نجف پر وہابیوں کا حملہ

ویکی شیعہ سے

نجف پر وہابیوں کا حملہ ایک تاریخی واقعہ ہے جو 19ویں اور 20ویں صدی عیسوی (13ویں اور 14ویں صدی ہجری) کے آغاز میں دو مراحل میں پیش آیا۔ محققین کے مطابق 1801ء/1216ھ میں وہابیوں نے عثمانی حکومت کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عتبات عالیات پر حملوں کی پہلی لہر شروع کی۔ اس حملے کے دوران نجف کے عوام نے جعفر کاشف الغطا کی قیادت میں شہر کا دفاع کیا۔ وہابی بھی ایک دن کے محاصرے اور لڑائی کے بعد پیچھے ہٹ گئے۔ باقی ماندہ دستاویزات اور یادداشتوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہابی 1811ء/1226ھ تک عراق کے علاقے میں موجود تھے اور انہوں نے نجف، کربلا، حلہ اور دیگر عراقی شہروں پر اپنے حملے جاری رکھے اور بالخصوص نجف کا کئی بار محاصرہ کیا۔ محققین کا خیال ہے کہ وہابیوں نے یہ حملے شیعہ اماموں کے مزارات کے خزانوں تک رسائی اور بغداد تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کیے تھے۔ اس کے علاوہ باقیماندہ یادداشتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نجف میں مختلف گروہوں کے درمیان اندرونی کشمکش اور عثمانی حکومت کی کمزوری کو حملوں کی اس لہر کے جاری رہنے کی وجوہات کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں شیعہ علماء نے اپنی تبلیغی سرگرمیوں میں اضافہ کیا اور عتبات عالیہ کے لیے مالی عطیات میں اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ، علاقے کی سلامتی کو بڑھانے کے لیے، عثمانی حکومت نے نجف اور کربلا کے ارد گرد سنی خانہ بدوشوں کو آباد کیا، جو در اصل عراق میں شیعہ مذہب کے پھیلاؤ کا باعث بنا۔

ایرانی اخبارات کی خبر کے مطابق 1340ھ میں فیصل بن دویش کی قیادت میں وہابیوں کے ایک گروہ نے نجف پر حملے کی دوسری لہر شروع کی اور نجف کے قرب و جوار تک پہنچ گئے۔ اس وقت کی عراقی حکومت اور ایران کی وزارت خارجہ نے اس حملے کی مذمت کی اور انگلستان کی فوجی مداخلت سے یہ حملہ ناکام ہوگیا۔

تعارف

عبدالعزیز اور اس کے بیٹے سُعُود کے دور میں وہابیوں کے زیر تسلط زمینوں کا نقشہ۔ یہ نقشہ سنہ 1811ء میں جان کیری (انگریزی نقش نگار، 1835-1754ء) نے تیار کیا تھا۔ اس نقشے کے مطابق اس دور میں جزیرہ نمائے عرب کے علاوہ خلیج فارس سے لے کر عراق کے شمال مغرب تک دجلہ اور فرات کی مغربی سرزمین پر وہابیوں کا غلبہ تھا۔ [1]

نجف پر وہابیوں کے حملے 19ویں صدی کے آغاز میں شروع ہوئے۔[2] یہ حملے عراق میں شیعہ مذہب کے پھیلاؤ اور جزیرہ نمائے عرب میں وہابیت کے مضبوط ہونے کا سبب بننے کی وجہ سے اہم سمجھے جاتے ہیں۔[3]

