حوزہ علمیہ قم

فاقد خانہ معلومات
حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
حوزہ علمیہ قم
مدرسہ فیضیہ
ابتدائی معلومات
بانیشیخ عبد الکریم حائری
محل وقوعقم ایران
مشخصات
معماری
ویب سائٹwww.hawzahqom.ir


حوزہ علمیہ قم، اس شہر میں مذہب شیعہ کی قدامت کا ثمرہ ہے جو خاندان اشعری کی کوفہ سے قم ہجرت سے قریبی تعلق رکھتا ہے۔ دوسری صدی ہجری میں شیعہ اشعریوں کی وسیع سطح پر ہجرت نے قم کو شیعہ مسلمانوں کے اکثریتی شہروں کے زمرے میں قرار دیا۔

پہلی اور دوسری ہجری قمری صدیوں میں امام صادق علیہ السلام اور امام رضا علیہ السلام کے بعض اصحاب اس شہر میں موجود تھے۔ اشعری خاندان کے علاوہ، خاندان برقی، خاندان حِمْیَرى، ابراہیم بن ہاشم قمى، ابن مَتّیل مُتَّیْل اور خاندان ابن بابویہ قمی تیسری صدی ہجری میں اس شہر کے شیعہ خاندانوں میں سے تھے۔ علم پرور خاندانوں کے علاوہ، جس چیز نے قم کے حوزہ علمیہ کی رونق میں اضافہ کیا علویوں اور سادات کی بڑی تعداد تھی جو اس شہر میں آ بسی تھی۔ قم کے باشندے ائمہ معصومین (ع) کے ساتھ مکاتبات کی صورت میں قریبی تعلق رکھتے تھے۔

قم میں دینی علوم کی مختلف شاخوں اور ان کے مقدمات کی تدریس ہوتی تھی اور علوم قرآن، کلام، تاریخ اور جغرافیہ، تراجم، علم رجال اور علم حدیث حوزہ علمیہ قم کے رائج دروس میں شامل تھے اور حوزہ قم کی اہم فعالیت غُلّات کے گمراہ کن افکار کے خلاف جدوجہد کے سانچے میں منظم ہوا کرتی تھی۔ سیاسی اور معاشرتی مسائل سے حوزہ قم کے تعلق کا سبب یہ تھا کہ اس شہر کی پوری آبادی مذہب شیعہ کی پیرو تھی؛ اسی بنا پر اس شہر کے والیوں اور قاضیوں کا تقرر بھی شیعہ اکثریت میں سے ہوتا تھا۔

حوزہ علمیہ قم تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں شکوہ و رونق سے بہرہ مند تھا لیکن پانچویں صدی ہجری میں رے اور اس کے بعد بغداد کے مشابہ حوزات علمیہ کو ـ بطور خاص سنی مذہب کے پیرو سلجوقیوں کے تسلط کے بموجب ـ رونق ملی تو حوزہ قم کی پہلی کی سی رونق باقی نہ رہی۔ منگولوں نے سنہ 621 ہجری میں قم اور کاشان پر حملہ کیا اور ان شہروں میں بڑی خونریزی کی اور آبادیوں کو ویران کیا، تو حوزہ قم نے بھی رو بہ زوال ہوا۔ صفویوں کی طرف سے شیعہ مذہب اور علماء کی تقریبا مسلسل حمایت کی وجہ سے قزوین اور اصفہان میں شیعہ حوزات علمیہ کو رونق ملی تو یہ رونق قم کے حصے میں بھی آئی۔ پورے صفوی دور میں شیعہ علماء نے ـ گوکہ مختصر مدت تک ـ قم میں قیام کیا ہے اور احتمالا تدریس بھی کی ہے۔ تیرہویں صدی ہجری میں بھی بعض علماء قم میں علمی سرگرمیوں ميں مصروف عمل تھے جن میں اہم ترین شیخ ابو القاسم قمی (متوفی سنہ 1231 ہجری) المعروف بہ میرزائے قمی تھے۔

تاریخچہ

حوزہ علمیہ قم کی بہت زیادہ قدمت اس شہر میں مذہب شیعہ کی قدمت کا ثمرہ ہے جو اشعری خاندان کی کوفہ سے قم ہجرت سے قریبی تعلق رکھتا ہے۔[1] دوسری صدی ہجری میں شیعہ اشعریوں کی وسیع سطح پر ہجرت نے قم کو شیعہ مسلمانوں کے اکثریتی شہروں کے زمرے میں قرار دیا۔ دوسری حتی کہ پہلی صدی ہجری میں قم میں بود و باش رکھنے والے شیعہ محدثین کے حالات زندگی کا جائزہ لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس شہر میں دوسری صدی کے ابتدائی عشروں ہی سے شیعہ حوزہ علمیہ وجود میں آ چکا تھا۔ پہلی صدی سے چوتھی صدی ہجری تک قم میں بود و باش رکھنے والے خاندان اشعری کے 91 علماء اور رجال دین کی فہرست[2] کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے 33 افراد کا تعلق دوسری صدی ہجری سے ہے اور اس حقیقت سے معلوم ہوتا ہے کہ حوزہ قم پہلی صدی کے اواخر اور پوری دوسری صدی کے دوران مکمل طور پر فعال تھا۔

پہلی اور دوسری صدی کے شیعہ علماء

ابوبکر بن عبداللہ اشعرى (حیات پہلی صدی کے آخر تک)، محدّث، امام صادق (ع) کے صحابی اور قم میں اشعری خاندان کے علماء میں سے ہیں جن کی نسل میں بکثرت علماء گذرے ہیں۔[3]

ابوبکر بن عبداللہ کے دادا سعد بن ملک قم میں ہجرت کرنے والے اشعریوں کے مورث اعلی ہیں۔[4]

عبداللہ بن سعد اشعری بھی دوسری صدی کے راویوں اور محدثیں میں سے ہیں۔[5] من جملہ موسی بن عبداللہ بن سعد اشعری (سنہ 114 ھ تک بقید حیات)، امام صادق (ع) کے صحابی و شاگرد اور قم میں مذہب شیعہ کی تبلیغ و ترویج میں پیشرو تھے۔[6]۔[7]

یَسَع بن عبداللہ (سنہ 114 ھ تک بقید حیات)، امام صادق (ع) کے راوی ہیں؛[8]

یعقوب بن عبداللہ (سنہ 114 ھ تک بقید حیات)، امام صادق (ع) کے صحابی ہیں؛[9]

ادریس بن عبداللہ (سنہ 183 ھ تک بقید حیات)، امام صادق (ع) کے صحابی ہیں؛[10]

دوسری صدی ہجری میں اشعری علماء میں سے ایک عبدالعزیز بن مہتدى بن محمد ہیں (سنہ 183 ھ تک بقید حیات)۔ وہ امام رضا (ع) کے وکیل تھے اور ان کا نام کتب اربعہ میں منقولہ کم از کم 16 حدیثوں کے سلسلۂ سند میں ذکر ہوا ہے۔[11]

تیسری صدی کے شیعہ علماء

تیسری صدی ہجری میں شیعہ علماء کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا چنانچہ مذکورہ بالا فہرست کے مطابق[12] ان میں سے 44 افراد تیسری صدی میں گذرے ہیں۔ اگر اس تعداد میں دوسرے خاندانوں جیسے برقى خاندان، خاندان حِمْیَرى، ابراہیم بن ہاشم قمى، ابن مَتّیل/ مُتَّیْل، خاندان ابن بابویہ اور دیگر علم پرور خاندانوں کے علماء کی کو شامل کیا جائے تو تیسری صدی کے بعد حوزہ علمیہ کی وسعت و ترقی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکے گا۔ برقی خاندان کے مورث اعلی اور پہلے عالم دین ابو عبداللہ محمد بن خالد بن عبدالرحمٰن برقى (سنہ 220 ہجری تک بقید حیات) امام کاظم (ع) اور امام رضا (ع) کے اصحاب میں سے تھے اور دوسری صدی ہجری اور تیسری صدی کے اوائل کے مشہور محدث اور روای ہیں۔ ان کے فرزند احمد بن محمد اس خاندان کے نامور ترین عالم ہیں۔

خاندان حمیری کے مشہور ترین فرد ابو العباس عبداللہ بن جعفر حِمیَرى (متوفى سنہ 310 ہجری)، امام ہادی(ع) اور امام عسكرى (ع) کے صحابی تھے اور شیعہ کتب حدیث کتب اربعہ میں 180 حدیثیں ان سے نقل ہوئی ہیں۔ انھوں نے قرب الاسناد سمیت کئی کتابیں تالیف کی ہیں۔[13]۔[14]۔[15] ان کے فرزند، ابو جعفر محمد بھی نامی گرامی اور موثق راویوں میں سے ہیں۔ وہ کئی کتب کے مؤلف ہیں اور انھوں نے امام زمانہ(عج) کے ساتھ مکاتبہ بھی کیا ہے۔[16]

