صالح المؤمنین

ویکی شیعہ سے
(آیت صالح المؤمنین سے رجوع مکرر)
شیعوں کے پہلے امام
امام علی علیہ السلام
حیات طیبہ
یوم‌ الدارشعب ابی‌ طالبلیلۃ المبیتواقعہ غدیرمختصر زندگی نامہ
علمی میراث
نہج‌البلاغہغرر الحکمخطبہ شقشقیہبغیر الف کا خطبہبغیر نقطہ کا خطبہحرم
فضائل
آیہ ولایتآیہ اہل‌الذکرآیہ شراءآیہ اولی‌الامرآیہ تطہیرآیہ مباہلہآیہ مودتآیہ صادقینحدیث مدینہ‌العلمحدیث رایتحدیث سفینہحدیث کساءخطبہ غدیرحدیث منزلتحدیث یوم‌الدارحدیث ولایتسدالابوابحدیث وصایتصالح المؤمنینحدیث تہنیتبت شکنی کا واقعہ
اصحاب
عمار بن یاسرمالک اشترسلمان فارسیابوذر غفاریمقدادعبید اللہ بن ابی رافعحجر بن عدیمزید


صالِحُ‌المُؤمِنین، بہترین مومن یا صالح اور نیک مومن کے معنی میں ہے جسے سورہ تحریم کی چوتھی آیت سے لیا ہے۔ اس آیت میں صالح المومنین سے مراد ایسے شخص کو لیا ہے جو اللہ تعالی، جبرئیل اور دیگر فرشتوں کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی حمایت کرتا ہے۔

بعض مفسروں نے اس لفظ کو واحد اور اس کا مصداق صرف ایک فرد کو لیا ہے جبکہ دوسروں نے اسے اسمِ جنس قرار دیتے ہوئے سارے پرہیزگار مسلمانوں کو اس میں شامل کیا ہے۔ شیعہ مفسرین نے امام علیؑ کو پہلے نظرئے کے مطابق واحد مصداق جبکہ دوسرے نظرئے کے مطابق سب سے بہترین مصداق قرار دیا ہے۔

مفہوم‌شناسی

صالح‌المؤمنین بہترین مومن یا نیک مومنوں کے معنی میں ہے۔[1] بعض مفسروں نے اس آیت میں صالح کو اسم جنس قرار دیتے ہوئے[2] یہ نتیجہ لیا ہے کہ تمام نیک، متقی اور کامل ایمان والے مومنین شامل ہیں۔[3] ان کے مقابلے میں بعض کا کہنا ہے کہ صالح المومنین عام نہیں ہے اور یہ لفظ صرف ایک ہی شخص پر صدق آتا ہے۔[4] علامہ طباطبایی کا کہنا ہے کہ "صالح‌المؤمنین" کی ترکیب "الصالح من المؤمنین" کی ترکیب سے الگ ہے جملے کی دوسری ترکیب ہو تو "الف" و "لام" کی وجہ سے صالح کا لفظ اسمِ جنس بنتا ہے اور جو عمومی معنی دیتا ہے؛ لیکن صالح‌ المؤمنین سے جنس یا عموم کا معنی سمجھ میں نہیں آتا ہے۔[5]

آیہ صالح‌المومنین

صالح المومنین کو اس آیت سے اخذ کیا ہے: "إِن تَتُوبَا إِلَی اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکمَا ۖ وَإِن تَظَاهَرَ‌ا عَلَیهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِ‌یلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِینَ ۖ وَالْمَلَائِکةُ بَعْدَ ذَٰلِک ظَهِیرٌ‌[؟؟] (ترجمہ: اگر تم دونوں (اللہ کی بارگاہ میں) توبہ کر لو (تو بہتر ہے) کیونکہ تم دونوں کے دل ٹیڑھے ہو چکے ہیں اور اگر تم ان (پیغمبرؐ کے خلاف ایکا کرو گی (تو تم پیغمبر کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکو گی) کیونکہ یقیناً اللہ ان کا حامی ہے اور جبرائیلؑ اور نیکوکار مؤمنین اور اس کے بعد سب فرشتے ان کے پشت پناہ (اور مددگار) ہیں)۔"[6] اسی لئے یہ آیت، صالح المومنین کے نام سے پہچانی جانے لگی۔[7]

آیت کا شأن نزول

آیہ صالح المومنین کے شان نزول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ آیت پیغمبر اکرمؐ کی بعض ازواج کی طرف سے آپؐ کو آزار و اذیت پہنچانے کے بارے میں میں نازل ہوئی ہے۔[8]ان روایات کے مطابق، رسول اللہؐ ازواج میں سے ایک کے پاس گئے، کچھ شہد تناول فرمایا اور وہاں کچھ دیر تک رہے۔ عائشہ نے بعض دیگر ازواج کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کیا کہ اس شہد کی بدبو کو بہانہ کر کے آپ سے دور رہیں۔ اس رفتار کے بعد رسول اللہؐ نے شہد کھانے کو اپنے اوپر حرام قرار دیا۔ بعض روایات کے مطابق آپؐ نے بھی ازواج سے دوری اختیار کیا اور ان کو طلاق دینے کا ارادہ کیا۔ کچھ عرصہ بعد سورہ تحریم کی آیتیں نازل ہوئیں اور رسول اللہؐ کو حلال چیزیں اپنے اوپر حرام کرنے سے منع کیا۔[9]