جزیرہ نمائے عرب کے مورخین کے مطابق، وہابیوں نے 18ویں صدی کے آخر میں حجاز کے قبائل اور اقوام کو کچل کر اس خطے میں نسبتاً طاقت حاصل کی اور 50,000 سے زائد افراد پر مشتمل ایک لشکر تشکیل دیا۔[4] سنہ 1801ء (سنہ 1215 تا 1216ھ) میں بغداد اور عراق کے کچھ شہروں میں طاعون پھیل گیا اور اس علاقے کے عثمانی ایجنٹ اس میں مبتلا ہوئے۔[5] اس وقت سُعُود بن عبد العزیز (پہلی وہابی حکومت کے بانی کے بیٹے، 1161-1229ھ) [یادداشت 1] نے عثمانی حکومت کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سنہ 1215 ہجری میں نجف پر حملہ کرنے کے لیے لشکر تیار کیا؛ لیکن درمیان میں وہ بصرہ کے لوگوں سے ٹکرا گئے اور جانی نقصان کے ساتھ سعودی عرب کے علاقہ نجد میں اپنے ٹھکانے پر واپس لوٹ گئے۔[6] تاہم سعود بن عبد العزیز نے سنہ 1216ھ میں دوبارہ عراق پر حملہ کیا اور غدیر عید کے دن کربلا کو لوٹ لیا۔[7] اس کے بعد وہابیوں نے نجف پر حملہ کرتے ہوئے اس کا محاصرہ کر لیا۔[8] [یادداشت 2] مورخین کے مطابق یہ حملے سنہ 1226 ہجری تک جاری رہے۔[10] مقدس مقامات پر حملہ کرنے کا وہابیوں کا سیاسی ہدف، بغداد اور اس طرح پورے عراق پر غلبہ حاصل کرنے کو قرار دیا گیا ہے، اور ان کا اقتصادی ہدف ان خزانوں تک پہنچنے کو قرار دیا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ایرانی بادشاہوں نے شیعہ ائمہ کے مزارات کو عطیہ کیا تھا۔[11]

اسی طرح ان حملوں کے 120 سال بعد وہابیوں کے ایک اور گروہ نے سنہ 1340ھ[12] یا 1345ھ نے عتبات عالیات پر پھر سے حملہ کیا [13]

پہلے حملے کے واقعات (1216ھ)

تاریخی ذرائع نے عتبات عالیات پر سعود بن عبد العزیز کا پہلا حملہ سنہ 1216 ہجری میں عید غدیر کے دن کربلا کی لوٹ مار سے متعلق سمجھا ہے۔[14] مؤرخین کے مطابق، نجف کے لوگوں نے جب محسوس کیا کہ عثمانی حکومت عتبات عالیات کی حمایت میں نہیں ہے تو انہوں نے امام علی علیہ السلام کے روضہ کے جواہرات کو بغداد منتقل کر دیا تاکہ وہابیوں کے حملے کی صورت میں مسجد نبوی کے خزانے کی طرح اسے لوٹ نہ سکیں۔[15] بعض نے امام علیؑ کے حرم میں پناہ لی؛ لیکن شیخ جعفر کاشف الغطا (1156-1228ھ) نے نجف کے لوگوں کو متحرک کیا اور اسلحہ جمع کرنا شروع کیا۔ پھر اُنہوں نے شہر کے دروازے بند کر دیے اور اندر سے بڑے بڑے پتھر لگا کر اسے مضبوط کیا۔[16]


تاریخی اطلاعات کے مطابق وہابی فوج نجف اشرف کی طرف بڑھی اور اس شہر کا محاصرہ کر لیا۔[17] وہابی لشکر کے سپاہیوں کی تعداد 12000 یا 15000 بتائی گئی ہے۔[18] مورخین کے مطابق جب سعود بن عبد العزیز نجف کی دیواروں کے پیچھے پہنچے تو انہوں نے شہر کے اندر کی طرف گولیاں چلانا شروع کر دیا جس سے پانچ افراد مارے گئے۔[19] بعض اطلاعات کے مطابق وہابی، ایک رات نجف کی باڑ کے باہر ٹھہرے اور اگلی رات منتشر ہو گئے۔[20] ایک اور روایت کے مطابق اس رات وہابی حملہ آوروں اور نجف کے محافظوں کے درمیان لڑائی ہوئی جس میں اہل نجف میں سے تقریباً 10 لوگ[21] اور حملہ آوروں میں سے 700 لوگ مارے گئے۔[22]

1226ھ تک نجف پر حملوں کا تسلسل

نجف پر وہابی حملوں کے آغاز کے سو سال بعد نجف کا ایک فضائی منظر۔ اس تصویر میں اس شہر کی دیواریں دیکھی جا سکتی ہیں۔

ایرانیکا انسائیکلو پیڈیا نے نجف پر حملے کی پہلی لہر کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا ہے۔ وہابیوں نے نجف پر سب سے پہلے، 1801ء/سنہ 1216ھ میں حملہ کیا اور شہر کو ایک سال سے زائد عرصے تک محاصرے میں رکھا۔ حملے کا دوسرا مرحلہ 1806ء/سنہ 1220ھ یا سنہ 1221ھ میں ہوا اور تیسرا مرحلہ بھی 1810ء/سنہ 1225ھ میں ہوا۔[23] تاہم منابع اور باقی ماندہ یادداشتوں میں نجف پر ہونے والے 1216ہجری کے حملے کے بعد کے واقعات کو سنہ 1218 ہجری[24] 1221ھ،[25] 1223ھ،[26] اور 1225ھ[27] کے واقعات کے ذیل میں ذکر کیا ہے۔

