حوزہ علمیۂ قم عہد معاصر میں

ویکی شیعہ سے
فائل:مدرسه فیضیه.jpg
مدرسہ فیضیہ
مؤسس حوزہ علمیہ قم، حاج شیخ عبدالکریم حائری

سنہ 1340 ہجری (1921 عیسوی) میں شیخ عبدالکریم حائری کے توسط سے حوزہ علمیہ قم کی تاسیس سے قبل میرزا محمد فیض قمی سنہ 1333 ہجری میں سامرا سے قم واپس آئے اور 1336 سے 1340 ھ تک مدرسہ دارالشفاء اور مدرسہ فیضیہ کی تعمیر نو کا اہتمام کیا جو علمی سرگرمیوں کے لئے استعمال کی قابلیت کھو چکے تھے۔ انھوں نے ان مدارس میں طلبہ کو بسایا۔

شیخ محمد تقی بافقی کے اصرار اور میرزا محمد ارباب اور شیخ محمد رضا شریعتمدار ساؤجی کی وساطت سے شیخ عبد الکریم حائری کو دعوت دی گئی کہ اراک سے قم آئیں اور اس شہر میں ایک منظم اور باضابطہ حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھیں؛

چنانچہ سنہ 1340 ہجری میں وہ قم آئے اور اس شہر میں حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی۔ حائری پندرہ سال تک قم میں مقیم رہے اور اپنی اعلی انتظامی صلاحیتوں کے بدولت ایک نہایت طاقتور اور منظم حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی یہاں تک کہ حوزہ قم کے طلبہ کی تعداد پہلوی اول کی سخت گیریوں اور شدت آمیز رویوں سے قبل 700 اور دوسرے قول کے مطابق 900 تک پہنچی تھی۔

حائری کی وفات سے لے کر بروجردی کی ہجرت قم تک، حوزہ کے تین بڑے اساتذہ سید محمد حجت کوہ کمرہ ای، سید محمد تقی خوانساری اور سید صدر الدین صدر نے حوزہ کے انتظامات کا عہدہ سنبھالا۔

1940 عیسوی کے عشرے کے اوائل میں حوزہ علمیہ قم کے بعض عالی رتبہ اساتذہ نے ـ جو حوزہ کے مربوط اور ہمآہنگ انتظآمات نہ ہونے کی وجہ سے فکرمند تھے اور دوسری طرف سے آیت اللہ حاج آقا حسین بروجردی کے علمی مراتب اور سماجی اور دینی اثر و رسوخ سے آگہی رکھتے تھے ـ ان سے درخواست کی کہ بروجرد سے قم آجائیں۔ اس سلسلے میں امام خمینی اور خرم آباد کے نامی گرامی عالم دین حاج آقا روح اللہ کمالوند نے زیادہ کوششیں مبذول کیں۔

آیت اللہ بروجردی نے اس درخواست کو منظور کیا اور محرم الحرام 1364 ھ/دسمبر 1944 ء قم میں سکونت پذیر ہوئے۔ بروجردی کی مؤثر اور انقلاب آفرین ہجرت نے حوزہ قم کو اعتبار اور ترقی کی اس چوٹی پر پہنچایا کہ یہ حوزہ اس دور کے معتبر ترین اور قدیم حوزہ علمیہ یعنی حوزۂ نجف کے برابر آگیا۔

آیت اللہ بروجردی کی وفات پر حوزہ علمیہ قم کا انتظام نیز مرجعیت کا ادارہ ایک بار پھر مسائل سے دوچار ہوا اور اس کا انتظام چار عالی رتبہ اساتذہ یعنی امام خمینی، سید محمد رضا موسوی گلپایگانی، سید کاظم شریعتمداری اور سید شہاب الدین مرعشی نجفی نے سنبھالا۔

امام خمینی ترکی جلاوطن ہوئے جہاں سے انہیں نجف منتقل کیا گیا اور یوں حوزہ علمیہ قم کی قیادت باقی تین افراد کے سپرد ہوئی۔

سید حسین طباطبائی بروجردی

عبدالکریم حائری سے پہلے

سنہ 1340 ہجری قمری (1921 عیسوی) میں شیخ عبدالکریم حائری کے توسط سے حوزہ علمیہ قم کی تاسیس سے 8 سال قبل، ایران میں شیخ اسداللہ ممقانی جیسے اکابرین نے شیعہ مرجعیت کی عراق سے ایران منتقلی اور قم یا مشہد میں ایک مستحکم اور مربوطہ حوزہ علمیہ کی تاسیس، کی تجویز پیش کی تھی۔ سلسلۂ قاجار کے اواخر میں ـ حائری کی قم آمد اور حوزہ علمیہ قم کی سطح بلند کرنے کے لئے ان کے اقدامات سے قبل ـ قم میں مقیم بعض علماء نے ـ جو علمی لحاظ سے اعلی مراتب و مدارج پر فائز تھے ـ اس سلسلے میں کوششیں کی تھیں لیکن مطلوبہ نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے۔

میرزا محمد فیض قمی کی کوششیں

ميرزا محمد فيض قمى

قم میں حوزہ علمیہ کی تاسیس کے لئے کوشاں علماء میں سے ایک اہم شخصیت میرزا محمد فیض قمی ہیں جو سنہ 1333 ہجری قمری میں سامرا سے قم واپس آئے اور سنہ 1336 ہجری قمری سے مدرسہ دارالشفاء اور مدرسہ فیضیہ کی تعمیر نو کا اہتمام کیا جو علمی سرگرمیوں کے لئے استعمال کی قابلیت کھو چکے تھے۔ انھوں نے طلبہ کو ان دو مدارس میں بسایا اور ان کے لئے وظیفہ مقرر کیا۔ یہ اقدام اس قدر عظیم سمجھا گیا کہ عید غدیر سنہ 1336 ہجری قمری کے دن حرم حضرت معصومہ کے صحن عتیق میں چراغان اور پر شکوہ جشن کا اہتمام کیا گیا۔[1] اس اہم اقدام کے باوجود اور اس زمانے میں شہر قم میں شیخ ابو القاسم قمی اور میرزا جواد آقا ملکی تبریزی سمیت اعلی پائے کے علماء کی موجودگی کے باوجود،[2] قم میں عبدالکریم حائری کے دائمی سکونت تک حوزہ علمیہ قم منظم اور مربوط اور مفید و قوی حوزہ اس شہر میں بپا نہ ہو سکا۔

محمد تقی بافقی کی کوششیں

شیخ محمد تقی بافقی

قم کے معاصر حوزہ علمیہ کی تشکیل میں شیخ محمد تقی بافقی کی کوششوں کو بھی نظروں سے دور نہیں رکھنا چاہئے۔ شریف رازی کے مطابق،[3] بافقی نے سنہ 1337 ہجری قمری میں قم ہجرت کرکے شیخ ابو القاسم کبیر قمی، شیخ مہدی فیلسوف اور میرزا محمد ارباب جیسے بڑے علماء کو ایک منظم و مربوط حوزہ علمیہ کی تاسیس کی رغبت دلائی لیکن ان کی رائے یہ تھی کہ قمی عوام کے جذبات و احساسات کے پیش نظر، حوزہ علمیہ کی تاسیس ایک ایسے با اثر عالم دین کی موجودگی سے مشروط ہے جس کا تعلق قم سے نہ ہو۔ آخر کار محمد تقی بافقی کے اصرار اور میرزا محمد ارباب اور شیخ محمد رضا شریعتمدار ساؤجی، کی وساطت سے حاج شیخ عبد الکریم حائری کو دعوت دی گئی کہ اراک سے قم آئیں اور اس شہر میں ایک منظم اور باضابطہ حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھیں؛ چنانچہ سنہ 1340 ہجری میں قم آئے اور اس شہر میں حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی۔ حائری پندرہ سال تک قم میں مقیم رہے اور اپنی اعلی انتظامی صلاحیتوں کے بدولت ایک نہایت طاقتور اور منظم حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی۔

عبدالکریم حائری کی قم آمد

حائری کی شخصیت

شیخ عبدالکریم حائری مشہور و معروف عالم دین تھے جو برسوں تک سامرا اور نجف میں سید محمد فشارَکی اصفہانی، میرزا محمد حسن شیرازی، آخوند خراسانی اور سید محمد کاظم طباطبائی یزدی (صاحب عروۃ الوثقی) سے کسب فیض کرکے فقہ اور اصول فقہ کے اعلی مدارج و مراتب کو طے کیا تھا اور برسوں تک کربلا میں فقہ اور اصول فقہ کی تدریس کرتے رہے تھے۔ وہ سنہ 1332 یا 1333 ہجری قمری کے اوائل میں ایران کے شہر اراک میں مستقر ہوئے اور تدریس کے ساتھ ساتھ اس شہر کے حوزۂ علمیہ کا مستقل انداز سے انتظام و انصرام کیا تھا۔

حوزہ علمیہ قم کی تقویت کے اسباب

  • حائری کے قم میں ساکن ہونے پر ان کے وہ مشہور اور عالی رتبہ شاگرد جو اراک میں تھے منجملہ: سید محمد تقی خوانساری، سید احمد خوانساری، سید روح اللہ خمینی، سید محمد رضا موسوی گلپایگانی اور شیخ محمد علی اراکی ان کے ہمراہ قم آگئے۔
  • حوزہ علمیہ قم کی تشکیل اور حائری کی حسنِ شہرت اور ان کی اعلی انتظامی صلاحیتوں کی بنا پر قم کی طرف متوجہ اور منتقل ہوئے جن میں سید ابوالحسن رفیعی قزوینی بھی شامل تھے جو سنہ 1341 سے 1349 ہجری تک قم میں رہے اور یہاں درس و تدریس کا اہتمام کیا،[4] علمائے اصفہان میں سے شیخ محمد رضا مسجد شاہی جو سنہ 1344 سے 1346 ہجری تک قم میں مقیم ہوئے نیز میرزا محمدعلی شاہ آبادی جو سنہ 1347 ہجری میں قم آئے اور سنہ 1354 ہجری تک یہیں مقیم رہے۔[5] حائری کے زمانے میں، قم میں کثیر مہاجر اور مجاور (مقامی) اساتذہ اور مدرسین کی موجودگی سے اس دور میں قم کی علمی نشاط کا اندازہ ہوتا ہے۔[6]
  • دیگر سیاسی اور معاشرتی عوامل و اسباب نے بھی تاسیس کے آغاز پر حوزہ علمیہ قم کی رونق بڑھا دی۔ اس سلسلے میں سلسلۂ قاجار کے بادشاہ احمد شاہ قاجار کے دورہ قم کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ ایک بار 21 ربیع الاول 1342 ہجری (آٹھ عقرب 1302 ہجری شمسی) کو حوزہ علمیہ قم کی تاسیس کے سلسلے میں مبارک باد عرض کرنے قم آئے۔[7] اور دوسری بار علمائے نجف کی قم آمد پر۔[8]
  • نجف سے مشہور اور نامی گرامی علماء سید ابو الحسن اصفہانی اور محمد حسن نائینی کی قم آمد اور عبدالکریم حائری کی طرف سے ان کا پر شکوہ استقبال اور اپنا مقام تدریس ان کے سپرد کرنا، بھی اس مرحلے میں حوزہ علمیہ قم کی مزید تقویت کا سبب ہوا۔[9]
  • رضا خان پہلوی کو وزارت عظمی کا عہدہ سونپ دیا گیا تو وہ قم آیا اور اور 16 مارچ سنہ 1924 کو ملک میں جمہوری نظام کے قیام کا مسئلہ پیش کیا، عبدالکریم حائری سمیت علماء کے ساتھ بات چیت کی اور ان ملاقاتوں اور وزیر اعظم کے دورہ قم کی بنا پر، حوزہ علمیہ قم اور حکومت کو بعض فوائد ملے۔[10]
  • حوزہ علمیہ قم کی تقویت کا ایک سبب یہ تھا کہ علمائے اصفہان رضاخانی دور میں نوجوانوں کی جبری بھرتی پر احتجاج واعتراض کرنے کی غرض سے حاج آقا نور اللہ اصفہانی (متوفی 1346 ہجری) کی قیادت میں، ہجرت کرکے قم آئے۔ ان کے آنے سے حوزہ قم سیاسی امور میں بھی متحرک ہوا۔[11]

