مندرجات کا رخ کریں

امام خمینی کا میخائیل گورباچوف کے نام خط

ویکی شیعہ سے
امام خمینی کا میخائل گورباچوف کے نام خط
جوادی آملی، امام خمینی کا پیغام لے کر گورباچوف سے ملاقات کر رہے ہیں
جوادی آملی، امام خمینی کا پیغام لے کر گورباچوف سے ملاقات کر رہے ہیں
واقعہ کی تفصیلاسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر امام خمینی کی طرف سے سوویت یونین کے رہبر کو ایک مذہبی اور عرفانی خط
زمان4 جنوری، سنہ 1989ء
دورہجمہوری اسلامی
مقاصداسلامی انقلاب کی روحانی برآمد، توحید اور خداپرستی کی دعوت اور مارکسیزم کی شکست کا بیان
نتایجگورباچوف کی طرف سے امام خمینی کے پیغام کے متن کی مخالفت


امام خمینی کا میخائیل گورباچوف کے نام خط، ایک مذہبی اور عرفانی خط تھا جسے اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی نے سنہ 1988ء میں اس وقت کے سوویت یونین کے رہبر کے نام لکھا تھا۔ اس خط میں مارکسزم کی شکست، اسلام کی عدالت خواہی اور سوویت یونین میں مسلمانوں کی حمایت پر زور دیا گیا تھا۔

امام خمینی نے گورباچوف کو مادیت سے آزادی اور توحید اپنانے کی دعوت دی۔ انہوں نے کمیونزم کی مذہب مخالف پالیسی میں شکست اور ناکامیوں کا ذکر کرتے ہوئے، سوویت یونین کے رہبر سے مطالبہ کیا کہ وہ مغربی مادیت پر بھروسہ کرنے کے بجائے خدا اور روحانیت کی طرف رجوع کرے۔ انہوں نے ان سے اسلامی فلسفیوں کی کتابوں کا مطالعہ کرنے اور اسلام جو کہ عدل و انصاف کی علامت ہے، پر سنجیدگی سے تحقیق کرنے کی دعوت دی۔

اس خط کی صدائے بازگشت سویت یونین کے زیر کنٹرول ممالک کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں سنائی دی اور بہت سی سیاسی اور اسلامی شخصیات نے اس کی تعریف کی۔

عبد اللہ جوادی آملی کی قیادت میں ایک وفد نے گورباچوف سے ملاقات کے دوران امام خمینی کا پیغام ان تک پہنچایا۔

پس منظر

امام خمینی کا خط یکم جنوری سنہ 1989ء کو لکھا گیا[1] اور 4 جنوری سنہ 1989ء کو اسے سوویت یونین کے اس وقت کے رہبر گورباچوف کو ایک وفد کے ذریعے پہنچایا گیا جس میں عبد اللہ جوادی آملی، وزارت خارجہ کے سفارتکار محمد جواد لاریجانی اور انقلاب اسلامی کی فعال رکن مرضیہ دباغ شامل تھے۔[2] امام خمینی کے گورباچوف کے نام لکھے گئے خط کو تاریخی اور تاریخ میں ماندگار قرار دیا گیا۔[3] اس خط نے پوری دنیا میں خاص طور پر سوویت یونین کے زیر تسلط ممالک میں کافی دھوم مچایا[4] اور بہت سی سیاسی اور اسلامی شخصیات نے اس کو لائق تحسین قرار دیا۔[5]

خط بھیجنے کے محرکات اور مقاصد

گورباچوف کے نام بھیجے گئے امام خمینی کے خط کو سیاسی مسائل کے بجائے اسلام کی دعوت سمجھا جاتا ہے۔[6] اس خط میں امام خمینی کے موقف کو ایک مذہبی رہنما کی حیثیت سے دیکھا گیا ہے نہ کہ ایک سیاسی سفارتکار کی حیثیت سے۔[7] اگرچہ یہ پیغام گورباچوف کے نام تھا، لیکن اس کا مخاطب سوویت اتحاد کے تمام لوگ تھے جنہوں نے 70 سال کی کمیونسٹ حکمرانی کے دوران الحادی تعلیمات کے ساتھ پرورش پائی تھی۔[8]

امام خمینی کے اس خط کا مقصد ایران کے اسلامی انقلاب کی روحانیت کو پہنچانا،[9] سوویت یونین کے رہبر کو توحید کی طرف بلانا اور سوویت اتحادی ملک کو مادیت کے طوق سے آزاد کرنا سمجھا گیا ہے۔[10] اس خط کے مرکزی موضوعات میں خدا اور روحانیت کی طرف دعوت، مغرب کی پناہ لینے سے انتباہ، مارکسزم اور کمیونزم کی ناکامی، اسلام کی جامعیت کی روشنی میں اس کی وضاحت اور سوویت یونین میں بسنے والے مسلمانوں کی حمایت شامل تھے۔[11]

