اجماع منقول

ویکی شیعہ سے

اجماع منقول، اس اجماع کو کہا جاتا ہے جسے مجتہد نے خود حاصل نہیں کیا بلکہ کسی اور فقیہ نے اسے اس اجماع کی اطلاع دی ہے۔ علم الاصول میں اجماع منقول کے مقابلے میں اجماع محصل جو حجت اور سند دونوں اعتبار سے اجماع منقول پر فوقیت رکھتا ہے۔

علمائے علم اصول کے نزدیک اجماع منقول سے مراد وہ اجماع ہے جو خبر واجد کے ذریعے نقل ہوا ہو جس کی حجیت کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے خبر واحد کی حجیت کے دلائل کی بنا پر اجماع منقول کو بھی حجت قرار دیا ہے۔

اجماع منقول کی حجیت کو تقویت دینے والے عوامل میں، الفاظ اجماع کی دلالت کی مضبوطی، ناقل اجماع کی جستجو کی سطح اور دقت علمی نیز زیر بحث مسئلے کی شہرت اور وضوح شامل ہیں۔

مفہوم

اجماع منقول اس اجماع کو کہا جاتا ہے جو خود مجتہد کے لئے حاصل نہیں ہوا[1]، بلکہ اس نے اس اجماع کو دوسروں سے نقل کیا ہے[2] یا کسی اور فقیہ نے بالواسطہ یا بلا واسطہ اسے اس اجماع کی اطلاع دی ہے۔[3] مثلا یہ کہ شیخ طوسی کسی مسئلے میں دوسروں کے لئے اجماع کی اطلاع دے۔[4] یہ اجماع خود شیخ طوسی کے لئے اجماع محصل ہے لیکن دوسروں کے لئے جنہوں نے شیخ طوسی سے سنا ہے اجماع منقول ہوگا۔[5]

بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ گذشتہ علماء اجماع محصل پر تکیہ کرنے کی وجہ سے اجماع منقول سے بحث ہی نہیں کرتے تھے اور فقہ کے کسی مسئلے میں وہ اجماع منقول سے استدلال نہیں کرتے تھے۔[6]

علم اصول[7] میں امارات کے باب میں خبر واحد کی حجیت کے بعد[8] اجماع منقول سے بحث کی جاتی ہے۔[9] بعض موارد میں ظن پر عمل کرنے کی حرمت سے اجماع منقول کو مستثنی قرار دیا گیا ہے۔[10] اجماع منقول اجماع محصل کے مقابلے میں[11] اور حجیت کے اعتبار سے اجماع محصل کے بعد دوسرے درجے پر واقع ہے۔[12]

اقسام

اجماع منقول تواتر یا خبر واحد ہونے کے لحاظ سے دو قسموں میں تقسیم ہوتا ہے:

متواتر اجماع منقول

اگر کسی مسئلے میں بہت سے علماء اجماع کا دعویٰ کریں اور اسے دوسرے فقہا کے لئے نقل کریں [13] جس سے ان کے قول کا معصوم کے قول سے مطابقت رکھنے کے بارے میں یقین حاصل ہو جائے تو اس قسم کے اجماع منقول کو متواتر اجماع منقول کہلائے گا۔ اکثر علماء نے اس قسم کے اجماع منقول کو اجماع محصل کی طرح حجت قرار دیا ہے۔ [14]

خبر واحد کے ذریعے منقول اجماع

اگر کسی مسئلہ میں علماء کا ایک مختصر گروہ اجماع کا دعوی کرے اور اسے دوسروں کے لئے نقل کرے[15]، جس سے اجماع حاصل ہونے کا گمان ہو جائے تو اس قسم کے اجماع کو خبر واحد کے ذریعے منقل اجماع کہلائے گا۔[16]

علم اصول فقہ میں جس اجماع منقول کے بارے میں بحث کی جاتی ہے وہ خبر واحد کے ذریعے منقول اجماع ہے؛[17] اور اگر بطور مطلق ذکر ہو تو بھی مراد خبر واحد کے ذریعے منقول اجماع ہی ہے[18] جو اجماع محصل کے مقابلے میں قرار پاتا ہے۔[19]

اجماع منقول کی حجیت

اگر اجماع منقول حد تواتر تک پہنچ جائے تو اجماع محصل اور خبر متواتر کی طرح حجت ہے۔[20] محمد رضا مظفر اس بات کے معتقد ہیں کہ سزاوار ایسے اجماع کی حجیت کو سب قبول کریں؛ کیونکہ اجماع نقل کرنے والا بلاواسطہ معصوم سے نقل کر رہا ہے؛ اگرچہ وہ معصوم کو بذاتہ نہ پہچانے؛[21] جس طرح خود فقیہ نے تمام علماء کے نظریات کو حاصل کرنے کے ذریعے فقہاء کے اجماع کو حاصل کیا ہے۔[22] اگرچہ عصر غیبت میں ایسا طریقہ نہ اپنا گیا ہے اور نہ کسی نے ایسا کوئی دعوی کیا ہے۔[23]