ابو اسحق ابراہیم بن ہاشم قمى (سنہ 247 ہجری تک بقید حیات) بھی قم کے ایک علمی خاندان کے مورث اعلی تھے۔ وہ در حقیقت کوفی اور یونس بن عبدالرحمن کے شاگرد اور قم میں علم حدیث کے پیشرو شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے محدث ہیں جنہوں نے کوفیوں کی حدیثوں کو قم میں ترویج دی ہے۔[17]۔[18] ان کے فرزند على بن ابراہیم قمى مشہور محدّث اور مفسر اور شیخ کلینی کے مشائخ اور اساتذہ میں سے ہیں۔

مَتّیل/ مُتَّیْل قمى کے فرزندوں کو نمایاں محدثین میں شمار کیا گیا ہے۔ حسن بن متّیل (سنہ 300 ہجری تک بقید حیات) قم کے مشہور و معروف مصنف اور محدث تھے اور انھوں نے النوادر نامی کتاب تالیف کی ہے[19]۔[20] ان کے بھائی على بن متیل، شیخ صدوق کے مشائخ میں سے تھے۔[21] احمد بن متّیل اور ان کے فرزند جعفر بن احمد امام زمانہ (عج) کے دوسرے نائب خاص ابو جعفر محمد بن عثمان عَمْرى کے نزدیک اس قدر قدر و منزلت رکھتے تھے کہ شیعہ علماء تقریبا مطمئن ہو چکے تھے کہ محمد بن عثمان کے بعد نیابت خاصہ کا منصب ان میں سے ایک کو ملے گا۔[22]

خاندان ابن بابویہ

بہرحال حوزہ قم اور بعد ازاں رے کا مشہور ترین علمی خاندان ابن بابویہ ہے۔ یہ خاندان چھٹی صدی ہجری تک قم اور رے کے حوزہ ہائے علمیہ میں نامی گرامی تھا۔ اس خاندان کے آخری چشم و چراغ منتجب الدین رازی کا نام بھی اس خاندان کے مورث اعلی کی طرح علی تھا اور کنیت ابن بابویہ تھی۔ ابو الحسن على بن حسین بن موسى بن بابویہ قمى (متوفى سنہ 329 ھ) عظیم محدث تھے اور نجاشی[23] نے انہیں قمیوں کا شیخ اور فقیہ قرار دیا ہے اور ان کی لکھی ہوئی کتب کا تذکرہ کیا ہے جن میں سے اکثر کتب کا تعلق فقہی احکام سے تھا۔ ان کے بیٹے ابو عبداللہ حسین بن علی کی کنیت بھی والد کی طرح ابن بابویہ تھی اور ان کو نقل حدیث کی اجازت اپنے والد سے ملی تھی[24] ان کا اپنا قول ہے کہ وہ 20 سال تک تدریس کرتے رہے ہیں اور فقہی احکام کے حل میں ان کی حاضر جوابی سامعین کو حیرت زدہ کیا کرتی تھی۔[25] ابو الحسن علی بن حسین کے دوسرے فرزند ابو جعفر محمد بن على المعروف بہ شیخ صدوق اور ابن بابویہ اس علمی خاندان کے معروف ترین رکن ہیں۔ شیعہ کتب فقہ و حدیث [یعنی] کتب اربعہ میں سے ایک کتاب مَن لا یَحضُرُہ الفقیہ، ان ہی کے قلم کا ثمرہ ہے[26] شیخ صدوق کو درحقیقت حوزہ قم اور بعد ازاں حوزہ رے کی نمایاں ترین شخصیت اور علامت قرار دیا جا سکتا ہے جنہوں نے سنہ 339 ہجری کے بعد قم سے ہجرت کرکے رے میں سکونت اختیار کی۔[27]

علویوں اور سادات کی موجودگی

ان دانش پرور خاندانوں کے علاوہ، جس چیز نے حوزہ قم کو مزید رونق بخشی وہ اس شہر میں علویوں اور سادات کی موجودگی تھی۔ علویوں نے کم از کم دو راستوں سے حوزہ کے رونق کو مدد پہنچائی:

  • پہلی بات یہ کہ حوزہ قم کی تاریخ کے مختلف مقاطع و مراحل میں علوی خاندانوں میں سے کثیر تعداد میں علماء اور صاحبان دانش و حکمت ابھر آئے اور
  • دوسری بات یہ کہ یہ افراد بہت زیادہ لائق احترام تھے اور لوگ ان سے شدید عقیدت رکھتے تھے اور جب ان کا انتقال ہوا تو اسی شہر میں مدفون ہوئے چنانچہ ان کے مزارات نے سرزمین قم کو تقدس بخشا اور اس شہر کو ائمۂ شیعہ کی تعلیمات کی روشنی میں علوم دینیہ کی تعلیم و تدریس کے مرکز و محور میں تبدیل کیا۔[28] امام رضا (ع) کی ہمشیرہ فاطمہ معصومہ(س) کو قم میں علویوں کی نامور ترین شخصیت قرار دیا جانا چاہئے جو سنہ 202 ھ میں امام ہشتم(ع) کی ولایت عہدی کے بعد مدینہ سے خراسان روانہ ہوئیں اور قم میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔[29]
  • قمى نے تاریخ قم [30] کئی علوی فقہاء کا تذکرہ کیا ہے جن کی نسل على بن جعفر عُریضى کے توسط سے امام صادق(ع) تک پہنچتی ہے۔
  • تاریخی منابع میں مذکور ہے کہ امام موسى بن جعفر (ع)، کی پانچویں پشت پر محمد بن موسى بن اسحق بھی فقیہ تھے۔[31]
  • موسی مبرقع ابن امام جواد (ع) ان علماء اور فضلاء میں سے تھے جو ہجرت کرکے قم میں آبسے تھے[32] ان کے فرزند قم میں رضوی کے عنوان سے مشہور ہوئے۔[33] ان کے فرزند احمد بن موسی، کے ایک بیٹے کا نام ابو الحسن موسى بن احمد تھے (جو سنہ 371 ھ میں حیات تھے)۔ وہ نہایت منکسر المزاج اور ہر دلعزیز عالم تھے اور ذاتی کیاست کی بنا پر نوجوانی کے باوجود انہیں قم، آوہ، كاشان اور خورزن کے علویوں کی نقابت ان کو سونپی گئی تھی۔ ان کے زمانے میں قم اور مضافات میں سادات کے خُرد و کلاں کی تعداد 331 افراد تک پہنچ گئی تھی۔[34]
  • دوسرے علوی علماء میں سے، حمزہ بن محمد بن احمد تھے جو زید بن على بن الحسین کی نسل سے تھے۔ انھوں نے قم میں على بن ابراہیم بن ہاشم سے حدیث سنی اور خود رجب المرجب سنہ 339 ہجری میں صدوق کے لئے حدیث نقل کی۔[35]
  • ایک علوی عالم دین جنہیں تاریخ قم کے مؤلف نے[36] نے ایسے فقیہ کے عنوان سے یاد کیا ہے: ابو الفضل حسین بن حسن بن على بن على بن الحسین (ع) ہیں، جنہوں نے امام حسن عسکری (ع) سے حدیث روایت کی ہے۔[37]

دوسرے مشہور علماء

کمّیت کے لحاظ سے حوزہ قم کی وسعت اس قدر زیادہ تھی کہ صاحب تاریخ قم[38] نے لکھا ہے کہ ابتداء سے چوتھی صدی تک قم میں مشہور شیعہ علماء کی تعداد 266 اور مشہور سنی علماء کی تعداد 14 تھی۔ دینی علوم بالخصوص علم حدیث کی طرف لوگوں کی توجہ اس قدر تھی کہ محمد تقی مجلسی[39] کا کہنا ہے کہ "میں نے ایک کتاب میں دیکھا ہے کہ شیخ صدوق کے زمانے (یعنی چوتھی صدی ہجری) میں قم 200000 سے زائد محدثین کا مسکن تھا"۔ مجلسی اول نے اس عظیم تعداد کو اپنے لئے یوں باور پذیر کردیا ہے کہ "قم میں عوام و خواص حفظ حدیث کی کوشش میں مصروف رہا کرتے تھے"۔ بہر صورت یہ عظیم تعداد اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ قم کے باسی علم حدیث کی طرف زیادہ میل و توجہ رکھتے تھے۔

ائمۂ معصومین(ع) کے ساتھ قریبی رابطہ

ائمۂ معصومین علیہم السلام کے ساتھ قریبی رابطہ مکاتبات و مراسلات کی صورت میں بھی برقرار تھا اور علمائے قم کے عراق، حجاز اور خراسان کی طرف سفر کی صورت میں بھی۔ قم کے 91 اشعری علماء اور محدثین میں سے 46 ایک امام یا کئی ائمہ(ع) کے ساتھ رابطے میں تھے یا ان سے ملاقات کا شرف حاصل کر چکے تھے[40] اشعری علماء کے سوا باقی قمی علماء میں اصحاب ائمہ (ع) کی تعداد اس سے بھی زیادہ تھی[41] یہ ربط و تعلق حوزہ قم کے اعتبار و عظمت میں اضافے کا سبب ہوا اور حوزہ قم علوم اسلامی میں مرجع و معیار بن کر ابھرا۔ شیخ طوسی[42] اور علامہ مجلسی بحوالہ از شیخ طوسی[43] لکھتے ہیں: "ایک دفعہ امام زمانہ(عج) کے تیسرے نائب خاص حسین بن روح نوبختی نے اپنی ایک فقہی کتاب ـ بعنوان کتاب التأدیب کو قم بھجوایا تا کہ اس سرزمین کے علماء اور فقہاء اس کتاب کے مندرجات کی صحت و سقم کے بارے میں اپنی رائے دیں"۔

