مندرجات کا رخ کریں

لاتنقض الیقین بالشک کی احادیث

ویکی شیعہ سے

لاَتَنْقُضِ اَلْيَقِينَ بِالشَّک کی احادیث حدیثوں کا وہ مجموعہ ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یقین کو شک سے ختم نہیں کرنا چاہیے۔ ان احادیث کو علمِ اصول فقہ میں زیر بحث لایا جاتا ہے اور ان کو "اخبار لاتَنقُض" بھی کہا جاتا ہے۔ اصول فقہ کے قائل علما اخبارِ لاتنقض کو استصحاب کی حجیت کی اصلی دلیل سمجھتے ہیں۔ استصحاب کے قاعدہ کے مطابق اگر کوئی شخص کسی دینی معاملے کے بارے میں یقین رکھتا ہو اور بعد میں اس میں شک کرے تو ضروری ہے کہ وہ اپنے ابتدائی یقین پر اس وقت تک قائم رہے جب تک کہ اسے اس معاملے میں نیا یقین نہ مل جائے۔ مثال کے طور پر اگر اسے یقین ہو کہ اس نے وضو کیا ہے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد شک کرے کہ اس کا وضو باطل ہوا ہے یا نہیں تو اسے چاہئے کہ اس شک کی طرف توجہ نہ کرے اور اپنے وضو کی بنیاد اس بات پر رکھے کہ وہ باطل نہیں ہوا ہے۔

تعارف

"لاَتَنْقُضِ الْيَقِينَ بِالشَّک" سے مراد وہ احادیث ہیں جن میں یہ جملہ کہا گیا ہے کہ شک سے یقین کو ختم نہیں کیا جانا چاہئے۔ علمِ اصول فقہ میں کہا جاتا ہے کہ یہ جملہ استصحاب پر دلالت کرتا ہے؛ یعنی وہ کہتا ہے کہ اگر ہم کسی دینی مسئلہ کے بارے میں یقین رکھتے ہیں اور پھر اس میں شک کرتے ہیں تو ہمیں اپنے یقین کو شک سے ختم نہیں کرنا چاہئے؛ بلکہ ہمیں اپنے سابقہ ​​یقین کی بنیاد پر عمل کرنا چاہیے۔[1] مثال کے طور پر اگر ہم نے وضو کیا ہے اور کچھ دیر بعد شک کرتے ہیں کہ ہمارا وضو ٹوٹ گیا ہے یا نہیں، تو ہمیں اپنے شک کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہئے اور اس بات پر بنا رکھنا چاہئے کہ ہمارا وضو باطل نہیں ہوا ہے۔[2]

وہ روایتیں جن میں "لاتنقض الیقین بالشک" یا اس سے ملتی جلتی کوئی عبارت ہو تو شیعہ فقہی متون میں اسے "اَخبار لاتَنقُض" کہا جاتا ہے۔[3] 14ویں صدی ہجری کے شیعہ عالم محمد رضا مظفر نے ان احادیث کو اصلِِ استحباب کی حجیت کی اصلی دلیل قرار دیا ہے۔[4]

احادیثِ لاتنقض کے بارے میں اصولیوں کی بحث

اخبارِ لاتنقض کی احادیث میں سے تین احادیث کو امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے صحابی زُرارۃ بن اَعیَن نے نقل کی ہیں۔[5] شیخ انصاری کے نزدیک ان تینوں روایتوں کا سلسلہ سند معتبر ہے لیکن باقی روایتوں کی سند ضعیف ہے۔[6] ان کا کہنا ہے کہ ان تینوں روایتوں میں سے ہر ایک کا اپنے طور پر استصحاب کی حجیت پر دلالت کرنا ضعیف ہے۔ لیکن یہ روایتیں ایک دوسرے سے مل کر استصحاب کی حجیت کی دلیل بن سکتی ہیں۔[7]زرارہ کی تین روایتیں درج ذیل ہیں:

وضو باطل ہونے میں شک ہو تو دوبارہ وضو کرنا۔

زرارہ معصومین میں سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ جس کو وضو کرنے کے بارے میں یقین ہے، لیکن پوری طرح نیند آنے کے بارے میں شک ہے، تاکہ اس کا وضو باطل ہوجائے۔ امام اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ یقین کو شک کے ذریعے ختم نہیں کرنا چاہیے؛ بلکہ کسی اور یقین کے ذریعے ہی سابقہ ​​یقین کو ختم کیا جا سکتا ہے۔[یادداشت 1][8] سیدابوالقاسم خوئی بعض اسناد کے مطابق اس بات کے قائل ہیں کہ یہ روایت امام باقر علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے۔[9]

شیخ انصاری نے کہا ہے کہ یہ روایت صرف وضو کے یقین اور اس میں شک کے بارے میں ہے، اس لیے ان کا خیال ہے کہ استصحاب کو ثابت کرنے کے لیے صرف اسی روایت پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا؛[10] اس کے برعکس سید ابوالقاسم خوئی کے نزدیک یہ روایت اس بات کو بیان کرتی ہے کہ عام طور پر یقین کو شک سے ختم نہیں کرنا چاہیے۔[11]

کپڑوں کی پاکیزگی میں شک ہونے کی صورت میں نماز کا اعادہ کرنا

ایک روایت میں زرارہ نے ایک امامؑ سے چند سوالات پوچھے ہیں اور ان سوالات میں سے ایک انہوں نے یہ پوچھا ہے: اگر مجھے شک ہو کہ میرے کپڑے نجس ہیں لیکن مجھے یقین نہیں ہے اور تلاش کرنے کے باوجود کچھ نہیں دیکھا اور پھر اسی لباس میں نماز پڑھی اور نماز کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ میرے کپڑے نجس ہیں تو کیا میں دوبارہ نماز پڑھوں؟ امام نے جواب دیا کہ نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے آپ کو یقین تھا اور یقین کو شک سے ختم کرنا مناسب نہیں۔ [یادداشت 2][12] چودہویں صدی کے فقیہ اور اصولی مجتہد آخوند خراسانی کے مطابق، روایت کا یہ حصہ استصحاب پر دلالت کرتا ہے۔[13]

شک کی صورت میں اضافی رکعت پڑھنا

ایک دوسری روایت میں زرارہ نے دونوں اماموں میں سے ایک سے نقل کیا ہے کہ جس شخص کو یقین ہو کہ اس نے تین رکعت پڑھی ہے اور اسے شک ہو کہ اس نے چوتھی رکعت پڑھی ہے یا نہیں تو اسے چاہیے کہ اپنے یقین کو شک کے ذریعے ختم نہ کرے[یادداشت 3] اور کھڑے ہو کر ایک اضافی رکعت پڑھے۔[14] وحید بہبہانی (12ویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ) اس روایت کو ان روایات میں شمار کرتے ہیں جو یقینی طور پر استصحاب پر دلالت کرتی ہیں۔[15] شیخ انصاری نے اس ورایت کے استصحاب پر دلالت کرنے پر شک کیا ہے؛ کیونکہ شیعہ فقہ کے مطابق تین اور چار رکعت کے درمیان شک کی صورت میں نماز کو چار پر بنا رکھا جاتا ہے (تین پر نہیں جیسا کہ اس روایت میں مذکور ہے) اور سلام کے بعد ایک اضافی رکعت پڑھنی چاہیے۔[16]

اخبارِ لا تنقض سے ملتی جلتی روایات

زرارہ کی روایتوں کے علاوہ اور بھی کئی روایتیں ہیں جن میں "لا تنقض الیقین بالشک" سے ملتی جلتی عبارتیں ہیں۔ مثال کے طور پر، امام كاظمؑ سے روایت ہے: "جب بھی تم نماز کے بارے میں شک کرو تو اسے یقین پر بنا رکھو۔"[17] اسی طرح دوسری روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ "جس شخص کو یقین ہو اور پھر شک کرے تو اسے اپنے یقین پر قائم رہنا چاہیے؛ کیونکہ شک یقین کو ختم نہیں کرسکتا ہے"[18] اور "شک کو یقین میں آنے کی گنجائش نہیں ہے۔"[19]