حائری پندرہ سال تک قم میں مقیم رہے جبکہ حوزہ علمیہ علمی برآوری کے عروج سے گذر رہا تھا اور اپنی اعلی انتظامی صلاحیتوں کے بدولت ایک نہایت طاقتور اور منظم حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی یہاں تک کہ حوزہ قم کے طلبہ کی تعداد رضا خان پہلوی کی سخت گیریوں اور شدت آمیز رویوں سے قبل سنہ 1934 عیسوی میں 700 تک[12] اور دوسرے قول کے مطابق 900 تک پہنچی تھی،[13] بعض مؤلفین نے یہ تعداد 1000 تک بھی بیان ہوئی ہے۔[14]

قم میں قیام کے دوران عبدالکریم حائری کا درس خارج اہم ترین تھا یہاں تک کہ حوزہ علمیہ کے دوسرے اساتذہ بھی اس میں شرکت کرتے تھے۔ وہ ابتداء میں مدرسہ فیضیہ میں تدریس کرتے تھے اور کچھ عرصہ بعد انھوں نے مقام تدریس کو بدل کر تکیۂ عشق علی میں منتقل کیا۔[15] انھوں نے تعلیمی منصوبہ بندی اور طلبہ کی معاشی بہبود کے لئے بھی متعدد سنجیدہ اقدامات کئے۔ انھوں نے حوزہ کی تعلیمی روشوں کو تبدیل کرنے کے لئے بھی کوشش کی، علم فقہ میں تخصصی بنانے اور طلبہ کی معلومات کو وسیع تر کرنے کی کوشش کی۔[16]

عبدالکریم حائری نے ان امور میں طلبہ اور مدارس کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی اور درس و بحث کے لئے ان کی ترغیب کے لئے، انعامات مقرر کئے۔ انھوں نے حوزہ کی تعلیمی گنجائش کو وسعت دینے کے لئے مدرسہ فیضیہ اور مدرسہ دارالشفاء جیسے اہم اور مرکزی مدارس کی تعمیر نو کا اہتمام کیا۔[17]

حائری اور سیاسی کشیدگی

آیت اللہ حائری نے قم کے کم عمر حوزہ علمیہ کی ترقی کے لئے کوششیں کیں اور اس کو ممکنہ حد تک سیاسی کشیدگیوں سے دور رکھا؛ اسی بنا پر جب رضا خان پہلوی کی طرف سے قم میں محمد تقی بافقی کو گرفتار کیا گیا[18] تو انھوں نے اعلانیہ ردّ عمل کا اظہار نہیں کیا۔[19] بعض مواقع پر حائری نے ہوشیاری اور ذکاوت کے ساتھ اس سلسلے میں اقدامات کئے اور حوزہ کے علماء اور طلبہ کے محدود کرنے کے سلسلے میں ہونے والے سرکاری اقدامات سے حوزہ کے حق میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ مثال کے طور پہلوی نظام نے جب جبری امتحانات منعقد کرکے حوزہ کے اساتذہ اور طلبہ کو محدود کرنے کی کوشش کی اور حکومت اس امتحان کے ضمن میں حوزہ کے فارغ التحصیل فضلاء میں سے ـ جو معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ سمجھے جاتے تھے ـ بعض افراد کو سرکاری اداروں میں کھپانے کا ارادہ رکھتی تھی ـ تو عبدالکریم حائری نے مطالبہ کیا کہ یہ امتحانات قم میں منعقد کئے جائیں اور وہ خود ان کی نگرانی کریں۔[20]

اس کے باوجود انھوں نے کشف حجاب (بے پردگی کی ترویج) و اتحاد لباس (ہم شکل لباس کی ترویج) کی رضا خانی کوششوں کے مقابلے میں ـ حکومت اور سیاست کے سلسلے میں محتاطانہ طرز عمل اپنائے رکھنے کے باوجود ـ زیادہ سنجیدگی اور حساسیت کے ساتھ مداخلت کی۔ انھوں نے مورخہ 3 جولائی 1935 عیسوی کو ایک ٹیلی گرام کے ذریعے واضح کیا کہ بے پردگی کی ترویج شرع مقدس اور مذہب جعفری کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔[21] کشف حجاب اور عزاداری پر پابندی جیسے مسائل اس قدر حائری کے لئے بھاری اور ناقابل برداشت تھے کہ کہا گیا ہے کہ وہ ان واقعات کے بعد بیمار ہوئے اور پہلے کی طرح نشاط و طراوت نہیں رکھتے تھے۔[22]

حوزہ قم، بعد از آیت اللہ حائری

حائری کی وفات سے لے کر آیت اللہ بروجردی کی ہجرت قم تک، حوزہ کے تین بڑے اساتذہ سید محمد حجت کوہ کمرہ ای، سید محمد تقی خوانساری اور سید صدر الدین صدر نے حوزہ کے انتظامات کا عہدہ سنبھالا۔

قابل ذکر ہے کہ عبدالکریم حائری کی وفات کے بعد، ـ پہلوی نظام حکومت کی طرف سے حوزہ کے اساتذہ اور طلباء کے لئے پیدا کردہ نہایت دشوار صورت حال ، بالخصوص حوزہ علمیہ مشہد میں رونما ہونے والے واقعات کے پیش نظر ـ خطرہ تھا کہ حوزہ علمیہ قم کو بھی بند کردیا جائے؛ چنانچہ ان تین اکابرین نے فیصلہ کیا کہ باہمی تعاون سے حوزہ علمیہ قم کو اس خطرے سے محفوظ رکھیں۔[23]

مراجع ثلاث کی خصوصیات

سید محمد حجت کوہ کمرہ ای

یہ تین افراد عبدالکریم حائری کے پہلے درجے کے معتمدین تھے جنہیں انھوں نے اپنی حیات کے دوران حوزوی اور علمی امور سونپ دیئے تھے اور ان کے درمیان ـ ظاہر ہوتا تھا کہ ـ حائری سید محمد حجت کوہ کمرہ ای پر خاص نظر رکھتے تھے۔

سید محمد حجت کوہ کمرہ ای

سید محمد حجت کوہ کمرہ ای وہ جانے پہچانے عالم دین تھے جنہوں نے نجف میں سید محمد کاظم یزدی، میرزا محمد حسین نائینی اور آقا ضیاء عراقی سے کسبِ فیض کیا تھا اور قم آمد کی ابتداء ہی سے نہایت پر فائدہ موضوعات کی تدریس میں مصروف تھے اور ان کا درس ذہین اور زیرک طلباء کے کا متقاضی تھا۔ انھوں نے تدریس کے ساتھ ساتھ حوزہ کے طلباء کے معاشی مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ، حائری کی روش اپناتے ہوئے سیاسی کشیدگیوں سے پرہیز کا راستہ اپنائے رکھا اور اس کے باوجود کہ ان کے زمانے میں حوزہ پر سرکاری دباؤ حائری کے زمانے سے کہیں زيادہ شدید تھا، اور حوزہ علمیہ قم کو محفوظ رکھا۔ حجت نے بھی حائری کی طرح تعلیمی مراکز کی توسیع اور تعلیمی گنجائش میں اضافے کے ذریعے حوزہ علمیہ کی تقویت کے سلسلے میں اہم قدم اٹھائے اور اس حوالے سے ان کی ایک اہم یادگار مدرسہ حجتیہ ہے[24] [جو آج سینکڑوں طلبہ کی علمی پیاس بجھانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے]؛ اس مہم کو سر کرنے میں سید محمد تقی خوانساری جناب حجت کی مدد کرنے میں کوئی کسر روا نہیں رکھی۔

سید صدر الدین صدر

سید محمد تقی خوانساری

سید محمد تقی خوانساری نے شہر اراک میں جناب حائری سے کسب فیض کیا تھا؛ نیز نجف میں بھی سید محمد کاظم طباطبائی یزدی، میرزا نائینی اور آقا ضیاء عراقی جیسے اکابرین کے حضور زانوئے تلمذ تہہ کر چکے تھے اور قم آمد کے آغاز سے لے کر حائری کی وفات تک سطوح اور خارج کی تدریس میں مصروف رہے۔[25]

سید صدر الدین صدر

سید صدر الدین صدر نے بھی اس مرحلے میں، حوزہ علمیہ قم کے تحفظ اور ترقی میں حجت کی بڑی مدد کی اور اس کے باوجود کہ خود بھی مرجع تقلید تھے، کبھی بھی کسی قسم کے تعاون سے دریغ نہیں کیا؛ یہاں تک کہ طلباء کے امتحانات کا خود اہتمام کرتے تھے اور ان کو علم و دانش کی رغبت دلانے کے لئے ہفتہ وار امتحانات منعقد کرتے تھے اور انہیں انعامات سے نوازتے تھے۔ وہ بھی عتبات عالیہ کے فارغ التحصیل تھے اور ان کے اساتذہ میں آخوند خراسانی اور آقا ضیاء عراقی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔[26]

اس مرحلے میں میرزا محمد فیض قمی بھی ان تین مراجع تقلید کی مدد کرتے تھے۔ اس دور میں امام خمینی] کی سرگرمیاں بھی حوزہ کے نمایاں استاد کے عنوان سے، اثر آفرین تھا، بالخصوص ان کا درس اخلاق طلباء پر گہرے اثرات مرتب کرتا تھا۔[27] اس کے باوجود کہ مذکورہ بالا تین مراجع نے حوزہ علمیہ قم کے تحفظ و انتظام کے سلسلے میں بڑی کوششیں کی تھیں، لیکن ایک طرف سے حکومت وقت کے شدید دباؤ اور دوسری طرف سے حوزہ کی زعامت کے عدم ارتکاز کی وجہ سے حوزہ علمیہ قم کو انتشار کی سی کیفیت کا سامنا تھا،[28] حتی کہ طلباء کی تعداد 1000 سے کم ہوکر 400 تک پہنچ چکی تھی۔[29]

