امام رضا کا ابوقرہ سے مناظرہ

ویکی شیعہ سے

امام رضا کا اَبوقُرّہ کے ساتھ مناظرہ خدا کی جسمانیت کے بارے میں ایک علمی گفتگو ہے۔ اس مناظرے میں امام رضاؑ کے مد مقابل اَبوقُرّہ کا عقیدہ ہے کہ خدا جسم رکھتا ہے، خدا کو دیکھ جا سکتا ہے، خدا جگہ گھیرتا ہے، انسانوں کی طرح زبان رکھتا ہے اور بولتا ہے۔

ابوقرّہ قرآن و روایات کے ذریعے اپنے عقیدے پر استدلال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں امام رضاؑ بھی قرآن و احادیث کے ذریعے اس کی باتوں پر اشکال کرتے ہیں۔ احمد طَبْرسی کے مطابق ابوقرہ اس مناظرے میں امام رضاؑ کے اشکلات کا جواب دینے میں ناکام رہتا ہے۔

یہ حدیث یعقوب کُلِینی کی کتاب الکافی، شیخ صدوق کی کتاب توحید اور احمد طَبْرسی کی کتاب الاحتجاج میں نقل ہوئی ہے۔

اس مناظرے کی مختصر رپورٹ

صَفْوان بن یحیی اس مناظرے کے راوی کے مطابق یہ گفتگو مذہب مُجَسَّمہ[1] (خدا کی جسمانیت کے قائل لوگ) کے فقیہ اَبوقُرّہ کی درخواست پر عمل میں آئی ہے۔ ابوقرّہ صفوان سے امام رضاؑ سے ملاقات کے لئے اجازت لینے کی درخواست کرتا ہے۔[2]

ابوقرہ شروع میں کچھ شرعی مسائل کے بارے میں سوال کرتا ہے البتہ یہ سوالات حدیث کے متن میں نہیں آیا ہے۔[3] اس کے بعد صفات خدا کے بارے میں بحث کرنا شروع کرتا ہے۔ وہ قرآن کی بعض آیات اور احادیث سے استناد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خدا انسانوں کی طرح بولتا ہے اور خدا کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ای طرح خدا جگہ گھیرتا ہے۔[4]

امام رضاؑ بھی قرآنی آیات سے استناد کرتے ہوئے اس کے نظریات کو رد کرتے ہیں۔[5] اس روایت کے مطابق ابوقرّہ اس مناظرے میں امام رضاؑ کے اشکلات کے مقابلے میںحیران رہ جاتا ہے اور کوئی جواب نہیں دے پاتا۔[6]

مناظرے کا خلاصہ

  • ابوقرّہ: روایت میں ہے کہ: "خدا نے اپنے دکھائی دینے اور بولنے کی صفت کو دو پیمغبروں میں تقسیم کیا ہے: بولنے کو حضرت موسى اور دکھائی دینے کو حضرت محمّدؐ کے لئے عطا کیا ہے۔"
  • امام رضا: پھر یہ جو خدا نے فرمایا ہے کہ : "لا تُدْرِكُہُ الْأَبْصارُ" (آنکھیں اسے دیکھ نہیں سکتیں)،[7] "وَ لا يُحِيطُونَ بِہِ عِلْماً" (نہ مخلقوات کا علم اس کا احاطہ کر سکتا ہے)[8]، "لَيْسَ كَمِثْلِہِ شَيْ‏ءٌ" (کوئی شئ اس کی مانند نہیں ہے)[9] محمّد صلّى‌اللَّہ‌علیہ‌وآلہ وسلم کے علاوہ کسی اور کے لئے کہا ہے؟
  • ابوقرہ: نہیں۔
  • امام رضا: یہ کیسے ممکن ہے کہ جو شخص خدا کی طرف سے آیا ہے اور لوگوں کو خدا کے ان فرامین کی طرف دعوت دیتا ہے کہ: «آنکھیں خدا کو دیکھ نہیں سکتی"، «مخلوقات کا علم اس کا احاطہ نہیں کر سکتا" اور "کوئی شئ خدا کی مانند نہیں ہے"، لیکن خود محمد کہے کہ: میں نے اپنی آنکھوں سے خدا کو دیکھا ہے اور میں نے اپنے علم کے ذریعے خدا پر احادطہ کیا ہے اور وہ انسانوں کی طرح ہے؟!
  • ابوقرّہ: خدا نے خود فرمایا ہے: "لَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً أُخْرى"(اور یقینا دوسری بار اسے دیکھا ہے)[10]۔
  • امام رضا: اس آیت کے بعد والی آیت میں بیان ہوا کہ پیغمبر نے کیا دیکھا ہے: "ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى"(دل نے جس چیز کو دیکھا ہے اسے جھٹلایا نہیں ہے)[11] یعنی محمّدؐ کے دل نے اس چیز کو نہیں چھٹلایا ہے جسے ان کی آنکھوں نے دیکھا ہے۔ اس کے بعد خدا نے اس چیز کے بارے میں خبر دی ہے جسے محمّدؐ نے دیکھا ہے: "لَقَدْ رَأى‏ مِنْ آياتِ رَبِّہِ الْكُبْرى"(پیغمبر نے خدا کی بعض عظیم نشانیوں کو دیکھا ہے)[12] اور خدا کی "آیات" اور نشانیاں خود خدا نہیں ہے بلکہ خدا کا غیر ہے۔ اس طرح خدا ارشاد فرماتا ہے: "وَ لا يُحِيطُونَ بِہِ عِلْماً"(لوگ خدا پر علمی احاطہ پیدا نہیں کر سکتے)[13]۔ اگر خدا کو آنکھوں سے دیکھنا ممکن ہوتا تو اس پر احاطہ پیدا کرنا بھی ممکن ہوتا۔
  • ابوقرّہ: پس روایات کی تکذیب کرتے ہو؟
  • امام رضا: اگر کوئی روایت قرآن کا مخالف ہو تو اس کی تکذیب کرتا ہوں؛ دوسری طرف سے مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ خدا پر علمی احاطہ پیدا کرنا ناممکن ہے۔[14]

