اسلام

ویکی شیعہ سے
(اسلام ناب محمدی سے رجوع مکرر)

اسلام ابراہیمی ادیان میں سے آخری دین ہے۔ قرآن مجید و احادیث کی روشنی میں اس کے بعد کوئی اور دین یا شریعت نہیں آئے گی۔ اس دین کا آغاز سنہ 610 عیسوی کو جزیرہ نما عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں ہوا۔ اس دین کے پیغمبر حضرت محمد ؐ ہیں جنہوں نے آخری نبی ہونے کی وجہ سے خاتم الانبیاء کا لقب پایا ہے۔ اسلام کی آسمانی اور مقدس کتاب قرآن کریم، جبکہ خانہ کعبہ مسلمانوں کا قبلہ ہے جو مکہ مکرمہ میں واقع ہے۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے ساتھیوں کے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ جانے کے بعد پورے جزیرۂ عرب میں اسلام تیزی سے پھیل گیا۔

بنیادی طور پر اسلامی تعلیمات کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: عقائد، احکام اور اخلاق۔ اہم ترین اعتقادی رکن توحید جبکہ اساسی ترین عبادت نماز ہے۔

اسلام کے دو بڑے مذہب شیعہ و اہل سنت ہیں جن میں سے ہر ایک مختلف فرقوں میں منقسم ہیں۔ ان مذاہب یا فرقوں کا اہم ترین اختلاف امامت اور پیغمبر اکرم ؐ کی جانشینی کے مسئلے میں ہے۔

اسلام کا اجمالی تعارف

ادیان کی تقسیم‌ بندی کے لحاظ سے اسلام الہی، توحیدی اور ابراہیمی ادیان میں سے ایک ہے۔ مسلمان اس بات کے معتقد ہیں کہ خدا ایک ہے۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خدا کے آخری نبی ہیں اور قرآن مجید خدا کی آخری کتاب ہے جو جبرئیل ؑ کے ذریعے حضرت محمد ؐ کے اوپر خدا کی جانب سے نازل ہوئی ہے۔

اسلام کا آغاز جزیرۃ العرب (موجودہ سعودی عرب) کے مقدس شہر مکہ مکرمہ میں ہوا اور خانہ کعبہ جو اسی شہر میں واقع ہے مسلمانوں کا قبلہ شمار ہوتا ہے۔ مسلمان دن میں پانج وقت اسی کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مالی حیثت رکھنے والے ہر مسلمان مرد اور عورت پر پوری عمر میں ایک بار حج واجب ہوتا ہے۔ حج اسلام کے عبادی ارکان میں سے ہے جو سال میں کے کچھ مخصوص ایام میں خانہ کعبہ کے طواف کی شکل میں انجام پاتا ہے۔

اسلام کے لغوی اور اصطلاحی معنی

اسلام کا لفظ "س- ل- م"[1] سے ماخوذ ہے جس کے معنی صحت، عافیت اور ہر قسم کے عیب، نقص اور فساد سے دوری کے ہیں۔[2]

نیز اسلام کے ایک معنی بغیر کسی قید و شرط کے مکمل اطاعت اور فرمانبرداری بھی ہے[3]]اسی طرح خدا کے حکم پر مکمل یقین اور اس کی عبادت میں اخلاص رکھنے کو بھی اسلام کہا جاتا ہے۔[4]

اسلام سے قبل جزیرۃ العرب کے باشندے لفظ "اسلام" کو کسی چیز کو چھوڑنے اور اس سے ہاتھ اٹھانے کے معنی میں استعمال کرتے تھے۔ یعنی جب کوئی شخص اپنی ملکیت کی پسندیدہ چیز سے ہاتھ اٹھاتا اور کسی دوسرے کے لیے اسے بخش دیا جاتا تھا، اس موقع پر عرب کے باشندے لفظ "اسلام" کو استعمال کرتے تھے۔ اس لحاظ سے اسلام کے معنی بلا شرط و شروط مکمل اطاعت کرنے کے معنی میں آتا ہے ۔[5]

سید حسین نصر کے بقول مسلمان وہ ہے جس نے اپنے ارادے اور اختیار سے اپنے آپ کو خداوند عالم کا مطیع اور فرمانبردار قرار دیا ہے۔[6] علامہ طباطبائی کے بقول اس دین کو اسلام کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس دین میں انسان خدا کے ارادے کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے ۔[7]