خط کا مضمون

توحید کی طرف دعوت

آوائے توحید، امام خمینی کے خط کی تشریح، بقلم جوادی آملی

گورباچوف کے نام امام خمینی کے پیغام کا سب سے اہم پہلو، ملحد سوویت حکومت کو ایک توحید پرست عالمی نظریہ اپنانے کی دعوت تھی۔[12] اس خط میں امام خمینی نے مادیت پسندانہ سوچ پر تنقید کی اور گورباچوف کو بتا دیا کہ دین کی شناخت اور پہچان کا معیار حس اور عقل سے بالاتر ہے۔[13] آپ نے فطرت اور ضمیر کے ذریعے گورباچوف پر خدا کے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔[14] اسی طرح ان سے درخواست کی کہ وہ یونانی فلسفیوں کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ فارابی، ابن سینا، ملاصدرا، ابن عربی اور شہاب الدین سہروردی جیسے اسلامی فلسفیوں کی کتابوں کا بھی مطالعہ کرے۔ نیز آپ نے انہیں اسلام، جو کہ عدل اور انصاف کا علمبردار ہے، پر سنجیدگی سے تحقیق کرنے کو کہا۔[15]

امام خمینی نے فلسفیانہ اور عرفانی مسائل کے ذیل میں کمیونسٹوں کی مذہب مخالف پالیسیوں میں ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گورباچوف پر زور دیا کہ وہ مغربی مادیت پر انحصار کرنے کے بجائے خدا اور مذہب کی طرف رجوع کرے۔[16]

مارکسزم کی ناکامی کی پیشین گوئی

مارکسزم اور کمیونزم کی شکست، گورباچوف کے نام امام خمینی کے خط کا ایک اہم حصہ تھا۔[17] اس خط میں امام خمینی نے روس کو مغرب پر انحصار کرنے سے گریز کرنے پر زور دیا[18] اور روحانیت کے فقدان کو مارکسزم کے زوال کا بنیادی عنصر قرار دیا۔[19]

اس خط میں امام خمینی نے اس بات پر زور دیا کہ مارکسزم انسان کی حقیقی ضروریات کا جواب دینے سے قاصر ہے اور مادیت پرستی انسانیت کو روحانیت سے دوری کے بحران سے نہیں بچا سکتی جو مشرقی اور مغربی معاشروں کا بنیادی مسئلہ بن چکا ہے۔[20] یہ خط اس وقت شائع ہوا جب سوویت یونین موجود تھی اور اس کے آئین پر کمیونزم کی حاکمیت تھی۔[21]

امام خمینی کے خط پر گورباچوف کا ردعمل

امام خمینی کے وفد کی 4 جنوری 1989 کو گورباچوف سے ملاقات

امام خمینی کے پیغام پر گورباچوف کے رد عمل کو بہت زیادہ مثبت نہیں سمجھا گیا ہے۔[22] گورباچوف کا کہنا تھا کہ سوویت یونین کا بھی اپنا ایک مکتب اور فلسفہ ہے، اور اس نے اس خط کو ان کے ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔ تاہم ایرانی وفد نے انہیں یقین دلایا کہ اس خط میں صرف عقیدے کی بات کی گئی ہے اور یہ روس کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں ہے۔[23] 26 فروری 1989ء کو اس وقت کے سوویت وزیر خارجہ ایڈورڈ شیورڈناڈزے (Eduard Shevardnadze) نے جماران میں امام خمینی کو گورباچوف کا جواب پہنچایا۔ اس خط میں گورباچوف نے امام خمینی کے پیغام کو بہت سے تصورات اور مفاہیم سے لبریز اور انسانیت کی تقدیر کے بارے میں گہرے نکات پر مشتمل قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ سوویت قیادت کے تمام ارکان نے اس خط کو پڑھ لیا ہے۔[24] تاہم، کہا گیا کہ گورباچوف کے خط کے مواد سے یہ واضح ہوتا تھا کہ وہ امام خمینی کے پیغام کی روحانی جہتوں کو پوری طرح سے نہیں سمجھ سکا ہے۔[25]

گورباچوف کے جواب پر امام خمینی کا ردعمل

گورباچوف کے خط کے جواب میں امام خمینی نے فرمایا: "میں جناب گورباچوف کے لیے عظیم دنیا یعنی موت کے بعد کی ابدی دنیا کی طرف ایک دریچہ کھولنا چاہتا تھا، اور یہی میرے پیغام کا بنیادی محور تھا۔ مجھے امید ہے کہ وہ اس بارے میں دوبارہ کوشش کریں گے۔"[26] ایران کی بعض خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق، گورباچوف نے برسوں بعد اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اس نے امام خمینی کے انتباہات کو نظر انداز کیا تھا، اور کہا: "اگر ہم نے اس پیغام میں آیت اللہ خمینی کی پیشین گوئیوں کو سنجیدگی سے لیا ہوتا، تو یقیناً ہم آج ایسی صورت حال کا مشاہدہ نہ کر رہے ہوتے۔"[27]

متن اور ترجمہ

متن گورباچوف کے نام امام خمینی کے خط کا اردو ترجمہ
بسم اللَّه الرحمن الرحیم:

جناب آقای گورباچف، صدر هیأت رئیسه اتحاد جماهیر سوسیالیستی شوروی.

(1) با امید خوشبختی و سعادت برای شما و ملت شوروی، از آنجا که پس از روی کار آمدن شما چنین احساس می‌شود که جنابعالی در تحلیل حوادث سیاسی جهان، خصوصاً در رابطه با مسائل شوروی، در دور جدیدی از بازنگری و تحول و برخورد قرار گرفته‌اید، و جسارت و گستاخی شما در برخورد با واقعیات جهان چه بسا منشأ تحولات و موجب به هم خوردن معادلات فعلی حاکم بر جهان گردد، لازم دیدم نکاتی را یادآور شوم. هر چند ممکن است حیطه تفکر و تصمیمات جدید شما تنها روشی برای حل معضلات حزبی و در کنار آن حل پاره‌ای از مشکلات مردمتان باشد، ولی به همین اندازه هم شهامت تجدید نظر در مورد مکتبی که سالیان سال فرزندان انقلابی جهان را در حصارهای آهنین زندانی نموده بود قابل ستایش است.