منابع

امام رضاؑ کا اَبوقُرّہ کے ساتھ مناظرہ پہلی بار یعقوب کُلِینی کی کتاب الکافی میں آیا ہے۔[15] کلینی نے اس مناظرے کو دو حدیث کی شکل میں ذکر کیا ہے اور دونوں کا سند ایک ہی ہے: پہلی حدیث کو "ابطال‌ الرؤیہ"(خدا کو دیکھنا نا ممکن ہے) کے موضوع پر[16] اور دوسری حدیث کو "عرش و کرسی" کے موضوع پر نقل کیا ہے۔[17]

شیخ صدوق نے پہلی حدیث کو کتاب توحید میں کلینی سے نقل کیا ہے؛[18] لیکن چھٹی صدی ہجری کے شیعہ محدث اور متکلم احمد بن علی طبرسی نے پورے مناظرے کو کتاب الاحتجاج میں نقل کیا ہے جو ان دو حدیثوں سے بہت طولانی ہے جنہیں کلینی نے نقل کیا ہے۔[19]

بحارالانوار میں علامہ مجلسی نے اس مناظرے کو کلینی[20] شیخ صدوق[21] اور احمد طبرسی[22] سے نقل کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. سبحانی، مناظرہ‌ہای معصومان، 1392ہجری شمسی، ص150۔
  2. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص130؛ شیخ صدوھ، توحید، 1398ھ، ص111؛ طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص405۔
  3. طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص405۔
  4. طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص405-408۔
  5. طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص405-408۔
  6. طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص408۔
  7. سورہ انعام، آیہ 103۔
  8. سورہ طہ، آیہ 110۔
  9. سورہ شورا، آیہ 11۔
  10. سورہ نجم، آیہ 13۔
  11. سورہ نجم، آیہ 11۔
  12. سورہ نجم، آیہ 18۔
  13. سورہ طہ، آیہ 110۔
  14. طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص406۔
  15. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص130-131۔
  16. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص95-96۔
  17. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص130-132۔
  18. شیخ صدوھ، توحید، 1398ھ، ص110-111۔
  19. طبرسی، احتجاج، 1403ھ، ج2، ص405-408۔
  20. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج55، ص14-15۔
  21. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج4، ص36۔
  22. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج10، ص344-347۔

مآخذ

  • سبحانی، جعفر، مناظرہ‌ہای معصومان، قم، توحيد قم، چاپ اول، 1392ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوھ، محمد بن علی، التوحید، تحقیق و تصحیح ہاشم حسینی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، 1398ھ۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی اہل اللجاج، تحقیق و تصحیح محمدباقر خرسان، مشہد، نشر مرتضی، چاپ اول، 1403ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار، بیروت، دار احیاء‌ التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