خوجہ اثناعشری
عمومی معلومات | |
---|---|
بانی | ملا قادر حسین |
مبداء | 1822ء |
قدمت | انیسویں صدی عیسوی |
وسعت مکانی | دنیا کے پانچ براعظموں میں مخصوص تشخص کے ساتھ موجود ہیں |
اہم شہریں | زنگبار |
مذہبی معلومات | |
از فرق | شیعہ اثنا عشری |
موجودہ صورت حال | |
تعداد پیروان | تقریبا 125000 نفوس |
اہم مراکز | خوجہ اثناعشری مسلم کمیونیٹیز، بلال مسلم مشن |
شخصیات | |
مذہبی | سید سعید اختر رضوی، دیوجی جمال |
سیاسی | محمد علی جناح |
خوجہ اثنا عشری، خوجوں کی ایک شاخ ہے جن کا تعلق شیعہ اثناعشریہ سے ہے۔ خوجوں کا تعلق برصغیر کے ہندوؤں کی ایک شاخ سے ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد خوجوں کے نام سے مشہور ہوئے۔ خوجوں کے پہلے امام آقا خان محلاتی کی سختی اور شیعہ علماء کے ساتھ رابطے کی وجہ سے ان میں سے ایک گروہ نے مذہب اسماعیلیہ چھوڑ کر مذہب شیعہ اثنا عشری اختیار کیا۔
یہ لوگ زیادہ تر پاکستان، ہندوستان اور تنزانیہ میں رہتے ہیں؛ لیکن امریکہ، کینیڈا اور انگلستان میں بھی موجود ہیں۔ خوجہ شیعوں کے آداب و رسوم اسلامی تہذیب اور ہندوستان کے رسم و رواج کا مرکب ہے۔ یہ لوگ جہاں کہیں بھی جائیں نظم و ضبط اور مذہبی مناسک کی بہتر انجام دہی کی خاطر کسی تنظیم کی بنیاد رکھتے ہیں جسے وہ "جماعت" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے بین الاقوامی سطح پر بھی تنظیموں کی بنیاد رکھی ہیں جن میں خوجہ اثنا عشری مسلم کمیونیٹیز، بلال مسلم مشن اور ویپاز (WIPAHS عالمی اسلامی تبلیغات اور انسانی خدامات) قابل ذکر ہیں۔
ملا قادر حسین اور دیو جی جمال کو خوجہ اثنا عشری کے بانیوں میں سے قرار دیتے ہیں۔ ان کی بعض سیاسی اور مذہبی مشہور شخصیات میں تنزانیہ میں بلال مسلم مشن کے بانی سید سعید اختر رضوی اور بانی پاکستان محمد علی جناح کا نام لیا جا سکتا ہے۔
خوجہ
خوجہ پندرہویں صدی عیسوی میں بر صغیر کے شہر سندھ میں زندگی گزارنے والے مسلمانوں کو کہا جاتا ہے۔[1] ان کا تعلق شروع میں ہندو مذہب سے تھا اور پیر صدر الدین نامی شخص کے ہاتھوں انہوں نے اسلام قبول کیا۔[2]
شروع میں خوجوں کے آداب و رسوم ہندو رسم و رواج اور اسلامی تہذیب کا آمیزہ تھے؛[3] لیکن بعد میں اسماعیلیوں کے پہلے امام آقا خان اول کی کوششوں سے نماز، روزہ اور زیارت جیسی دیگر اسلامی تعلیمات سے آشنا اور ان پر عمل پیرا ہونے لگے۔[4]
اس کے بعد ان کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے ان میں سے بعض اسماعیلہ سے جدا ہو کر سنی اور بعض شیعہ ہو گئے۔[5]
خوجہ اثناعشری
سنہ 1870ء کے اوایل میں خوجوں کی ایک جماعت نے امام حسینؑ کی زیارت کے موقع پر نجف میں اس وقت کے شیعہ فقیہ زین العابدین مازندرانی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انہوں نے اپنے آپ کو شیعہ کے عنوان سے پیش کیا اور کہا کہ ہم اسلامی احکام پر عمل نہیں کرتے اور ائمہ معصومین ؑ کی زیارت کو خانہ کعبہ کی زیارت پر مقدم سمجھتے ہیں۔ جب ان کی اس بات سے آیت اللہ مازندرانی ناراض ہوئے تو انہوں نے اسلامی احکام سے انہیں روشناس کرانے کیلئے کسی کو برصغیر بھیجنے کی درخواست کی۔ آیت اللہ مازندارنی کی سفارش پر آپ کے ایک ہندوستانی شاگرد ملا قادر حسین بمبئی چلے گئے۔ وہ کسی خوجہ کے گھر قیام پذیر ہوئے اور انہیں شیعہ مذہب کی تعلیم دینے میں مشغول ہو گئے۔ یوں ان میں سے ایک گروہ نے شیعہ اثنا عشری مذہب قبول کیا۔[6]