علوم

لغت

مختلف مآخذ و منابع کے مطابق سمجھا جا سکتا ہے کہ حوزہ قم میں تمام دینی علوم اور ان کے مقدمات و تمہیدات کی تدریس ہوتی تھی؛ گوکہ بعض علوم ابھی ابتدائی مراحل میں تھے۔ ابو جعفر برقی (متوفی 274 یا 280 ہجری) ادب اور بلاغت میں مہارت رکھتے ہیں۔ انھوں نے اس دور میں الشعر و الشعراء اور النحو نامی دو کتابیں تالیف کیں؛[44] ان کے ایک شاگرد ابو عبداللہ محمد بن عبیداللہ (عبداللہ) ملقب بہ ماجیلویہ بھی فقیہ اور ادیب تھے؛[45] حوزہ قم میں ابو علی احمد بن اسمعیل ملقب بہ "سمکہ" ادبی علوم کے کے دوسرے نمایاں استاد تھے؛ وہ کئی کتب کے مؤلف تھے جنہیں نجاشى[46] نے بے مثل قرار دیا ہے۔

قرآنى علوم

قرآنى علوم پر بھی حوزہ قم میں خاص توجہ دی جاتی تھی۔ امام رضا(ع) سے حدیث نقل کرنے والے عالم ابو طالب عبد اللہ بن صلت قمى نے تفسیر قرآن پر مبنی کتاب لکھی تھی[47] ابوعبد اللہ برقى نے کتاب التنزیل والتعبیر اور التفسیر کے عنوان سے دو کتابیں تالیف کی تھیں؛[48] ان کے بھائی حسن بن خالد برقی نے ایک تفسیری کتاب لکھی تھی جس کو امام حسن عسکری علیہ السلام نے املاء کیا تھا[49]۔[50] قم کے قابل احترام محدث اور متعدد فقہی کتب کے مؤلف محمد بن حسن صفار (متوفى سنہ 290 ہجری)، نے قرآن کے موضوع پر فضل القرآن نامی کتاب لکھی تھی؛[51] قم کے اشعری خاندان کے شیخ اور فقیہ ابو القاسم سعد بن عبداللہ اشعرى قمى نے اسی سلسلے میں ناسخ القرآن و منسوخہ و محکمہ و متشابہہ کے عنوان سے[52] ایک کتاب لکھی تھی اور اسی دور میں تفسیر على بن ابراہیم بن ہاشم قمى (جو سنہ 307 ہجری) میں زندہ تھے) لکھی گئی جو بعد کے زمانوں میں لکھی گئی بہت سی ماثورہ تفاسیر کی بنیاد ٹہری۔

علم کلام

قم کے قدیم حوزہ علمیہ میں تالیف و تدریس کے موضوعات میں سے ایک اعتقادی اور کلامی مباحث پر مشتمل علم تھا اور امام زمانہ(عج) کی غیبت نیز امامت جیسے موضوعات ان مباحثات کا مرکز تھے۔ اس حوالے سے لکھی گئی کتب میں ذیل کی کتابوں کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے:

غالیوں کے خلاف جدوجہد

حوزہ قم کی کلامی و اعتقادی فعالیتوں کا بڑا حصہ غالیوں کے انحرافی افکار کے خلاف جدوجہد کی صورت میں وقوع پذیر ہوا۔ حسین بن سعید اہوازی (سنہ 220 ھ تک بقید حیات)،[58] محمد بن حسن صفار قمی (متوفى سنہ 290 ھ)،[59] اور نامی گرامی شیعہ بزرگ اور فقیہ ابو القاسم سعد بن عبداللہ بن ابى خلف اشعرى (متوفى سنہ 299 یا 300 ھ)[60] میں سے ہر ایک نے غَُلات کے رد میں کتابیں لکھیں۔

تاریخ اور جغرافیہ

قدیم حوزہ قم میں قابل توجہ دیگر علوم میں سے تاریخ اور جغرافیہ جیسے علوم شامل تھے۔ نجاشی کے بقول[61] ابو عبداللہ برقی عرب کے حالات و اخبار اور علوم سے آگاہ تھے اور انھوں نے مکۃ والمدینۃ اور حروب الاوس والخزرج سمیت کئی کتابیں تالیف کیں۔ ان کے بیٹے ابو جعفر برقی حوزہ قم کے ادباء اور مؤرخین میں سے تھے اور انھوں نے ان موضوعات کے بارے میں متعدد کتابیں لکھیں؛ منجملہ:

  • انساب الامم،
  • الاوائل،
  • بنات النبى وازواجہ،
  • کتاب التاریخ،
  • کتاب المغازى، اور
  • طبقات الرجال۔

جیسا کہ انھوں نے جغرافیہ کے موضوع پر البلدان والمساحۃ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جو تاریخ قم کا ماخذ بھی قرار پائی۔[62] ابو جعفر برقی، احمد بن اسمعیل، ملقب بہ سمکہ بھی علم تاریخ کے ماہر تھے۔ ان کی تاریخی کاوشوں میں سے ایک کتاب العباسی تھی جو نجاشی کے بقول[63] 10000 اوراق پر مشتمل تھی اور نجاشی نے امین عباسی کے حالات اس کتاب میں دیکھی ہیں اور ان کی تعریف کی ہے۔ اس کاوش سے تاریخ قم کے مؤلف، حسن بن محمد قمى[64] نے بھی استفادہ کیا ہے۔ ابو جعفر محمد بن عبداللہ بن جعفر حمیرى بھی تاریخ و جغرافیہ کے ماہر تھے اور انھوں نے اپنی کتاب المساحۃ والبلدان ابو جعفر برقی کی کتاب البلدان والمساحۃ کی بنیاد پر لکھی تھی۔[65] فقہ و حدیث کے نامور ترین عالم اور شیخ مفید کے استاد ابو القاسم جعفر بن محمد بن جعفر، المعروف بہ ابن قولویہ (متوفى سنہ 368 ہجری) نے بھی تاریخ میں کئی کتابیں تالیف کی تھیں جن میں سے ایک کا عنوان تاریخ الشہور والحوادث فیہا، تھا۔[66]

تراجم اور علم رجال

علمائے قم نے تراجم اور علم الرجال میں بھی قابل قدر تالیفات رقم کی ہیں۔ ابو جعفر برقی نے بظاہر کتاب الرجال کے عنوان سے ایک کتاب تالیف کی تھی۔ جن علماء نے علم رجال میں کتابیں تالیف کی ہیں ان میں سے بعض کے نام حسب ذیل ہیں:

نیز ابن بُطہ قمی، ابن قولویہ اور شیخ صدوق میں سے ہر ایک نے تالیف شدہ کتب کی فہرست پر کتابیں لکھیں ہیں۔[68]

علم حدیث

حوزہ قم میں البتہ مذکورہ متنوّع علوم کا رواج و فروغ کسی صورت میں بھی علم حدیث جتنا نہ تھا۔ حدیث کو نہ صرف غالب ترین علم بلکہ دوسری سے چوتھی صدی ہجری کے دوران وسیع ترین شیعہ علمی تحریک کا نام دینا چاہئے۔ ائمہ معصومین (ع) کی احادیث جو ابتداء میں مدینہ اور کوفہ میں نقل کی جاتی تھیں، حوزہ قم میں تہذیب و تدوین کے مراحل سے گذریں۔ احمد بن محمد بن خالد برقی کی تالیف المحاسن جیسی کتابوں کے سلسلۂ اسناد کا جائزہ اس دعوی کی دلیل ہے۔ حوزہ قم کے نامور محدث ابراہیم بن ہاشم قمی کثرت روایت میں بے مثل تھے اور ان کا نام 6414 حدیثوں کے سلسلۂ سند میں مذکور ہے۔[69] الکافی کی احادیث کا بڑا حصہ علی بن ابراہیم نے اپنے والد ابراہیم بن ہاشم سے نقل کیا ہے۔ الکافی کی احادیث کی سند کے مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ کلینی کے 80 فیصد مشائخ حدیث کا تعلق قم سے ہے چنانچہ ظاہر ہے کہ کلینی نے طویل عرصے تک حوزہ قم کے علماء سے فیض حاصل کر چکے ہیں۔[70]

قم کے مدرسۂ حدیث کی خصوصیات

متن حدیث کو توجہ دینا اور احادیث کو منظم کرنا قم کے مدرسۂ حدیث کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت تھی۔ شیخ صدوق جو اس مکتب حدیث کی علامت سمجھے جاتے ہیں، نے فقہ و حدیث کی کئی اہم کتب تالیف کرنے کے علاوہ حدیث ہی پر مبنی کئی کلامی کتب بھی تالیف کی ہیں جن میں مشہور ترین تالیفات کچھ یوں ہیں:

قم کے محدثین حدیث کو روایتِ حدیث کے اصول اور قواعد نیز تنقیدِ حدیث کے معیاروں پر جانچتے پرکھتے تھے اور ہر حدیث کو ہر معیار کے مطابق، قبول نہیں کرتے تھے اور بطور خاص غالیوں کی جعلی حدیثوں کے داخلے کا راستہ روکنے کے لئے شدت عمل بروئے کار لاتے تھے اور ان لوگوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرتے تھے جو ضعیف اور ناقابل اعتماد حدیثیں نقل کرتے تھے؛ چنانچہ ابو جعفر احمد بن محمد بن عیسی جو (سنہ 274 ہجری میں زندہ تھے اور) قم کے اکابرِ محدثین اور اپنے زمانے کے عالی رتبہ ترین عالم دین تھے[71] ـ نے سہل بن زیاد آدمی کو قم سے نکال باہر کیا اور لوگوں کو اس سے حدیث سننے سے باز رکھا، کیونکہ سہل کو غالی اور جھوٹا سمجھا جاتا تھا؛[72] حتی کہ انھوں نے احمد بن محمد بن خالد برقی کو ضعیف افراد سے حدیث نقل کرنے کے بموجب قم سے جلا وطن کیا تاہم بہت جلد انہیں قم واپس بلوایا اور ان سے معافی مانگی اور خود ان کے جنازے میں پا برہنہ اور ننگے سر شریک ہوئے اور ان کی وفات ر بہت زیادہ مغموم و مصدوم ہوئے۔[73]

تعلیمی روشیں

تمام دینی حوزات علمیہ میں تعلیمی روشیں تقریبا ایک جیسی تھیں۔ تعلیم حدیث کی ایک بہت رائج روش یہ تھی کہ طالب علم فردی یا اجتماعی طور پر ایک استاد کے پاس اکٹھے ہوجاتے تھے اور استاد احادیث کو اپنے حافظے یا پھر کسی مرقومے سے پڑھ کر سناتا تھا اور وہ استاد کا درس حافظے کے سپرد کرتے اور لکھتے تھے۔ امالی اور مجالس کے زیر عنوان تالیف شدہ کتب اسی قسم کی تعلیمی روش کا نتیجہ تھیں۔[74] کبھی شاگر اپنے کسی استاد یا کسی دوسرے عالم کی کتاب لے کر اپنے استاد کو سناتا تھا اور استاد بھی اس کے مندرجات کی تائید کرتا تھا۔ بہر حال استاد جب سماع اور فہم حدیث، اور مہارت نیز وثاقت اور امانت داری کے لحاظ سے اپنے شاگرد پر اطمینان حاصل کرلیتا تو اس کو روایت کی اجازت / یا اجازہ، دے دیتا تھا۔ اس قسم کی اجازت کسی کاغذ پر یا پھر کسی کتاب کے آخر میں لکھ دی جاتی تھی۔ شیخ طوسی کے بقول،[75] ابن ابى جید قمى نے سنہ 356 ہجری میں احمد بن محمد عطار قمی سے روایت حدیث کی اجازت وصول کی ہے۔

حوزہ کی معیشت

قدیم مآخذ و منابع سے حوزہ قم کے مالیاتی اور انتظامی نظام کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات محققین کو حاصل نہیں ہوتی ہیں۔ ان مآخذ سے یہی کچھ سمجھا جاتا ہے کہ علماء کی معیشت کا عمومی ذریعہ کاروبار اور محنت مزدوری سے عبارت تھا اور استاد اور شاگرد تعلیم و تعلم کے ساتھ ساتھ کام بھی کرتے تھے۔

محدث اور عظیم کتاب الجامع فی ابواب الشریعہ کے مؤلف حسن بن على حجّال، محمد بن حسن بن احمد بن ولید قمی (متوفى سنہ 343 ہجری) تجارتی کاروبار میں شریک تھے[76] نجاشی کے بقول[77] ان کو اس لئے حجال کہا جاتا ہے کہ وہ حجل (پازیب) کی خرید و فروخت کا کام کرتے تھے۔

یا النوادر نامی کتاب کے مؤلف ابو نصر وہْب بن محمد قمّى، بزاز (پارچہ فروش)،[78]، بصائر الدرجات کے مؤلف محمد بن حسن صفار (متوفى سنہ 290 ہجری)، بھی قَلعی گَر تھے۔[79]

حسین بن شاذویہ (چوتھی صدی ہجری) جو قم کے محدثین اور ابو القاسم جعفر بن محمد بن قولویہ کے اساتذہ میں سے تھے، صحّاف (جلد ساز)[80] تھے۔

تاریخ قم میں[81] مذکور ہے کہ قم کے اشعریوں نے بہت سے گھر، آبادیاں (دیہات) اور وسیع زرعی زمینیں ائمۂ شیعہ(ع) کو وقف کر دیں؛ نیز وہ اپنے اموال کا خمس ائمہ (ع) کے وکلاء کے توسط سے جن میں اکثریت کا تعلق بھی قم سے تھا۔ ائمہ (ع) کے لئے بھجواتے تھے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ان اوقاف کا ایک مصرف طلاب علوم دین اور علمی مراکز کے اخراجات پورے کرنا ہوتا تھا۔

میدان سیاست

قم کے حوزۂ قدیم کا جامع جائزہ لیتے وقت سیاست اور معاشرے کے ساتھ اس کے پیوند کو نظر سے دور نہیں رکھا جاسکتا۔ یہ پیوند دو صورتوں میں جلوہ گر ہوتا تھا:

  • حوزہ کے علماء سیاسی امور میں مداخلت کرتے تھے اور دیوانی مناصب کے عہدہ دار ہوتے تھے؛
  • دوسری صورت، جو درحقیقت علماء کے معاشرتی اور سیاسی کردار کا نتیجہ تھی، دینی نقطۂ نظر سے، ان عملی مسائل کے حوالے سے تالیف اور نظری تحقیق کو توجہ دینے سے عبارت تھی جو معاشرے کو درپیش ہوتے تھے۔

شیعہ والی

حوزہ قم کے معاشرتی اور سیاسی مسائل سے ربط و پیوند کا بنیادی سبب یہ تھا کہ یہ پورا شہر شیعہ شہر تھا؛ چنانچہ اس شہر کے والی اور قاضی اکثریتی شیعہ آبادی سے مقرر کئے جاتے تھے۔[82] مثال کے طور پر ہارون الرشید (دور حکومت: سنہ 179 تا 193 ہجری) حمزہ بن یسع بن عبداللہ قمى کو والی قم مقرر کیا جو امام رضا (ع) کے راوی تھے اور انہیں اجازت دی کہ قم کو اصفہان سے الگ کر دیں اور وہاں نماز جمعہ قائم کریں[83] اسی خلیفہ نے سنہ 192 ہجری میں عامر بن عمران اشعرى کو قم کی ولایت کا منصب سونپا[84] اگر شہر کا حاکم علماء میں سے مقرر نہ بھی ہوتا تو بھی وہ شہر کے کامیاب انتظام و انصرام کے لئے علمائے قم کی رائے اور حمایت اپنی جانب کرنے کی کوشش کرتا تھا؛ چنانچہ قم کا والی اسی مقصد سے احمد بن محمد بن عیسی اشعری سے ملاقات کیا کرتا تھا۔[85]

مسند قضاء

والی کے علاوہ قاضی بھی شہر کے عوام کے مذہب کا پیروکار ہوتا تھا۔ جس طرح کے تاریخ قم سے[86] ظاہر ہوتا ہے کہ تیسری صدی ہجری تک، شہر کا قاضی شہر کے عوام کے توسط سے منتخب ہوتا تھا؛ حتی کہ مکتفی (دور حکومت سنہ 289 تا 295 ہجری) نے قاضیوں کی تقرری کے لئے ضابطہ متعین کیا جس کے تحت قضات مرکز سے شہروں میں روانہ کئے جاتے تھے۔ اس صورت میں بھی قضات عام طور پر شہر کے شیعہ علماء میں سے متعین ہوتے تھے۔ علما‏ئے قم میں سے ایک قمی خاندان دعویدار تھا جو عبد الجلیل قزوینی[87] کے بقول سب کے سب زاهد، عالم، اهل فتوا و تقوا تھے، ان کا اصلی کام قضاوت تھا: ابو المناقب ظہیر الدین على بن ہبۃ اللہ، علاء الدین محمد بن على بن ہبۃ اللہ، رکن الدین محمد بن سعد بن ہبۃ اللہ[88] نیز دیگر علماء کا بھی قاضی کے عنوان سے تذکرہ ہوا ہے؛ جیسے سدید الدین ابو محمد بن حسن قمى،[89] قاضى ابو ابراہیم بابویى جو چھٹی صدی ہجری کے نصف اول کے تمام برسوں میں مسند قضاء پر رونق افروز تھے۔[90] چنانچہ عبدالجلیل قزوینی کے بقول[91] قم میں تمام فتاوی اور پوری حکومت کے معاملات باقر اور صادق علیہما السلام کے مذہب کے مطابق تھے اور شہر کا قاضی بھی علوی یا شیعہ تھا۔