اگر اجماع منقول خبر واحد کے ذریعے نقل ہوا ہو تو اس کی حجیت کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے[24] اور اجماع منقول میں موجود اختلاف صرف اسی قسم کے ساتھ مختص ہے۔[25] وہ فقہاء جو خبر واحد کو حجت نہیں سمجھتے وہ بطریق اولی اجماع منقول کو بھی حجت نہیں سمجھتے جبکہ وہ فقہاء جو خبر واحد کو حجت سمجھتے ہیں وہ بھی اجماع منقول کی حجیت کے بارے میں مختلف آراء رکھتے ہیں۔[26]

  • بعض کا خیال ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نقل ہونے والی حدیث اور اجماع دونوں میں حجت ہونے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے اور دوں معتبر اور معصوم کے قول کو کشف کرتے ہیں۔ ان کی قرآنی دلیل آیہ نباء ہے جو خبر واحد کی حجیت کے لئے بطور دلیل استعمال کی جاتی ہے۔[27]
  • ایک اور گروہ خبر واحد کے ذریعے منقول اجماع کو حدسی اور استنباطی ہونے کی بنا پر خبر واحد کی حجیت کے دلائل سے خارج سمجھتے ہیں اور خبر واحد اور اجماع منقول کے موازنے اور مقایسے کو قیاس مع الفارق اور صحیح نہیں مانتے ہیں؛[28] لھذا ایسا اجماع کاشف قول معصوم بھی نہیں ہوگا۔[29] بعض کا خیال ہے کہ بہت سارے علماء اس طرح کے اجماع کو حجت نہیں مانتے ہیں۔[30]
  • ایک اور گروہ کہتے ہیں کہ اگر اجماع کو نقل کرنے والا اجماع دخولی کا قائل ہو تو یہ اجماع حسی ہونے کے اعتبار سے ائمہؑ کے زمانے میں تو قابل احتبار ہے لیکن عصر غیبت میں قابل اعتبار نہیں ہے[31] لیکن اگر نقل کرنے والا اجماع لطفی کا قائل ہو تو ایسا اجماع حجت نہیں ہوگا، اور اجماع حدسی ہونے کی صورت میں اگر نقل کرنے والا عادل ہو اور تمام ادوار میں تمام علماء کا فتوا حسی طور پر درک کیا یا ان کے فتوؤں کو ان کی کتابوں میں دیکھا ہو تو حجت ہوگا۔[32]کیونکہ اس کا حکم، خبر واحد کی طرح ہے لیکن اگر ایسا نہ ہو تو حجت نہیں ہوگا۔[33]