(2)و اگر به فراتر از این مقدار فکر می‌کنید، اولین مسئله‌ای که مطمئناً باعث موفقیت شما خواهد شد این است که در سیاست اسلاف خود دایر بر «خدا زدایی» و «دین زدایی» از جامعه، که تحقیقاً بزرگترین و بالاترین ضربه را بر پیکر مردم کشور شوروی وارد کرده است، تجدید نظر نمایید؛ و بدانید که برخورد واقعی با قضایای جهان جز از این طریق میسر نیست. البته ممکن است از شیوه‌های ناصحیح و عملکرد غلط قدرتمندان پیشین کمونیسم در زمینه اقتصاد، باغ سبز دنیای غرب رخ بنماید، ولی حقیقت جای دیگری است.

(3)شما اگر بخواهید در این مقطع تنها گره‌های کور اقتصادی سوسیالسیم و کمونیسم را با پناه بردن به کانون سرمایه‌داری غرب حل کنید، نه تنها دردی از جامعه خویش را دوا نکرده‌اید، که دیگران باید بیایند و اشتباهات شما را جبران کنند؛ چرا که امروز اگر مارکسیسم در روشهای اقتصادی و اجتماعی به بن‌بست رسیده است، دنیای غرب هم در همین مسائل، البته به شکل دیگر، و نیز در مسائل دیگر گرفتار حادثه است.

(4)جناب آقای گورباچف، باید به حقیقت رو آورد. مشکل اصلی کشور شما مسئله مالکیت و اقتصاد و آزادی نیست. مشکل شما عدم اعتقاد واقعی به خداست. همان مشکلی که غرب را هم به ابتذال و بن‌بست کشیده یا خواهد کشید. مشکل اصلی شما مبارزه طولانی و بیهوده با خدا و مبدأ هستی و آفرینش است.

(5)جناب آقای گورباچف، برای همه روشن است که از این پس کمونیسم را باید در موزه‌های تاریخ سیاسی جهان جستجو کرد؛ چرا که مارکسیسم جوابگوی هیچ نیازی از نیازهای واقعی انسان نیست؛ چرا که مکتبی است مادی، و با مادیت نمی‌توان بشریت را از بحران عدم اعتقاد به معنویت، که اساسی‌ترین درد جامعه بشری در غرب و شرق است، به درآورد.

(6)حضرت آقای گورباچف، ممکن است شما اثباتاً در بعضی جهات به مارکسیسم پشت نکرده باشید و از این پس هم در مصاحبه‌ها اعتقاد کامل خودتان را به آن ابراز کنید؛ ولی خود می‌دانید که ثبوتاً اینگونه نیست. رهبر چین اولین ضربه را به کمونیسم زد؛ و شما دومین و علی الظاهر آخرین ضربه را بر پیکر آن نواختید. امروز دیگر چیزی به نام کمونیسم در جهان نداریم.

(7)ولی از شما جداً می‌خواهم که در شکستن دیوارهای خیالات مارکسیسم، گرفتار زندان غرب و شیطان بزرگ نشوید. امیدوارم افتخار واقعی این مطلب را پیدا کنید که آخرین لایه‌های پوسیده هفتاد سال کژی جهان کمونیسم را از چهره تاریخ و کشور خود بزدایید.

(8)امروز دیگر دولتهای همسو با شما که دلشان برای وطن و مردمشان می‌تپد هرگز حاضر نخواهند شد بیش از این منابع زیرزمینی و رو زمینی کشورشان را برای اثبات موفقیت کمونیسم، که صدای شکستن استخوان‌هایش هم به گوش فرزندانشان رسیده است، مصرف کنند.

(9)آقای گورباچف وقتی از گلدسته‌های مساجد بعضی از جمهوری‌های شما پس از هفتاد سال بانگ «اللَّه اکبر» و شهادت به رسالت حضرت ختمی مرتبت- صلی اللَّه علیه و آله و سلم- به گوش رسید، تمامی طرفداران اسلام ناب محمدی(ص) را از شوق به گریه انداخت؛ لذا لازم دانستم این موضوع را به شما گوشزد کنم که بار دیگر به دو جهان‌بینی مادی و الهی بیندیشید.

(10)مادیون معیار شناخت در جهان‌بینی خویش را «حس» دانسته و چیزی را که محسوس نباشد از قلمرو علم بیرون می‌دانند؛ و هستی را همتای ماده دانسته و چیزی را که ماده ندارد موجود نمی‌دانند. قهراً جهان غیب، مانند وجود خداوند تعالی و وحی و نبوت و قیامت، را یکسره افسانه می‌دانند. در حالی که معیار شناخت در جهان‌بینی الهی اعم از «حس و عقل» می‌باشد، و چیزی که معقول باشد داخل در قلمرو علم می‌باشد گر چه محسوس نباشد؛ لذا هستی اعم از غیب و شهادت است، و چیزی که ماده ندارد، می‌تواند موجود باشد. و همان‌طور که موجود مادی به «مجرد» استناد دارد، شناخت حسی نیز به شناخت عقلی متکی است.