اسلام کا لفظ قرآن میں آیا ہے۔ قرآن کی بعض آیتوں کے مطابق اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین خدا کیلئے قابل قبول نہیں ہے[8] اور اسلام کے آنے کے بعد خدا کے ہاں فقط اسلام ہی معتبر ہے ۔[9] پیامبر اسلام سے بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں اپنے دین کو اسلام اور اپنے پیروکاروں کو مسلمان کہا ہے۔ رک: ری‌شہری، محمد، میزان الحکمہ، ج۳، ص۱۳۳۸- ۱۳۴۵

مسلمان اور مؤمن

ہر شخص "اشهد ان لااله الا الله" اور "اشهد ان محمدا رسول الله" کہنے کے بعد اسلام میں داخل ہو جاتا ہے اور اسے مسلمان کہا جاتا ہے۔ ان دو جملوں کا کہنا حقیقت میں خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اسلام کی رسالت پر گواہی دینا ہے اس کے بغیر انسان اسلام کے دائرے سے خارج اور کافر شمار ہوتا ہے۔[10]

مسلمان کی یہ تعریف اسلام قبول کرنے کے ابتدائی مرتبے کا نام ہے۔ اس مرحلے میں ممکن ہے انسان کا دل اور زبان ایک دوسرے سے متفاوت ہوں یعنی زبان پر تو کہہ رہا ہے لیکن دل میں یقین نہ ہو. یعنی پیغمبر خاتم کی شریعت کو قبول کرنے کا پہلا اور ظاہری مرحلہ شہادتین کا زبان پر اظہار کرنا ہے۔ لیکن ایمان کیلئے زبان پر شہادتین کے جاری کرنے کے ساتھ ساتھ دل سے یقین بھی کرنا ضروری ہے۔ پس اسلام کے معنی زبانی اور ظاہری طور پر قبول کرنے کو کہتے ہیں چاہے دل میں یقین ہو یا نہ ہو لیکن ایمان کیلئے اس کے ساتھ ساتھ دل سے یقین اور باور کرنا بھی ضروری ہے۔[11]

علماء امامیہ اور اہل سنت کے بعض متکلمین قرآن کی آیات کی روشنی میں ان دو معانی کے درمیان فرق کے قائل ہیں۔ باقلانی سورہ حجرات کی آیت نمبر 14 سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اسلام ایک عام معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی اسلام جوارحی ہے جبکہ ایمان قلبی۔ [12] دوسرے لفظوں میں اسلام ایک ظاہری امر ہے جبکہ ایمان ایک باطنی امر ہے۔ علامہ طباطبائی مذکورہ آیت کے علاوہ سورہ احزاب کی آیت نمبر 35 جو مؤمنین اور مؤمنات کی توصیف کرتی ہے، کو مسلمین اور مسلمات سے مختلف جانتے ہیں اور ان دو مفہوموں کے متفاوت ہونے پر محکم دلائل پیش کرتے ہیں۔[13] البتہ خوارج اور معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ یہ دونوں مفہوم کے اعتبار سے ایک ہیں۔ [14]

قرآن کی بعض آیتوں میں اسلام اور ایمان اس طرح استعمال ہوئے ہیں کہ ان سے ایک قسم کی یگانگت اور وحدت کا اظہار ہوتا ہے لیکن جیسا کہ بعض اشاعرہ کے متکلمین نے کہا ہے، یہ آیات اسلام اور ایمان کے مصداق کو مد نظر رکھتی ہیں جبکہ مفہوم کے اعتبار سے ان دونوں کی یگانگت اور تساوی کو ثابت نہیں کرتی ہیں۔[15]

پیغمبر اسلام

دین اسلام کا بانی حضرت محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب ہے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے آپ ؐ آخری نبی ہیں جسے خدا کی طرف سے انسانوں کی ہدایت کیلئے بھیجا گیا۔ مسلمان آپؐ کو برترین انسان اور اپنی زندگی میں آپ کو ایک بہترین نمونہ عمل اور آئیڈیل شخصیت مانتے ہیں۔ اکثر مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ آپ عصمت کےمرتبے پر فائز ہیں اور علم غیب سے آگاہ ہیں۔