سنہ 1880ء کے اوائل میں آیت اللہ ابو القاسم نجفی خود شیعہ مذہب کی ترویج کیلئے برصغیر تشریف لے گئے۔[7] آپ نے بمبئی میں شیعوں کی پہلی نماز جمعہ قائم کی۔[8] خوجہ اثنا عشری اسماعیلیوں کے خوف سے مدتوں اپنی سرگرمیوں کو مخفی طور پر انجام دیتے تھے لیکن سنہ 1899ء میں انہوں نے مستقل طور پر اپنی جماعت قائم کی۔[9] اس کے بعد سے ان کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔[10]
اعتقادات اور مذہبی تہذیب
خوجہ اثناعشری اصول دین اور فروع دین میں مذہب شیعہ اثناعشریہ کے پیرو ہیں۔[11] یہ لوگ نماز، روزہ، خمس، زکات اور صدقہ جیسے دینی احکام کے پابند ہیں۔[12] ان کے علماء نماز جماعت کو سماجی رابطوں کی تقویت کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور نماز جمعہ پر بہت زور دیتے ہیں۔[13]
خوجہ اثناعشری معصومین کی ولادت اور وفات خاص کر محرم کو نہایت عقیدت اور احترام کے ساتھ مناتے ہیں[14] اور برصغیر پاک و ہند میں دوسرے شیعوں کی طرح نوحہ خوانی اور سینہ زنی کرتے ہیں۔[15]
خوجہ اثناعشری شیعہ مراجع کی تقلید کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں ان کی اکثریت سید ابوالقاسم خویی اور سید محمدرضا گلپایگانی کے بعد آیت اللہ سید علی سیستانی کی تقلید کرتے ہیں۔[16]
خوجہ اثناعشری اپنی شرعی وجوہات کو شیعہ مراجع تقلید کے حوالہ کرتے ہیں۔ مراجع تقلید بھی انہیں سہم امام کو مذہبی امور میں صرف کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔[17] ان اجازت ناموں کی تاریخ آیت اللہ اصفہانی اور آیت اللہ بروجردی سے شروع ہوتی ہے۔[18] خوجہ اثناعشری مسلم کمیونیٹیز نے بھی پہلی بار سنہ 1960ء کو اس وقت کے شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ حکیم سے سہم امام کی اجازت دریافت کی۔[19]
آداب و رسوم
قومی تشخص کو برقرار رکھنا ان کی اولین ترجیجات میں شمار ہوتے ہیں۔[20] اسی بنا پر ان کے آداب و رسوم برصغیر پاک و ہند اور ہندوؤں کے آداب و رسوم سے متأثر ہیں۔[21] لباس میں یہ لوگ برصغیر پاک و ہند کے دیگر اقوام کی پیروی کرتے ہوئے وہاں رائج لباس پہنتے ہیں۔[22] اسی طرح برصغیر پاک و ہند کے مقامی کھانے ان کی پسندیدہ غذاؤوں میں شامل ہیں۔[23]
یہ لوگ اپنے علاوہ دوسری قوموں حتی خوجوں کی دوسری جماعت کے ساتھ کم ہی رشتہ داری کرتے ہیں۔[24] ان کے مذہبی اور سماجی آداب و رسوم جیسے شادی بیاہ اور مجالس و محافل وغیرہ میں اسلامی تہذیب اور برصغیر کے مقامی رسم و رواج سے دونوں کی جھلک دیکھی جا سکتی ہیں۔[25]
مثال کے طو پر اسلامی اور برصغیر میں رائج اسامی دونوں کے ذریعے اپنے بچوں کا نام رکھتے ہیں۔ غالبا نام کا پہلا حصہ اسلامی اور دوسرا حصہ قومی اور علاقای تشخص کی طرف اشارہ ہوا کرتا ہے جیسے: محمد دیوجی، علی دایا، جعفر نانجی و حسنین آلارخیا وغیرہ۔[26]
تنظیمیں
جماعات
اثناعشری خوجے اپنی اتحاد پر بہت زور دیتے ہیں۔[27] اسی بنا پر یہ جن ملکوں اور شہروں میں رہتے ہیں وہاں اپنی مذہبی اور سماجی سرگرمیوں کو منظم انداز میں انجام دینے کیلئے مقامی سطح پر ایک تنظیم تشکیل دیتے ہیں جسے یہ لوگ جماعت کہتے ہیں۔[28] یہ جماعتیں غالبا کسی وفاقی تنظیم کی سرپرستی میں کام کرتی ہیں۔[29]
خواجہ اثناعشریوں کی پہلی جماعت سنہ 1882ء میں شہر زنگبار میں وجود میں آئی۔[30] سنہ 1899ء میں رسمی طور پر بمبئی جماعت کا بھی افتتاح ہوا۔[31]
بین الاقوامی تنظیمیں
عالمی خوجہ شیعہ اثناعشری مسلم کمیونیٹیز خوجوں کی سب سے بڑی تنظیمی ڈھانچہ ہے جو دنیا میں اثناعشری خوجہ جماعتوں کی سرپرستی کرتی ہے۔[32] اس تنظیم کو مذہب تشیع کی تبلیغ اور خوجوں کی علمی اور مالی حالت میں بہتر لانے کی غرض سے وجود میں لائی گئی ہے۔[33] اس وقت تیس جماعتیں اور چار علاقائی فیڈریشنیں اس کے زیر نظر اپنی فعالیتوں میں مصرف ہیں جن کے اعضاء کی مجموعی تعداد تقریبا 125000 نفوس پر مشتمل ہے۔[34]