(11)قرآن مجید اساس تفکر مادی را نقد می‌کند، و به آنان که بر این پندارند که خدا نیست و گرنه دیده می‌شد. لَن نُؤمِنَ لَکَ حَتّی نَرَی اللَّه جَهرَةً. می‌فرماید: لَاتُدرِکُه الأبْصارُ وَ هوَ یُدْرِکُ الأبْصارَ وَ هو اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ. از قرآن عزیز و کریم و استدلالات آن در موارد وحی و نبوت و قیامت بگذریم، که از نظر شما اول بحث است، اصولًا میل نداشتم شما را در پیچ و تاب مسائل فلاسفه، بخصوص فلاسفه اسلامی، بیندازم.


(12)فقط به یکی- دو مثال ساده و فطری و وجدانی که سیاسیون هم می‌توانند از آن بهره‌ای ببرند بسنده می‌کنم. این از بدیهیات است که ماده و جسم هرچه باشد از خود بیخبر است. یک مجسمه سنگی یا مجسمه مادی انسان هر طرف آن از طرف دیگرش محجوب است. در صورتی که به عیان می‌بینیم که انسان و حیوان از همه اطراف خود آگاه است. می‌داند کجاست؛ در محیطش چه می‌گذرد؛ در جهان چه غوغایی است. پس، در حیوان و انسان چیز دیگری است که فوق ماده است و از عالم ماده جدا است و با مردن ماده نمی‌میرد و باقی است.

(13)انسان در فطرت خود هر کمالی را به‌طور مطلق می‌خواهد. و شما خوب می‌دانید که انسان می‌خواهد قدرت مطلق جهان باشد و به هیچ قدرتی که ناقص است دل نبسته است. اگر عالم را در اختیار داشته باشد و گفته شود جهان دیگری هم هست، فطرتاً مایل است آن جهان را هم در اختیار داشته باشد. انسان هر اندازه دانشمند باشد و گفته شود علوم دیگری هم هست، فطرتاً مایل است آن علوم را هم بیاموزد. پس قدرت مطلق و علم مطلق باید باشد تا آدمی دل به آن ببندد. آن خداوند متعال است که همه به آن متوجهیم، گرچه خود ندانیم. انسان می‌خواهد به «حق مطلق» برسد تا فانی در خدا شود. اصولًا اشتیاق به زندگی ابدی در نهاد هر انسانی نشانه وجود جهان جاوید و مصون از مرگ است.

(14)اگر جنابعالی میل داشته باشید در این زمینه‌ها تحقیق کنید، می‌توانید دستور دهید که صاحبان اینگونه علوم علاوه بر کتب فلاسفه غرب در این زمینه، به نوشته‌های فارابی و بوعلی سینا - رحمة اللَّه‌علیهما- در حکمت مشاء مراجعه کنند، تا روشن شود که قانون علیت و معلولیت که هرگونه شناختی بر آن استوار است، معقول است نه محسوس؛ و ادراک معانی کلی و نیز قوانین کلی که هر گونه استدلال بر آن تکیه دارد، معقول است نه محسوس۔

(15) و نیز به کتاب‌های سهروردی- رحمة اللَّه علیه- در حکمت اشراق مراجعه نموده، و برای جنابعالی شرح کنند که جسم و هر موجود مادی دیگر به نور صِرف که منزه از حس می‌باشد نیازمند است؛ و ادراک شهودیِ ذات انسان از حقیقت خویش مبرا از پدیده حسی است.

(16)و از اساتید بزرگ بخواهید تا به حکمت متعالیه صدرالمتألهین - رضوان اللَّه تعالی علیه و حشره اللَّه مع النبیین والصالحین- مراجعه نمایند، تا معلوم گردد که: حقیقت علم همانا وجودی است مجرد از ماده، و هر گونه اندیشه از ماده منزه است و به احکام ماده محکوم نخواهد شد.


(17)دیگر شما را خسته نمی‌کنم و از کتب عرفا و بخصوص محی الدین ابن عربی نام نمی‌برم؛ که اگر خواستید از مباحث این بزرگمرد مطلع گردید، تنی چند از خبرگان تیزهوش خود را که در اینگونه مسائل قویاً دست دارند، راهی قم گردانید، تا پس از چند سالی با توکل به خدا از عمق لطیف باریکتر ز موی منازل معرفت آگاه گردند، که بدون این سفر آگاهی از آن امکان ندارد.

(18)جناب آقای گورباچف، اکنون بعد از ذکر این مسائل و مقدمات، از شما می‌خواهم دربارۂ اسلام به صورت جدی تحقیق و تفحص کنید. و این نه به خاطر نیاز اسلام و مسلمین به شما، که به جهت ارزش‌های والا و جهان شمول اسلام است که می‌تواند وسیله راحتی و نجات همه ملت‌ها باشد و گره مشکلات اساسی بشریت را باز نماید.

(19)نگرش جدی به اسلام ممکن است شما را برای همیشه از مسئله افغانستان و مسائلی از این قبیل در جهان نجات دهد. ما مسلمانان جهان را مانند مسلمانان کشور خود دانسته و همیشه خود را در سرنوشت آنان شریک می‌دانیم.