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: وحيد بہبہانی، رسائل الاصوليۃ، 1416ھ، ص437۔
  2. جمعی از نویسندگان، فرہنگ نامہ اصول فقہ، 1389شمسی، ج1، ص853۔
  3. فاضل لنکرانی، سیری کامل در اصول فقہ، 1377شمسی، ج14، ص33؛ محمدی، شرح کفایۃ الاصول ج4، 1385شمسی، ص17۔
  4. مظفر، اصول الفقہ، اسماعيليان، ج4، ص296۔
  5. شیخ طوسی، تہذيب الأحكام، 1365شمسی، ج1، ص8؛ شیخ صدوق، علل الشرایع، قم، ج2، ص361؛ شیخ طوسی، تہذيب الأحكام، 1365شمسی، ج2، ص186۔
  6. انصاری، فرائد الأصول، 1419ھ، ج3، ص71۔
  7. انصاری، فرائد الأصول، 1419ھ، ج3، ص71۔
  8. شیخ طوسی، تہذيب الأحكام، 1365شمسی، ج1، ص8۔
  9. خویی، موسوعۃ الامام الخویی، 1418ھ، ج48، ص15۔
  10. شیخ انصاری، فرائد الأصول، 1419ھ، ج3، ص71۔
  11. خویی، موسوعۃ الامام الخویی، 1418ھ، ج48، ص20۔
  12. شیخ صدوق، علل الشرایع، قم، ج2، ص361۔
  13. آخوند خراسانی، کفایۃ الاصول، 1409ھ، ج2، ص393۔
  14. شیخ طوسی، تہذيب الأحكام، 1365شمسی، ج2، ص186؛ خویی، موسوعۃ الامام الخویی، 1418ھ، ج48، ص69 و 75۔
  15. وحيد بہبہانی، رسائل الأصوليۃ، 1416ھ، ص442-443۔
  16. انصاری، فرائد الأصول، 1419ھ، ج3، ص62-63۔
  17. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1363شمسی، ج1، ص351۔
  18. شیخ صدوق، خصال، 1416 ، ج2،  ص619۔
  19. شیخ طوسی، تہذيب الأحكام، ج4، ص159، 1365ہجری شمسی۔

نوٹ

  1. لاَ یَنْقُضُ اَلْیَقِینَ أَبَداً بِالشَّکِّ وَ لَکِنْ یَنْقُضُہُ بِیَقِینٍ آخَرَ.
  2. لَیْسَ یَنْبَغِی لَکَ أَنْ تَنْقُضَ اَلْیَقِینَ بِالشَّکِّ.
  3. لاَ یَنْقُضِ اَلْیَقِینَ بِالشَّکِّ وَ لاَ یُدْخِلِ اَلشَّکَّ فِی اَلْیَقِینِ وَ لاَ یَخْلِطْ أَحَدَہُمَا بِالْآخَرِ وَ لَکِنَّہُ یَنْقُضُ اَلشَّکَّ بِالْیَقِینِ.

مآخذ

  • آخوند خراسانی، محمدکاظم، کفایۃ الأصول، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع) لإحیاء التراث، 1409ہجری۔
  • انصاری، مرتضی، فرائد الاصول، قم، باقری، 1419ہجری۔
  • جمعى از نویسندگان، فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، قم، باقرى 1389ہجری شمسی۔
  • خویی، ابوالقاسم، موسوعۃ الإمام الخوئی، قم، مؤسسۃ إحياء آثار الامام الخوئي، 1418ھ/1998ء۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لايحضرہ الفقيہ، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1363ش/ 1404ہجری۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1416ہجری۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، قم، مکتبۃ الداوري، بی‌تا.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، «تہذيب الأحكام في شرح المقنعۃ»، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، 1365ہجری شمسی۔
  • فاضل لنکرانی، محمد، سیری کامل در اصول فقہ، قم، فيضيہ، 1377ہجری شمسی۔
  • محمدی، علی، شرح کفایۃ الاصول، بی‌جا، بی‌نا، 1385ہجری شمسی۔
  • مظفر، محمدرضا، اصول الفقہ، قم، اسماعيليان، بی‌تا.