آیت اللہ
آیَتُ اللّہ، یا آیۃ اللہ کا معنی خدا کی نشانی ہے اور اس عنوان کو شیعہ فقہاء کے علمی مقام اور منزلت کی خاطر اطلاق کیا جاتا ہے جس کا آغاز چودہویں صدی کے اوائل سے ہوا۔ پہلی شخصیت جن پر آیت للہ کا اطلاق ہوا وہ علامہ حلی تھے۔ جب آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری نے حوزہ علمیہ قم کی بنیاد رکھی اور اس حوزہ علمیہ کو مرکزیت حاصل ہوئی تو اس میں بہت بڑے فقہا اکھٹے ہوئے جن پر آیت اللہ کا عنوان اطلاق ہوا۔
آیت اللہ کا استعمال
بعض القاب جیسے: ثِقَۃ الاسلام، حُجَّۃ الاسلام، محقق، علامہ اور پہلی بار آیت اللہ، علماء اور فقہاء کی تعظیم کی خاطر خاص موارد میں استعمال کیا جاتا تھا جو اب ایک عام عنوان کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ چوتھی صدی ہجری قمری میں ثقۃ الاسلام کا عنوان محمدبن یعقوب کلینی کیلئے، پانچویں صدی میں حجۃ الاسلام کا عنوان امام محمد غزالی کیلئے، ساتویں صدی میں محقق کا عنوان جعفر بن حسن حلی کیلئے اور آٹھویں صدی میں علامہ اور آیۃاللہ کا عنوان حسن بن یوسف حلی کے اوپر اطلاق ہوا اور یہ تمام القابات استعمال کے بعد کئی سال تک فقط انہی افراد پر اطلاق ہوتے تھے۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا آیت اللہ کا عنوان "حسن بن یوسف بن علی بن مطہر معروف بہ علامہ حلی پر اطلاق ہوا اس کے بعد یہ عنوان جن پر اطلاق ہوا وہ یوں ہیں:
- ابن حجر عسقلانی (وفات۸۵۲ق) کو آیۃ فی الذکاء کہا جاتا تھا.[1] شاید اسی لئے یا عمیق علم و دانش رکھنے کی وجہ سے انہیں آیت اللہ کا لقب دیا جاتا تھا.
- شرف الدین شولستانی، شیخ بہایی اور ملا محمدباقر مجلسی نے اپنے شاگردوں کیلئے جو اجازت نامے لکھے ہیں ان میں علامہ حلی کو آیت اللہ فی العالمین کے لقب سے یاد کئے ہیں۔[2]
- ملا محمدباقر مجلسی نے اپنے اساتید کا ذکر کرتے وقت شہید اول کو اسی لقب سے یاد کیا ہے۔
چودہویں صدی ہجری میں
چودہویں صدی ہجری تک آیت اللہ کا لقب کسی بھی فقہاء کیلئے استعمال نہیں ہوا ہے۔ چودہویں صدی کے اوائل میں پہلے حاج میرزا حسین نوری (۱۲۵۴-۱۳۲۰ق) نے اس عنوان کو سید محمد مہدی بحر العلوم کیلئے اس کے کئی عشروں کے بعد شیخ عباس قمی نے اس عنوان کو شیخ مرتضی انصاری، شیخ حسین نجف اور سید محمد حسن شیرازی کیلئے پھر رفتہ رفتہ عصر مشروطہ کے مورخین نے آخوند خراسانی، حسین خلیلی تہرانی، شیخ عبداللہ مازندرانی اور دوسرے فقہاء کیلئے اس عنوان کا استعمال کیا ہے۔[3] جب کہ اس سے پہے ان تمام فقہاء اور مراجع کو حجت الاسلام کہا جاتا تھا.
آیت اللہ العظمی
شیخ عبدالکریم حائری کے دست مبارک سے حوزہ علمیہ قم کو مرکزیت حاصل ہونے سے پہلے (۱۳۴۰ق) جو کئی فقہاء قم میں جمع ہو گئے تھے ان سب پر آیت اللہ کا اطلاق کیا گیا اس کے بعد تدریجا اس فقیہ کو جو مرجعیت میں دوسروں سے زیادہ ممتاز اور برجستہ ہوا کرتا تھا کیلئے آیت اللہ العظمی کا لقب دیا جانے لگا۔
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
مآخذ
- آقا بزرگ، الذریعۃ، ج۲، ص۴۴۴، ج۱۳، ص۱۳۳.
- آقا بزرگ، ہدیۃ الرازی الی الامام المجدد الشیرازی، تہران، ۱۴۰۳ق.
- ابن حجر عسقلانی، احمد، لسان المیزان، بیروت، ۱۳۹۰ق.
- افندی اصفہانی، عبداللہ، ریاض العلماء، بہ کوشش احمد حسینی و محمود مرعشی، قم، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۳۵۹.
- امین، محسن، محسن، اعیان الشیعۃ، بیروت، ۱۴۰۳ق، ج۵، ص۳۹۶.
- تیموری، ابراہیم، تحریم تنباکو، تہران، ۱۳۶۱ش، ص ۵۳، ۱۰۳.
- قمی، عباس، الکنی و القاب، تہران، ۱۳۹۷ق.
- کسروی، احمد، تاریخ مشروطۃ ایران، تہران، ۱۳۵۶ش.
- لغت نامہ دہخدا.
- متینی، جلال، «بحثی دربارہ سابقہ تاریخی القاب و عناوین علما در مذہب شیعہ»، ایران نامہ، س ۱، شم ۴، تابستان ۱۳۶۲ش.
- علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، ۱۴۰۳ق، ج۱، ص۳۵، ۵۸، ج۵۱، ص۳۴۳.
- ناظم الاسلام کرمانی، محمد، تاریخ بیداری ایرانیان، بہ کوشش علی اکبر سعیدی سیرجانی، تہران، ۱۳۶۲ش.
- نراقی، حسن، کاشان در جنبش مشروطۃ ایران، تہران، ۱۳۵۵ش.
- نوری، حسین، مستدرک الوسائل، تہران، ۱۳۸۲ق.
بیرونی روابط
- منبع مقالہ: دایرة المعارف بزرگ اسلامی