آیت اللہ بروجردی کی مرجعیت عامہ

1940 عیسوی کے عشرے کے اوائل میں حوزہ علمیہ قم کے بعض عالی رتبہ اساتذہ نے ـ جو حوزہ کے مربوط اور ہمآہنگ اور مرتکز انتظام نہ ہونے کی وجہ سے فکرمند تھے اور دوسری طرف سے آیت اللہ حاج آقا حسین بروجردی کے علمی مراتب اور سماجی اور دینی اثر و رسوخ سے آگہی رکھتے تھے ـ ان سے درخواست کی کہ بروجرد سے قم آجائیں۔ اس سلسلے میں امام خمینی اور خرم آباد کے نامی گرامی عالم دین حاج آقا روح اللہ کمالوند نے زیادہ کوششیں مبذول کیں۔ آیت اللہ بروجردی نے اس درخواست کو منظور کیا اور محرم الحرام 1364 ہجری قمری / دسمبر 1944 عیسوی کو قم میں سکونت پذیر ہوئے۔[30] قیام قم کے دوران بروجردی کی منزلت و مرجعیت کے استحکام میں بھی امام خمینی کا کردار ناقابل انکار تھا۔[31] آیت اللہ بروجردی کی قم آمد پر حوزہ علمیہ قم کی رونق بڑھی گئی اور اس کی علمی نشاط و بالیدگی دوچند ہوئی اور اس کی علمی اساس کو تقویت ملی۔

حوزہ قم کی حفاظت اور تقویت

اپنی زعامت کے دور میں بروجردی کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حوزہ علمیہ قم کے تحفظ و ترقی کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ انھوں نے قم آکر ثمر آور تدریس کا آغاز کیا۔ ان کے درس میں حاضرین کی تعداد کا 500 سے 600 تک، تخمینہ لگایا گیا ہے۔[32] آیت اللہ بروجردی کی قویّ اور مرتکز و مربوط زعامت و انتظام کی وجہ سے ان کے قیام قم کے آغاز پر (سنہ 1947 عیسوی میں) طلباء کی تعداد 2000 تھی۔[33] جو 1960 کے عشرے میں 8700،[34] تک پہنچی۔ سنہ 1947 عیسوی میں آیت اللہ برجردی سمیت پانچ اعلی اساتذہ سید محمد حجت کوہ کمرہ ای، میرزا محمد فیض قمی، سید محمد تقی خوانساری اور صدر درس خارج پڑھاتے تھے۔[35] جبکہ ان کی حیات کو اواخر میں درس خارج کے ان اساتذہ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا تھا جن کے شاگردوں کی تعداد 50 سے 250 تک تھی؛ بالخصوص عبدالکریم حائری کے مشہور و نمایاں شاگردوں منجملہ شیخ محمد علی اراکی، سید محمد رضا گلپایگانی، سید محمد داماد، امام خمینی، سید کاظم شریعتمداری اور سید شہاب الدین مرعشی نجفی کے درس خارج کا اپنا اپنا حلقہ تھا۔[36]

آیت اللہ بروجردی نے جو مرجع علی الاطلاق اور حوزہ علمیہ قم کے سربراہ تھے نے ایران کی اعلی ترین علمی دینی شخصیت کے عنوان سے دین اور حوزہ علمیہ کے معاملات آگے بڑھانے کے لئے بعض افراد کو حکومت کے ساتھ رابط کے عنوان سے مقرر کیا تھا اور اپنے پیغامات، تنبیہات اور اعتراضات کو ان کے ذریعے، شاہ یا دوسرے سرکاری حکام تک پہنچا دیتے تھے۔[37]

سیاسی اور سماجی اقدامات

بروجردی کے دیگر سیاسی اور سماجی اقدامات میں درج ذیل اقدامات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے:

  • انھوں نے حکومت کو تجویز دی کہ سرکاری اسکولوں کے نصاب میں دینی تعلیمات (دینیات) کو بحیثیت ایک درسی مضمون شام کیا جائے اور حکومت نے ان کی یہ تجویز منظور کرلی،[38]
  • انھوں نے حکومت کو تجویز دی کہ ریل گاڑیوں کو نماز کے وقت اسٹیشن میں روکا جائے تاکہ مسافرین نماز ادا کریں،[39]
  • سرکاری مراکز اور اداروں میں بہائیت کی ریشہ دوانیوں اور اثر و رسوخ کا مقابلہ،[40]
  • فلسطینی عوام کی حمایت اور اس سلسلے میں سنہ 1948 عیسوی اعلامیہ جاری کرنا (غاصب صہیونی ریاست کی تاسیس کا اعلان اسی سال ہوا تھا)[41]

بین الاقوامی اقدامات

دیگر اقدامات

آیت اللہ بروجردی نے حوزہ علمیہ قم کے تحفظ اور ارتقاء کے لئے حکومت سے مکمل بے نیازی اور عدم احتیاج اور وابستگی کا اظہار و اعلان کیا اور طلبہ کو پرسکون رہنے اور حکومت کی طرف سے کسی قسم کی امداد وغیرہ کو اہمیت نہ دینے کی تلقین کرتے ہوئے اس سلسلے میں اہم اقدامات انجام دیئے منجملہ:

  • انھوں نے علمی لحاظ سے فقہی مباحث کی تحقیق و تدریس میں اپنی نئی روشیں متعارف کرائیں جو قبل ازاں قم میں بروئے کار نہیں لائی گئی تھیں اور ان ہی روشوں سے باصلاحیت شاگردوں کی ایک نسل کو پروان چڑھایا جو ان کے بعد حوزہ کے اساتذہ اور مراجع تقلید قرار پائے،
  • انھوں نے حدیث، فقہ اور رجال میں بنیادی شیعہ کتب کے احیاء اور طباعت و اشاعت کے لئے انتھک کوششیں کیں،
  • طلبہ کو حصول علم جاری رکھنے کی ترغیب دلائی اور مختلف روشوں سے باصلاحیت طلبہ کی حوصلہ افزائی کی انہیں فقہ اور رجال کے مسائل و مباحث کے مبانی و مبادی، اور ہر ایک کے ماخذ کے بیان کرنے کی صحیح روشوں سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں آگاہ کردیا کہ کون سا مسئلہ کس وقت اور کیوں اسلامی حلقوں میں داخل ہوا ہے۔[44]
  • انھوں نے تعلیمی گنجائش بڑھانے کے لئے سابقہ مرکزی اور اہم مدارس، نئے مدارس کی تعمیر اور بطور خاص مسجد اعظم اور متعلقہ کتب خانے کی تعمیر کے ذریعے قابل توجہ اقدامات انجام دیئے۔[45]
    بہر صورت، آیت اللہ بروجردی کی مؤثر اور انقلاب آفرین ہجرت نے حوزۂ علمیۂ قم کو اور ترقی کی اس چوٹی پر پہنچایا کہ یہ حوزہ اس دور کے معتبر ترین اور قدیم حوزہ علمیہ یعنی حوزہ علمیۂ نجف کے برابر آگیا اور نہ صرف ایران کے مختلف شہروں کے لوگوں نے قم کا رخ کیا بلکہ دنیا کے شیعہ آبادی والے ملکوں سے بھی طلباء نے حوزہ قم کو حصول علم کے لئے منتخب کرنا شروع کیا۔
  • حوزہ کے تعلیمی نظام کی تشکیل نو ان اہم موضوعات میں سے ایک ہے جو عرصۂ دراز بالخصوص ایران میں نئے تعلیمی نظام کی تاسیس کے زمانے سے حوزات علمیہ کے ذمہ داران کے ہاں جاذب توجہ تھی۔ مثال کے طور پر آیت اللہ بروجردی نے ایک انجمن بعنوان ہیئت حاکمہ تشکیل دی تھی جس میں امام خمینی، شیخ مرتضی حائری، سید احمد زنجانی اور سید باقر سلطانی طباطبائی جیسے اکابرین حوزہ شامل تھے اور بعض دوسرے علماء اس کے رکن تھے اور پنجشنبہ (جمعرات) 13 ذوالحجہ سنہ 1368 ہجری/6 اکتوبر 1949 عیسوی کو نشست کا انعقاد کیا اور بعض تجاویز دیں جنہیں زعیم حوزہ علمیہ نے منظور نہیں کیا اور یہ تجاویز متوقف ہوئیں۔[46] ان تجاویز میں سے جو کچھ منظور ہوا اور اس پر عملدرآمد بھی ہوا اس کا تعلق طلبہ کے لئے امتحانات سے تھے لیکن نجف کے مراجع نے امتحانات کی مخالفت کی چنانچہ آیت اللہ بروجردی نے امتحانات کو بھی منسوخ کیا۔[47]

آیت اللہ بروجردی کے بعد

امام خمینی
سید محمد رضا گلپایگانی
سید شہاب الدین مرعشی نجفی

آیت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد حوزہ علمیہ قم اپنی حیات کے نئے مرحلے میں داخل ہوا۔ سنہ 1961 تا 1979 عیسوی کا زمانہ حوزہ علمیہ قم کی فعالیت و حیات کا سیاسی ترین دور سمجھا جاتا ہے۔

آیت اللہ بروجردی کی وفات پر حوزہ علمیہ قم کا انتظام نیز مرجعیت کا ادارہ ایک بار پھر مسائل سے دوچار ہوا اور اس کا انتظام چار عالی رتبہ اساتذہ یعنی امام خمینی، محمد رضا گلپایگانی، سید کاظم شریعتمداری اور سید شہاب الدین مرعشی نجفی نے سنبھالا۔ امام خمینی ترکی جلاوطن ہوئے جہاں سے انہیں نجف منتقل کیا گیا اور یوں حوزہ علمیہ قم کی قیادت باقی تین افراد کے سپرد ہوئی۔[48] اس دور میں مرجعیت کا موضوع ایک بار پھر زیر بحث آیا اور اخبارات نے حوزہ کے درس خارج کے اساتذہ اور ان کے شاگردوں کے بارے میں تحریری روداد نگاری کا سلسلہ شروع ہوا اور آیت اللہ بروجردی کی وفات کے دو روز بعد کیہان مورخہ یکم فروری 1966 کے شمارے میں امام خمینی کے درس خارج کو پر رونق ترین اور پر شکوہ ترین درس قرار دیا جس میں 400 افراد شرکت کرتے تھے۔[49] اس دور میں چوٹی کے علماء سیاسی لحاظ سے تین زمروں میں تقسیم ہوتے تھے:

  1. پہلا گروہ ان علماء کا تھا جو سیاست میں مداخلت سے پرہیز کرتے تھے؛ سید احمد خوانساری اس طرز فکر کا نمایاں نمونہ تھے؛
  2. دوسرے گروہ میں شامل علماء اعتدال پسندانہ سوچ رکھتے تھے؛ وہ پہلوی حکومت کے مخالف ہونے کے باوجود اس کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد سے پرہیز کرتے تھے اور محمد رضا گلپایگانی، کاظم شریعتمداری اور شہاب الدین مرعشی نجفی اس روش کے حامی تھے؛
  3. تیسرا گروہ امام خمینی اور آیت اللہ بروجردی کے شاگردوں میں سے ان کے حامی نیز سید محمد محقق داماد اور محقق داماد کے شاگرد سنجیدگی کے ساتھ میدان سیاست میں اتر آئے۔[50]