حجیت کو تقویت دینے والے عوامل

اجماع منقول کی حجیت کے بعض قائلین اس کی حجیت اور قول معصوم کو کشف کرنے میں بعض عوامل کو مؤثر سمجھتے ہیں، منجملہ ان میں اجماع کے الفاظ کا دلالت میں قوی ہونا، ناقل اجماع کی سطح تتبع اور دقت علمی نیز زیر بحث مسلئے کی شہرت اور وضوع شامل ہیں، چنانچہ اگر مذکورہ عوامل موجود نہ ہو تو نقل اجماع ناقص ہو گا اور قول معصوم کو کشف کرنے میں دوسرے علماء کے اقوال کو بھی نقل کرنے کی ضرورت ہوگی۔[34]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. منتظری، مبانی فقہی حکومت اسلامی، 1409ھ، ج‌8، ص383۔
  2. مطہری، مجموعہ آثار، 1395ہجری شمسی، ج‌20، ص51۔
  3. مظفر، أصول الفقہ، 1375ہجری شمسی، ج2، ص114؛ محمدی، شرح اصول استنباط، دارالفکر، ج1، ص382؛ جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج‌1، ص257؛ شیروانی، تحریر اصول فقہ، 1385ہجری شمسی، ص231۔
  4. محمدی، شرح اصول استنباط، دارالفکر، ج1، ص382۔
  5. محمدی، شرح اصول فقہ، 1387ہجری شمسی، ج3، ص189۔
  6. جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل بیت(ع)، قم، ج‌42، ص189۔
  7. محمدی، شرح اصول استنباط، دارالفکر، ج1، ص26۔
  8. جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل بیت(ع)، قم، ج‌42، ص190۔‌
  9. جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج‌1، ص257۔
  10. سمیعی، ترجمہ متن و شرح کامل رسائل شیخ انصاری، 1387ہجری شمسی، ج3، ص6؛ حیدری، اصول الاستنباط، 1412ھ، ص191۔
  11. جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج‌1، ص257۔
  12. جناتی شاہرودی، منابع اجتہاد، 1370ہجری شمسی، ص214۔‌
  13. جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج‌1، ص257۔
  14. مظفر، أصول الفقہ، 1375ہجری شمسی، ج2، ص114؛ جمعی از مولفان، مجلہ فقہ اہل بیت(ع)، ج‌42، ص190۔‌
  15. جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج‌1، ص257۔
  16. جمعی از مولفان، مجلہ فقہ اہل بیت(ع)، ج‌42، ص190۔‌
  17. مظفر، أصول الفقہ، 1375ہجری شمسی، ج2، ص114۔
  18. مجلہ فقہ اہل بیت علیہم السلام فارسی، ج‌42، ص 190‌
  19. موسوی بجنوردی، علم اصول، 1379ہجری شمسی، ص309۔
  20. مظفر، أصول الفقہ، 1375ہجری شمسی، ج2، ص114؛ شیروانی، تحریر اصول فقہ، 1385ہجری شمسی، ص231؛ جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج‌1، ص257۔
  21. مظفر، أصول الفقہ، 1375ہجری شمسی، ج2، ص114۔
  22. جناتی شاہرودی، منابع اجتہاد، 1370ہجری شمسی، ص214۔‌
  23. مظفر، أصول الفقہ، 1375ہجری شمسی، ج2، ص114۔
  24. مظفر، أصول الفقہ، 1375ہجری شمسی، ج2، ص115؛ جمعی از مولفان، مجلہ فقہ اہل بیت(ع)، ج‌42، ص190۔‌
  25. مظفر، أصول الفقہ، 1375ہجری شمسی، ج2، ص115۔
  26. جمعی از مولفان، مجلہ فقہ اہل بیت(ع)، قم، ص214‌-215۔
  27. ذہنی تہرانی، تشریح المقاصد، 1405، ج2، ص350۔
  28. جناتی شاہرودی، منابع اجتہاد، 1370ہجری شمسی، ص215۔‌
  29. موسوی بجنوردی، علم اصول، 1379ہجری شمسی، ص310۔
  30. موسوی بجنوردی، علم اصول، 1379ہجری شمسی، ص310۔
  31. شیروانی، تحریر اصول فقہ، 1385ہجری شمسی، ص232۔
  32. محمدی، شرح اصول استنباط، دارالفکر، ج1، ص391۔
  33. حیدری، اصول الاستنباط، 1412ھ، ص194۔
  34. جمعی از مولفان، مجلہ فقہ اہل بیت(ع)، قم، ج‌42، ص193‌-195۔

مآخذ

  • جمعی از پژوہشگران زیر نظر سید محمود ہاشمی جناتی شاہرودی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، مؤسسہ دائرة المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت(ع)، قم، 1426ھ۔
  • جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل بیت(ع)، فارسی، قم، مؤسسہ دائرة المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت(ع)، بی‌تا۔
  • حیدری، علی نقی، اصول الاستنباط، قم، لجنہ ادارہ الحوزہ العلمیہ، 1412ھ۔
  • ذہنی تہرانی، محمدجواد، تشریح المقاصد فی شرح الفرائد، قم، نشر حاذھ، 1405ھ۔
  • سمیعی، جمشید، ترجمہ متن و شرح کامل رسائل شیخ انصاری، اصفہان، چاپ چہارم، 1387ہجری شمسی۔
  • جناتی شاہرودی، محمدابراہیم، منابع اجتہاد از دیدگاہ مذاہب اسلامی، تہران، کیہان، 1370ہجری شمسی۔
  • شہابی، محمود، تقریرات اصول، تہران، چاپخانہ حاج محمد علی علمی، چاپ ہفتم، 1321ہجری شمسی۔
  • شیروانی، علی، تحریر اصول فقہ، قم، دارالعلم، چاپ دوم، 1385ہجری شمسی۔
  • محمدی، علی، شرح اصول استنباط، قم، دارالفکر، چاپ سوم، بی‌تا۔
  • محمدی، علی، شرح اصول فقہ، قم، دارالفکر، چاپ دہم، 1387ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار (فقہ و حقوق)، تہران، انتشارات صدرا، 1395ہجری شمسی۔
  • مظفر، محمد رضا، اصول الفقہ، قم، اسماعیلیان، چاپ پنجم، 1375ہجری شمسی۔؛
  • منتظری، حسین علی، مبانی فقہی حکومت اسلامی، ترجمہ محمود صلواتی، قم، مؤسسہ کیہان، 1409ھ۔
  • موسوی بجنوردی، محمد، علم اصول، تہران، موسسہ چاپ و نشر عروج، 1379ہجری شمسی۔