"آیت لاتحزن" کے نسخوں کے درمیان فرق
imported>E.musavi کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>E.musavi کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 16: | سطر 16: | ||
| مربوط آیات = | | مربوط آیات = | ||
}} | }} | ||
'''آیت لا تحزن''' [[سورہ توبہ]] کی چالیسویں آیت، '''آیہ لا تحزن''' یا '''آیہ غار''' میں [[پیغمبر اکرم ؐ]] اور [[ | '''آیت لا تحزن''' [[سورہ توبہ]] کی چالیسویں آیت، '''آیہ لا تحزن''' یا '''آیہ غار''' میں [[پیغمبر اکرم ؐ]] اور [[ابوبکر]] کے [[مکہ]] سے [[مدینہ]] کی طرف [[ہجرت]] کے موقع پر [[غار ثور]] میں پناہ لینے کا ذکر ہے۔ اس آیت کے [[شان نزول]] میں بعض [[مسلمانوں]] کے [[غزوہ تبوک ]] میں شرکت نہ کرنے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ساتھ نہ دینے کا ذکر آیا ہے۔ [[شیعہ]] اور [[سنی]] [[مفسرین]] اس آیت کے ابوبکر کی فضیلت کے بارے میں ہونے میں اختلاف رکھتے ہیں۔ | ||
==آیت اور ترجمہ == | ==آیت اور ترجمہ == | ||
سطر 51: | سطر 51: | ||
{{ستون خ}} | {{ستون خ}} | ||
{{قرآن کی مشہور آیات}} | {{قرآن کی مشہور آیات}} | ||
[[زمرہ:قرآن کی اعتقادی آیات]] | [[زمرہ:قرآن کی اعتقادی آیات]] |
نسخہ بمطابق 00:51، 28 فروری 2021ء
آیت کی خصوصیات | |
---|---|
سورہ | توبہ |
آیت نمبر | 40 |
پارہ | 10 |
شان نزول | غزوہ تبوک میں آنحضرت (ص) کی ہمراہی میں بعض مسلمانوں کی سستی |
موضوع | اللہ کی طرف سے پیغمبر اکرم (ص) کی ںصرت |
آیت لا تحزن سورہ توبہ کی چالیسویں آیت، آیہ لا تحزن یا آیہ غار میں پیغمبر اکرم ؐ اور ابوبکر کے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے موقع پر غار ثور میں پناہ لینے کا ذکر ہے۔ اس آیت کے شان نزول میں بعض مسلمانوں کے غزوہ تبوک میں شرکت نہ کرنے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ساتھ نہ دینے کا ذکر آیا ہے۔ شیعہ اور سنی مفسرین اس آیت کے ابوبکر کی فضیلت کے بارے میں ہونے میں اختلاف رکھتے ہیں۔
آیت اور ترجمہ
آیت: إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّـهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا ۖ فَأَنزَلَ اللَّـهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا۔۔۔ ترجمہ:اگر تم رسول کی مدد نہ کرو گے تو (جان لو کہ) اللہ نے اس وقت ان کی مدد کی جب کفار نے انہیں نکالا تھا جب وہ دونوں غار میں تھے وہ دو میں کا دوسرا تھا جب وہ اپنے ساتھی سے کہ رہا تھا رنج نہ کر یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے، پھر اللہ نے ان پر اپنا سکون نازل فرمایا اور ایسے لشکروں سے ان کی مدد کی جو تمہیں نظر نہ آتے تھے ۔
شان نزول