جو کچھ سید محمد جواد حسینی عاملی،[یادداشت 3] نے اپنی فقہی کتاب مفتاح الکرامۃ میں ذکر کیا ہے کہ 9 صفر سنہ 1221 ہجری کی رات صبح سے کوئی ایک گھنٹہ پہلے وہابی فوجوں نے نجف پر اچانک حملہ کیا اور اپنے کچھ فوجیوں کو شہر کی فصیل کے اوپر پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس تاریخ کو شہر پر قبضہ نہیں ہونا "امام علی علیہ السلام کے عظیم معجزات میں سے ایک" تھا۔[29] ایک روایت کے مطابق سنہ 1223 ہجری میں وہابیوں نے ایک بار پھر نجف پر حملہ کیا؛ لیکن جب شہر کے لوگوں کی دفاعی تیاری دیکھی تو وہ حلہ اور پھر کربلا چلے گئے۔[30] حسینی آملی 9 رمضان المبارک 1225 ہجری کو لکھتے ہیں کہ وہابیوں نے نجف اشرف اور امام حسین علیہ السلام کے روضہ کو گھیرے میں لے لیا، راستے بند کر دیے اور نجف کے 150 افراد کو واپسی پر راستے میں قتل کر دیا جو 15 شعبان کے موقع پر کربلا گئے تھے۔ بعض زائرین نے اس سال رمضان کا مہینہ بھی حلّہ اور حسکہ میں گزارا۔ ان کی رپورٹ کے مطابق کوفہ سے کربلا کے دو فرسخ کے فاصلے تک وہابیوں کا قبضہ ہے۔[31] اس کے ساتھ سامرا اور الزبیر پر حملے کرنے کے بارے میں بھی کچھ گزارشات موجود ہیں۔[32]

حملے تکرار ہونے کی وجہ

کہا گیا ہے کہ وہابیوں نے "رحبہ" (نجف کے قریب) نامی جگہ پر ٹھکانہ بنا رکھا تھا اور اگر وہ کسی کو پاتے تو اسے قتل کر دیتے اور اس کا سر نجف کی باڑ کے اندر پھینک دیتے۔[33]

اس علاقے میں اڈہ بنانے کے علاوہ عراقی قبائل کے درمیان تنازعات اور بغداد کے سابق گورنر اور نئے گورنر کے درمیان اختلافات[34] اور شہر پر قبضہ کرنے کے لیے نجف جیسے شہروں میں موجود گروہوں کے مقابلے کو بھی وہابی حملوں کے جاری رہنے کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔[35]

پہلے حملے کی لہر کا اختتام

مورخین کے مطابق، وہابی حملے سنہ 1225 ہجری تک جاری رہے؛[36] لیکن عراقی شہروں کی دفاعی تیاری کی وجہ سے وہ نجد واپس آگئے۔[37] ایک روایت کے مطابق بغداد میں عثمانی گورنر نے 1809ء/1224ھ کے آخر میں عراقی خانہ بدوشوں کی ایک منظم فوج بنائی اور اسے وہابیوں کے خلاف استعمال کیا۔ وہابی صحرا کی طرف بھاگ گئے اور اپنے بعد کے حملوں میں زیادہ کامیاب نہیں ہوئے۔ اس نقل کے مطابق عراق پر وہابی دباؤ 1810ء/1225ھ تک ختم ہو گیا۔[38] ایک اور روایت کے مطابق فتح علی شاہ قاجار نے بغداد کے گورنر کو ان حملوں سے نمٹنے کا کہا اور اگرچہ بغداد کے گورنر نے یہ مسئلہ قبول کر لیا لیکن وہ جلد ہی انتقال کر گئے۔ پھر فتح علی شاہ نے یہی درخواست مصر میں عثمانی گورنر سے کی اور مصری گورنر نے وہابیوں پر حملہ کر کے انہیں پیچھے دھکیل دیا۔[39]

تاہم حسینی عاملی نے اپنی آخری رپورٹ میں (17 جمادی الاولی 1226ھ/1811ء) متعدد وہابی حملوں کی اطلاع دی ہے اور اس میں نجف محاصرے میں ہونے کی خبر دی ہے۔[40]