حوزہ قم اور حکومت کا تناز‏عہ

آیت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد حوزہ علمیہ قم اور حکومت کے درمیان اختلاف اور تنازعے کا نقطۂ آغاز یہ تھا کہ پہلوی دوم نے علمائے قم کو پیغام تعزیت بھیجنے کے بجائے نجف میں آیت اللہ سید محسن حکیم کو تعزیتی پیغام دیا اور اس کے اس اقدام سے ایران کے علماء نے اس امر کے مترادف قرار دیا کہ وہ شیعہ مرجعیت کو ایران سے سے نکال باہر کرنا چاہتا ہے۔[51] پہلوی حکومت کے اگلے اقدامات نے حوزہ علمیہ قم کی سیاسی منزلت کو نمایاں تر کردیا اور امام خمینی اور ان کے ساتھیوں، حامیوں اور دوسرے علماہ کے برملا موقف کے اظہار کی وجہ سے امام خمینی کی مرجعیت کو مستحکم تر کر دیا۔ امام خمینی عالی رتبہ استاد تھے جن کا درس خارج معتبر تھا اور فلسفہ، اصول اور فقہ میں بڑی تعداد میں شاگردوں کی پرورش کرچکے تھے۔ ان کے سیاسی اقدامات نے حوزہ قم پر گہرے اثرات مرتب کئے تھے۔

ریاستوں اور صوبوں کی انجمنوں کا مسودہ قانون

8 اکتوبر سنہ 1962 عیسوی کو ریاستوں اور صوبوں کی انجمنوں کا مسودہ قانون اسد اللہ عَلَم کی کابینہ میں منظور کیا گیا جس میں منتخب کرنے والوں (رائے دینے والوں) اور منتخب ہونے والوں (رائے لینے والوں) کے لئے اسلام کی شرط حذف کی گئی تھی اور حلف برداری کی تقریبات میں قرآن پر حلف اٹھانے کی شرط ہٹا کر ہر آسمانی کتاب پر حلف اٹھانے کو ممکن گردانا گیا تھا۔ اس مسودۂ قانون نے عوام کے دینی جذبات کو مشتعل کیا اور علماء اور مراجع نے شدید مخالفت کی اور اعتراضات کئے۔ دو مہینے مسلسل جدوجہد کے بعد حکومت نے باضابطہ طور پر آیت اللہ گلپایگانی کو ٹیلی گرام بھیج کر یقین دہانی کرائی کہ یہ قانون نافذ نہیں کیا جائے گا۔[52] اسی سال چھ مسودات قانون کے لئے استصواب رائے عامہ (Referendum) کی مخالفت کے سلسلے میں بھی حوزہ قم نے شدید رد عمل دکھایا۔ قم کے مراجع تقلید نے ایک مشترکہ فیصلے کے تحت قرار دیا کہ استصواب رائے کا مقاطعہ (Boycott) کرنے کے لئے ایک اعلامیہ جاری کیا جائے۔ آیت اللہ گلپایگانی نے اس دوران حکومت کے پس پردہ منصوبے فاش کردیئے۔[53] اور امام خمینی نے استصواب ایران کو ایران کے قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔[54] 24 جنوری سنہ 1963 عیسوی کو شاہ نے قم آنے کا ارادہ کیا تو قم کے کمشنر نے علماء کے ساتھ نشست رکھی اور ان سے شاہ کی ملاقات کو جانے کی درخواست کی؛ امام خمینی نے انکار کیا اور دوسرے علماء نے ان کی رائے کے ساتھ اتفاق کیا اور فیصلہ ہوا کہ علماء اور طلباء اس دن اپنے گھروں میں رہیں۔[55] نتیجہ یہ ہوا کہ شاہ اس دن کسی سنجیدہ اور وسیع استقبال کے بغیر قم آیا اور علماء کے خلاف تقریر کی۔[56] شاہ کے خطاب کے رد عمل میں امام خمینی نے ایک اعلامیہ حکومت کے خلاف سخت لب و لہجے میں ایک اعلامیہ جاری کیا۔[57] کچھ عرصہ بعد عید نوروز کے ایام میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کی ایام عید کے ساتھ مطابقت کی رو سے علماء نے اعلان کیا کہ مسلمانوں کی اس سال کوئی عید نہیں ہے۔[58]

مدرسہ فیضیہ پر حملہ

22 مارچ سنہ 1963 بمطابق 25 شوال سنہ 1382 ہجری کو امام جعفر صادق علیہ السلام کی مناسبت سے مدرسہ فیضیہ میں ایک مجلس بپا تھی جو شیخ عبدالکریم حائری کے زمانے سے معمول کے مطابق بپا ہوا کرتی تھی اور سید محمد رضا گلپایگانی نے ان کے بعد اس مجلس کو جاری رکھا تھا کہ اسی اثناء میں فوجی دستوں نے مجلس کے شرکاء پر حملہ کیا اور دسوں طالب علموں اور عام لوگوں کو زد و کوب کیا اور کئی افراد کو قتل کیا۔ حکومت کے اس عمل کو علماء اور مراجع تقلید کے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا اور حتی کہ نجف کے علماء بالخصوص سید ابو القاسم خوئی، سید عبداللہ شیرازی اور سید محسن حکیم نے بیانات جاری کئے اور حکومت کے اس اقدام کی مذمت کی۔ سید محسن حکیم نے حتی نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے حتی کہ علمائے ایران کو اجتماعی ہجرت کرکے عتبات عالیہ آنے کی دعوت دی تا کہ اس سلسلے میں کوئی بہتر فیصلہ کیا جا سکے۔[59] دوسری طرف سے حکومت نے دینی طلبہ کو ہراساں کرنے کے لئے حکم دیا کہ انہیں فوج کی جبری بھرتی میں شامل کیا جائے اور حکم دیا کہ ان طلبہ کو گرفتار کیا جائے جن کے پاس تعلیمی کارڈ نہ ہو۔[60]

امام خمینی(رح) کی گرفتاری

محرم سنہ 1383 ہجری/جون سنہ 1963 عیسوی میں حوزہ علمیہ اور حکومت وقت کے درمیان محاذ آرائی نے شدت اختیار کی اور امام خمینی نے عاشورا کے دن مدرسہ فیضیہ میں خطاب کرکے ایسے مسائل پر روشنی ڈالی جن کے منبروں پر بیان کرنے سے شاہ کی خفیہ ایجنسی ساواک نے پابندی لگا رکھی تھی۔ امام خمینی نے شاہ اور اسرائیل کے خلاف موقف ظاہر کیا اور یہی موضوع آخر کار ان کی گرفتاری پر منتج ہوا اور انہیں مورخہ 5 جون 1963 بمطابق 12 محرم 1383 ھ کی شب کو گرفتار کیا گیا۔ قم اور دوسرے شہروں کے علماء اور مراجع کی کوششوں کے نتیجے میں انہیں مورخہ 4 اپریل 1964 ء کو رہا کیا گیا اور وہ قم واپس آئے اور اپنا تدریسی سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور اپنے گھر میں جدید مسائل پر بحث کا سلسلہ جاری رکھا۔

امام خمینی(رح) کی جلاوطنی

لیکن مورخہ 26 اکتوبر 1964 عیسوی، کو ایک تقریر کے ضمن میں کیپیچولیشن (Capitulation) (مشروط اطاعت کا معاہدہ) کے خلاف اظہار خیال کرنے کے بعد[61] مورخہ 4 نومبر 1964 عیسوی کو دوسری مرتبہ گرفتار اور ترکی جلاوطن کئے گئے۔[62]

حوزہ قم امام خمینی(رح) کی جلاوطنی کے بعد

امام خمینی (رح) کی جلاوطنی کے بعد دوسرے مراجع اور امام(رح) کے ساتھیوں اور شاگردوں نے شاہ اور پہلوی حکومت کے خلاف حوزہ علمیہ قم کی جدوجہد کو جاری رکھا اور اس جدوجہد نے سیاسی پہلو کے علاوہ وسیع علمی اور ثقافتی پہلو اختیار کئے۔ اسی نقطۂ نظر کے مطابق مختلف دینی اور علمی مدارس، اداروں (Institutions) اور رسائل و جرائد کی بنیاد رکھی گئی۔ امام خمینی کی جلاوطنی کے بعد حوزہ علمیہ قم کی زعامت اس وقت کے تین مراجع تقلید محمد رضا گلپایگانی، کاظم شریعتمداری اور شہاب الدین مرعشی نجفی نے سنبھالی۔ یہ مراجع، اساتذہ اور طلباء نے مختلف واقعات پر مربوط موقف اپنایا۔ اس دور کے واقعات کے زمرے میں ذیل کے واقعات شامل ہیں:

  • مورخہ 2 جون 1970 عیسوی کو آیت اللہ محسن حکیم کی وفات کے بعد؛[63]
  • حکومت نے حوزہ علمیہ قم کے 25 مدرسین اور علماء کو تین سال تک جلاوطن کیا؛[64]
  • جون سنہ 1975 عیسوی میں مدرسہ فیضیہ میں جون 1963 کے شہداء کے لئے برسی کی مجلس منعقد ہوئی تو سرکاری چھاپہ مار دستوں نے مذکورہ مدرسے پر حملہ کیا اور متعدد افراد کو گرفتار اور کئی ایک کو جلاوطن کیا گیا۔؛[65]
  • حوزہ نے حکومت کے طرف سے ہجری شمسی تقویم جعلی شاہنشاہی تقویم میں بدلنے کے اقدام کی مخالفت کی۔[66]

مصطفی خمینی کی وفات

آقا سید مصطفی خمینی

مورخہ 23 اکتوبر 1977 عیسوی کی شب نجف میں امام خمینی کے فرزند سید مصطفی کی وفات کی خبر ملنے پر قم اور پھر تہران میں ان کے لئے مجالس فاتحہ کا اہتمام کیا گیا جس کی وجہ سے امام خمینی کا نام ایک بار پھر ایران میں زبانزد خاص و عام ہوا۔[67] علمائے قم کے شدید رد عمل کا سبب بننے والے واقعات میں سے مورخہ 7 جون 1978 عیسوی کو روزنامہ اطلاعات میں امام خمینی کی توہین پر مبنی ایک مضمون کی اشاعت سے عبارت تھا جس پر حوزہ قم نے شدید احتجاج کیا اور بعض نامور علماء اور مدرسین نے شاہ کی حکومت کے خلاف خطاب کیا اور حکومت کے گماشتوں نے 9 جون 1978 کو بعض طلباء کو گرفتار اور بعض کو شہید کیا۔ بعض مدرسین اس واقعے کے بعد جلاوطن کئے گئے۔[68]

انتظامیہ اور تعلیمی نظام

آیت اللہ بروجردی سے قبل

حائری اور بروجردی کے زمانے میں حوزہ علمیہ قم کے اہم ترین مالیاتی ذرائع میں وجوہ شرعیہ[69] شامل تھیں۔ رضا خان پہلوی نے علماء کو محدود کرنے کی غرض سے دینی مدارس کے اوقاف کو حوزہ ہائے علمیہ کی آمدنی کا ذریعہ تھے ـ حکومت کے حوالے کیا اور یوں بہت سے مدارس پر بھی اس کا قبضہ ہوا۔ یہ موضوع اس قدر اہم تھا کہ سید ابو القاسم کاشانی نے اگست 1941 کے بعد اپنے پہلے اعلامیہ میں اس کی طرف اشارہ کیا،[70] جو 1313 شمسی/ 1353 ہجری (1934 عیسوی) قم آئے تھے۔ انھوں نے اس سفر کے دوران حوزہ علمیہ قم کے طلاب کی تعداد 900 بیان کی ہے اور تاکید کی ہے کہ پورے ایران میں دینی امور کے سربراہ عبد الکریم حائری ہیں اور دور افتادہ ترین علاقوں سے ان کے لئے وجوہات شرعیہ ارسال کی جاتی ہیں اور وہ انہیں اپنے قابل اعتماد مالیاتی وکلاء کے سپرد کرتے ہیں تاکہ انہیں طلاب کے درمیان تقسیم کریں۔