نظری مباحث میں

حوزہ قم کے علماء دیوانی مناصب بالخصوص قضاء کی عہدہ داری کے ساتھ ساتھ نظری مباحث میں بھی حکومت سے متعلق موضوعات جیسے: خراج، خمس، زکٰوۃ، قضاء، غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات، دفاع اور جہاد کی طرف توجہ دیتے تھے۔ اس سلسلے میں تالیف شدہ کتب میں سے ایک کتاب ابو القاسم جعفر بن محمد بن قولویہ (حیات سنہ 290 تا 368 ہجری) نے لکھی ہے جس کا نام القضاء و آداب الحکام[92] ہے۔ دوسرا نمونہ ایک کتاب ہے جس کا عنوان ہے: الرسالۃ فى عمل السلطان، اور اس کے مؤلف ابو الحسن محمد بن احمد بن داؤد (متوفى سنہ 368 ہجری) ہیں جو اپنے زمانے کے فقیہ تھے۔[93]

چھٹی تا نویں صدی ہجری

تاریخچہ

قدیمی قم کا حوزہ علمیہ جس نے خاص طور پر تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں شکوہ و عظمت کی چوٹیاں سر کی تھیں، کا سابقہ شکوہ، رے اور بغداد میں دوسرے مشابہ حوزات علمیہ کے رونق پانے کے بعد بطور خاص پانچویں صدی ہجری میں سنی مذہب کے پیروکار سلجوقیوں کے بر سر اقتدار آنے کے بعد، تنزلی کا شکار ہوا؛ بايں حال، اس شہر کے علماء کے حالات زندگی اور اس کے علمی اور تعلیمی و تربیتی حالات کے بارے میں رے کے دو شیعہ مؤلفین یعنی منتجب الدین رازى اور عبدالجلیل قزوینی رازى کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خاص طور پر چھٹی صدی ہجری میں یہ حوزہ اپنے سابقہ شکوہ کے قریب پہنچ چکا تھا۔ جیسا کہ سطور بالا میں اشارہ ہوا خاندان دعویدار قمی سے پانچویں سے ساتویں صدی ہجری تک بہت سے علماء ابھر کر سامنے آئے جن میں سے بعض نے اس شہر کے مسند قضاء کو سنبھالا۔ اس خاندان سے باہر دوسرے علماء نے بھی حوزہ قم کو رونق بخشی۔ چھٹی صدی ہجری میں اس شہر کے ایک مشہور فقیہ ابو محمد حسن بن حَسّولة بن صالحان قمى قم کے جامع عتیق خطیب تھے جس نے طرشت کے عالم دین ابو عبد الله جعفر بن محمد دُوریستى کے ہاں تعلیم حاصل کی تھی نیز شاذان بن جبرئیل قمی کے شاگردوں میں سے تھے؛[94] صاحب فتوی فقیہ قاضى ابو ابراہیم بابوئى، بھی چھٹی صدی کے نصف اول میں مذہب اہل بیت (ع) کے مطابق فیصلے کرتے تھے؛[95] نیز ابو جعفر محمد بن على نیشابورى (متوفى سنہ 550 ہجری)، فضل اللہ بن على حسنى راوندى کے استاد تھے اور حوزہ قم میں فعال کردار ادا کر رہے تھے۔ وہ کئی کتب کے مؤلف ہیں جن میں الحدود اور الموجز فی النحو خاص طور پر قابل ذکر ہیں؛[96]۔[97]۔[98] خاندان علوىِ سید زکى سے مرتضى کبیر شرف الدین محمد بن على، جن کا اپنا مدرسہ بھی تھا ـ علم اور زہد و پارسائی میں شہرت تامہ رکھتے تھے اور ان کے بھائی تاج الدین و امیر شمس الدین ابو الفضل رضوى چھٹی صدی میں حوزہ قم میں فعال تھے؛[99] زین‌الدین امیرۃ بن شرف شاہ حسینی قم کے ان فقہاء میں سے تھے جو قضاء اور تدریس میں مصروف عمل تھے اور ان کے نام پر ایک مدرسہ بھی تعلیمی مراکز میں سے تھا۔[100]۔[101]۔[102]

مدارس

چھٹی صدی میں مدرسۂ امیرۃ بن شرف شاہ حسینی قم کا واحد مدرسہ نہ تھا اور عبد الجلیل قزوینی کی تصریح کے مطابق[103] اس شہر میں مختلف فرقوں کی کتب سے بھرے ہوئے کتب خانے اور درس و تدریس کی محافل اور حلقے برقرار تھے۔ انھوں نے قم میں 10 آباد مدارس کے نام لئے ہیں جیسے:

  • مدرسہ سعد، مدرسۂ اثیر الملک،
  • مدرسۂ شهید سعید عز الدین مرتضى،
  • مدرسۂ ظہیرالدین عبد العزیز،
  • مدرسۂ ابوالحسن کمیج، اور
  • مدرسۂ شمس الدین مرتضى۔ وغیرہ

نیز حرم فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا میں بھی دینی علوم کی تدریس ہوتی تھی اور اس حرم کے اپنے اوقاف تھے جس سے طلاب، اساتذہ اور مدرسین کے اخراجات دیئے جاتے تھے۔[104]

منگولوں کی یلغار

سنہ 621 ہجری میں قم اور کاشان پر منگولوں کا حملہ اور ان شہروں میں وسیع خونریزی اور تباہی[105] حوزہ قم بھی رو بزوال ہوا۔ آقا بزرگ طہرانى کہتے تھے کہ قمی نسبت رکھنے والے علماء کی تعداد چھٹی صدی ہجری میں 34،[106] ساتویں صدی میں 3،[107] اور نویں صدی میں 7[108] ذکر کی ہے۔ یہ تعداد، اس فرض کے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ ممکن ہے کہ مذکورہ علماء قمی نہ ہوں یا قم میں مقیم نہ ہوں، حلہ کے علماء کی تعداد کے مقابلے میں جو چھٹی صدی میں 16،[109] ساتویں صدی میں 34،[110] آٹھویں صدی میں 38،[111] اور نویں صدی میں 10 تھی[112] ـ اس دور میں حوزہ علمیہ قم کے جمود کی بخوبی تصویر کشی کرتی ہے۔

اس دور میں چھٹی صدی کے متعدد اور پر شکوہ مدارس کا اتا پتا نہیں ہے، اس کے باوجود اس حوزہ کی علمی فعالیت بہت زیادہ نشیب و فراز کے باوجود تقریبا جاری و ساری رہی ہے۔ ابن طاؤس (حیات سنہ 647 تا 693 ہجری)۔[113] نے قم میں ایک مدرسے کا تذکرہ کیا ہے جو ان کے زمانے میں سرگرم عمل تھا اور شاید قم کے بازار کے قریب واقع مدرسہ رضویہ اسی مدرسے کی یادگار ہے۔ ابن عنبہ[114] نے بھی بازار قم کے علاقے میں سورانیک کے علاقے میں ایک مدرسے کا تذکرہ کیا ہے، جس میں امام حسن مجتبی(ع) کی اولاد میں سے ایک امام زادے ناصر الدین على بطحانی مدفون تھے۔ خواند میر اپنی کتاب دستور الوزراء میں[115] گورکانی/تیموری بادشاہوں کے وزیر برہان الدین عبد الحمید کرمانى (متوفى سنہ 877 ہجری) کے حالات زندگی بیان کرتے ہیں جس نے قم کے ایک مدرسے میں سکونت اختیار کی تھی۔ مدرسى طباطبائى[116] نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ یہ وہی مدرسہ غیاثیہ تھا جو تقریبا سنہ 730 ہجری میں خواجہ غیاث الدین امیر محمد بن رشید الدین فضل اللہ کے ہاتھوں تعمیر ہوا تھا اور آج بھی اس کے داخلی دروازے کا بالائی حصہ اور مینارے موجود ہیں۔

صفویہ اور قاجاریہ کے ادوار

گوکہ ساتویں صدی سے نویں صدی ہجری تک حوزہ قم رو بہ زوال تھا، قم کی مذہبی اہمیت اور اس کی بنیادی حیثیت اور قدامت اور اس شہر کے وہ علماء جن کی جڑیں علم و فضل اور تاریخ کی گہرائیوں میں پیوست تھیں، حوزہ علمیہ قم کے یکبارگی سے مکمل زوال کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ شیعہ مذہب اور علماء کو حاصل صفویوں کی تقریبا مسلسل اور دائمی حمایت ـ جو قزوین اور اصفہان میں شیعہ حوزات علمیہ کی ترقی، نشو و نما اور رونق و شکوہ کا سبب بنی تھی ـ یقینا قدیم ترین شیعہ شہر یعنی قم کو بھی حاصل ہو چکی ہوگی۔ مدرسہ فیضیہ کو مد نظر رکھے بغیر جو گیارہویں صدی ہجری کے آخر تک مدرسۂ آستانہ کے نام سے مشہور تھا ـ پورے صفوی دور میں علمائے شیعہ گوکہ مختصر مدت تک قم میں قیام اور احتمالا تدریس کرتے رہے ہیں؛ جن میں ذیل کے علمائے کرام خاص طور پر قابل ذکر ہیں:

  • بہاء الدین عاملی؛[117]
  • مولى حاج حسین یزدى، جو بہاء الدین عاملی کے بزرگ شاگردوں میں اور متکلم و ریاضی دان تھے اور انھوں نے خواجہ نصیر الدین طوسی کی کتاب تجرید پر مفصل شرح لکھی تھی اور اواخر عمر میں قم کے مدرسہ معصومیہ میں تدریس کرتے تھے؛[118]
  • صدر الدین شیرازى المعروف بہ ملا صدرا؛۔[119]
  • فیض کاشانی (متوفى سنہ 1091 ہجری) جن کا کہنا تھا کہ[120] آٹھ سال تک قم میں صدر الدین شیرازی کے ہاں ریاضت اور تلمذ کا فیض حاصل کرتے رہے ہیں؛
  • ملا عبد الرزاق لاہیجی (متوفى سنہ 1072 ہجری)، جو صدر الدین شیرازی کے شاگرد اور داماد اور حالیہ چار صدیوں کے عظیم ترین متکلمین ہی نہیں بلکہ اسلامی تاریخ کے محقق ترین متکلمین میں سے ہیں۔ وہ شوارق الالہام اور گوہر مراد جیسی کتابوں کے مصنف ہیں۔ لاہیجی درحقیقت لاہیجان کے باشندے تھے لیکن قم میں طویل المدت قیام کی وجہ سے قمی کہلاتے تھے۔ قم کے مدرسۂ معصومیہ میں ان کا اپنا مخصوص مَدْرَس (کلاس روم) تھا؛[121]۔[122]۔[123]
  • مولى محمد طاہر قمى (متوفى سنہ 1098 ہجری) از مشایخ اجازه علامہ مجلسی؛۔[124] وى شیخ الاسلام قم بود و در آن شهر به اداره امور مذهبى مردم اشتغال داشت و کتابهاى متعددى در کلام و حدیث و نقد تصوف نوشت؛۔[125]۔[126]
  • قاضى سعید قمى (متوفى سنہ 1107 ہجری) جو ابن بابویہ کی کتاب التوحید کے مشہور شارح ہیں ـ نے کتاب الاَرْبَعینیات لِکشفِ انوارِ القُدسیات کا چھٹا رسالہ بعنوان الاَنوارُ القُدسیةُ فى تحقیقِ الهَیولى والصُّورةِ والنَّفسِ وفوائِدَ اُخَر محرم سنہ 1085 ہجری میں[127] میں اور اس کا ساتواں رسالہ المَقَصدُ الاَسْنى فى تحقیقِ ماهیة الحرکةِ ووجودِها کے عنوان سے سنہ 1088 ہجری میں[128] شہر قم میں تکمیل تک پہنچایا؛
  • صدر الدین، ابن مولى محمد طاهر قمى، جو علم کلام میں مہارت کاملہ رکھتے تھے اور قم کے مدرسہ معصومیہ میں تدریس کیا کرتے تھے؛۔[129]
  • میرزا حسن لاہیجى (متوفى سنہ 1121 ہجری)، ابن ملا عبد الرزاق لاہیجى، جو اپنے والد کی طرح عظیم متکلم اور حکیم تھے۔ وہ قم میں پیدا ہوئے اور یہیں تعلیم حاصل کی اور تدریس و تالیف میں سرگرم عمل ہوئے اور اسی شہر میں دنیا سے رخصت ہوئے؛[130]۔[131]۔[132]
  • مولى فخر الدین ماوراء النہرى، جو شاہ عباس دوئم کے ہم عصر تھے۔ وہ مذہب اہل سنت چھوڑ کر شیعہ ہوئے اور قم مشرف ہوئے، یہیں قیام کیا اور یہاں کے اساتذہ سے علم حاصل کیا۔ وہ کئی کتب کے مصنف و مؤلف بھی ہیں۔[133]

تیرہویں صدی ہجری

میرزا قمی

تیرہویں صدی ہجری میں بھی قم میں متعدد علماء علمی فعالیت میں مصروف نظر آتے ہیں جن میں اہم ترین اور مشہور ترین شیخ ابو القاسم قمى (متوفى سنہ 1231 ہجری)، وہ وحید بہبہانی کے مشہور شاگرد تھے اور جاپَلَق نامی علاقے سے جہاں ان کے والد سکونت پذیر ہوئے تھے، قم ہجرت کرکے آئے تھے اور یہاں تدریس و تالیف میں مصروف ہوئے تھے۔ میرزا محمد حسن زنوزی نے میرزا قمی کے زمانے میں اپنی کتاب لکھی اور میرزا قمی کا تذکرہ عالم، فاضل کامل، مجتہد، اصول فقہ کے ماہر کے عنوان سے کیا ہے اور ان کی کتاب القوانین المحکمہ کی تعریف و تمجید کی ہے؛ جس کی تالیف ربیع الثانی سنہ 1205 ہجری میں مکمل ہوئی تھی۔[134] زنوزی کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ میرزا قمی کی کتاب القوانین المحکمہ مؤلف کی حیات میں ہی مشہور ہوئی تھی اور بے سبب نہیں ہے کہ یہ کتاب بعد میں حوزات علمیہ کی معتبر درسی کتب میں تبدیل ہوئی ہے۔ میرزا قمى نے فقہ میں بھی متعدد کتب اور رسائل کی تالیف کا اہتمام کیا ہے؛ منجملہ: غنائم الایام اور جامع الشتات۔ وہ جب عراق کے عتبات عالیہ میں قیام پذیر تھے تو انھوں نے متعدد مشہور علماء کی تربیت کی؛ منجملہ: ملا احمد نراقى، سید عبداللہ شُبَّر اور صاحب کتاب مفتاح الکرامہ سید محمد جواد عاملى۔[135] میرزا قمی کے بہت سے شاگردوں نے اس شہر سے ہجرت کی اور ان ایام کے زیادہ فعال حوزات علمیہ منجملہ نجف کا رخ کیا۔ اس کے باوجود وہ اپنے قیام کے دوران اس حوزہ کی علمی رونق کا سبب رہے اور ان کی موجودگی اس شہر میں دینی تعلیم و تعلم کے تسلسل کا باعث ہوئی۔

میرزا قمی کے بعد کے علماء

جن لوگوں نے میرزا قمی کی حیات میں اور ان کی وفات کے بعد قم میں علمی فعالیت کی ہے ان میں بعض کے نام حسب ذیل ہیں:

عہد ناصری کے علماء

تاریخ دار الایمان قم کے مؤلف محمد تقى بیک ارباب قمى نے ناصر الدین شاہ قاجار کے دور کے اواخر کے بعض علماء کا تذکرہ کیا ہے؛ منجملہ:


عہد قاجار کے اواخر کے علماء

علمائے اواخر دوره قاجار

متعلقہ مآخذ


بیرونی ربط

حوالہ جات

  1. قمی، تاريخ قم، ص240
  2. مهاجر، رجال الاشعريين...، ص 192- 195۔
  3. برقى، كتاب الرجال، ص43؛ قمی، تاريخ قم، ص241؛ مهاجر، رجال الاشعريين...، ص26۔
  4. نجاشی، رجال ...، ج 1، ص 216۔
  5. قمی، تاريخ قم، ص 278۔
  6. برقى، كتاب الرجال، ص30۔
  7. قمی، تاريخ قم، ص 278۔
  8. قمی، تاريخ قم، ص27، 241، خوئى، معجم رجال الحدیث، ج21، ص133۔
  9. برقى، كتاب الرجال، ص28،یاقوت حموى، فتوح البلدان، ذیل "قم"، مهاجر، رجال الاشعريين...، ص 186ـ 187۔
  10. نجاشی، رجال ...، ج 1، ص260، طوسى، رجال الطوسى، ص 163۔
  11. نجاشی، رجال ...، ج 2، ص 60، مهاجر، رجال الاشعريين...، ص 96۔
  12. مهاجر، رجال الاشعريين...، ص 192ـ195۔
  13. نجاشی، رجال ...، ج2، ص 18ـ19۔
  14. طوسى، رجال طوسی، ص389، 400۔
  15. سبحانى، موسوعة طبقات الفقهاء، ج 4، ص 238۔
  16. نجاشی، رجال ...، ج 2، ص 253۔
  17. نجاشی، رجال ...، ج1، ص89۔
  18. طوسى، فهرست كتب الشيعة، ص11ـ 12۔
  19. نجاشی، رجال ...، ج1، ص 155۔
  20. منعّل قمى، تذكره مشايخ قم، ص37۔
  21. نائینى، رياض المحدثين، ص495۔
  22. طوسى، 1417، ص 369۔
  23. نجاشی، ج 1، ص 89ـ90۔
  24. نجاشی، ج1، ص189۔
  25. طوسى، 1417، ص 321۔
  26. طوسى، فهرست كتب الشيعة، ص442ـ443۔
  27. ابن بابویہ، مقدمہ عبد الرحیم ربانى شیرازى، ص 18ـ19۔
  28. ائمہ معصومین (ع) کی طرف سے قم کی تعریف و تمجید کے لئے رجوع کریں: قمی، تاريخ قم، ص 90ـ100؛ محمد باقر مجلسى، بحار الانوار، ج48، ص317، ج57، ص214، 217۔
  29. قمی، تاريخ قم، ص 213۔
  30. تاریخ قمی، ص224ـ228۔
  31. نائینى، انوار المشعشعین، ج1، ص517۔
  32. قمی، تاريخ قم، ص215۔
  33. ابن عنبہ، ص230۔
  34. قمی، تاريخ قم، ص220۔
  35. ابن بابویہ، معانى الاخبار، ص301۔
  36. قمی، تاریخ قم، ص 228۔
  37. قم میں دیگر علوی فقہاء سے متعارف ہونے کے لئے رجوع کریں: قمی، تاريخ قم، ص225۔
  38. قم، تاریخ قم، ص18۔
  39. مجلسی، لوامع صاحبقرانى، المشتهر بشرح الفقيہ، ج1، ص477۔
  40. مهاجر، رجال الاشعريين...، ص192ـ195۔
  41. ر۔ک:طبسى، قم عاصمة الحضارة الشيعية، ص118ـ121۔
  42. شیخ طوسى، كتاب الغيبة، ص390۔
  43. محمد باقر مجلسى، ج51، ص359۔
  44. نجاشی، رجال ...، ج 1، ص 204ـ206۔
  45. نجاشی، رجال ...، ج2، ص251۔
  46. نجاشی، رجال ...، ج1، ص246۔
  47. ر۔ک:نجاشی، رجال ...، ج2، ص13ـ14۔
  48. نجاشی، رجال ...، ج2، ص220ـ221۔
  49. ابن شهر آشوب، معالم العلماء، ص34۔
  50. شوشترى، قاموس الرجال، ج3، ص228۔
  51. نجاشی، رجال ...، ج2، ص252۔
  52. نجاشی، رجال ...، ج1، ص401ـ402، 404۔
  53. نجاشی، رجال ...، ج1،ص230ـ231۔
  54. طوسى، فہرست کتب الشیعۃ، ص294۔
  55. نجاشی، رجال ...، ج2، ص18ـ19، که نام کتاب نخست را الغیبة و الحیرة ضبط کرده است۔
  56. نجاشی، رجال ...، ج 2، ص 89۔
  57. سبحانى، موسوعة طبقات الفقهاء، ج4، ص284۔
  58. رجوع کریں:طوسى، فهرست کتب الشیعة، ص149ـ 150۔
  59. نجاشی، رجال ...، ج2، ص252۔
  60. نجاشی، رجال ...، ج1، ص401ـ402۔
  61. نجاشی، رجال ...، ج2، ص221۔
  62. نجاشی، رجال ...، ج1، ص204ـ206۔
  63. نجاشی، رجال ...،ج1، ص246ـ247۔
  64. تاریخ قم، ص237۔
  65. نجاشی، رجال ...، ج2، ص253۔
  66. نجاشی، رجال ...، ج1، ص305ـ306۔
  67. آقا بزرگ طهرانى، الذریعة، ج10، ص83، 85، 94، 112، 118، 142- 143۔
  68. آقا بزرگ طهرانى، الذریعة، ج16، ص374ـ375۔
  69. خوئى، معجم رجال الحدیث، ج11، ص318۔
  70. جعفریان، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا قرن دهم هجرى، ج1، ص209۔
  71. نجاشی، رجال ...، ج1، ص196ـ197۔
  72. نجاشی، رجال، ج1، ص417۔
  73. ابن غضائرى، الرجال، ص39۔
  74. رجوع کریں: آقا بزرگ طهرانى، الذریعة، ج2، ص305ـ306۔
  75. طوسی، رجال، ص410ـ411۔
  76. رجوع کریں: نجاشی، رجال ...، ج1، ص155۔
  77. رجوع کریں: نجاشی، وہی ماخذ، ج1، ص155۔
  78. رجوع کریں: نجاشی، ج2، ص392۔
  79. نجاشی، ج2، ص252۔
  80. نجاشی، ج1، ص184۔
  81. تاریخ قم، ص279۔
  82. عبد الجلیل قزوینى، نقض، ص459۔
  83. قمی، تاریخ قم، ص28۔
  84. قمی، تاریخ قم، ص102۔
  85. نجاشی، رجال ...، ج1، ص216ـ217۔
  86. قمی، تاریخ قم، ص17۔
  87. عبدالجلیل قزوینی، النقضِ، ص212۔
  88. منتجب الدین رازى، الفهرست، ص122۔
  89. منتجب الدین رازی، الفهرست، ص40۔
  90. عبدالجلیل قزوینى، النقضِ، ص459۔
  91. عبدالجلیل قزوینى، النقضِ، ص459۔
  92. نجاشی، رجال ...، ج1، ص305ـ306۔
  93. نجاشی، رجال، ج2، ص304ـ305۔
  94. محمد باقر مجلسى، بحار الانوار، ج106، ص42۔
  95. عبد الجلیل قزوینى، النقضِ، ص459۔
  96. منتجب الدین رازى، الفهرست، ص102ـ 103۔
  97. عبدالجلیل قزوینى، النقضِ، ص212۔
  98. امین، اعیان الشیعه، ج8، ص408۔
  99. عبد الجلیل قزوینى، النقضِ، ص195، 224ـ225۔
  100. منتجب الدین رازى، الفهرست، ص36۔
  101. عبدالجلیل قزوینى، النقضِ، ص195، 459۔
  102. ابن حجر عسقلانى، لسان المیزان، ج2، ص218، عسقلانی نے ان کا نام امیر بن شرف شاہ الشریف الحسنى القمى ضبط و ثبت کیا ہے۔
  103. عبد الجلیل قزوینى، النقضِ، ص195۔
  104. عبد الجلیل قزوینى، النقضِ، ص195۔
  105. رجوع کریں: ابن اثیر، ج12، ص419۔
  106. طبقات اعلام الشیعہ: الثقات العیون فی سادس القرون، ص225ـ226۔
  107. آقا بزرگ طهرانى، الحقائق، ص165۔
  108. آقا بزرگ طهرانى، الضیاء، ص110۔
  109. آقابزرگ طهرانى، الثقات، ص85ـ86۔
  110. آقا بزرگ طهرانی، الانوار، ص55ـ56۔
  111. آقابزرگ طهرانى، الحقائق، ص61ـ62۔
  112. آقا بزرگ طهرانى، الضیاء، ص54۔
  113. ابن طاؤس، فرحة الغرى فى تعیین قبر امیر المؤمنین على علیہ السلام، ص131۔
  114. ابن عنبہ، عمدة الطالب فى انساب آل ابی طالب، ص92۔
  115. خواندمیر، دستورالوزراء، ص377ـ380۔
  116. مدرسى طباطبائى، قم در قرن نهم هجرى، ص37ـ38۔
  117. مدرسى طباطبائى، قم در قرن نهم هجرى، ص128۔
  118. افندى اصفهانى، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج2، ص195ـ196، 452ـ453۔
  119. صدر الدین شیرازى، مقدمہ نصر، ص پنج ـ شش۔
  120. فیض کاشانى، شرح صدر، ص151۔
  121. نصرآبادى، تذکره، ص226۔
  122. منتخباتى از آثار حکماى الهى ایران، ج1، ص272۔
  123. افندى اصفهانى، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج3، ص114۔
  124. ر۔ک:مجلسى، ج110، ص129ـ 131۔
  125. نصر آبادى، تذکره، ص238۔
  126. افندى اصفهانى، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج5، ص111۔
  127. ر۔ک:قاضى سعید قمى، ص195۔
  128. قاضى سعید قمى، ص211۔
  129. جزایرى،الاجازة الکبیرة، ص142۔
  130. قزوینى، تتمیم امل الآمل، ص111۔
  131. افندى اصفهانى، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج1، ص207ـ208۔
  132. منتخباتى از آثار حکماى الهى ایران، ج3، ص219۔
  133. افندى اصفهانى، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج4، ص331ـ332۔
  134. زنوزى، ریاض الجنة، 4، قسم 1، ص523۔
  135. میرزاى قمى، غنائم الایام فى مسائل الحلال و الحرام، ج1، مقدمہ تبریزیان، ص48ـ49۔
  136. امامى خوئى، ج1، ص314ـ315۔
  137. امامى خوئى، مرآة الشرق، ج1، ص363ـ364۔
  138. امامى خوئى، مرآة الشرق، ج1، ص222ـ223۔
  139. رجوع کریں: غنائم الایام فى مسائل الحلال و الحرام، ص30ـ31۔
  140. دانشوران قم، ص121ـ 122، ص125ـ126۔