شیعہ اور وہابیوں پر پہلے حملے کا اثر

مؤرخین کے تجزیے کے مطابق انیسویں صدی کے آغاز میں کربلا اور نجف پر سعودی وہابی حملوں کی وجہ سے ان دونوں شہروں کے علماء نے عراقی شیعہ آبادی کو بڑھانے کے لیے اپنی تبلیغی سرگرمیاں تیز کر دیں۔[41] تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان حملوں کی وجہ سے مزارات پر شیعوں کی مالی معاونت میں بھی اضافہ ہوا، مثال کے طور پر 1803ء/1218 ہجری میں نجف انڈین کینال کی تعمیر کے اخراجات اودھ کے شاہی خاندان نے ادا کی اور شہر کے لئے پانی کا ایک مستقل منبع فراہم کیا اور نجف کی آبادی میں تیزی سے دو برابر اضافہ ہوا۔[42] ان حملوں کے بعد کی دہائی میں عثمانیوں نے بھی عراق کے اہل سنت قبائل کو آباد کرنے اور انہیں ایک جگہ سکونت اختیار کرنے اور کھیتی باڑی کرنے کی ترغیب دے کر اس خطے کی سلامتی کو بڑھانے کی کوشش کی۔[43] مورخین کے مطابق ان قبائل کا نجف اور کربلا کے ارد گرد آباد ہونا اور ان دونوں شیعہ مراکز کے ساتھ ان کا تعامل عملاً عراق میں شیعیت کی توسیع کا باعث بنا۔[44]

وہابیوں پر ان حملوں کے اثرات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ عراق کے شہروں پر حملہ کرنے کے بعد انہیں عثمانی حکومت کی کمزوری کا احساس ہوا اور اس کے نتیجے میں انہوں نے زیادہ عزم اور استقامت کے ساتھ حجاز پر اپنا تسلط بڑھانا شروع کیا۔[45] بعض ذرائع کے مطابق،

یہ حملے عثمانی حکومت کی وہابیوں سے دشمنی میں شدت، ان سے مقابلے میں اضافہ، عبد العزیز (سعود کا باپ) کا قتل اور آخر کار وہابیوں کی پہلی حکومت کے خاتمے کا باعث بنا۔[46]

حملے کی دوسری لہر (1340ھ کی دہائی)

اخوانی ملیشیا کا ایک گروہ 20ویں صدی عیسوی کے آغاز میں

1340ھ میں ایرانی اخبارات کی خبر کے مطابق فیصل بن دُوَیش (سعودی عرب میں سلفی اخوان کے رہنما، 1882-1931ء) کی قیادت میں وہابیوں کا ایک گروہ عراق کے مختلف علاقوں میں جھڑپوں کے بعد نجف میں امام علی کے روضہ کو تباہ کرنے کے لیے نجف کے قریب پہنچ رہا تھا۔[47] اس خبر کے وقت نجف سے تقریبا 11 فرسخ کے فاصلے پر تھا[48] اور توپ کے دھماکوں کی آواز شہر میں سنی جاتی تھی۔[49] ان اطلاعات کے مطابق کربلا کے علما یہ خبر سن کر نجف کی طرف بڑھے۔[50] اور انگلینڈ نے سعودی حکومت سے احتجاج کیا اور عبد العزیز ابن سعود نے انگلینڈ کے جواب میں وہابیوں کے حملے پر افسوس کا اظہار کیا۔[51] ایرانی اخبار کے مطابق اسی سال 21 مئی کو ایران کی وزارت خارجہ نے لندن اور بغداد سے خط و کتابت کی اور عراق میں تعینات برطانوی افواج نے نجف پر وہابیوں کے حملے کو روکنے کے لیے اقدامات کیے اور یہ معاملہ ختم ہوگیا۔[52]

دوسرے منابع کے مطابق عراقی شہروں پر ابن دویش کا حملہ 1345 اور 1346 ہجری میں واقع ہوا ہے[53] اور یہ بھی ممکن ہے اس کا ایک اور حملہ ہو۔ اس نقل کے مطابق عراقی حکام نے برطانوی حکومت سے احتجاج کیا اور جواب نہ دینے کی صورت میں انہیں مسلح بغاوت کی دھمکی دی۔[54] انگلستان نے بھی رمضان 1346/1928ھ میں اپنے طیاروں اور عراقی فوج کے ساتھ وہابیوں پر حملہ کیا اور انہیں پیچھے دھکیل دیا۔[55]