بلال مسلم مشن
بلال مسلم میشن خوجہ اثناعشری شیعوں کی ایک اہم تنظیم ہے۔[35] اسے سنہ 1968ء کو سید اختر رضوی اور تنزانیہ دیگر شیعہ راہنماوں نے مذہب تشیع کی ترویج[36] کیلئے تأسیس کی ہیں۔[37] تنزانیہ کے اکثز شہروں میں اس تنظیم کے فعال مراکز موجود ہیں۔ [38] اس کے علاوہ کنیا، ماداگاسکار، بوروندی اور امریکہ جیسے ملکوں میں بھی اس کے شعبہ جات موجود ہیں۔[39]
ویپاز(WIPAHS)
ویپاز (عالمی اسلامی تبلیغات اور انسانی خدامات) تنزانیہ میں اثناعشری خوجوں کی سب سے اہم تبلیغی تنظیم ہے جس کی بنیاد سنہ 1980ء میں رکھی گئی ہے۔[40] یہ تنظیم افریقہ میں موجود دیگر متعلقہ تنظیموں جیسے بلال مسلم مشن وغیره سے مستقل طور پر کام کرتی ہے۔[41] "مسلمانوں کے درمیان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صلح اور دوستی کا پیغام کی تبلیغ"، "تعلیم کے ذریعے فقر و تندستی کا خاتمہ" اور "مریضوں اور غریوں کی دیکھ بھال" اس تنظیم کے اہم اہداف میں سے ہیں۔[42]
اہم شخصیات
اثنا عشری خوجوں کے بعض مذہبی اور سیاسی سمجاجی شخصیات درج ذیل ہیں:
- ملا قادر حسین (متوفی 1890ء)، آیت اللہ مازندرانی کا نمائندہ اور بمبئی میں اثنا عشری خوجوں کی پہلی جماعت کے بانی۔ آپ خوجہ تو نہیں تھے لیکن چونکہ خوجوں کے درمیان آپ پہلا شیعہ عالم دین تھا اسلئے انہیں بھی خوجوں میں شمار کیا جاتا ہے۔[43]
- دیو جی جمال (1820-1905ء) آپ بر صغیر شیعہ اثناعشری خوجوں کے پہلے راہنماوں میں سے تھے۔[44]
- محمد علی جناح (1876-1948ء)، بانی پاکستان۔[45]
- سید سعید اختر رضوی (1927-2002ء)، تنزانیہ میں بلال مسلم مشن کے بانی۔[46]
- ملا اصغر (1936۔2000 ء)، خوجہ اثنا عشری مسلم کمیونیٹیز کے صدر۔[47] آپ سنہ 1991ء کو آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے عالمی اہل بیت اسمبلی کے شورائے عالی کے رکن منتخب ہوئے۔[48]
دیگر شخصیات
اثنا عشری خوجوں کے بعض دیگر شخصیات یہ ہیں: حاجی ناجی (1864-1943ء)، غلام حسین ولی محمد درسی (سلسبیل)، حاجی داوود حبیب، محمد شریف دیو جی، علی محمد جعفر دیو جی، دایا والجی، غلام عباس قاسم علی بہادر علی ملو جی، احمد دیو نگرسی اور نظیر جسا وغیرہ۔[49]
مجلات
اثنا عشری خوجوں نے اب تک مختلف ممالک میں کثیر تعداد میں نشریات منتشر کر چکے ہیں جن میں بمبئی میں "مجلات راہ نجات" (1890ء) اور "نور ایمان" (1892ء)، احمد آباد میں "باغ نجات" (1906ء) اور زنگبار میں "منادی" اور "سلسبیل" (1924ء) کا نام لیا جا سکتا ہے۔[50]
اس وقت بھی "ساماچار" (افریقہ میں خوجہ اثنا عشریوں کا رسمی مجلہ)، "Insight" (اثناعشری خوجوں کا بین عالمی نشریہ)، "Sauti ya Bilal" (صدائے بلال، بلال مسلم مشن کا رسمی مجلہ)، "The light" (نور، بلال مسلم مشن کا رسمی مجلہ) اور "Shia International" مختلف زبانوں میں منتشر ہو رہے ہیں۔[51]
دینی درسگاہیں
خوجہ اثنا عشریوں نے مختلف ممالک من جملہ امریکہ، انگلستان، شام، تنزانیہ اور کنیہ میں دینی درسگاہوں کی بنیاد رکھی ہیں جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
- برمنگہم میں حوزہ علمیہ سید الخوئی
- نیو یارک میں حوزہ علمیہ جامع ولی عصر
- دمشق میں انسٹیٹیو عالی مطالعات اسلامی
- تنزانیہ میں مدرسہ دینی اہل بیت للعوم الاسلامیہ
- کینیا میں مدرسہ دینی امیرالمؤمنین
- برمنگہم میں حوزہ المہدی [52]
خوجہ نشین مناطق
خوجہ اثنا عشری اصل میں برصغیر کے شہر گجرات کے علاقہ گچ کے رہنے والے تھے؛[53] لیکن اس وقت یہ لوگ دنیا کے مختلف ممالک میں موجود ہیں۔[54]