(20)با آزادی نسبی مراسم مذهبی در بعضی از جمهوری‌های شوروی، نشان دادید که دیگر اینگونه فکر نمی‌کنید که مذهب مخدر جامعه است. راستی مذهبی که ایران را در مقابل ابرقدرت‌ها چون کوه استوار کرده است مخدر جامعه است؟ آیا مذهبی که طالب اجرای عدالت در جهان و خواهان آزادی انسان از قیود مادی و معنوی است مخدر جامعه است؟ آری، مذهبی که وسیله شود تا سرمایه‌های مادی و معنوی کشورهای اسلامی و غیر اسلامی، در اختیار ابرقدرت‌ها و قدرت‌ها قرار گیرد و بر سر مردم فریاد کشد که دین از سیاست جدا است مخدر جامعه است. ولی این دیگر مذهب واقعی نیست؛ بلکه مذهبی است که مردم ما آن را «مذهب امریکایی» می‌نامند.

(21)در خاتمه صریحاً اعلام می‌کنم که جمهوری اسلامی ایران به عنوان بزرگترین و قدرتمندترین پایگاه جهان اسلام به راحتی می‌تواند خلأ اعتقادی نظام شما را پر نماید. و در هر صورت، کشور ما همچون گذشته به حسن همجواری و روابط متقابل معتقد است و آن را محترم می‌شمارد.

والسلام علی من اتبع الهدی.
11 دى 1367شمسی، 22 جمادى الاول 1409ھ۔
روح‌اللَّه الموسوى الخمینى.[28]


اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔:

جناب گورباچوف، یو ایس ایس آر کے پریذیڈیم کے چیئرمین۔

(1) آپ اور سوویت قوم کے لیے خوشبختی اور خوشحالی کی امید کے ساتھ، آپ کے اقتدار میں آنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ آپ عالمی سیاسی واقعات کے تجزیے میں، خاص طور پر سوویت کے حوالے سے آپ نظر ثانی، تبدیلی اور تصادم کے ایک نئے دور میں داخل ہو گئے ہیں۔ دنیا کے مسائل اور حقیقتوں سے نمٹنے میں آپ کی دلیری اور جسارت شاید تبدیلیوں کا باعث ہو اور دنیا پر حکمرانی کرنے والی موجودہ حالات میں خلل کا باعث بنیں، میں نے آپ کو کچھ نکات یاد دلانا ضروری سمجھا۔ آپ کا دائرہ تفکر اور جدید فیصلے صرف پارٹی کے مسائل کو حل کرنے اور اس کے ساتھ اپنی عوام کے کچھ مسائل حل کرنے کے لئے ہو، اگرچہ جس مکتب نے سالہا دنیا کے انقلابی جوانوں کو آہنی حصار میں قید رکھا ہے، اس مکتب میں اسی مقدار میں تجدید نظر کی شہامت اور جسارت لائق تحسین ہے۔

(2)اور اگر آپ اس مقدار سے بڑھ کر سوچتے ہیں تو سب سے پہلی چیز جو آپ کو یقیناً کامیاب بنائے گی وہ یہ ہے کہ آپ اپنے پیشروؤں کی معاشرے کی "خدا زدایی" اور "دین زدایی" کی پالیسی میں تجدید نظر کریں جس نے درحقیقت سوویت کے لوگوں کو سب سے بڑا دھچکا پہنچایا؛ اور جان لیں کہ دنیا کے مسائل سے حقیقی تصادم اسی طرح ہی ممکن ہے۔ یقیناً مغربی دنیا کو معاشیات کے میدان میں سابق طاقتور کمیونسٹوں کے غلط طریقوں اور غلط اقدامات کی وجہ سے سبز باغ دکھائی دے سکتا ہے لیکن حقیقت کہیں اور ہے۔


(3)اگر آپ اس وقت صرف مغربی سرمایہ داری کے مرکز میں پناہ لے کر سوشلزم اور کمیونزم کے معاشی اندھے دھبوں کو حل کرنا چاہتے ہیں تو نہ صرف آپ اپنے معاشرے کی کسی بھی برائی کا علاج نہیں کریں گے بلکہ دوسروں کو آکر کر آپ کی غلطیوں کی تلافی کرنا ہوگا؛ کیونکہ آج اگر مارکسزم معاشی اور سماجی طریقوں سے بند گلی میں پھنس گیا ہے تو مغربی دنیا بھی انہی مسائل اور بعض دوسرے مسائل میں الجھی ہوئی ہے، اگرچہ ان کی شکل مختلف ہوگی۔

(4) جناب گورباچوف، آپ کو سچ کا سامنا کرنا ہوگا۔ آپ کے ملک میں بنیادی مسئلہ جائیداد، معیشت یا آزادی کا مسئلہ نہیں ہے۔ آپ کا مسئلہ خدا پر سچے یقین کی کمی ہے۔ وہی مسئلہ جو مغرب کو فحاشی اور تعطل کی طرف لے گیا ہے یا لے جا رہا ہے۔ آپ کا اصل مسئلہ اللہ تعالی، تخلیق اور کائنات کی ابتداء کے ساتھ آپ کی طویل اور فضول جدوجہد ہے۔

(5)جناب گورباچوف، یہ سب پر واضح ہے کہ اب کے بعد کمیونزم کو عالمی سیاسی تاریخ کے عجائب گھروں میں تلاش کرنا ہوگا؛ کیونکہ مارکسزم حقیقی انسانی ضروریات میں سے کسی کا بھی جواب نہیں دے سکتا ہے؛ کیونکہ یہ ایک مادیت پسند مکتب ہے، اور مادیت کے ذریعے انسانیت کو روحانیت پر عدم اعتقاد، جو کہ مغرب اور مشرق میں انسانی معاشرے کا سب سے بنیادی درد ہے، کے بحران سے آزاد نہیں کر سکتی۔