آپ جزیرۃ العرب کے ایک مشہور قبیلہ قریش کے چشم و چراغ ہیں اور سنہ 570 عیسوی میں مکہ مکرمہ میں متولد ہوئے۔ بچپنے میں ماں باپ کے سائے سے محروم ہوگئے اور قریش کے سردار اور اپنے دادا حضرت عبد المطلب کے ہاں پرورش پائی اور ان کی وفات کے بعد اپنے چچا حضرت ابوطالب کے زیر سایہ زندگی گزاری۔

اپنی زندگی میں کبھی بھی بت پرستی نہیں کی جو کہ اس وقت مکہ میں رائج تھی۔ مکہ کے باشندے آپؐ کو صادق اور امین کے نام سے پکارتے تھے۔ آپ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت پر مبعوث کیا گیا اور غار حرا میں جبرئیل امین کے ذریعے پہلی بار آپ پر وحی نازل ہوئی۔

آسمانی کتاب

قرآن مسلمانوں کا آسمانی اور مقدس کتاب ہے جو ان کے اعتقادات اور فروعی احکام کا اصلی ماخذ و منبع ہے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے قرآن وحی الہی ہے اور خدا کی جانب سے فرشتہ وحی (جبرئیل) کے ذریعے پیغمبر اسلام پر نازل ہوا ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی باطل اور غلط چیزوں سے پاک و منزہ ہے اور نازل ہونے کے بعد سے اب تک کسی تحریف کے بغیر اصلی حالت میں باقی ہے۔

قرآن 114 سورں پر مشتمل ہے اور ہر سورہ کئی آیات پر مشتمل ہے۔ جن کی مجموعی تعداد تقریبا 6236 آیات ہیں۔[16]

اسلام شناسی کے منابع

قرآن کریم، پیغمبر اسلام ؐ اور ائمہ معصومین کے فرامین اسی طرح اصحاب کے گفتار اور رفتار ایسے منابع ہیں جو اسلام کے اعتقادات اور فروعات کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔

البتہ ائمہ معصومین کی سیرت فقط شیعوں کے نزدیک حجت ہیں اسیطرح اصحاب کی سیر اہل سنت کے مختصات میں سے ہے اور شیعیان اصحاب کی سیرت کو حجت نہیں سمجھتے اور انہیں قابل نقد جانتے ہیں۔

مسلمانوں کی اہم کتابیں

شیعوں کے ہاں اہم ترین حدیثی کتابیں چار ہیں: الکافی، تہذیب الاحکام، الاستبصار اور من لا یحضرہ الفقیہ

اہل سنت کی اہم حدیثی کتابیں صحاح ستہ کے نام سے مشہور ہیں : صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، سنن ابی داود اور صحیح ترمذی

اسلام کی بنیادی تعلیمات

اسلامی تعلیمات کو تین حصوں اعتقادات، اخلاقیات اور احکام عملی میں تقسیم کرتے ہیں۔[17]

  1. اعتقادات: ان بنیادی اصول کے مجموعے کو اعتقادات یا اصول دین کہا جاتا ہے جو دین اسلام کی اساس کو تشکیل دیتے ہیں اور ہر مسلمان کا ان پر عقیدہ اور یقین رکھنا ضروری ہوتا ہے ورنہ وہ مسلمان نہیں ہوتا ہے؛ یعنی اصول دین میں سے کسی ایک کا انکار موجب کفر اور عذاب خداوندی کا باعث ہے۔
  2. اخلاقیات: یعنی ایسی خصلتیں جو ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو ان خصلتوں سے مزین کریں اور ان کی متضاد خصلتوں سے اپنے آپ کو پاک کریں۔
  3. احکام: انسان کی عملی زندگی سے متعلق ایسے دستورات جن پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنی دنیا اور آخرت کو سعادت مند زندگی میں تبدیل کر سکتا ہے۔ چاہے یہ اس کی دنیوی زندگی سے مربوط ہو یا معاد سے، اس کی انفرادی زندگی سے مربوط ہو یا اس کی اجتماعی زندگی سے۔