خوجہ اثنا عشری مسلم کمیونیٹیز کی رسمی ویب سائٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ان کی آبادی تقریبا 125000 نفوس پر مشتمل ہے۔[55] ان میں سے تقریبا 25000 نفوس ہندوستان کے مختلف شہروں من جملہ گچ، گجرات اور بمبئی وغیرہ میں رہتے ہیں۔[56] تقریبا 42000 کے لگ بھک پاکستان میں سکونت پذیر ہیں جن میں سے اکثر کراچی میں رہتے ہیں۔[57]
افریقہ میں تقریبا 15000 کے قریب خوجہ اثنا عشری موجود ہیں[58]، تنزانیہ اور کنیہ ان کے اہم مراکز میں شمار ہوتے ہیں۔[59] تقریبا 15000 امریکہ، کنیڈا اور یورپ میں مقیم ہیں۔[60] کینیڈا میں 4 سے 5 ہزار تک خوجہ اثنا عشری موجود ہیں۔[61] انگستان لندن کی حجت جماعت تقریبا 5 ہزار اعضاء پر مشتمل ہے جو ان کی سب سے بڑی جماعت شمار ہوتی ہے۔[62]
امارات، بنگلادیش، یمن، عمان،[63] زنگبار، یوگانڈا، سومالیہ، مڈغاسکر،[64] ہالینڈ اور فرانس بھی ان ممالک میں شمار ہوتے ہیں جہاں پر اثنا عشری خوجے آباد ہیں۔[65]
ایران کے ساتھ تعلقات
چونکہ ایران کی اکثریت شیعہ اثناعشریہ ہیں اسلئے خوجہ اثنا عشری کو ایران سے دلی لگاؤ ہے۔[66] یہ لوگ امام رضاؑ اور حضرت معصومہ(س) کی زیارت کی غرض سے ایران کا سفر کرتے ہیں۔ ان کے بعض نوجوان نسل دینی تعلیم کی خاطر ایران کے دینی درسگاہوں میں تحصیل علم میں مشغول ہیں۔[67]
اگرچہ سیاسی مسائل میں خوجہ اثناعشریوں کی کوئی خاص دلچسپی نہیں لیکن اہم سیاسی مسائل میں یہ لوگ بھی اپنے نکتہ نظر کا اظہار کرتے ہیں۔ مثلا خوجہ اثنا عشری مسلم کمیونیٹیز افریقہ نے امام خمینی کی عراق جلاوطنی پر ایران کے بادشاہ پر اعتراض کیا۔[68] اسی انگلستان میں مقیم خوجہ اثناعشریوں کے راہنما حبیب والجی نے امام خمینی کے فرانس جلاوطنی کے دوران آپ سے ملاقات اور آپ کی انقلابی جد و جہد کی حمایت کی۔[69]
اثناعشری خوجوں کے مختلف راہنماؤوں مختلف مناسبتوں میں ایران کے راہنماؤوں سے ملاقات کرتے ہیں۔ اس کی مثال خوجہ اثنا عشری مسلم کمیونیٹیز کے سابق صدر ملا اصغر کی امام خمینی کے ساتھ ملاقات ہے۔[70] اسی طرح سنہ 1996ء میں اس وقت کے ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی کی تنزانیہ اور کنیہ کے دورے کے دوران خوجہ اثنا عشری مسلم کمیونیٹیز افریقہ کے صدر محمد دیرانی نے ان کا استقبال کیا۔[71]
عالمی خوجہ اثنا عشری مسلم کمیونیٹیز نے ایران کے شہر رودبار اور بم میں آنے والے زلزلے میں وہاں کے لوگوں کی مدد کی۔[72] آیتاللہ خامنہای کے دفتر کی جانب سے ایران کی مختلف یونیورسٹیوں میں تعلیم کے لئے افریقی جوانوں کو دی جانے والی اسکالر شپ بھی عالمی خوجہ اثنا عشری مسلم کمیونیٹیز کے حوالہ کی جاتی ہیں۔[73]
حوالہ جات
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آیینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، صفحہ یازدہ۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آیینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، صفحہ یازدہ۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آیینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، صفحہ یازدہ۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۱۷۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۱۸و۱۹۔