کہا جاتا ہے شیعہ اور سنی مفسرین کا اعتقاد ہے کہ یہ آیت اور اس سے پہلے کی دو آیتیں اس وقت نازل ہوئیں جب مسلمانوں میں سے کچھ نے جنگ میں شرکت نہ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حکم ماننے میں سستی دکھائی۔ یہ آیات مسلمانوں کو جہاد کی طرف توجہ نہ دینے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کی تعمیل میں کوتاہی کرنےسے روکتی ہیں اور صراحت کے ساتھ کہتی ہیں: اگر آپ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس جنگ اور جہاد میں مدد نہیں کرتے ہیں تو خدا ان کی مدد کرے گا، جس طرح پہلے مدینے کی طرف ہجرت کے موقع پر اس غار کی تنہائی میں ان کی مدد کی تھی جب ان کا کوئی یار مددگار نہ تھا سوائے اس ساتھی کہ جو خوف اور حزن کا شکار تھا۔[1] مشہور نظریہ کے مطابق جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وحی کے ذریعے قریش کےمشرکین کی طرف سے ان کے قتل کی سازش سے آگاہ ہوئےتو ابو بکر کے ساتھ مکہ سے نکل گئے اور ایک گمنام راستے سے کی طرف سے یثرب کی جانب چلے یہاں تک کہ غار ثور پہنچے اور وہاں مخفی ہوئے۔[2] علامہ طباطبائی کا ماننا ہے کہ روایات کی بنیاد پر یہ آیات غزوہ تبوک کے واقعہ سے متعلق ہیں۔[3]
شیعہ مفسرین کا رجحان
شیعہ مفسرین اور کچھ اہل سنت مفسرین (لاتحزن )کو ’’خوفزدہ نہ ہونے‘‘کے معنی میں سمجھتے ہیں۔ اس کی توضیح وتفسیر اس طرح کی ہے: جب قریش پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مکہ سے نکل جانے سے آگاہ ہوتے ہیں توکرز ابن علقمہ ابن ہلال خزاعی جو کہ ماہر جستجوگر تھا، کی مدد اس راستے کا پتہ لگا لیتے ہیں یہاں تک کہ غار تک پہنچ جاتے ہیں اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ابو بکر کے مل جانے سے متعلق گفتگو کرتے ہیں ۔اسی وجہ سے ابو بکر خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں: اگر انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھ لیا تو ہمیں دیکھ لیں گے ۔پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں :کیا گمان کرتے ہو ان دو لوگوں کے بارے میں کہ جن کا تیسرا خد ا ہے۔ اہل سنت کے مآخذ تاریخ جیسے طبری میں اس طرح ابو بکر کے خوفزدہ ہونے کے بارے میں ذکر ہوا ہے۔ ان مفسرین کا«فَاَنْزِلَ اللّهَ سَکینَتَهُ عَلَیهِ»علیہ کی ضمیر کے مرجع کے بارے میں نظریہ یہ ہے کہ اس آیت کے پہلےاور بعد کے حصے «تَنْصُروهُ»، «نَصَرَهُ»، «اَخْرَجَهُ»، «یقولُ»، «لِصاحِبِهِ» اور «أَیدَهُ» کی ضمائر کا مرجع پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ کسی دلیل کے بغیر اور ایک چیز کے واضح ہوتے ہوئے (علیہ )کی ضمیر کسی دوسرے کی طرف جیسے ابوبکر کی طرف پلٹے ؟اس بات کے ذیل میں کہ آیت خدا کی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے مدد اور ان کی تائید بیان کر رہی ہے نہ کہ کسی دوسری چیز کو ۔[4]
بعض اہل سنت مفسرین کا رجحان