حوالہ جات

  1. 1811 Cary Map of Arabia, Egypt & Abyssinia; geographicus.
  2. باسورث، سلسلہ ہای اسلامی جدید،1381ش، ص232؛ عاملی، مفتاح الکرامہ، 1419، ج17، ص188.
  3. Nakash,The Shi'is of Iraq, p. 28-36.
  4. Vassiliev, The History of Saudi Arabia, p.80.
  5. الطائی، الوہابیون خوارج ام سنۃ، 1426ق، ص244.
  6. آل محبوبہ، ماضی النجف و حاضرہا، 1406ق، ج1، ص326.
  7. طعمہ، تراث کربلاء، 1393ش، ص116.
  8. سپہر، ناسخ التواریخ، 1353ش، ج 1، ص119.
  9. فرمانیان، فرق تسنن، 1386ش، ص642.
  10. عاملی، مفتاح الکرامہ، 1419، ج22، ص263.
  11. محمدحسینی، «نخستین گزارش ہای غربیان از یورش آل سعود و وہابیان بہ کربلا(1216ق)»، ص74.
  12. روز شمار تاریخ معاصر ایران، 1385ش، ج 2، ص85؛ روز شمار تاریخ معاصر ایران، 1385ش، ج 2، ص108.
  13. امین، تاریخچہ، نقد و بررسی عقاید و اعمال وہابی ہا، 1390ش، ص75.
  14. طعمہ، تراث کربلاء، 1393ش، ص116.
  15. الطائی، الوہابیون خوارج ام سنۃ، 1426ق، ص244.
  16. براقی، «حملۀ وہابی ہا بہ نجف»، ص123.
  17. سپہر، ناسخ التواریخ، 1353ش، ج 1، ص119.
  18. سپہر، ناسخ التواریخ، 1353ش، ج 1، ص119؛ «بنیانگذاران عقائد وہابیت: حملہ وہابیہا بہ نجف اشرف»، ص50.
  19. آل محبوبہ، ماضی النجف و حاضرہا، 1406ق، ج1، ص325.
  20. «بنیانگذاران عقائد وہابیت: حملہ وہابیہا بہ نجف اشرف»، ص50.
  21. براقی، «حملۀ وہابی ہا بہ نجف»، ص124.
  22. سپہر، ناسخ التواریخ، 1353ش، ج 1، ص119.
  23. Najaf, Iranica.
  24. باسورث، سلسلہ ہای اسلامی جدید،1381ش، ص232.
  25. عاملی، مفتاح الکرامہ، 1419، ج17، ص188.
  26. براقی، «حملۀ وہابی ہا بہ نجف»، ص125.
  27. حسینی عاملی، مفتاح الکرامۃ، 1419ق، ج21، ص409.
  28. حسینی عاملی، مفتاح الکرامۃ، 1419ق، ج21، ص409؛ ج17، ص188.
  29. عاملی، مفتاح الکرامہ، 1419، ج17، ص188.
  30. براقی، «حملۀ وہابی ہا بہ نجف»، ص125.
  31. عاملی، مفتاح الکرامہ، 1419، ج21، ص409.
  32. Vassiliev, The History of Saudi Arabia, p.81.
  33. «بنیانگذاران عقائد وہابیت: حملہ وہابیہا بہ نجف اشرف»، ص51.
  34. عاملی، مفتاح الکرامہ، 1419، ج21، ص409.
  35. Najaf, Iranica.
  36. «بنیانگذاران عقائد وہابیت: سیری در تاریخ وہابیان»، ص591.
  37. سپہر، ناسخ التواریخ، 1353ش، ج 1، ص119.
  38. Vassiliev, The History of Saudi Arabia, p.81.
  39. «بنیانگذاران عقائد وہابیت: سیری در تاریخ وہابیان»، ص58-59.
  40. عاملی، مفتاح الکرامہ، 1419، ج22، ص263.
  41. Nakash,The Shi'is of Iraq, p. 28
  42. Najaf, Iranica.
  43. Nakash,The Shi'is of Iraq, p. 27–28
  44. Nakash,The Shi'is of Iraq, p. 31–36
  45. محمدحسینی، «نخستین گزارش ہای غربیان از یورش آل سعود و وہابیان بہ کربلا(1216ق)»، ص82.
  46. باسورث، سلسلہ ہای اسلامی جدید،1381ش، ص232.
  47. روز شمار تاریخ معاصر ایران، 1385ش، ج 2، ص85.
  48. روز شمار تاریخ معاصر ایران، 1385ش، ج 2، ص85؛ روز شمار تاریخ معاصر ایران، 1385ش، ج 2، ص108.
  49. روز شمار تاریخ معاصر ایران، 1385ش، ج 2، ص108.
  50. روز شمار تاریخ معاصر ایران، 1385ش، ج 2، ص85.
  51. روز شمار تاریخ معاصر ایران، 1385ش، ج 2، ص90.
  52. روز شمار تاریخ معاصر ایران، 1385ش، ج 2، ص108.
  53. امین، تاریخچہ، نقد و بررسی عقاید و اعمال وہابی ہا، 1390ش، ص75.
  54. امین، تاریخچہ، نقد و بررسی عقاید و اعمال وہابی ہا، 1390ش، ص75.
  55. سجادی، «آل سعود»، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی

نوٹ

  1. سعود بن عبد العزیز بن عبدالرحمن آل سعود کے ساتھ(سعودی عرب میں بادشاہی نظام کے بانی کے چوتھے بیٹے، 1902ء- 1969ء) اشتباہ نہ ہو
  2. اس اس واقعہ کی تفصیل کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر اعتماد السلطنہ نے اپنی ڈائری میں اس واقعہ کو کربلا کے قتل عام کے ایک سال بعد یعنی سنہ 1217 ہجری سے متعلق سمجھا ہے[9] ناسخ التواریخ میں سپہر نے نجف پر حملے کو کربلا پر حملہ سے پہلے ذکر کیا ہے۔
  3. کتاب مفتاح الکرامہ میں سید محمد جواد حسینی عاملی کے کچھ تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ محاصرے کے دوران نجف میں تھے اور ان کے واقعات کا بیان اس واقعہ کے ابتدائی نقل میں سے ایک ہے۔[28]

مآخذ

  • آل محبوبہ ، جعفر بن باقر، ماضی النجف و حاضرہا، بیروت، دار الأضواء، 1406ق/1986ء۔
  • امین، محسن، تاریخچہ، نقد و بررسی عقاید و اعمال وہابی ہا، تہران، امیرکبیر، 1390ہجری شمسی۔
  • باسورث، کلیفورد ادموند، سلسلہ ہای اسلامی جدید: راہنمای گاہ شماری و تبارشناسی، ترجمۀ فریدون بدرہ ای، تہران، مرکز بازشناسی اسلام و ایران، 1381ہجری شمسی۔
  • براقی، سیدحسین؛ کرمانی، مہدی، «حملہ وہابی ہا بہ نجف»، فرہنگ زیارت، شمارہ 5، زمستان 1389.
  • «بنیانگذاران عقائد وہابیت/ سیری در تاریخ وہابیان»، درسہایی از مکتب اسلام، سال 39، شمارہ 8، آبان 1378ہجری شمسی۔
  • «بنیانگذاران عقائد وہابیت: حملہ وہابیہا بہ نجف اشرف»، درسہایی از مکتب اسلام، سال 39، شمارہ 9، آذر 1378ہجری شمسی۔
  • حسینی عاملی، محمد جواد بن محمد، مفتاح الکرامۃ فی شرح قواعد العلامۃ، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1419ھ۔
  • سپہر، محمد تقی بن محمد علی. ناسخ التواریخ، تہران، اسلامیہ، 1353.
  • سجادی، «آل سعود»، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، تہران، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، 1374ہجری شمسی۔
  • طایی، نجاح، الوہابیون خوارج أم سنۃ، بی جا: دار المیزاان، 1426ق/2005ء۔
  • طعمہ، سلمان ہادی، تراث کربلاء، تہران، مشعر، چاپ اول، 1393ہجری شمسی۔
  • فراہانی، حسن؛ بہبودی، ہدایت اللہ، روز شمار تاریخ معاصر ایران، تہران، مؤسسہ مطالعات و پژوہش ہای سیاسی، 1385ہجری شمسی۔
  • فرمانیان، مہدی، فرق تسنن، قم، نشر ادیان، 1386ہجری شمسی۔
  • محمدحسینی، کامران، «نخستین گزارشہای غربیان از یورش آل سعود و وہابیان بہ کربلا (1216ھ۔)». میقات حج، شمارہ 110، 1398ہجری شمسی۔
  • Najaf, Iranica.
  • Vassiliev, Alexei,The History of Saudi Arabia, Saqi, 2013.
  • Nakash, Yitzhak, The Shi'is of Iraq Paperback, US, Princeton University Press, 2003.

سانچہ:نجف