شیعہ فقیہ اور محدث ہیں جو 305 ق کے بعد پیدا ہوئے اور ان کی وفات 381ق میں واقع ہوئی ہے اور ان کا مدفن ایران کا شہر ری (تہران) ہے۔ مکتب حدیثی قم کے بانی مانے جاتے ہیں۔ 300 کے قریب ان کے آثار کہے جاتے ہیں جن میں سے بہت سارے آثار مفقود ہیں۔ کتاب من لایحضرہ الفقیہ مکتب تشیع کی کتب اربعہ میں سے ایک ہے۔

تاریخ تالیف

شیخ صدوق نے شاید اس کتاب کو رکن الدولہ بویہی کی وفات کے بعد یعنی 366 ق کے بعد لکھا۔[1]

امام رضا(ع) پر لکھی جانے والی قدیمی کتب

عیون الاخبار سے پہلے اس امام کے متعلق کتابیں لکھی جانا شروع ہو چکی تھیں جیسے:

سبب تألیف‏

شیخ صدوق کے مقدمہ کتاب کے مطابق جب صاحب بن عباد دیلمی (وزیر وقت اور شیعہ حاکم علی بن موسی الرضا(ع) کی مدح میں اشعار کہتا ہے اور وہ شیخ صدوق کو ہدیہ دیتا ہے تو اس کے جواب میں شیخ صدوق صاحب بن عباد کی زحمت کی پاسداری میں عیون اخبار الرضا تالیف کرتے ہیں۔ شیخ خود اس کے متعلق لکھتے ہیں:

معارف بیکران امام رضا (ع) سے تالیف شدہ کتاب سے بہتر کوئی ہدیہ نہیں پاتا ہوں کہ جسے صاحب بن عباد کے دو قصیدوں کے جواب میں دیا جائے۔

[3]

کتاب کے مقدمے میں صاحب کے قصیدے کے چند اشعار بھی ذکر کئے ہیں ان میں چند درج ذیل ہیں:

[4]
یا سائرا زائرا إلی طوسمشہد طہر و أرض تقدیس‏
أبلغ سلامی الرضا و حط علیأکرم رمس لخیر مرموس
و اللہ و اللہ حلفہ صدرتمن مخلص فی الولاء مغموس‏‏

فہرست مضامین‏

یہ کتاب مختلف انواع کی ابحاث پر مشتمل ہے:

  • پہلا باب : امام رضا(ع) کا یہ نام کیوں رکھا گیا؟
  • دوسراباب : امام رضا (ع) کی والدہ کے متعلق۔
  • تیسرا باب : حضرت رضا (ع) کی ولادت کے متعلق۔
  • چوتھا باب : امام رضا کی جانشینی سے متعلق امام موسی کاظم سے روایات۔
  • باب پنجم: وصیتنامۂ امام موسی کاظم (ع)۔
  • چھٹا باب : امامت امام رضا (ع)
  • ساتواں باب : ہارون الرشید اور موسی بن مہدی کے ساتھ امام موسی کاظم کے احوال۔
  • آٹھواں باب : شہادت امام ہفتم (ع)۔
  • نواں باب : ساداتی کہ جنہیں ہارون نے شہید کیا۔
  • دسواں باب : واقفیون۔
  • گیارھواں باب : توحید کے متعلق امام رضا (ع) کے خطبے‌ ۔
  • بارھواں باب : امام کے مناظرات توحید۔
  • تیرھواں باب: سلیمان مروزی کے ساتھ امام رضا کا مناظرہ۔
  • چودھواں باب : دیگر علمائے ادیان سے مناظرے۔
  • پندرھواں باب : عصمت انبیا کے متعلق مناظرہ۔
  • سولواں باب : اصحاب رس۔
  • سترواں باب : آیت و فدیناہ بذبح عظیم۔[5]
  • اٹھارواں باب : فرمان پیغمبر اکرم : اناابن الذبیحین (میں دو ذبیحوں کا بیٹا ہوں)۔
  • انیسواں باب : علامات‌ امام معصوم(ع)۔
  • بیسواں باب : مقام و مرتبہ امام (ع)۔
  • اکیسواں باب : ازدواج حضرت رضا (ع)۔
  • بائیسواں باب : مرتبہ و انواع ایمان۔
  • تئیسواں باب : عترت اور امت کے درمیان فرق کے بارے میں مامون عباسی سے مناظرہ۔
  • چوبیسواں باب : حضرت علی (ع) سے واقعہ۔
  • پچیسواں باب : زید بن علی۔
  • چھبیسواں باب : فنون مختلف۔
  • ستائیسواں باب : واقعۂ ہاروت و ماروت۔
  • اٹھائیس تا اکتیسواں باب : حضرت کی زبان سے مختلف مسائل۔
  • بتیسواں باب : محمد بن سنان کو خطوط۔
  • تینتیسواں باب : روایات فضل بن شاذان۔
  • چونتیسواں باب : اسلام اور شریعت کے قوی نقاط۔
  • پینتیسواں باب : نیشاپور میں امام کا حضور اور گھر میں داخل ہونا۔
  • چھتیسواں باب : حضرت کے مکانات اور ان میں رفت و آمد۔
  • سینتیسواں باب : نادر روایت۔
  • اٹھتیسواں باب : حضرت کا طوس اور پھر مرو کا سفر۔
  • انتالیسواں باب : ولایت عہدی کے قبول کرنے کا مسئلہ، مخالفین اور موافقین۔
  • چالیسوان باب: نماز استسقا اور اس کے ساتھ ہونے والے واقعات ۔
  • اکتالیسواں باب : مأمون کا امام کے ساتھ برتاؤ۔
  • بیالیسواں باب : مامون کے رویے پر امام کے اشعار۔
  • تینتالیسواں باب : پسندیدہ اخلاق اور امام کی عبادات۔
  • چوالیسواں باب : امام علی و امام رضا(ع) کے اثبات کیلئے مامون کا نزاع۔
  • پینتالیسواں باب : اہل بیت کا علوم پر احاطہ اور ردّ غلات۔
  • چھیالیسواں باب : ولایت امام کے اثبات میں 42 روایات۔
  • سینتالیسواں باب : دشمن پر نفرین امام۔
  • اڑتالیسواں باب : : مامون کے متعلق امام کی پیش گویاں۔
  • انچاسواں باب: برمکیوں پر امام کی نفرین، ہارون کا امام کو گزند نہ پہنچا سکنے پر امام کی روایت۔
  • پچاسواں باب : مدفن امام رضا (ع) کی روایتی، امام کی حقانیت اور امامت کا اثبات۔
  • اکیاونواں باب : امام کو مسموم کرنے اور ان کے مدفن کی پیش گوئی۔
  • باونواں باب : شان حضرت رضا اور محبوں کے دلوں میں ان کی محبت کی روایات۔
  • ترپنواں باب : امام کا تمام زبانیں جاننا۔
  • چونواں باب :حسن بن علی الوشا کے سوالات سے پہلے ان کا جواب دینا۔
  • پچپنواں باب: ابی قرہ کے سوال کا جواب۔
  • چھپنواں باب : مناظرۂ یحیی ضحاک سمرقندی۔
  • ستاونواں باب : اپنے بھائی زید بن موسی سے گفتگو۔
  • اٹھاونواں باب : مسمویت امام (ع)۔
  • انسٹھوانواں باب : خلافت امام جواد (ع) کی روایت۔
  • ساٹھواں باب : امام کو زہر دینے کیلئے مامون کے مکر و حیلے۔
  • ساٹھویں سے لے کر پینسٹھویں باب تک : امام کی مسمومیت، زہر اور اس سے متعلق واقعات۔
  • چھیاسٹھواں باب : زیارت حرم حضرت معصومہ (س) کا ثواب۔
  • ستاسٹھواں باب  : کیفیت زیارت حضرت رضا (ع)۔
  • اڑسٹھواں باب : زیارت اور حضرت رضا (ع) سے وداع۔
  • انھترواں باب : امام کی ماثورہ زیارت، تمام آئمہ کی زیارت، اور معجزات حضرت رضا (ع)۔[6]

شيخ صدوق اس کتاب میں بھی دوسری کتابوں کی مانند بعض روایات کی مکمل سند ذکر کرتے ہیں اور بعض مقامات پر روایت مرسلہ یا بعض راویوں کے اسما پر اکتفا کرتے ہیں۔

اہمیت

عیون الاخبار شیعہ کے اہم روائی آثار میں سے شمار ہوتی ہے۔ شیخ صدوق کے دیگر آثار کی مانند یہ بھی نہایت قابل ارزش اور مخصوص اہمیت کی حامل ہے۔ اسی وجہ سے بعد کی کتب میں اس میں موجود مطالب سے استناد کیا جاتا تھا اور یہ بحار کے مآخذ میں سے ایک ہے۔

میرداماد اس کی مدح میں کہتے ہیں:[7]

عـیـون أخبـار الـرضا صیـقـل تجلوعـن الـقـلـب صـداء الـکرب
عیون اخبار الرضا ایک صیقل کی مانند ہے جو دل کو زنگ کرب سے صاف کرتی ہے
لـم یـبــد للـدہـــر نـظـیـرا لـہـالـناظر فی الشرق و الغرب
اس کی نظیر زمانے میں ظاہر نہیں ہوئی شرق و غرب میں دیکھنے والے کیلئے
و کــل فــن فــی أســـالـیـبـہایـکـفـیـک و تـخـلیہ السرب
اس کے اسلوب میں تمام فنون موجود ہیں وہ تمہارے لئے کافی ہے اور بے نیاز کرتی ہے
کالشمس من نور الہدی مشرقبـالسلم یقضی وطر القلب
خورشید کی مانند نور ہدایت سے چمکتی ہے دل کی آرزو پورا کرتی ہے

تحقیقات کتاب

اس کتاب کی شرحوں کی تعداد 15 اور ترجموں کی تعداد 10 کے نزدیک پہنچتی ہے۔

شرح و حواشی

اہم شروحات اور تعلقات:

  1. لوامع الانوار|لوامع الأنوار، تالیف سید نعمت اللہ جزائری (م ۱۱۱۲ ق)۔
  2. فارسی شرح شیخ محمد علی حزین زاہدی گیلانی (م ۱۱۸۱ ق)۔
  3. شرح مولی ہادی بنابی (م ۱۲۸۱ ق) (شیخ مرتضی انصاری کے شاگرد)۔
  4. فارسی شرح سید علی اصغر شوشتری اخلاقی
  5. حواشی سید حسین مجتہد قزوینی۔
  6. تعلیقات سید حسین بن حسن عاملی کرکی.[8]

تراجم

بعض فارسی ترجموں کے اسما:

  1. ترجمہ محمد صالح بن محمد باقر قزوینی
  2. ترجمہ سید جلیل میرزا ذبیح اللہ بن میرزا ہدایہ اللہ
  3. ترجمہ مولی علی بن طیفور بسطامی
  4. ترجمہ سید علی بن محمد بن اسد اللہ امامی
  5. ترجمہ محمد تقی بن محمد باقر اصفہانی
  6. ترجمہ کاشف النقاب
  7. ترجمہ‌بنام برکات المشہد المقدس
  8. ترجمہ ایک اہل مشہد نے ۱۲۴۵ ہجری میں سید محمد بن سید دلدار علی نقوی نصیرآبادی کے حکم پر ترجمہ کیا۔
  9. ترجمہ علامہ مجلسی، کچھ حصوں کا ترجمہ کیا۔ جیسے خطبہ توحید امام رضا[9] و نیز مأموریت رجاء بن ابی ضحاک کا ترجمہ جس میں امام رضا کو خراسان کی دعوت دی گئی۔ [10]
  10. ترجمہ‌ محمد باقر ساعدی خراسانی۔

عیون اخبار الرضا کا اردو ترجمہ منیر الحسن جعفری نے کیا جس کا ناشر:اکبر حسین جیوانی ٹرسٹ کراچی تھا اور اسی طرح اردو کا ایک اور ترجمہ سید تبشر الرضا کاظمی نے کیا۔

طباعت

عیون الاخبار پہلی مرتبہ ۱۲۷۵ق کو ایران کے شہر تہران سے سنگی حالت میں چھپی۔اس کے بعد کئی مرتبہ اسلامی ممالک لبنان، عراق اور ایران کے نجف، قم اور بیروت وغیرہ سے چھپی۔ اسکی معروف‌ ترین چاپ سال طباعت ۱۳۱۷ق، میں حاج نجم الدولہ تہران تھا۔

عیون الاخبار‌ نام کی کتب

  1. «عیون الأخبار‌ اور عمدہ عیون صحاح الاخبار فی مناقب امام الابرار:دونوں یحیی بن بطریق (قرن۷) نے لکھیں۔
  2. عیون الأخبار‌: عبدالرحمن بن ابی بکر نیشابوری کی تالیف ہے۔
  3. عیون الأخبار و الآثار فی ذکر النبی المصطفی المختار و وصیہ علی بن ابی طالب قاتل الکفار و آلہ الأئمہ الاطہار‌:عماد الدین ادریس بن حسن عبد اللہ الأنف۔ [11]

حوالہ جات

  1. نعمت‌ اللہ صفری فروشانی، بررسی دو اثر تاریخ نگاری شیخ صدوق، ۱۳۸۶ش.
  2. نجاشی، رجال النجاشی، ۱۴۱۶ق، ص۲۴۴ و ۲۴۵.
  3. صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۴.
  4. صدوق، عیون اخبار الرضا، ترجمہ حمیدرضا مستفید- علی اکبر غفاری‏، ۱۳۷۳ش، ج۱، ص۵-۹.
  5. صافات: ۱۰۷.
  6. صدوق، عیون اخبار الرضا، ترجمہ حمید رضا مستفید- علی اکبر غفاری‏، ۱۳۷۳ش، ج۱، ص۱۳-۲۳.
  7. تہرانی، الذریعہ، ج۱۵، ص۳۷۶.
  8. تہرانی، الذریعہ، ج۲۳، ص۳۷۵.
  9. خطبہ الرضا خطبہ توحید امام رضا ع
  10. تہرانی، الذریعہ، ج۴، ص۹۹. ۱۲۰ و ۱۲۱. ج۱۷، ۲۴۰. ج۲۶، ص۹۵.
  11. تہرانی، الذریعہ، ج۱۵، ص۳۷۵.

مآخذ

  • تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دار الاضواء.
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۶ق.
  • صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضا (ع)، بیروت، مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۴ق.
  • صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضا (ع)، مترجم حمید رضا مستفید - علی اکبر غفاری‏، تہران، نشر صدوق، ۱۳۷۳ش.
  • صفری فروشانی، نعمت اللہ، بررسی دو اثر تاریخ‌ نگاری شیخ صدوق، تابستان ۱۳۸۶ش، شمارہ ۱۰.
  • کتاب شناخت سیرہ معصومان، مرکز تحقیقات رایانہ ای علوم اسلامی نور.