- ↑ عرباحمدی، شیعیان خوجہ اثناعشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۱۹۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۲۰۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثناعشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۲۰۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۲۰۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۲۱۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثناعشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۹۹۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آیینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، ص۵۴۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آیینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، ص۵۴۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آیینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، ص۵۴۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آیینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، ص۵۶۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آیینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، ص۵۵۔، روغنی، شیعیان خوجہ در آیینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، ص۵۵۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آیینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، ص۵۴۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آیینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، ص۵۴۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آیینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، ص۵۴۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۳۲۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثناعشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۳۱و۳۲۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثناعشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۳۶۔
- ↑ عرباحمدی، شیعیان خوجہ اثناعشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۳۶و۳۷۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۳۲۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۳۲۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثناعشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۳۸۔
- ↑ عرباحمدی، شیعیان خوجہ اثناعشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۲۹۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آیینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، ص۸۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آیینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، ص۲۵۔
- ↑ عرباحمدی، شیعیان خوجہ اثناعشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۲۹۴۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آیینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، ص۶۴۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آئینہ تاریخ، ص۲۴۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آئینہ تاریخ، ص۲۴۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آئینہ تاریخ، ص۲۵۔
- ↑ رنجبر شیرازی، شیعیان تانزانیا، ۱۳۹۳ش، ص۷۷۔
- ↑ امینی، تانزانیا، ۱۳۷۵ش، ص۲۳۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، ص۱۵و۱۶۔
- ↑ عرباحمدی، شیعیان خوجہ اثناعشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۱۷۴۔
- ↑ عرباحمدی، شیعیان خوجہ اثناعشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۱۷۵۔
- ↑ عرباحمدی، شیعیان خوجہ اثناعشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۷۔
- ↑ عرباحمدی، شیعیان خوجہ اثناعشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۷۔