(6)محترم گورباچوف، شاید آپ نے مارکسزم سے کچھ معاملات میں منہ نہیں موڑا ہو اور اب کے بعد بھی آپ انٹرویوز میں اس پر اپنے مکمل یقین کا اظہار کریں گے؛ لیکن آپ جانتے ہیں کہ ایسا یقینی طور پر نہیں ہے۔ چینی رہنما نے کمیونزم پر پہلی ضرب لگائی؛ اور آپ نے اس کے جسم پر دوسری اور بظاہر آخری ضرب لگائی۔ آج ہمارے پاس دنیا میں کمیونزم نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔

(7)لیکن میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ مارکسی تصورات کی دیواروں کو توڑتے ہوئے مغرب اور شیطانِ بزرگ کی قید میں نہ پھنسیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس بات کی حقیقت کو درک کریں گے کہ جو اپنی تاریخ اور ملک کے چہرے سے کمیونسٹ دنیا کے انحراف کی ستر سالوں کی آخری بوسیدہ تہوں کو ہٹانا ہے۔

(8) آج آپ کے ساتھ اتحاد کرنے والی حکومتیں، جن کے دل اپنے وطن اور عوام کے لیے دھڑکتے ہیں، اس کمیونزم کی کامیابی ثابت کرنے کے لیے اپنے ملک کے زیر زمین اور سطحی وسائل کو مزید استعمال کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوں گے، جس کی ہڈیاں ٹوٹنے کی آواز ان کے کانوں تک پہنچ چکی ہے۔

(9) جناب گورباچوف، جب ستر سال بعد آپ کی بعض ریاستوں کی مساجد کے سپائروں سے اللہ اکبر اور ختم المتربت - صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم- کی رسالت کی گواہی سنائی دی تو اس سے اسلام ناب محمدیؐ کے تمام طرفدار جوش و خروش سے رونے لگے؛ لہذا، میں نے ضروری سمجھا کہ اس موضوع پر غور کریں کہ آپ کو دوبارہ دو عالمی نظریات جہان بینی الہی اور جہان بینی مادی کے بارے میں سوچیں۔

(10)مادیت پسند اپنے عالمی نظریہ میں "حس" کو علم کا معیار سمجھتے ہیں، اور وہ ہر اس چیز کو علم کے دائرے سے باہر سمجھتے ہیں جسے محسوس نہیں کیا جاسکتا ہے؛ اور وہ وجود کو مادے کا ہم پلہ سمجھتے ہیں، اور وہ کسی ایسی چیز کو نہیں مانتے جس کا مادہ نہیں ہوتا۔ وہ لامحالہ غیب کی دنیا، جیسے اللہ تعالیٰ کا وجود، وحی، نبوت اور قیامت کو مکمل طور پر فرضی اور افسانہ تصور کرتے ہیں۔ جب کہ الہی عالمی نظریہ میں علم کا معیار "حس اور عقل" دونوں ہیں، اور جو کچھ بھی معقول ہے وہ علم کے دائرے میں شامل ہے، اگرچہ وہ محسوس نہ بھی ہو؛ لہٰذا، وجود میں غیب اور شہود دونوں شامل ہیں اور وہ چیز جس میں مادہ نہیں ہے وہ موجود ہو سکتا ہے۔ اور جس طرح مادی وجود "مجرد" سے منسوب ہے، اسی طرح حسی شناخت بھی عقلی شناخت پر منحصر ہے۔

(11)قرآن پاک مادیت پسندانہ سوچ کی بنیاد پر تنقید کرتا ہے، اور ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کا کوئی وجود نہیں، ورنہ وہ نظر آ جاتا۔ لَن نُؤمِنَ لَکَ حَتّی نَرَی اللَّہَ جَہرَةً فرماتا ہے: لَاتُدرِکُہُ الأبْصارُ وَ ہُوَ یُدْرِکُ الأبْصارَ وَ ہو اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ آئیے نزول وحی، نبوت اور قیامت کے مسائل پر قرآن کریم و عزیز اور اس کے دلائل کو ایک طرف چھوڑتے ہیں، جو آپ کے خیال میں اصل بحث ہے، اصولی طور پر آپ کو فلسفی الجھے ہوئے مسائل بالخصوص اسلامی فلسفے میں نہیں کھینچنا چاہتا ہوں۔

(12) میں صرف ایک یا دو سادہ، فطری اور عقلی مثالیں بیان کرتا ہوں جن سے سیاستدان بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ خود بدیہیات میں سے ہے کہ مادہ اور جسم خواہ کچھ بھی ہو، اپنے آپ سے بے خبر ہیں۔ پتھر یا اس کی مورتی یا مادی انسانی مجسمے کا ہر رخ دوسرے رخ سے مخفی ہوتا ہے۔ جب کہ ہم واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ انسان اور جانور اپنے اردگرد کی ہر چیز سے واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ کہاں ہے؛ اس کے اردگرد کیا ہو رہا ہے؟ دنیا میں کیسا ہنگامہ چل رہا ہے۔ پس، جانوروں اور انسانوں میں، ایک اور چیز ہے جو مادے سے اوپر ہے اور مادے کی دنیا سے الگ ہے، اور جب مادہ مر جاتا ہے تو وہ نہیں مرتا، بلکہ باقی رہتا ہے۔