سید ریحان اللہ یزدی کے مطابق[71] طلباء کی زندگی کے اخراجات کئی ذرائع سے حاصل ہوتے تھے: ذاتی آمدنی، شہروں کے نامور افراد اور تاجروں کی امداد، عبد الکریم حائری کے طرف سے وظائف؛ اور قم میں کچھ طلباء بھی تھے جن کے اخراجات عبد الکریم حائری برداشت کرتے تھے۔[72] حوزہ علمیہ قم کے اخراجات آیت اللہ حائری کی زعامت کے زمانے میں مبلغ 10000 تومان تھے جو ان کی وفات کے بعد 2070 تومان تک گھٹ کر رہ گئے۔[73] حجت اور خوانساری کے زمانے میں طلباء کا شہریہ (ماہانہ وظیفہ) پندرہ ریال (ڈیڑھ تومان) اور 5 من روٹی (ہر من = 3 کلوگرام) پر مشتمل تھا اور شادی شدہ طلباء کے لئے روٹی کی مقدار بڑھائی جاتی تھی۔ یہ وظیفہ عبد الکریم حائری کی وفات کے بعد 18 سال تک طلباء کو دیا جاتا رہا۔[74] عبد الکریم حائری نے طلباء کو شہریہ اور رہائش کے لئے کمرہ، حوزہ میں 6 مہینوں تک قیام اور ان کے بارے میں تحقیقات سے مشروط کیا تھا۔[75]

آیت اللہ بروجردی کے زمانے میں

آیت اللہ بروجردی کے زمانے میں طلبہ کو شرح لمعہ کے درس میں مشغول ہونے کے بعد شہریہ دیا جاتا تھا البتہ با صلاحیت طلبہ کو شرح لمعہ تک پہنچنے سے پہلے بھی شہریہ دیا جاتا تھا۔[76]

حوزہ کے انتظامی شعبے میں بھی آیت اللہ بروجردی کے زمانے میں وصول ہونے والے خطوط و مراسلات نیز ارسال والے خطوط و مراسلات کے لئے ثبت و ضبط کے دفتر (محافظ خانے = Record office) میں خصوصی شمارہ (Number) دیا جاتا تھا؛ نیز قرار پایا کہ جو وکالت نامے افراد کو دیئے جاتے ہیں ان کے سلسلے میں افراد کے مکمل کوائف درج کئے جائیں اور واضح کیا جائے کہ انہیں کن امور میں وکالت دی گئی ہے۔ ان کے یہ اقدامات اس زمانے میں جدید اقدامات سمجھے جاتے تھے۔[77] ایران میں نوجوانوں کی جبری بھرتی کا آغاز ہوا تو اس مسئلے کو منظم کرنے کے لئے بعض افراد کو مقرر کیا گیا۔ مثال کے طور پر عبدالکریم حائری کے زمانے میں مدرسہ فیضیہ، مدرسہ دار الشفاء اور کتب خانۂ فیضیہ کے سربراہ نیز ان کی طرف سے شہریہ کے مُقَسِّم (تقسیم کرنے والا) صاحب عبد الداری کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی۔[78] رجب سنہ 1377 ہجری میں شیخ مجتبی عراقی آیت اللہ بروجردی خود مدرسہ فیضیہ اور اس کے کتب خانے اور مدرسہ خان کے متولی ہوئے۔[79] سنہ 1366 ہجری شمسی/1987 عیسوی میں حوزہ علمیہ قم کی انتظامی شوری (شورای مدیریت) کی تشکیل کے بعد طلبہ کی فوجی بھرتی کی ذمہ داری اس شوری نے سنبھالی اور متعلقہ دفتر مدرسہ فیضیہ میں واقع ہے۔

حوزہ قم کے امتحانات

آیت اللہ بروجردی کے بعد حوزہ قم میں امتحانات کا مسئلہ ایک بار پھر زیر بحث آیا اور امتحانات کو رفتہ رفتہ سنجیدگی کے ساتھ رائج ہوئے؛ جو سابقہ مرحلے کو کامیابی سے طے کرنے اور اگلے مرحلے میں داخلے کے لئے حصول اطمینان کا ذریعہ ہیں۔[80] آیت اللہ گلپایگانی کے حکم کے مطابق، اس سلسلے میں بعض شرطیں رکھی گئیں کہ ان کے تحت، اعلی تعلیمی مراحل کے امتحانات میں شرکت کو پچھلے مرحلے کے امتحانات میں کامیابی سے مشروط کیا گیا[81] یوں، امتحانات کا اہتمام ایک اہم مسئلے پر منتج ہوا جو طلباء اور ان کے دروس کی رتبہ بندی اور اس رتبہ بندی پر طلباء کے شہریہ کی درجہ بندی سے عبارت ہے؛ یہ روش آج حوزہ علمیہ میں رائج و معمول ہے۔ رتبوں کا اجمال حسب ذیل ہے:

آیت اللہ گلپایگانی کے منصوبے کے مطابق ان رتبوں میں سے ہر ایک کے امتحانات تین مراحل میں منعقد ہوتے تھے چنانچہ دروس کے 10 مراحل معرض وجود میں آئے جو کچھ اختلافات کے ساتھ حوزہ کے درسی نظام میں رائج ہیں۔[82] اس درسی و تعلیم نظام میں طلبائے دسویں مرحلے کو کامیابی کے ساتھ سر کرنے کے بعد نیز متعلقہ ذیلی دروس مکمل کرنے کے بعد مکاسب اور کفایہ کے دروس کو بھی مکمل کرکے امتحان دیتے ہیں۔ دروس خارج میں شرکت کے لئے بھی جو دسویں پائے کی تکمیل کے بعد ممکن ہے ایک نظام نامہ تدوین کیا گیا ہے۔

حوزہ کے روایتی علوم

میرزا سید محمد حسن شیرازی (شیرازي بزرگ)

حوزہ علمیہ قم میں فقہ، اصول، فلسفہ اور عرفان کے اعلی سطحی دروس، مختلف اسالیب اور روشوں سے پڑھائے جاتے ہیں۔ یہاں حائری اور بروجردی کے روش تدریس جو قبل ازاں ایران کے حوزات علمیہ میں مرسوم نہ تھے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ عبدالکریم حائری جو میرزا محمد حسن شیرازی کے شاگرد تھے، اپنی تدریس میں شاگردوں کو بنیاد بناتے تھے۔ اس روش میں وہ ایک مسئلے کو تائید کرنے والے دلائل نیز مخالفت کرنے والے دلائل ساتھ پیش کرتے تھے اور شاگردوں کو اجازت ہوتی تھی کہ اس کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔ یہ اسلوب مکتب سامرا کے نام سے مشہور ہوا ہے۔

آیت اللہ بروجردی کی فقہی روش

بروجری کی سربراہی اور مرجعیت کے زمانے میں خارج فقہ اور علم رجال کی تدریس میں نئی روش متعارف ہوئی جس نے حوزہ علمیہ قم نیز حوزہ علمیہ نجف کو متاثر کیا اور یہ اثرات آج تک موجود ہیں۔ ان کی فقہی روش میں ابتداء میں اسلامی مذاہب کے ابتدائی فقہاء کی فتاوی سے آگہی کو اہمیت دی جاتی تھی اور علمائے اہل سنت کی آراء پیش کی جاتی تھیں، کیونکہ شیعہ ائمہ (ع) نے بہت سے مسائل عام طور پر، تاریخی صورت حال کے تقاضوں کے مطابق علمائے اہل سنت کے فتاوی کے تناظر میں، بیان کرتے تھے اور دوسری طرف سے آیت اللہ بروجردی ہر مسئلے کے تاریخی سفر کی طرف توجہ دیتے تھے؛ اور دوسری طرف سے کم فائدہ بخش اور محض ذہنی مسائل کو زیر بحث لانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ وہ علم رجال اور إسناد میں بھی وہ اپنی خاص اور جدید روش کے مالک تھے جس کے تحت جیسے ایک سلسلۂ سند کے راویوں کے درمیان زمانی بعد (وقتی فاصلہ)، ہر راوی سے منقولہ روایات کی تعداد، حدیث میں اس ان کی منزلت، ان کے اساتذہ اور شاگردوں پر بحث کی جاتی تھی اور اس کے ذریعے مرسل اور مسند کا تعین کیا جاتا تھا۔

امام خمینی کی فقہی روش

آیت اللہ عبدالکریم اور آیت اللہ بروجردی کی دو روشوں کے ساتھ ساتھ امام خمینی کی فقہی روش، قابل ذکر ہے جو ایک لحاظ سے ان دو روشوں کا آمیزہ تھی۔ وہ حائری کے شاگرد تھے اور بروجردی کے درس میں بھی شریک ہوئے تھے۔ انھوں نے مکتب سامرا کے مثبت پہلؤوں کو اخذ کیا تھا اور اس کے بعض پہلؤوں کو ترک کردیا تھا۔ ان کی روش میں زیر بحث موضوع کو مکمل طور پر سامنے لایا جاتا تھا، اس موضوع کے سلسلے میں دوسرے علماء کی آراء کی طرف اشارہ کیا جاتا تھا اور کبھی ان کا تنقیدی جائزہ لیا جاتا تھا اور کوشش یہ ہوتی تھی کہ اصولی مسائل کو فلسفی مسائل سے واضح طور پر الگ کیا جائے۔[83]

دیگر علوم

سنہ 1950 کے عشرے سے 1970 کے عشرے کے دوران حوزہ علمیہ قم فقہ اور اصول کے علاوہ دوسرے اعلی سطحی دروس جیسے کلام، فلسفہ اور تفسیر بھی رائج ہوئے تھے جس کی مثالیں دوسرے حوزات علمیہ میں کم ہی دکھائی دیتے تھے۔ یہ دروس بذات خود حوزہ علمیہ قم کی وجۂ شہرت تھے۔

فائل:علامه طباطبائی.jpg
علامہ سید محمد حسین طباطبائی

فلسفہ اور تفسیر کے عالی مرتبت استاد علامہ سید محمد حسین طباطبائی تھے۔ قم میں علامہ طباطبائی کے آغاز تدریس سے پہلے تک، فلسفہ کا درس اس شہر میں متروک تھا۔ یہاں تک کہ امام خمینی کو بھی فلسفہ کی تدریس ترک کرنا پڑی تھی۔[84] طباطبائی کے درس فلسفہ میں نامی گرامی اساتذہ کی تربیت ہوئی اور اس کے نتیجے میں حوزہ میں عقلی علوم کا احیاء ممکن ہوا اور کلام اور فلسفہ کے حوالے سے طلباء کے سوالات سامنے آئے۔ سنہ 1950 عیسوی کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں علامہ طباطبائی نے مادہ پرستانہ فلسفے پر تنقید کے لئے بعض فضلاء کی تربیت مکمل کرلی جس کی وجہ سے حوزہ علمیہ قم میں سنجیدہ تبدیلیاں رونما ہوئی؛ یہاں تک یہ حوزہ ان مباحثات میں دوسرے حوزات کی نسبت پیش رو ثابت ہوا؛ اور حتی کہ حوزہ علمیہ نجف بھی اس سے بہرہ مند ہوا۔[85] علاوہ ازیں، طباطبائی کے اس اقدام کے نتیجے میں مغربی فلسفے کے جدید موضوعات کے حوزہ قم میں زیر بحث آنے کے اسباب بھی فراہم ہوئے۔[86] بدایۃ الحکمہ اور نہایۃ الحکمہ کی تألیف کو بھی حوزہ کے نصاب کی اصلاحات کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی مفکرین کی پرورش میں طباطبائی کے کردار کو فقہ میں بروجردی کے کردار کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے۔[87] طباطبائی کا درس تفسیر اور تفسیر قرآن میں ان کی روش جو کئی مفسرین کی تربیت اور حوزہ قم میں قرآنی مباحث کے احیاء پر منتج ہوئی حوزہ علمیہ قم کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک ہے۔