مآخذ

  • محمد محسن آقا بزرگ طهرانى، الذریعة الى تصانیف الشیعة، چاپ على نقى منزوى و احمد منزوى، بیروت 1403 هجری قمری/1983عیسوی۔
  • محمد محسن آقا بزرگ طهرانى، طبقات اعلام الشیعة: الانوار الساطعة فى المائة السابعة، چاپ على نقى منزوى، بیروت 1392هجری قمری/1972عیسوی۔
  • محمد محسن آقا بزرگ طهرانى، الثقات العیون فى سادس القرون، چاپ على نقى منزوى، بیروت 1392هجری /1972عیسوی۔
  • محمد محسن آقا بزرگ طهرانى، الحقائق الراهنة فى المائة الثامنة، چاپ على نقى منزوى، بیروت 1975عیسوی۔
  • محمد محسن آقا بزرگ طهرانى، الضیاء اللامع فى القرن التاسع، چاپ على نقى منزوى، تهران 1362هجری شمسی۔
  • ابن اثیر۔ الکامل فی التاریخ ، بیروت 1385ـ1386هجری قمری/1965ـ 1966عیسوی۔
  • ابن بابویہ، معانى الاخبار، چاپ على اکبر غفارى، قم، 1361هجری شمسی۔
  • ابن حجر عسقلانى، لسان المیزان، چاپ عبدالفتاح ابوغده، بیروت 1423هجری/2002عیسوی۔
  • ابن شهرآشوب، معالم العلماء، نجف 1380 هجری/1961عیسوی۔
  • ابن طاؤس، فرحة الغرى فى تعیین قبر امیر المؤمنین على علیہ السلام، چاپ تحسین آل شبیب موسوى، قم، 1419هجری/1998عیسوی۔
  • ابن عنبہ، عمدة الطالب فى انساب آل ابی طالب، بیروت: دارمکتبةالحیاة، بى تا۔
  • ابن غضائرى، الرجال لابن الغضائرى، چاپ محمد رضا حسینى جلالى، قم 1422هجری قمری۔
  • ابن ندیم، الفهرست، (تهران)۔
  • محمد بن على اردبیلى، جامع الرواة و ازاحة الاشتباهات عن الطرق و الاسناد، بیروت 1403 قمری/1983عیسوی۔
  • امین، محسن، اعیان الشیعه۔
  • احمد بن محمد برقى، کتاب الرجال، در ابن داؤد حلّى، کتاب الرجال، تهران 1383 هجری شمسی۔
  • رسول جعفریان، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا قرن دهم هجرى، ج1، قم 1375 هجری شمسی۔
  • غیاث الدین بن همام الدین خواندمیر، دستور الوزراء، چاپ سعید نفیسى، تهران 1355 هجری شمسی۔
  • خوئى، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث وتفصیل طبقات الرواة، الطبعة الخامسة طبعة منقحة ومزیدة السنة 1413هجری/1992عیسوی۔
  • محمد تقی شوشتری، قاموس الرجال، محقق و ناشر: موسسہ النشر الاسلامی التابعة لجماعة المدرسین بقم المشرفة، 1410 هجری۔
  • لطف الله صافى، «بین العَلَمین: الشیخ الصدوق و الشیخ المفید»، ترجمة محمد رضا آل صادق، در المقالات و الرسالات، شماره 18، قم: کنگره جهانى هزاره شیخ مفید، 1413 هجری۔
  • حسن طارمى راد، «صدوق و مفید در بحار الانوار مجلسى»، در مقالات فارسى، شماره 52، قم: کنگره جهانى هزاره شیخ مفید، 1413 هجری۔
  • محمد جواد طبسى، قم عاصمة الحضارة الشیعیة، قم 1384 هجری شمسی۔
  • محمد بن حسن طوسى، رجال الطوسى، چاپ جواد قیومى اصفهانى، قم 1420 هجری۔ الف۔
  • محمد بن حسن طوسى، فهرست کتب الشیعة و اصولهم و اسماء المصنفین و اصحاب الاصول، چاپ عبدالعزیز طباطبائى، قم 1420 هجری۔ ب۔
  • محمد بن حسن طوسى، کتاب الغیبة، چاپ عبادالله طهرانى و على احمد ناصح، قم 1417 هجری۔
  • عبد الجلیل قزوینى، النقضِ، چاپ جلال الدین محدث ارموى، تهران 1358 هجری شمسی۔
  • حسن بن محمد قمى، کتاب تاریخ قم، ترجمہ حسنبن على قمى، چاپ جلال الدین طهرانى، تهران 1361 هجری شمسی۔
  • محمدبن عمر کشى، اختیار معرفةالرجال، تلخیص محمدبن حسن طوسى، چاپ حسن مصطفوى، مشهد 1348 هجری شمسی۔
  • محمد باقر بن محمد تقى مجلسى، بحار الانوار۔
  • محمد تقى بن مقصود على مجلسى، لوامع صاحبقرانى، المشتهر بشرح الفقیه، قم 1414 هجری۔
  • حسین مدرسى طباطبائى، قم در قرن نهم هجرى، قم 1350 هجری شمسی۔
  • مجید معارف، پژوهشى در تاریخ حدیث شیعه، تهران 1374 هجری شمسی۔
  • محمد بن محمد مفید، اوائل المقالات، چاپ ابراهیم انصارى، بیروت 1414 هجری/1993عیسوی۔
  • محمد بن محمد مفید، الحکایات فى مخالفات المعتزلة من العدلیة والفرق بینهم و بین الشیعة الامامیة من امالى الامام الشیخ المفید، عرض و روایة شریف مرتضى، چاپ محمدرضا حسینى جلالى، قم 1413 هجری۔
  • على بن عبیدالله منتجب الدین رازى، الفهرست، چاپ جلال الدین محدث ارموى، قم 1366 هجری شمسی۔
  • نور الدین على منعّل قمى، تذکره مشایخ قم، چاپ مدرسى طباطبائى، قم 1353 هجری شمسی۔
  • موسوعة طبقات الفقهاء، اشراف جعفر سبحانى، قم: مؤسسة الامام الصادق، 1418ـ1424 هجری۔
  • جعفر مهاجر، رجال الاشعریین من المحدثین و اصحاب الائمة علیهم السلام، قم 1429 هجری۔
  • محمد على بن حسین نائینى، انوار المشعشعین فى ذکر شرافة قم و القمیین، چاپ محمد رضا انصارى قمى، قم 1381هجری شمسی؛ الف۔
  • محمد على بن حسین نائینى، ریاض المحدثین فى ترجمة الرواة و العلماء القمیین من المتقدمین و المتأخرین، چاپ محمد رضا انصارى قمى، قم 1381 هجری شمسی؛ ب۔
  • احمد بن على نجاشى، رجال النجاشى، چاپ محمد جواد نائینى، بیروت 1408 هجری/1988 عیسوی؛ یاقوت حموى۔
  • محمد تقى ارباب قمى، تاریخ دار الایمان قم، چاپ حسین مدرسى طباطبایى، قم 1353 هجری شمسی۔
  • عبدالله بن عیسى افندى اصفهانى، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، چاپ احمد حسینى، قم 1401هجری۔
  • محمد امین امامى خوئى، مرآة الشرق: موسوعة تراجم اعلام الشیعة الامامیة فى القرنى الثالث عشر و الرابع عشر، چاپ على صدرائى خوئى، قم 1385 هجری شمسی۔
  • عبدالله بن نور الدین جزایرى، الاجازة الکبیرة، چاپ محمد سمامى حائرى، قم 1409 هجری قمری۔
  • دانشوران قم: نگاهى بہ زندگى 204 تن از دانشمندان و بزرگان قمى یا مدفون در قم، گزیده ستارگان حرم (1ـ 15)، تلخیص على رضا هزار، تدوین محمد تقى ادهم نژاد، قم: زائر، 1384 هجری شمسی۔
  • محمد حسن بن عبد الرسول زنوزى، ریاض الجنة، روضه 4، قسم 1، چاپ على رفیعى، قم 1370 هجری شمسی۔
  • محمد بن ابراهیم صدر الدین شیرازى (ملا صدرا)، رسالہ سہ اصل، چاپ حسین نصر، تهران 1340 هجری شمسی۔
  • محمد بن شاه مرتضى فیض کاشانى، شرح صدر فیض کاشانى، چاپ شهرام پازوکى، در عرفان ایران مجموعہ مقالات (29 و 30)، گردآورى و تدوین مصطفى آزمایش، تهران: حقیقت، 1385 هجری شمسی۔
  • محمد سعید بن محمد مفید قاضى سعید قمى، الاربعینیات لکشف انوار القدسیات، چاپ نجف قلى حبیبى، تهران 1381 هجری شمسی۔
  • عبدا لنبى بن محمد تقى قزوینى، تتمیم املالآمل، چاپ احمد حسینى، قم 1407 هجری۔
  • حسین مدرسى طباطبائى، «مدرسہ آستانہ مقدسہ (فیضیہ)»، وحید، شماره 1 (فروردین 1350)۔
  • منتخباتى از آثار حکماى الهى ایران: از عصر میر داماد و میر فندرسکى تا زمان حاضر، چاپ جلال الدین آشتیانى، ج1، تهران: انیستیتو ایران و فرانسہ، 1351 هجری شمسی، ج3، تهران: انجمن فلسفہ، 1355 هجری شمسی۔
  • ابو القاسم بن محمد حسن میرزاى قمى، غنائم الایام فى مسائل الحلال و الحرام، قم 1375ـ1378 هجری شمسی۔
  • محمد طاهر نصر آبادى، تذکره نصرآبادى، چاپ احمد مدقّق یزدى، یزد 1378 هجری شمسی۔