اصول دین

اسلامی اعتقادات تین بنیادی اصول توحید، نبوت اور معاد میں تقسیم ہوتے ہیں جنہیں اصول دین کہا جاتا ہے۔ یعنی ایسے اصول جن پر عقیدہ رکھنا ہر مسلمان کیلئے لازمی اور ضروری ہے۔ دوسرے اعتقادات کی جڑیں انہی تین اصولوں میں پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک مسلمانوں کو دوسرے ادیان کے پیروکاروں سے ممتاز کر دیتا ہے۔شیعہ مذہب میں امامت اور عدل بھی اصول دین میں سے شمار ہوتے ہیں۔

توحید

اسلامی اعتقادات میں سب سے اہم توحید یعنی ایک مشخص اور معین خدا پر ایمان رکھنا۔ اسلامی عقیدے کے مطابق خدا تمام کائنات کا خالق ہے اور پالنے والا ہے۔ خدا کی یگانگی پر اعتقاد کو توحید کی تین شاخوں توحید ذاتی، توحید صفاتی اور توحید افعالی میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ توحید کہ یہ تینوں قسمیں درحقیقت نظری اور ذہنی مفاہیم ہیں جن پر اعتقاد رکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔

توحید عملی، توحید نظری کا نتیجہ ہے جو توحید عبادی یعنی اطاعت میں توحید، توحید تشریعی (قانون گذاری) اور حاکمیت میں توحید میں تقسیم ہوتے ہیں۔[18]

نبوت

تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ خدا نے انسانوں کی ہدایت کے لئے کچھ برگزیدہ اشخاص کو مبعوث کیا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں ان اشخاص کو نبی اور رسول کہا جاتا ہے۔ پیغمبروں کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار (124000) ہے جن میں سے پانج انبیاء کو اولوالعزم کہا جاتا ہے جن کے اوپر خاص ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں۔ ان پیغمبروں میں سے بعض کی شریعت اور کتاب‌ بھی ہے۔ قرآن جو اس سلسلے کی آخری آسمانی کتاب ہے، میں تقریبا 26 انبیاء اور بعض آسمانی کتابوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ حضرت محمدؐ جس نے دین اسلام کو لوگوں کی ہدایت کیلئے لایا ہے خدا کے آخری نبی ہیں آپ ؐ کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئےگا۔ اس لئے آپ کو خاتم الانبیاء کا لقب بھی ملا ہے۔

امامت

پیغمبر اکرم ؐ کی نیابت اور جانشینی میں لوگوں کی دنیوی اور اخروی امور کی سرپرستی کرنے کو امامت کہتے ہیں۔ اس بارے میں مسلمان دو گروہ میں تقسیم ہوتے ہیں:

  1. شیعہ معتقد ہیں کی پیغمبر اسلام نے خداوند عالم کے حکم سے اپنا جانشین خود مقرر کیا ہے اس حوالے سے لوگوں کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ ان کے مقرر کئے ہوئے اشخاص کی اطاعت کریں۔ شیعوں کے مطابق حضرت علی بن ابی طالب پیغمبر کے بعد ان کے جانشین ہیں اور آپ کے بعد امام حسن مجتبی پھر امام حسین علیہم السلام امامت کے عہدے پر فائز ہیں اور امام حسین کے بعد ان کی نسل سے 9 امام امامت کے عہدے پر فائز ہیں اور امام مہدی (عج) اس سلسلے کے آخری امام اور اس وقت بھی پردہ غیب میں زندہ ہیں۔ آپؑ اللہ کے حکم سے ایک دن ظہور فرمائیں گے اور دنیا کو عدل اور انصاف سے بھر دیں جس طرح یہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ شیعوں کے بعض فرقے جیسے زیدیہ اور اسماعلیہ امام حسین کے بعد کچھ اور نظریے رکھتے ہیں اور مشہور بارہ اماموں کی امامت کے قائل نہیں ہیں۔
  2. اہل سنت معتقد ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ نے اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں فرمایا ہے بلکہ یہ کام آپؐ نے لوگوں پر چھوڑ دیا ہے اور لوگوں نے آپؐ کی رحلت کے بعد ابوبکر کو آپ کا جانشین انتخاب کیا ہے اور ان کی بیعت کی ہے۔ ابوبکر کے بعد عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان کو دوسرا اور تیسرا جبکہ علی بن ابی طالبؑ کو چوتھا خلیفہ مانتے ہیں۔

