صبغۃ اللہ

غیر جامع
ویکی شیعہ سے
(خدا والا رنگ سے رجوع مکرر)
خوشنویسی سورہ بقرہ کی 138ویں آیت جو کلمہ صبغۃ اللہ پر مشتمل ہے۔

صِبْغَۃَ اللَّہ، ایک قرآنی اصطلاح یا ترکیب ہے جس کے معنی «رنگ خدا»[یادداشت 1] کے ہیں۔ یہ ترکیب سورہ بقرہ کی 138ویں آیت میں آئی ہے۔ ایک گروہ [یادداشت 2] اس ترکیب سے «تعمید خدا»[یادداشت 3] مراد لیتے ہیں۔[1]

تفاسیر میں صبغۃ اللہ کے مصداق کے بارے میں مختلف نظریات بیان ہوئے ہیں۔[2] بعض مفسرین دین خدا یعنی اسلام کو اس کا مصداق قرار دیتے ہیں اور اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ جس طرح رنگ کسی چیز کے ظاہر کو تبدیل کرتا ہے اسی طرح دین بھی انسان میں ایک ایسی حالت پیدا کرتا ہے جس سے دیندار شخص کے ظاہر و باطن اور رفتار و کردار میں تبدیلی آتی ہے۔[3] بعض دوسرے مفسرین نے فطرت و خلقت خدا کو صبغۃ اللہ کا مصداق جانا ہے اور فطرت خدا کے ساتھ صبغۃ اللہ کی مناسبت کی توضیح دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ فطرت انسان کی زینت اور زیور ہے، جس طرح رنگ کسی جسم کی زینت اور زیور ہوا کرتی ہے۔[4] مفسرین کے ایک گروہ نے دونوں نظریوں کو آپس میں جمع کر دیا ہے۔[5]

احادیث میں بھی صبغۃ اللہ کی تأویل، اس کے مصداق کی توضیح اور باطنی معنانی کے بیان میں کبھی اس کو اسلام،[6] کبھی ولایت حضرت علیؑ کی شناخت، [7] اور کبھی عالم ذر میں مؤمنین پر رنگ ولایت سے رنگنا قرار دیتے ہیں [8] مراد لیا گیا ہے۔[9]

آیہ «صِبْغَۃَ اللَّہِ وَ مَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّہِ صِبْغَۃً»[؟؟] اور اس کے قبل والی آیات (یعنی سورہ بقرہ کی آیات 135–138) کے شأن نزول کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ یہ آیات یہودیوں اور عیسائیوں کے اختلافات کے بارے میں نازل ہوئی ہیں کیونکہ یہ دونوں صرف اپنے آپ کو حق سمجھتے ہیں۔ پروردگار عالم نے ان آیات میں اعلان کیا ہے کہ حقیقی مؤمن، اللہ کے انبیاء کے درمیان فرق کا قائل نہیں ہوتا اور خدا، وحی اور تمام انبیاء کی حقانیت کا معتقد ہوتا ہے نیز خود کو الہی رنگ (اسلام کہ جس میں پروردگار کے تمام قوانین کے آگے ابتدا سے انتہا تک تسلیم محض رہتا ہے) میں مزین کئے رہتا ہے؛ «اور رنگ الہی سے بہتر کون سا رنگ ہے؟»۔[10]

ایران میں سنہ 1997ء میں ایک مذہبی فلم «رنگ خدا» کے نام سے بنائی گئی کہ جس کے ڈائریکٹر مجید مجیدی تھے۔[11]

نوٹ

  1. مترجم فارسی جیسے دہلوی، عبدالمحمد آیتی، عبدالحسین آیتی، پایندہ، رہنما و مکارم شیرازی؛ انگلش مترجم جیسے پیکتال، داوود و دریابادی؛ فرانسوی مترجم جیسے ابوالقاسم فخری، حمیداللہ، ژاک بِرِک و آندرہ شورقی۔
  2. فارسی مترجم جیسے بہبودی؛ انگلش مترجم جیسے جورج سیل، آربری و یوسف علی؛ فرانسوی مترجم جیسے کازیمیریسکی، حدیدی و کریستین بونو۔
  3. مولفین مقالہ «رنگ یا تعمید؟» نے لفظ صِبغ کے ریشہ کو سمجھتے ہوئے اس کے اصلی معنی کو «کسی شی کو پانی(مایع) میں ڈبونا» جانا ہے جس کا استعمال، قدیم زمانہ سے اب تک الگ الگ ہے۔ جیسے اونٹ کا منھ(ہونٹ) پانی میں ڈبونا، کپڑے کو رنگ میں ڈبونا، سالن میں روٹی کے لقمہ کو ڈبونا، عیسائیوں کو پانی (تعمید) میں ڈبونا وغیرہ۔ اس اعتبار سے ان لوگوں کے مطابق صبغۃ اللہ کے لئے بہترین ترجمہ «تعمید خدا» ہے۔(خاتمی و طباطبائی، «رنگ یا تعمید؟»، ص۲۵)

حوالہ جات

  1. خاتمی و طباطبائی، «رنگ یا تعمید؟»، ص۱۷-۱۹۔
  2. خاتمی و طباطبائی، «رنگ یا تعمید؟»، ص۱۲-۱۷۔
  3. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۳۷۶ش، ج۲، ص۱۷۶؛ طوسی، التبیان، دار احياء التراث العربی، ج۱، ص۴۸۵؛ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۱، ص۳۱۵۔
  4. طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص۴۴۵؛ طوسی، التبیان، دار احياء التراث العربی، ج۱، ص۴۸۵؛ بیضاوی، انوار التنزیل، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۱۰۹۔
  5. میبدی، کشف الاسرار، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۳۸۱-۳۸۲؛ طریحی، تفسیر غریب القرآن، انتشارات زاہدی، ص۳۸۲؛ ثعالبی، جواہر الحسان، ۱۴۱۸، ج۱، ص۳۲۴-۳۲۵۔
  6. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۱۴۔
  7. عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ھ، ج۱، ص۶۲۔
  8. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۴۲۲–۴۲۳۔
  9. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۱، ص۳۱۵۔
  10. بابایی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ۱۳۸۲ش، ج۱، ص۱۲۶–۱۲۷۔
  11. فیلم رنگ خدا، سایت راسخون۔

مآخذ

  • ابو الفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان، مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی، ۱۳۷۶ ہجری شمسی۔
  • بابایی، احمد علی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۸۲ ہجری شمسی۔
  • بیضاوی، عبداللہ بن عمر، انوار التنزیل و اسرار التأویل، بیروت، دار احياء التراث العربی، ۱۴۱۸ھ۔
  • ثعالبی، عبدالرحمن بن محمد، جواہر الحسان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احياء التراث العربی، ۱۴۱۸ھ۔
  • خاتمی، مصعومہ - طباطبائی، سیدکاظم، «رنگ یا تعمید؟»، مجلہ پژوہش دینی، شمارہ ۱۲، زمستان ۱۳۸۴ہجری شمسی۔
  • طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۷ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفہ، ۱۴۱۲ھ۔
  • طریحی، فخرالدین، تفسیر غریب القرآن، قم، انتشارات زاہدی، [بے تا ]۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احياء التراث العربی، [بے تا ]۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تہران، المطبعۃ العلميۃ، ۱۳۸۰ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • میبدی، رشید الدین، کشف الاسرار و عُدّۃ الابرار، تہران، انتشارات امیرکبیر، ۱۳۷۱ہجری شمسی۔