علامہ علی اصغر کرباسچیان

فقہ، اصول، کلام، فلسفہ اور تفسیر قرآن کے دروس کے ساتھ ساتھ اخلاق، علم رجال اور محدود سطح پر بعض دیگر علوم منجملہ ریاضیات، فلکیات کی تدریس بھی حوزہ علمیہ قم میں رائج تھی۔[88] حوزہ علمیہ قم کی جدت طرازیوں میں سے ایک آیت اللہ بروجردی کی عمر کے آخری سالوں میں ذہین اور باصلاحیت طلباء کو انگریزی زبان اور جدید علوم (Modern Sciences) سے آشنا کرنے کا اہتمام تھا۔ اس منصوبے کے خالق آیت اللہ بروجردی کے ایک شاگرد شیخ علی اصغر کرباسچیان المعرف بہ علامہ تھے۔ انھوں نے بروجردی کے ساتھ ہمآہنگی کے بعد تہران میں علوی ہائی اسکول کی بنیاد رکھی اور سنہ 1956 عیسوی میں موسم گرما کی چھٹیوں میں قم کے بعض طلباء کو اطلاقی علوم (Applied Sciences)، معاشیات اور انگریزی زبان سیکھنے کے لئے تجربہ کار اور معروف اساتذہ سے استفادہ کرنے کے لئے تہران آنے کی دعوت دی۔۔[89]

مدارس

مدرسہ فیضیہ سمیت قم میں قدیم مدارس کے ساتھ ساتھ، جو قدیم الایام سے طلباء کے زیر استعمال تھے، حوزہ کی تاسیس کے بعد سے اب تک ضروریات اور تقاضوں کو مد نظر رکھ کر دوسرے مدارس بھی تعمیر کئے گئے اور طلباء کے لئے مختص کردیئے گئے۔ سنہ 1934 عیسوی کی ایک رپورٹ میں ہے کہ قم کے مدارس اور ان میں حصول تعلیم میں مصروف طلبہ کی تعداد کچھ یوں ہے:

آیت اللہ بروجردی کے زمانے میں بھی اور امام خمینی کی اسلامی تحریک کے بعد بھی، حوزہ کی اصلاحات کے تقاضوں کے مطابق حوزہ علمیہ قم کے مدارس کی تعداد میں اضافہ کیا گیا؛ اور بعض مدارس خاص نقطۂ نظر اور خاص قسم کے سانچوں کو مد نظر رکھ کر تعمیر کئے گئے۔ یہاں تک کہ 1970 کے عشرے کے آغاز میں قم کے مدارس کی تعداد 15 تک پہنچی۔[92] ان مدارس کے درمیان آیت اللہ گلپایگانی اور مدرسہ حقانی نے حوزہ کی اصلاح میں اہم کردار ادا کیا۔

حوزۂ قم سے وابستہ ادارے

دارالتبلیغ

1960 کے عشرے میں بالخصوص 5 جون 1963 عیسوی کی تحریک کے بعد مراجع تقلید اور عالی رتبہ اساتذہ نے محسوس کیا کہ بعض کمزوریوں کے خاتمے کے لئے اداروں کی بنیاد رکھی جائے۔ اہم ترین اداروں (مؤسسات) میں سے ایک دارالتبلیغ اسلامی تھا جس کی بنیاد آیت اللہ بروجردی کے بعد کے نمایاں مراجع میں سے ایک مرجع آیت اللہ شریعتمداری نے رکھی تھی۔ اس ادارے کی تاسیس اسلام اور تشیع کے خلاف ہونے والی تبلیغات کا صحیح انداز سے مقابلہ کرنے کے لئے مبلغین کی تربیت، مقصود تھی۔[93] اس ادارے کی بنیاد سنہ 1965 عیسوی کے وسط میں عمل میں لائی گئی۔ اور اس کے نصاب میں اصول عقائد، ادیان و مذاہب کا مطالعہ، تفسیر قرآن، حفظ قرآن، فقہ، اصول فقہ|اصول، (کلیات کی حد تک اور استدلالی روش کے مطابق)، علم حدیث، متن حدیث کی تحفیظ، تاریخ اسلام، اسلامی ممالک کا مطالعہ، فارسی اور عربی ادب، معلومات عامہ، درس اخلاق، اور علمی و عملی طور پر فن خطابت جیسے موضوعات شامل تھے۔[94] اگرچہ اس عرصے میں اس ادارے کے بانی کے اہداف اور کارکردگی کو حوزہ کے اکابرین کی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا،[95] تاہم نوجوان طلباء کو انسانیات اور دینیات میں جدید مباحث و موضوعات سے روشناس کرانا اس ادارے کی 20 سالہ علمی سرگرمیوں کے مثبت پہلؤوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اس ادارے نے اس عرصے میں حوزہ قم کے مشہور اساتذہ سے استفادہ کیا اور تہران نیز لبنان سے اعلی پائے کے علماء کو تدریس کے لئے قم آنے کی دعوت دی۔ علاوہ ازیں دار التبلیغ نے تہران سے قم آنے والے جامعات کے اساتذہ سے بھی استفادہ کیا۔ دارالتبلیغ ابتداء میں غیر ملکی طلبہ کو داخلہ اور تربیت دینے اور منظم کرنے کی غرض سے تشکیل پایا تھا۔ نیز اس ادارے نے پہلی بار طالبات کے لئے ایک مرکز قائم کیا۔[96]

موسسہ در راہ حق

حوزہ علمیہ قم سے وابستہ اہم اداروں میں سے ایک مؤسسہ در راہ حق تھا جو ان برسوں میں قائم کیا گیا۔ اس کا نام مؤسسہ در راہ حق و اصول دین تھا جو سنہ 1964 میں قائم ہوا اور سید ہادی خسرو شاہی، سید محسن خرازی، سید جمال الدین دین پرور اور رضا استادی اس کے مدیران تھے۔ یہ ادارہ خالصتا ثقافتی اور تعلیمی ادارہ تھا اور اصول اعتقادات، فروع مذہب اور سماجی اور معاشی موضوعات پر مفت رسائل شائع کرتا تھا۔[97]

کتب خانے

آیت اللہ سید شہاب الدین مرعشی نجفی کا کتب خانہ

حوزہ علمیہ قم میں ابتدائے تاسیس ہی سے کتب خانوں کو خاص توجہ دی گئی ہے اور زعماء اور مراجع وقت جیسے عبد الکریم حائری، آیت اللہ بروجردی، آیت اللہ گلپایگانی، آیت اللہ مرعشی نجفی اور ان کے بعد آنے والے اکابرین نے مختلف ادوار میں ضروریات کے پیش نظر عظیم اور قابل قدر کتب خانے قائم کرکے طلباء اور اساتذہ کو مطالعے کی سہولیات فراہم کی ہیں۔

نشر و اشاعت

حوزہ علمیہ قم کے مراجع کے درمیان آیت اللہ بروجردی اسلامی تالیفات و تصنیفات کی نشر واشاعت کو خاص اہمیت دیتے تھے اور اس سلسلے میں خود ہی بہت سی کتب حدیث، فقہ اور رجال شیعہ کی طباعت و اشاعت کا اہتمام کیا۔ 1960 اور 1970 کے عشروں میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور گلپایگانی اور مرعشی نجفی اور شریعتمداری جیسے مراجع نیز بعض دوسرے علماء نے قدیم اور قلمی کتب نیز جدید کتب کی نشرو اشاعت کا اہتمام کیا،[99] گلپایگانی نے انتشارات دار القرآن الکریم نامی ادارے کی بنیاد رکھی جو ابتداء میں صرف قرآن کریم کی طباعت کا اہتمام کرتا تھا اور بعد میں مختلف دینی و مذہبی موضوعات پر کتب شائع کیں۔[100] دار التبلیغ اسلامی بھی شریعتمداری کے زیر انتظام سرگرم عمل تھا اور اس نے بھی اہم اور معتبر کتب کی اشاعت کو توجہ دی اور اس سلسلے میں فعال تھا۔[101]