بعض اہل سنت علما سورہ توبہ کی چالیسویں آیت میں «ثانِی اثْنَینِ»، «لاتَحْزَنْ» و «فَاَنْزَلَ اللّهُ سَکینَتَهُ عَلَیهِ»جیسی عبارتوں کو ابوبکر کے فضائل میں شمار کرتے ہیں اور عبارت «ثانِی اثْنَینِ اِذْ هُما فِی الْغارِ»کو ان کی خلافت کے قابل ہونے کی دلیل جانتے ہیں۔[5] اور بعض آیۂ « لاتَحْزَنْ »سے جو کہ پیغمبر کا ابوبکر سے خطاب ہے،پیمغمبر کا محزون ہونا سمجھتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ«وَ لاتَحْزَنْ عَلَیهِمْ وَ اخْفِضْ جَناحَکَ لِلْمُؤْمِنینَ اے پیغمبرﷺ جو ایمان نہیں لاتے ان کے لیے غمین نہ ہوں اور اپنے بازووں کو مومنین کے لئے پھیلا دیجئے۔» خطا در حوالہ: Closing </ref>
missing for <ref>
tag و «لایحْزُنُکَ الَّذینَ یسارِعونَ فِی الْکُفْرِ»[6]</ref>جیسی آیات کی بنیاد پر پیغمبر کے اس حزن سے منع کرنے کو ابو بکر کی معصیت کی دلیل کے بجائے اسے پروردگار کی اطاعت سمجھتے ہیں۔[7] اسی طرح ان کے نزدیک «علیه» کی ضمیر کو ابوبکر کی طرف پلٹایا ہے۔ اور«فَاَنْزَلَ اللّهُ سَکینَتَهُ عَلَیهِ: خدا نے ان کو قرار اور سکون بخشا» کو خدا کا ابو بکر پر لطف سمجھتے ہیں۔ [8]
حوالہ جات
- ↑ نجارزادگان،تفسیر تطبیقی،۱۳۸۳ش،ج۱، ص۲۴۹۔
- ↑ ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ۱۳۵۵ھ، ج۲، ص۱۲۶-۱۲۹؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸ء، ۱، ص۲۲۷-۲۲۹۔
- ↑ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۹، ص۲۷۹۔
- ↑ دیکھئے: طباطبائی،المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۹، ص۲۷۹-۲۸۰۔
- ↑ رجوع کیجئے:ابن سلام، بدء الاسلام، ۱۴۰۶ھ، ص۷۰۔
- ↑ سوره مائده، آیه ۴۱۔
- ↑ میبدی، کشف الاسرار، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۱۳۹۔
- ↑ میبدی، کشف الاسرار، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۱۳۴، ۱۳۸؛ نویری، نہایۃ الأرب، دار الکتب، ج۱۹، ص۱۴۔
مآخذ
- قرآن مجید
- آیتی، محمد ابراہیم، تاریخ پیامبر اسلام، به کوشش ابوالقاسم گرجی، تہران، انتشارات دانشگاه تہران، ۱۳۶۶ش۔
- ابن سلام اباضی، لواب، بدءالاسلام و شرائعالدین، بہ کوشش ورنر شوارتز و سالم بن یعقوب، ویسبادن، انتشارات فرانتزشتاینر، ۱۴۰۶ھ، ص۱۹۸۶م۔
- ابن سعد، محمد بن منیع البصری، الطبقات الکبرى، بیروت، دار صادر، ۱۹۶۸ء۔
- ابن ہشام، عبد الملک، السیرۃ النبویہ، بہ کوشش محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہره، بینا، ۱۳۵۵ھ۔
- بخاری، محمدبن اسماعیل، صحیح بخاری، قاہری، بینا، ۱۳۱۵ھ۔
- طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزه علمیه قم، ۱۴۱۷ھ۔
- طبرسی، فضل بن الحسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بہ کوشش ہاشم رسولی محلاتی و فضلاللہ یزدی، بیروت، بینا، ۱۴۰۸ھ، ص۱۹۸۸ء۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، ط الثانیہ، ۱۳۸۷ھ/۱۹۶۷ء۔
- میبدی، احمد بن محمد، کشف الاسرار و عدۃ الابرار، بہ کوشش علیاصغر حکمت، تہران، امیر کبیر، ۱۳۷۱ش۔
- نجارزادگان، فتحاللہ، تفسیر تطبیقی، قم، مرکز جہانی علوم اسلامی، ۱۳۸۳ش۔
- نویری، احمدبن عبدالوہاب، نہایۃ الارب فی فنون الأدب، قاہره، دار الکتب و الوثائق القومیۃ، بیتا۔