(13) انسانی فطرت ہر کمال کی مطلق خواہش رکھتی ہے۔ اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسان دنیا کی مطلق طاقت بننا چاہتا ہے اور کسی ایسی طاقت سے وابستہ نہیں ہے جو نامکمل ہو۔ اگر کسی کے اختیار میں کائنات ہو اور اسے بتایا جائے کہ اس کے علاوہ ایک اور دنیا بھی ہے تو وہ انسان فطری طور پر اس دنیا کو بھی اپنے اختیار میں رکھنا چاہتا ہے۔ کوئی شخص کتنا ہی علم رکھتا ہو اور اگر اسے بتایا جائے کہ اور بھی علوم ہیں تو وہ فطری طور پر ان علوم کو بھی سیکھنا چاہتا ہے۔ پس علم مطلق اور قدرتِ مطلق ہو تاکہ انسان اس کی طرف متوجہ ہوسکے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے جس کی طرف ہم سب متوجہ ہیں اگرچہ ہم خود اسے نہ جانتے ہوں۔ انسان چاہتا ہے کہ وہ مطلق حق تک پہنچے تاکہ اللہ میں فنا ہوسکے۔ بنیادی طور پر ہر انسان میں ابدی زندگی کی خواہش ایک ابدی دنیا کے وجود کی علامت ہے جو موت سے محفوظ ہے۔

(14)اگر آپ ان شعبوں میں تحقیق کرنا چاہیں تو آپ اس طرح کے علوم کے مالکان کو غربی فسلفی کتابوں کے علاوہ حکمت مشاء میں فارابی اور ابو علی سینا - رحمة اللَّہ علیہما- کی تصانیف کی طرف مراجعہ کرنے کی ہدایت کر سکتے ہیں، تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ علت اور معلول کا قانون جس پر کوئی بھی ادراک اور شناخت قائم ہے وہ معقول اور عقلی ہے، محسوس اور ٹھوس نہیں، اور عمومی مفہوم اور عام قوانین بھی جن پر کوئی استدلال استوار ہو وہ عقلی ہے، محسوس نہیں

(15)اور اسی طرح حکمت اشراق میں سہروردی -رحمة اللَّہ علیہ- کی کتابوں کی طرف مراجعہ کریں، اور وہ آپ کو سمجھائیں کہ جسم اور ہر دوسرے مادّے کو ایسے خالص نور کی ضرورت ہے جو حس سے پاک ہو؛ اور ذاتِ انسان کی اپنی حقیقت کا شہودی ادراک بھی حس سے مبرا ہے۔

(16) اور بزرگ اساتذہ سے درخواست کریں کہ وہ صدر المتألہین - رضوان اللَّہ تعالی علیہ و حشرہ اللَّہ مع النبیین والصالحین- کی حکمت متعالیہ کی طرف رجوع کریں، تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ علم کی حقیقت وہی مادے سے خالی ایک وجود ہے اور ہر قسم کی سوچ مادے سے پاک ہے اور اس پر مادے کے احکام جاری نہیں ہوتے ہیں۔

(17)میں آپ کو مزید تنگ نہیں کروں گا اور عرفان کی کتابیں خاص طور پر محی الدین ابن عربی کی کتابوں کا ذکر نہیں کروں گا؛ اگر آپ اس عظیم انسان کے مباحث کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو اپنے چند ذہین ماہرین کو قم بھیجیں جو اس طرح کے مسائل میں مضبوطی سے کام کرتے ہیں، تاکہ چند سالوں کے بعد خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے معرفت کے ان مراحل کی باریک بینی سے آگاہ ہوسکیں جو بال سے بھی باریک ہیں، اس سفر کے بغیر ان کا جاننا ناممکن ہے۔

(8)جناب گورباچوف، اب ان مسائل اور دیباچے کا ذکر کرنے کے بعد، میں آپ سے کہتا ہوں کہ اسلام کے بارے میں سنجیدگی سے تحقیق کریں، اور یہ اس لیے نہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کو آپ کی ضرورت ہے، بلکہ اسلام کی ان بلند اور آفاقی اقدار کی وجہ سے ہے، جو تمام اقوام کے لیے راحت اور نجات کا ذریعہ بن سکتی ہیں اور انسانیت کے بنیادی مسائل کی گرہ کو کھول سکتی ہیں۔

(19) اسلام کے بارے میں سنجیدہ نگاہ آپ کو افغانستان کے مسئلے اور دنیا کے اس جیسے مسائل سے ہمیشہ کے لیے بچا سکتا ہے۔ ہم مسلمان دنیا کو اپنے ملک کی طرح سمجھتے ہیں اور ہمیشہ اپنے آپ کو اس کی تقدیر میں شریک سمجھتے ہیں۔

(20)کچھ سوویت یونین کے ممالک میں مذہبی تقریبات کو نسبتاً آزادی دے کر آپ نے یہ ظاہر کیا کہ اب آپ مذہب کو معاشرے کے لئے افیون نہیں سمجھتے ہیں۔ وہ مذہب جس نے ایران کو سپر پاورز کے خلاف پہاڑ کی طرح کھڑا کر دیا ہے کیا وہ واقعی معاشرے کا افیون ہے؟ وہ مذہب جو دنیا میں عدل کو نافذ کرنے اور انسانوں کو مادی اور روحانی قید و بند سے آزاد کرنے کی کوشش کرتا ہے کیا وہ معاشرے کے لیے افیون ہے؟ ہاں، ایک ایسا مذہب جو اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کے مادی اور روحانی سرمائے کو سپر پاورز اور طاقتوں کے قبضے میں رکھنے کا ذریعہ بنتا ہے جو لوگوں کو یہ کہتے ہیں کہ دین سیاست سے الگ ہے اور معاشرے کے لئے افیون ہے؛ لیکن یہ سچا مذہب نہیں ہے بلکہ ایک ایسا مذہب ہے جسے ہمارے لوگ ’’امریکی مذہب‘‘ کہتے ہیں۔