تحقیقی اور عام رسائل و جرائد

  • حوزہ علمیہ قم کا سب سے پہلا رسالہ مکتب اسلام تھا جس کی بنیاد علماء نے رکھی اور اس کے مدیران بھی علماء تھے۔ اس رسالے کی بنیاد آیت اللہ بروجردی کے زمانے اور سنہ 1958 عیسوی میں رکھی گئی اور اس کا پہلا شمارہ فروری 1958 ء میں شائع ہوا۔ یہ رسالہ زمانے کے نشیب و فراز سے گذر کر حال حاضر میں بھی شائع ہورہا ہے۔ اس رسالے کی تاسیس و اشاعت میں کردار ادا کرنے والے اہم افراد میں ناصر مکارم شیرازی، جعفر سبحانی (جو حال حاضر میں مراجع تقلید کے زمرے میں ہیں) شامل ہیں۔[102]
  • دوسرا معتبر رسالہ جو سالنامہ اور سہ ماہی کی صورت میں ظہور پذیر ہوا مجلہ مکتب تشیع ہے جس کی بنیاد اکبر ہاشمی رفسنجانی، محمد جواد باہنر اور ان کے معاونین نے رکھی اور اس کا پہلا شمارہ مئی سنہ 1959 ء میں ـ 10000 کی تعداد میں شائع ہوا۔ اس رسالے میں بڑی تعداد میں نامور علماء اور نوجوان فضلاء نے مقالات لکھے۔ اس رسالے کے قلمکار حالات حاضرہ بالخصوص اسلامی نقطۂ نظر کی رورشنی میں سماجی مسائل کو خاص اہمیت دیتے تھے۔[103]
  • حوزہ علمیہ قم کے دیگر رسائل و مجلات میں سالنامۂ مکتب جعفری شامل تھا جو سنہ 1961 سے 1978 عیسوی تک شائع ہوتا رہا؛
  • نشریۂ مسجد اعظم، جو کتب خانۂ مسجد اعظم کی طرف سے شائع ہوا؛ اس رسالے کے بارہ شمارے ماہنامے کی صورت میں شائع ہوئے۔
  • مجلہ بعثت؛
  • مجلہ انتقام
    مؤخر الذکر دو رسالے سیاسی صورت حال کی عکاسی کرتے تھے؛
  • مجلہ الہادی، جو دار التبلیغ اسلامی کی طرف سے شا‏ئع ہوتا تھا۔[104]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. جعفریان، جریان‌ها و سازمان‌های مذهبی ـ سیاسی ایران، ص35ُ وہی مؤلف، برگ‌هایی از تاریخ حوزه علمیہ قم، ص1516ُ شریف رازی، آثار الحجة، ج1، ص138۔
  2. ریحان یزدی، آینه دانشوران، ص144145ُ شریف رازی، آثار الحجة، ج1، ص39
  3. شریف رازی، آثار الحجة، ج1، ص1415، 2122
  4. صدرالدین شیرازی، مقدمہ آشتیانی، صصدوسی ونہُ رفیعی قزوینی، مجموعہ رسائل و مقالات فلسفی حکیم متألّہ علامہ سید ابو الحسن رفیعی قزوینی، مقدمہ رضا نژاد، صبیست ویکُ استادی، کتابها و آثار علمی امام خمینی، ص143۔
  5. استادی، وہی ماخذ، ص143۔
  6. ان علماء اور مدرسین کی فہرست اور تعارف کے لئے رجوع کریں: شریف رازی، آثار الحجۃ، ج1، ص216-234۔
  7. مکی، تاریخ بیست سالہ ایران، ج2، ص432۔
  8. شریف رازی، آثار الحجة ج1، ص85۔
  9. شریف رازی، آثار الحجة، ج1، ص24۔
  10. حائری یزدی، مہدی، خاطرات، ص118۔
  11. شریف رازی، آثار الحجة، ج1، ص28ُ نجفی، اندیشہ سیاسی و تاریخ نہضت حاج آقا نوراللّه اصفہانی، ص237ـ 300۔
  12. ر۔ک:جعفریان، جریان‌ها و سازمان‌های مذهبی ـ سیاسی ایران، ص37۔
  13. امین، محسن، ج8، ص42۔
  14. جعفریان، برگ‌هایی از تاریخ حوزه علمیه قم، ص16۔
  15. ریحان یزدی، آینہ دانشوران، ص6162۔
  16. اراکی، مصاحبہ با استاد بزرگوار آیت اللّه العظمى اراكى، ص82-83ُ کریمی جہرمی، آیت اللّه مؤسّس مرحوم آقای حاج شیخ عبدالکریم حائری، ص47ُ سید کباری، آیةاللّه مؤسّس مرحوم آقای حاج شیخ عبد الکریم حائری، ص384۔
  17. شریف رازی، آثار الحجة، ج1، ص56، 62-76۔
  18. دوانی، نهضت روحانیون ایران، ج2، ص156ُ حسین مکی، تاریخ بیست سالہ ایران، ج4، ص285۔
  19. شریف رازی، آثار الحجة، ج1، ص35-36، 46ُ مکی، تاریخ بیست سالہ ایران، ج4، ص287۔
  20. شریف رازی، آثار الحجة، ج1، ص46ُ بصیرت منش، علما و رژیم رضا شاه ۔۔۔، ص252۔
  21. شریف رازی، آثار الحجة، ج1، ص51ُ امینی، چالش‌های روحانیت با رضا شاه ۔۔۔ ص347، سند شماره 14ُ بصیرت منش، علما و رژیم رضا شاه ۔۔۔، ص258۔
  22. شریف رازی، آثار الحجة، ج1، ص65ُ غروی تبریزی، مصاحبہ با آیت اللّه عبد الحسین غروى تبریزى، ص43۔
  23. شریف رازی، آثار الحجة، ج1، ص90۔
  24. شریف رازی، آثار الحجة، ج1، ص8890، 99101، 114، 185190۔
  25. ر۔ک: شریف رازی، آثار الحجة، ج1، ص143، 145، 152۔
  26. شریف رازی، آثار الحجة، ج1، ص200-201، 203، 205۔
  27. شریف رازی، آثار الحجة، ج2، ص45ُ سبحانی، جامعیت علمى و عملى امام خمینى، ص13۔
  28. شیرخانی و زارع، تحولات حوزه علمیہ قم پس از پیروزی انقلاب اسلامی، ص3435ُ کرجی، قم و مرجعیت، ص41۔
  29. امام خمینی، صحیفہ امام: مجموعہ آثار امام خمینی (س)، ج2، ص407، ج11، ص454ُ پور ہادی، خاطرات، ص66۔
  30. بدلا، مصاحبه، ص93ـ 94ُ شریف رازی، آثار الحجة، ج2، ص2۔
  31. امام خمینی، صحیفه امام: مجموعه آثار امام خمینی (س)، ج1، ص24ُ فلسفی، خاطرات و مبارزات، ص175۔
  32. جعفریان، برگ‌هایی از تاریخ حوزه علمیه قم، ص76۔
  33. جعفریان، وہی ماخذ، ص31۔
  34. مؤلف مجہول، جغرافیای تاریخی شہرستان قم، ص218۔
  35. جعفریان، وہی ماخذ، ص38۔
  36. شریف رازی، آثار الحجة، ج2، ص172176۔
  37. حائری یزدی، مہدی، خاطرات، ص47، 56-57ُ فلسفی، خاطرات و مبارزات، ص187، 189۔
  38. فلسفی، خاطرات و مبارزات، ص189ُ امینی، مرجعیت در عرصه اجتماع و سیاست، ص459۔
  39. امینی، مرجعیت در عرصه اجتماع و سیاست، ص452، سند شماره 29۔
  40. فلسفی، خاطرات و مبارزات، ص190-191، 469ُ سلطانی طباطبائی، مصاحبه، ص48-49۔
  41. امینی، مرجعیت در عرصه اجتماع و سیاست، ص457، سند شماره 36-38۔
  42. شریف رازی، آثار الحجة، ج2، ص14ُ فلسفی، خاطرات و مبارزات، ص203ُ بدلا، مصاحبہ، ص103ـ 104ُ حسینیان، بیست سال تکاپوی اسلام شیعی در ایران، ص386۔
  43. فلسفی، خاطرات و مبارزات، ص179ـ 180ُ حسینیان، بیست سال تکاپوی اسلام شیعی در ایران، ص390391۔
  44. اشتهاردی، مصاحبہ، ص186، 191۔
  45. شریف رازی، 1352ـ 1354 ہجری شمسی، ج1، ص352353۔
  46. سلطانی طباطبائی، مصاحبہ، ص43-45۔۔
  47. اشتهاردی، مصاحبہ، ص190۔
  48. وکیلی قمی، حوزه علمیہ قم، ص21، 38۔
  49. روحانی، نهضت امام خمینی، ج2، سند شماره 37۔
  50. جعفریان، جریان‌ها و سازمان‌های مذهبی ـ سیاسی ایران، ص238-241۔
  51. جواد منصوری، تاریخ قیام پانزده خرداد بہ روایت اسناد، ج1، سند شماره 15/2ُ جعفریان، جریان‌ها و سازمان‌های مذهبی ـ سیاسی ایران، ص236۔
  52. اسناد انقلاب اسلامی، ج1، ص44۔
  53. ر۔ک: اسناد انقلاب اسلامی، ج1، ص57۔
  54. روحانی، بررسی و تحلیلی از نهضت امام خمینی در ایران، ج1، ص230۔
  55. هاشمی رفسنجانی، دوران مبارزه، ج1، ص133۔
  56. روحانی، بررسی و تحلیلی از نهضت امام خمینی در ایران، ج1، ص265۔
  57. دوانی، نهضت روحانیون ایران،، ج3، ص212۔
  58. امام خمینی، صحیفہ امام: مجموعہ آثار امام خمینی (س)، ج1، ص156157ُ روحانی، بررسی و تحلیلی از نهضت امام خمینی در ایران، ج1، ص315۔
  59. مرکز اسناد انقلاب اسلامی، اسناد انقلاب اسلامی، ج1، ص8081، 84ُ رجبی، زندگی نامہ سیاسی امام خمینی، سند شماره 51۔
  60. جواد منصوری، تاریخ قیام پانزده خرداد بہ روایت اسناد، ج1، سند شماره 15/3۔
  61. امام خمینی، صحیفہ امام: مجموعہ آثار امام خمینی (س)، ج1، ص415۔ُ دوانی، نهضت روحانیون ایران، ج4، ص324۔
  62. روحانی، بررسی و تحلیلی از نهضت امام خمینی در ایران، ج1، ص744۔
  63. جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم، ج1، ص270ُ شیرخانی و زارع، تحولات حوزه علمیہ قم ۔۔۔، ص3738۔
  64. ر۔ک: جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم، ج1، ص268ـ 269۔
  65. مدنی، تاریخ سیاسی معاصر ایران، ج2، ص222-223۔
  66. مدنی، وہی ماخذ، ج2، ص232ـ 234۔
  67. محمد یزدی، خاطرات، ص354۔
  68. ر۔ک: جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم، ج1، ص464ـ 498۔
  69. وجوہ شرعی: زکٰوۃ، خمس، کفارات، صدقات وغیرہ۔
  70. ه۔ صالح، آیة الله كاشانى و توطئه كشف حجاب، ص214ـ 216۔ُ محسن امین، اعیان الشیعہ، ج 8، ص42۔
  71. ریحان یزدی، آینہ دانشوران، ص49۔
  72. ریحان یزدی، آینہ دانشوران، ص49۔
  73. غروی تبریزی، مصاحبہ، ص47۔
  74. شریف رازی، آثار الحجة، ج1، ص90۔
  75. غروی تبریزی، مصاحبہ، ص39۔
  76. هاشمی رفسنجانی، مصاحبہ، ص36۔
  77. وکیلی قمی، حوزه علمیہ قم، ص2021۔
  78. علی رضا هزار، تدوین محمد تقی ادهم نژاد، دانشوران قم، ص157۔
  79. عراقی، مصاحبہ، ص41۔
  80. وکیلی قمی، حوزه علمیه قم، ص79۔
  81. تفصیل کے لئے رجوع کریں: وکیلی قمی، حوزه علمیه قم، ص80۔
  82. پہلے سے چھٹے پائے تک کے نصاب کی تفصیل کے لئے رجوع کریں: شیرخانی و زارع، تحولات حوزه علمیہ قم ۔۔۔، ص304309۔
  83. مرتضوی لنگرودی، مصاحبہ، ص53-57۔
  84. جعفریان، جریان‌ها و سازمان‌های مذهبی ـ سیاسی ایران، ص233-234۔
  85. محمد حسین طباطبائی، اصول فلسفہ و روش رئالیسم و سید محمد باقر صدر، فلسفتنا۔
  86. وکیلی قمی، حوزه علمیہ قم، ص6768ُجعفریان، جریان‌ها و سازمان‌های مذهبی ـ سیاسی ایران، ص234۔
  87. جعفریان، جریان‌ها و سازمان‌های مذهبی ـ سیاسی ایران، ص227۔
  88. شریف رازی، آثار الحجة، ج2، ص178ـ 188۔
  89. اس سلسلے میں رجوع کریں: روایت استاد، استاد علامه کرباسچیان از نگاه دیگران، ص181، 213216، 239ـ 241، 269270۔
  90. همایون، مجله همایون، سال1، شماره 3، آذر1313، ص8۔
  91. جعفریان، جریان‌ها و سازمان‌های مذهبی ـ سیاسی ایران، ص31۔
  92. مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: شریف رازی، گنجینه دانشمندان، ج1، ص4162۔
  93. وکیلی قمی، حوزه علمیه قم، ص4849۔
  94. وکیلی قمی، حوزه علمیہ قم، ص50-53۔ُ اس ادارے کے دروس اور اساتذہ کی تفصیل جاننے کے لئے رجوع کریں: وکیلی قمی، حوزه علمیہ قم، ص54-55۔
  95. اس ادارے کے مخالف اور موافق نظریات کے لئر رجوع کریں: دوانی، زندگانی و خاطرات، ص458ـ 459ُ ُ نیز رجوع کریں: جعفریان، جریان‌ها و سازمان‌های مذهبی ـ سیاسی ایران، ص307319۔
  96. جریان‌ها و سازمان‌های مذهبی ـ سیاسی ایران، ص316-317۔
  97. جریان‌ها و سازمان‌های مذهبی ـ سیاسی ایران، ص321322ُ شیرخانی و زارع، تحولات حوزه علمیہ قم، ص169171۔
  98. کتابخانه بزرگ نسخ خطی آیت‌الله مرعشی؛ سومین کتابخانه بزرگ جهان اسلام۔
  99. شریف رازی، گنجینہ دانشمندان، ج2، ص52۔
  100. شیرخانی و زارع، تحولات حوزه علمیہ قم ۔۔۔، ص163-164۔
  101. جعفریان، جریان‌ها و سازمان‌های مذهبی ـ سیاسی ایران، ص371۔
  102. برای تفصیل ر۔ک: جعفریان، جریان‌ها و سازمان‌های مذهبی ـ سیاسی ایران، ص341-345۔
  103. برای تفصیل ر۔ک: جریان‌ها و سازمان‌های مذهبی ـ سیاسی ایران، ص345347۔
  104. تفصیل کے لئے رجوع کریں: رسول جعفریان، جریان‌ها و سازمان‌های مذهبی ـ سیاسی ایران، ص348353۔