قیامت

موت اور مرنے کے بعد کی زندگی پر ایمان رکھنا تمام الہی ادیان بطور خاص اسلام کے اعتقادات میں میں شامل ہے۔ موت، عالم برزخ نیز مردوں کے زندہ ہونے کے بعد کے واقعات پر ایمان رکھنا معاد پر ایمان رکھنے میں شامل ہے۔ حشر، میزان، تطائر کتب، صراط وغیرہ بعض ایسے امور ہیں جن پر تمام مسلمانوں کا ایمان ہے۔

دوسرے اعتقادات

فرشتے، قضا و قدر، عالم برزخ، عالم ذر، حضرت آدم کا مٹی سے خلق ہونا اور انسان کا آدم کی نسل سے جاری رہنا بھی تمام مسلمانوں کا اتفاقی مسلئہ ہے۔

عملی ذمہ داریاں

اسلامی تعلیمات کا ایک اور اہم حصہ مسلمانوں کے اعمال سے متعلق ہے۔ یہ وظائف جنہیں احکام عملی بھی کہا جاتا ہے جو فقہ نامی علم میں مورد بحث واقع ہوتے ہیں۔ ان احکام کی شناخت کا اصل ماخذ قرآن اور سنت (معصومین کے اقوال و افعال) ہے۔

بنیادی طور پر ہر مسلمان کی عملی ذمہ داریوں کو تین حصوں عبادات، اخلاق اور معاملات میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

عبادات

اسلام میں عبادت ایسے اعمال کو کہا جاتا ہے جو صرف قصد قربت یعنی خدا کے حکم کی تکمیل کی خاطر بجا لایا جاتا ہے۔ یہ اعمال یا واجب ہیں یا مستحب۔ اسلام میں اہم‌ ترین عبادت یومیہ نماز ہے۔ اس کے علاوہ روزہ، زَکات، خُمس، حج، جہاد اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلامی عبادات میں سے ہیں۔

اخلاق

اسلامی تعلیمات، (قرآن و سنت میں اخلاقی اقدار کے حوالے سے بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اچھے اور برے اخلاق کی نشاندہی اور اخلاقی کمالات تک پہنچنے کے طریقے، دوسروں کے حقوق کی رعایت اور اجتماعی اور خاندانی روابط کی اصلاح کے لئے دیے جانے والے احکامات اسلامی تعلیمات کے اخلاقی پہلو کا حصہ ہیں۔

سماجی ذمہ داریاں

اسلام میں روزمرہ زندگی کے بہت سارے امور کے بارے میں احکامات موجود ہیں۔ شادی بیاہ، طلاق، خرید و فروش، اجارہ، رہن، کھانے پینے کی چیزیں، شکار، جنگی امور اور قضاوت وغیرہ میں سے ہر ایک کے بارے میں مفصل احکام پائے جاتے ہیں۔ یہ احکام علم فقہ میں احکام معاملات کے تحت بحث ہوتی ہیں۔

مذاہب

مذاہب کے سلسلے میں مسلمان دو بڑے مذهب شیعہ اور اہل سنت میں تقسیم ہوتے ہیں اور ان دو بنیادی مذاہب کے مزید مختلف فرقے پایے جاتے ہیں۔ شیعہ اور سنی کے درمیان اہم اختلاف امامت اور پیغمبر اکرم ؐ کی جانشینی کے حوالے سے پایا جاتا ہے یہ اختلاف پیغمبر اکرم ؐ کی رحلت کے فورا بعد وجود میں آیا اور اصحاب کے درمیان نمایاں طور پر موجود تھا۔

شیعہ اور سنی کے درمیان پائے جانے والے اختلافات صرف امامت کے مسئلے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ دونوں مذہب اصول دین اور فروع دین میں بھی کم و بیش اختلاف کا شکار ہیں۔ پیغمبر اسلام کے صحابہ، انبیاء کی عصمت، جبر و اختیار، اور نماز، وضو اور حج کے بعض احکام کے بارے میں بھی یہ دونوں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں۔