- ↑ عرباحمدی، شیعیان خوجہ اثناعشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۷۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۷ش، ص۳۴۰۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، ص۱۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آئینہ تاریخ، ص۱۴۱و۱۴۲۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، ص۱۵۷۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آئینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، ص۱۵۲۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، ص۴۱۲۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، ص۱۳۵-۱۵۰۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۲۰۸۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۲۰۹-۲۱۲۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان تانزانیا، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۱۱۶-۱۲۱۔
- ↑ جان احمدی و رنجبر شیرازی، «شیعیان تانزانیا و وضعیت آنان»، ص۳۹۔
- ↑ جاناحمدی و رنجبر شیرازی، «شیعیان تانزانیا و وضعیت آنان»، ص۳۹۔
- ↑ «About The World Federation of KSIMC»، وبگاہ The World Federation of KSIMCf Of Khoja Shia Ithna-Asheri Muslim Communities، دیدہشدہ در ۲۰ آبان ۱۳۹۷ش۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۷ش، ص۲۷۱۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۷ش، ص۲۷۷۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان تانزانیا، ۱۳۷۹ش، ص۴۰۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۷ش، ص۲۸۶۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان تانزانیا، ۱۳۷۹ش، ص۴۰۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۷ش، ص۳۳۴۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۷ش، ص۳۱۱۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۷ش، ص۲۷۹-۲۸۴۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۷ش، ص۲۹۴-۳۰۵۔
- ↑ عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۷ش، ص۳۱۰۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آئینہ تاریخ، ص۶۲۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آئینہ تاریخ، ص۶۲۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آئینہ تاریخ، ص۶۲۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آئینہ تاریخ، ص۶۲۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آئینہ تاریخ، ص۶۴۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آئینہ تاریخ، ص۶۴۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آئینہ تاریخ، ص۶۴۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آئینہ تاریخ، ص۶۴۔
مآخذ
- امینی، رحیم، تانزانیا، تہران، دفتر مطالعات سیاسی و بین المللی، ۱۳۷۵ش۔
- جاناحمدی، فاطمہ و روحاللہ رنجبر شیرازی، شیعیان تانزانیا و وضعیت آنان (با تأکید بر شیعیان خوجہ اثنا عشری)، فصلنامہ علمی و پژوہشی شیعہ شناسی، ش۴۰، ۱۳۹۱ش۔
- رنجبر شیرازی، روح اللہ، شیعیان تانزانیا؛ بررسی وضعیت فرہنگیاجتماعی، قم، انتشارات شیعہ شناسی، چاپ اول، ۱۳۹۳ش۔
- روغنی، زہرا، شیعیان خوجہ در آینہ تاریخ، پژوہشگاہ علوم انسانی و مطالعات فرہنگی، تہران، ۱۳۸۷ش۔
- عرب احمدی، امیر بہرام، شیعیان خوجہ اثنا عشری در گسترہ جہان، مؤسسہ شیعہ شناسی، قم، ۱۳۸۹ش۔
- عرب احمدی، امیر بہرام، شیعیان تانزانیا دیروز و امروز، تہران، انتشارات بین المللی الہدی، ۱۳۷۹ش،
- «About The World Federation of KSIMC»، وبگاہ The World Federation of KSIMCf Of Khoja Shia Ithna-Asheri Muslim Communities، دیدہ شدہ در ۲۰ آبان ۱۳۹۷ش۔