مآخذ

  • اسناد انقلاب اسلامی، ج1، تهران : مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1374هجری شمسی۔
  • امام خمینی، صحیفہ امام: مجموعہ آثار امام خمینی (س) (بیانات، پیام‌ها، مصاحبہ ها، احکام، اجازات شرعی و نامہ ها)، تهران 1378هجری شمسی۔
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، چاپ حسن امین، بیروت 1403هجری قمری/ 1983عیسوی۔
  • جواد منصوری، تاریخ قیام پانزده خرداد بہ روایت اسناد، تهران: مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1377-1378هجری شمسی۔
  • جامعة المصطفی العالمیة، جامعة المصطفی العالمیة در یک نگاه، لوح فشرده، قم 1387هجری شمسی۔
  • جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم، زیر نظر محسن صالح، تحقیق علی رضا جواد زاده، تهران: مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1385هجری شمسی۔
  • جعفر سبحانی، «جامعیت علمى و عملى امام خمینى»، کیهان اندیشہ، ش 29 (فروردین و اردیبهشت 1369)هجری شمسی۔
  • جغرافیای تاریخی شهرستان قم، از مؤلفی ناشناختہ، بہ کوشش ابوالفضل عرب زاده، قم: زائر، 1383هجری شمسی۔
  • جهرمی، علی کریمی، آیة اللّه مؤسّس مرحوم آقای حاج شیخ عبد الکریم حائری (قدس سرُّه الشّریف)، قم 1372هجری شمسی۔
  • حسین بدلا، «مصاحبہ با حجةالاسلام والمسلمین سید حسین بدلا»، حوزه، سال 8، ش 1 و 2 (فروردین ـ تیر1370)هجری شمسی۔
  • حمید روحانی، بررسی و تحلیلی از نهضت امام خمینی در ایران، ج1، تهران، 1358هجری شمسی۔
  • حمید روحانی، نهضت امام خمینی، ج2،تهران 1376هجری شمسی۔
  • حمید بصیرت منش، علما و رژیم رضا شاه: نظری بر عملکرد سیاسی ـ فرهنگی روحانیون در سال‌های 1305ـ 1320)، تهران، 1376هجری شمسی۔
  • داوود امینی، چالش‌های روحانیت با رضا شاه: بررسی علل چالش‌های سنت گرایی با نوگرایی عصر رضا شاه، تهران 1382هجری شمسی۔
  • رضا استادی، «كتابها و آثار علمى امام خمینى»، کیهان اندیشہ، ش 29 (فروردین و اردیبهشت 1369)هجری شمسی۔۔
  • علی پناه اشتهاردی، «مصاحبه با آیة اللّه شیخ على پناه اشتهاردى»، حوزه، سال 8، ش 1 و 2 (فروردین ـ تیر 1370)هجری شمسی۔۔
  • رسول جعفریان، برگ‌هایی از تاریخ حوزه علمیہ قم، تهران 1381هجری شمسی۔
  • رسول جعفریان، جریان‌ها و سازمان‌های مذهبی ـ سیاسی ایران: از روی کار آمدن محمد رضا شاه تا پیروزی انقلاب اسلامی، سالهای 1320ـ 1357، قم 1386هجری شمسی۔
  • مهدی حائری یزدی، خاطرات دکتر مهدی حائری یزدی، بہ کوشش حبیب لاجوردی، تهران 1381هجری شمسی۔
  • روح اللّه حسینیان، بیست سال تکاپوی اسلام شیعی در ایران: 1320ـ 1340، تهران 1381هجری شمسی۔
  • علی رضا هزار، تدوین محمد تقی ادهم نژاد، دانشوران قم: نگاهی بہ زندگی 204 تن از دانشمندان وبزرگان قمی یا مدفون در قم، گزیده ستارگان حرم (1ـ 15)، علی رضا هزار، تدوین محمد تقی ادهم نژاد، قم: زائر، 1384هجری شمسی۔
  • علی دوانی، نقد عمر: زندگانی و خاطرات علی دوانی، تهران 1382هجری شمسی۔
  • علی دوانی، نهضت روحانیون ایران، تهران، 1360هجری شمسی۔
  • محمد علی اراکی، «مصاحبہ با استاد بزرگوار آیت اللّه العظمى اراكى»، در آیینہ داران حقیقت: مصاحبہ های مجلہ حوزه با عالمان و دانشوران حوزوی، تهیہ و تدوین، مجلہ حوزه، ج1، قم: بوستان کتاب، 1382هجری شمسی۔
  • محمد حسن رجبی، زندگی نامہ سیاسی امام خمینی، تهران 1377هجری شمسی۔
  • ابوالحسن رفیعی قزوینی، مجموعہ رسائل و مقالات فلسفی حکیم متألّہ علامہ سید ابوالحسن رفیعی قزوینی، تصحیح غلام حسین رضا نژاد (نوشین)، تهران 1386هجری شمسی۔
  • روایت استاد: استاد علامہ کرباسچیان از نگاه دیگران، تهران: مرکز تدوین و نشر آثار علامہ کرباسچیان، 1386هجری شمسی۔
  • علی رضا ریحان یزدی، آینہ دانشوران، با مقدمہ و تعلیقات و اضافات ناصر باقری بیدهندی، قم1372هجری شمسی۔
  • محمد باقر سلطانی طباطبائی، «مصاحبہ با آیةاللّه سید محمد باقر سلطانى طباطبائى»، حوزه، سال 8، ش 1 و 2 (فروردین ـ تیر 1370)هجری شمسی۔
  • علی رضا سید کباری، حوزه‌های علمیہ شیعہ در گستره جهان، تهران 1378هجری شمسی۔
  • محمد شریف رازی، آثار الحجة، یا، تاریخ و دائرة المعارف حوزه علمیہ قم، قم 1322ـ 1333هجری شمسی۔
  • محمد شریف رازی، گنجینہ دانشمندان، تهران 1352-1354هجری شمسی۔
  • بهمن شعبان زاده، تاریخ شفاهی مدرسہ حقانی، تهران1384هجری شمسی۔
  • علی شیرخانی و عباس زارع، تحولات حوزه علمیہ قم پس از پیروزی انقلاب اسلامی، تهران1384هجری شمسی۔
  • ه۔ صالح، «آیة اللّه كاشانى و توطئہ كشف حجاب»، تاریخ و فرهنگ معاصر، سال 2، ش 6 و 7 (پاییز 1372)هجری شمسی۔
  • محم دبن ابراهیم صدر الدین شیرازی (ملا صدرا)، الشواهد الربوبیة فی المناهج السلوکیّة، با حواشی ملا هادی سبزواری، چاپ جلال الدین آشتیانی، تهران 1360هجری شمسی۔
  • محمد رضا طبسی، «مصاحبہ با آیةاللّه حاج شیخ محمد رضا طبسى»، حوزه، سال6، ش 4 (مهر و آبان 1368)هجری شمسی۔
  • مجتبی عراقی، «مصاحبہ با استاد حاج شیخ مجتبى عراقى»، حوزه، سال 6، ش 6 (بهمن و اسفند 1368)هجری شمسی۔
  • عبدالحسین غروی تبریزی، «مصاحبہ با آیةاللّه عبدالحسین غروى تبریزى»، حوزه، سال 11، ش 2 (خرداد و تیر 1373)هجری شمسی۔
  • محمد تقی فلسفی، خاطرات و مبارزات حجة الاسلام فلسفی، تهران 1376هجری شمسی۔
  • عباس فیروزی، «دومین دوره شوراى عالى و مدیریت حوزه علمیہ»، پیام حوزه، سال 2، ش 3 (پاییز 1374)۔
  • علی کرجی، قم و مرجعیت، قم 1383هجری شمسی۔
  • مدنی، جلال الدین، تاریخ سیاسی معاصر ایران، قم 13611362هجری شمسی۔
  • مرتضوی لنگرودی، محمد حسن، «مصاحبہ با حضرت آیة اللّه حاج سید محمد حسن مرتضوى لنگرودى»، حوزه، سال 10، ش 1 (فروردین و اردیبهشت 1372)هجری شمسی۔
  • همايون پور، محمد، مجلہ همایون، سال1، شماره 3، آذر1313 ہجری شمسی۔
  • مرجعیت در عرصہ اجتماع و سیاست : اسناد و گزارش‌هایی از آیات عظام نائینی، اصفهانی، قمی، حائری و بروجردی، 1292 تا 1339هجری شمسی، بہ کوشش محمد حسین منظور الاجداد، تهران: شیرازه، 1379هجری شمسی۔
  • مرکز جهانی علوم اسلامی، شناسان مرکز جهانی علوم اسلامی، قم، 1386هجری شمسی۔
  • مکی، حسین، تاریخ بیست سالہ ایران، تهران 1362ـ1364 هجری شمسی۔
  • نجفی، موسی، اندیشہ سیاسی و تاریخ نهضت حاج آقا نوراللّه اصفهانی، تهران 1378هجری شمسی۔
  • وکیلی قمی، ابو محمد، حوزه علمیہ قم، تهران 1348هجری شمسی۔
  • هاشمی رفسنجانی، اکبر: «مصاحبہ با استاد هاشمى رفسنجانى»، حوزه، سال 2، ش 11 (مهر 1364)هجری شمسی۔
  • هاشمی رفسنجانی، اکبر: دوران مبارزه، زیر نظر محسن هاشمی، تهران 1376هجری شمسی۔
  • محمد یزدی، خاطرات آیت اللّه محمد یزدی، تهران 1380هجری شمسی۔
  • یداللّه پور هادی، خاطرات حجةالاسلام و المسلمین پور هادی، تدوین عبدالرضا احمدی و معصومہ حسینی، تهران 1382هجری شمسی۔