شیعہ

شیعہ جو کہ دو بڑے اسلامی مذاہب میں سے ایک ہے، مختلف فرقوں میں منقسم ہیں۔ ان تمام فرقوں کا مرکزی اتحاد پیغمبر اکرم ؐ کی رحلت کے بعد حضرت علیؑ اور آپ کے دو فرزند امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی امامت کا مسئلہ ہے۔

اہل تشیع اکثر اسلامی ممالک میں پائے جاتے ہیں لیکن زیادہ تر شیعہ آبادی ایران، عراق، آذربایجان، پاکستان اور لبنان میں مقیم ہیں۔

اہل سنت

اہل سنت آبادی کے لحاظ سے اہل تشیع سے زیادہ ہیں۔ اہل سنت کے پیروکار بھی اعتقادی اور فقہی اعتبار سے مختلف گروہوں میں منقسم ہیں۔ اعتقادی حوالے سے اہل سنت تین گروہ معتزلہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ جبکہ فقہی اعتبار سے چار مذهب حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی میں تقسیم ہوتے ہیں۔

خوارج

اسلام میں پہلی اور باقاعدہ تقسیم جو ایک فرقے کے منظر عام پر آنے کا سبب بنی خوارج کے فتنے کی شکل میں تھی۔ جنہوں نے جنگ صفین میں امام علیؑ کے لشکر سے علیحدگی اختیار کی۔ خوارج حکومت نیز گناہ کبیرہ کے مرتکب افراد کی بارے میں ایک خاص عقیدہ رکھتے تھے۔ خوارج بعد میں مختلف گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ خوارج آج کل عمان وغیرہ میں مقیم ہیں۔

اسلام اور دوسرے ادیان

قرآن و سنت سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام بعض ادیان کو قبول کرتا ہے اگرچہ ان کے عقیدے کو صحیح نہیں مانتا ہے۔

صبائیت، یہودیت، مسیحیت اور زرتشت کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔[19] اسلام کے مطابق یہ ادیان آسمانی کتاب کے حامل ہیں لہذا انہیں اہل کتاب کہا جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ اقلیتیں اگر اسلامی حکومت میں رہنا چاہیں تو ان کیلئے جزیہ (ٹیکس) دینا ضروری ہے۔ قرآن و سنت میں ان کو کافر ذمی کا نام دیتے ہیں۔

آبادی اور جغرافیہ

آج مسلمان اکثر ملکوں میں مقیم ہیں۔ مسلمانوں کی کل آبادی اس وقت تقریبا ڈیرھ ارب ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت بر اعظم ایشیا خاص کر مشرق وسطی میں مقیم ہیں۔

آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا اسلامی ملک انڈونیشیا ہے۔ جبکہ سعودی عرب مسلمانوں کے دو مقدس شہر مکہ اور مدینہ اور مسلمانوں کے سالانہ عظیم اجتماع حج کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان مشہور ہے۔ عراق اور ایران شیعہ مسلمانوں کے ہاں نہایت اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان ملکوں میں ان کے اماموں کی زیارت گاہیں موجود ہیں اس کے علاوہ نجف اور قم کو شیعوں کی دینی مرکزیت جبکہ مصر کو اہل سنت کی دینی مرکزیت حاصل ہے۔