(21)آخر میں، میں واضح طور پر بتانا چاہوں گا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، اسلامی دنیا کے سب سے بڑے اور طاقتور اڈے کے طور پر، آپ کے نظام میں موجود عقیدتی خلا کو آسانی سے پر کر سکتا ہے۔ اور بہر حال ہمارا ملک ماضی کی طرح اچھی ہمسائیگی اور باہمی تعلقات پر یقین رکھتا ہے اور اس کا احترام کرتا ہے۔

و السلام علی من اتبع الہدی۔
یکم جنوری سنہ 1989 عیسوی، بمطابق 22 جمادى الاول 1409ھ۔
روح اللَّہ الموسوى الخمینى.


مونوگراف

  • "آوائے توحید" بقلم جوادی آملی یہ کتاب میخائل گورباچوف کے نام امام خمینی کے خط کی تشریح ہے جسے مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی سنہ منتشر کیا ہے۔[29]
  • "دعوت توحیدی" بقلم علی اللہ سلیمی، امام خمینی کے میخائل گورباچوف کو لکھے گئے خط کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا ہے، جو "مركز اسناد انقلاب اسلامی" کے "دانستنی ہای انقلاب اسلامی برای جوانان" کے مجموعے کے ایک حصے کے طور پر شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں تاریخی خط بھیجنے کے حالات اور سیاق و سباق، گورباچوف کے دور میں سوویت یونین کے حالات اور خط کے مسودے اور جاری کرنے کے سیاق و سباق جیسے موضوعات کا جائزہ لیا گیا ہے اور پھر امام خمینی کے تاریخی خط کا متن منسلک کیا گیا ہے۔[30]

حوالہ جات

  1. خمینی، صحیفہ امام، 1389شمسی، ج21، ص220.
  2. «ماجرای نامہ امام بہ گورباچف»، پرتال امام خمینی.
  3. خسروپناہ، منظومہ فکری امام خمینی، 1396شمسی، ص298.
  4. «پیام امام خمینی (س) بہ گورباچف»، پرتال امام خمینی.
  5. «پیام امام خمینی (س) بہ گورباچف»، پرتال امام خمینی.
  6. «ماجرای نامہ امام بہ گورباچف»، پرتال امام خمینی.
  7. «نامہ امام بہ گورباچف با ایستارہای متعارف دیپلماتیک منطبق نبود/ امام از معدود مدرسینی بود کہ مارکسیسم را نقد می کرد/ پیام اصلی امام (رہ) معنوی بود نہ سیاسی»، فارس.
  8. «نامہ امام بہ گورباچف با ایستارہای متعارف دیپلماتیک منطبق نبود/ امام از معدود مدرسینی بود کہ مارکسیسم را نقد می کرد/ پیام اصلی امام (رہ) معنوی بود نہ سیاسی»، فارس.
  9. شفیعی، سبک رہبری امام خمینی، 1389شمسی، ص200.
  10. «پیام امام خمینی (س) بہ گورباچف»، پرتال امام خمینی.
  11. درویشی سہ تلانی، «نامہ امام خمینی بہ گورباچف»، ص38 تا 41.
  12. «وارث حقیقی انبیا»، پرتال امام خمینی.
  13. «پیام امام خمینی (س) بہ گورباچف»، پرتال امام خمینی.
  14. «پیام امام خمینی (س) بہ گورباچف»، پرتال امام خمینی.
  15. «پیام امام خمینی (س) بہ گورباچف»، پرتال امام خمینی.
  16. جمشیدی، اندیشہ سیاسی امام خمینی، 1384شمسی، ص47.
  17. «پیام امام خمینی (س) بہ گورباچف»، پرتال امام خمینی.
  18. «ابلاغ نامہ تاریخی امام خمینی (رہ) بہ گورباچف»، دیپلماسی ایرانی.
  19. خسروپناہ، منظومہ فکری امام خمینی، 1396شمسی، ص298.
  20. «پیام امام خمینی (س) بہ گورباچف»، پرتال امام خمینی.
  21. «ابلاغ نامہ تاریخی امام خمینی (رہ) بہ گورباچف»، دیپلماسی ایرانی.
  22. «ماجرای نامہ امام بہ گورباچف»، پرتال امام خمینی.
  23. «گورباچوف چہ نگاہی بہ جمہوری اسلامی ایران و انقلاب داشت؟»، دیپلماسی ایرانی.
  24. خمینی، صحیفہ امام، 1389شمسی، ج21، ص298.
  25. «ماجرای نامہ امام بہ گورباچف»، پرتال امام خمینی.
  26. خمینی، صحیفہ امام، 1389شمسی، ج21، ص301.
  27. «تاریخ این اعتراف گورباچف را فراموش نخواہد کرد/ باید بہ پیام امام گوش می دادم»، اعتمادآنلاین.
  28. خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج21، ص220.
  29. «آوای توحید» ہیئت مجازی کتاب.
  30. «معرفی کتاب دعوت توحیدی» مرکز اسناد انقلاب اسلامی.

مآخذ