حوالہ جات

  1. لسان العرب، ج ۶، ص۳۴۵
  2. معجم مقاییس فی اللغۃ، ج ۳، ص۹۰- ۹۱؛ مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج ۲، ص۷۱۵؛ التحقیق فی کلمات قرآن الکریم، ج ۵، ص۱۹۱- ۱۹۲، مادہ «سلم»
  3. لسان العرب، ج ۶، ص۳۴۵؛ مجمع البحرین، ج ۲، ص۴۰۷؛ مقاییس اللغۃ، ج ۳، ص۹۰، مادہ «سلم»
  4. مجمع البحرین، ج ۲، ص۴۰۷،«سلم»
  5. خدا و انسان در قرآن، ص۲۵۶
  6. آرمانہا و واقعیتہای اسلام، ص۳۱
  7. المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۶، ص۱۹۳
  8. آل عمران، آیہ ۸۵
  9. آل عمران، آیہ ۱۹
  10. المیزان، ج ۱،ص۳۰۱-۳۰۳
  11. مجمع البیان، ج ۹، ص۲۰۷؛ تفسیر نورالثقلین، ج ۵، ص۱۰۲- ۱۰۳؛ المیزان، ج ۱۸، ص۳۲۸ ، المیزان، ج ۱۸، ص۳۲۸
  12. الانصاف فیما یجب اعتقادہ و لا یجوز الجہل بہ، ص۸۹-۹۰
  13. المیزان، ج ۱۶، ص۳۱۳- ۳۱۴
  14. التفسیر المنیر فی العقیدۃ والشریعۃ والمنہج، ج ۱، ص۳۱۸؛ الاسنی فی شرح اسماءاللہ الحسنی، ج ۲، ص۱۳۴
  15. شرح المقاصد، ج ۵، ص۲۰۷
  16. آیات کی شمارش میں اختلاف کی وجہhttp://www.tebyan.net/newindex.aspx?pid=265257
  17. المیزان، ج۱، ص۲۶۷ و ج۱۰، ص۱۶۸و۲۹۳و ج۱۸،ص ۱۵۹؛ مجموعہ معارف قرآن، خداشناسی، ص۱۴-۱۲؛ مجموعہ آثار مطہری، ج ۲، ص۶۳ و ۶۴
  18. رک: سبحانی، جعفر، الالہیات، ج ۲
  19. سورہ حج، آیہ ۱۸

منابع

  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، قم، ادب الحوزہ، ۱۴۰۵ق.
  • ابن فارس، احمد، معجم المقاییس فی اللغۃ، تحقیق شہاب الدین ابوعمرو، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۵ق.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفۃ و افست، تہران، ناصر خسرو، ۱۴۰۶ق.
  • مصطفوی، حسن، تہران، التحقیق فی کلمات قرآن الکریم، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۳۷۴ش.
  • طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، تہران، مرتضوی، ۱۳۷۵ش.
  • توشیہیکو ایزوتسو، خدا و انسان در قرآن، ترجمہ احمد آرام، تہران، نشر فرہنگ اسلامی، ۱۳۷۴ش.
  • نصر، حسین، آرمانہا و واقعیت­ہای اسلام، ترجمہ انشاء اللہ رحمتی، تہران، جامی، ۱۳۸۲ش.
  • طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ، ۱۴۱۷ق.
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان عن تأویل‌ای القرآن، بہ کوشش صدقی جمیل العطار، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۵ق.
  • ابن عاشور، تفسیر التحریر و التنویر، تونس، الدار التونسیۃ للنشر، بیتا.
  • رشید رضا، محمد، تفسیر المنار، قاہرۃ، دارالمنار، ۱۳۷۳ق.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، بہ کوشش علی اکبر غفاری، بیروت، دار التعارف، ۱۴۰۱ق.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق.
  • فضل اللہ، سید محمد حسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دار الملاک، ۱۴۱۹ق.
  • مصباح یزدی، محمد تقی، مجموعہ معارف قرآن، خداشناسی، قم، در راہ حق، ۱۳۶۵ش.
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، قم، صدرا، ۱۳۸۳.
  • الزحیلی، وہبۃ، التفسیر المنیر فی العقیدۃ والشریعۃ والمنہج، بیروت، دار الفکر المعاصر، ۱۴۱۱ق.
  • القرطبی، محمد بن احمد، الاسنی فی شرح اسماءاللہ الحسنی، [بیجا]، دارالصحابہ لتراث، ۱۴۱۶ق.
  • باقلانی، ابوبکر، الانصاف فیما یجب اعتقادہ و لا یجوز الجہل بہ، بہ کوشش احمد حیدر، بیروت، عالم الکتب، ۱۴۰۷ق.
  • ابن کثیر دمشقی، اسماعیل، تفسیر القرآن العظیم، بہ کوشش یوسف مرعشی، بیروت، دار المعرفۃ، ۱۴۰۹ق.
  • تفتازانی، سعد الدین، شرح المقاصد، بہ کوشش عبد الرحمن عمیرۃ، قم، شریف رضی، ۱۴۰۹ق.
  • عروسی حویزی، ابن جمعہ، تفسیر نور الثقلین، بہ کوشش رسولی محلاتی، اسماعیلیان، ۱۳۷۳ش.