اس آیت میں ازواج پیغمبر اکرمؐ سے بھی کہا گیا کہ آپؐ کو اذیت دینے پر توبہ کریں اور ان کو تنبیہ کی گئی کہ اگر مزید آپؐ کو تکلیف پہنچائیں گی تو جان لیں کہ اللہ تعالی رسو اللہ کے ولی اور سرپرست ہیں اور ہر کسی تہدید اور خطرے میں آپ کی حمایت کرے گا اور اللہ جبرئیل اور نیک مومنین اور دوسرے فرشتے رسول خدا کے حامی ہونگے۔[10]

صالح‌المؤمنین کون؟

صالح‌ المؤمنین کے مصداق کے بارے میں مفسروں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ مذکورہ مصادیق میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

  • امام علیؑ: علامہ طباطبائی نے صرف امام علیؑ ہی کو صالح المومنین کا مصداق قرار دیا ہے۔ اور اس بات کو شیعہ[11] اور اہل‌سنت[12] مآخذ میں مذکور بعض روایات قرار دیا ہے جن میں صرف امام علیؑ ہی کو اس کا مصداق قرار دیا گیا ہے۔[13]اس کی علت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ صالح المومنین، بہترین مومنوں[14] میں سے ہو اور معصوم بھی ہو؛ کیونکہ جبرئیل اور دوسرے فرشتوں کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔[15]
  • تمام متقی مسلمان: بعض اہل سنت اور شیعہ مفسروں کا کہنا ہے کہ صالح المومنین، تمام متقی، نیک، اور ایمانِ کامل والے مومنین کو شامل کرتا ہے۔[16] شیعہ مفسر آیت‌ اللہ مکارم شیرازی امام علیؑ کو سب سے کامل مصداق قرار دیتے ہیں۔[17] اہل سنت کے مفسر آلوسی کے مطابق، امام علیؑ، ابوبکر اور عمر صالح المومنین کے مصادیق میں سے ہیں؛ لیکن انہی افراد میں منحصر بھی نہیں ہے۔[18]

اہل سنت کے مفسر آلوسی (متوفی ۱۲۷۰ھ) نے ابن عساکر سے منسوب کرکے کہا ہے کہ ابوبکر اور عمر صالح المومنین کے مصادیق ہیں؛[19] کیونکہ انکی بیٹیاں عایشہ اور حفصہ ازواج نبی میں سے تھیں، جن کو پیغمبر کو تکلیف پہنچانے سے منع کرتے تھے۔[20]اسی طرح اہل سنت مآخذ میں مذکور بعض روایات کے مطابق ابوبکر اور عمر یا صرف عمر، صالح المومنین کے مصداق میں ذکر ہوئے ہیں۔[21] البتہ بعض نے ان روایات کو سند کے اعتبار سے ضعیف اور غیر معتبر قرار دیا ہے۔[22]

حوالہ جات

  1. قرشی، قاموس قرآن، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۴۲.
  2. طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۴۷۱؛ آلوسی، روح‌المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۴، ص۳۴۸؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۴، ص۲۸۰.
  3. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۴، ص۲۸۰.
  4. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۹، ص۳۳۲.
  5. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۹، ص۳۳۲.
  6. سورہ تحریم، آيہ۴.
  7. علامہ حلی، نہج‌الحق، ۱۴۰۷ق، ص۱۹۱.
  8. ملاحظہ کریں: واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۴۵۹-۴۶۱.
  9. واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۴۵۹-۴۶۱.
  10. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۹، ص۳۳۱.
  11. صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۳۱؛ حویزی، تفسیر نورالثقلین، ۱۴۱۵ق، ج۵، ص۳۷۰.
  12. حسکانی، شواہدالتنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ۳۴۱-۳۵۲؛ ابوحیان اندلسی، البحر المحیط، ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۳۳۲؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۶، ص۲۴۴.
  13. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۹، ص۳۳۲.
  14. شوشتری، احقاق الحق، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۳۱۴-۳۲۰.
  15. سید بن طاووس، سعد السعود، قم، ص۱۸۱؛ صادقی تہرانی، الفرقان، ۱۴۰۶ق، ج۲۸، ص۴۳۸.
  16. طبری، جامع‌البیان، ۱۴۱۲ق، ج۲۸، ص۱۰۵؛ آلوسی، روح‌المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۴، ص۳۴۹؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۴، ص۲۸۰.
  17. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۴، ص۲۸۰.
  18. آلوسی، روح‌المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۴، ص۳۴۹.
  19. آلوسی، روح‌المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۴، ص۳۴۸-۳۴۹.
  20. شوشتری، احقاق‌الحق، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۳۱۴.
  21. آلوسی، روح‌المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۴، ص۳۴۹.
  22. خداپرست، «بررسی تطبیقی دیدگاہ مفسران فریقین دربارہ مصداق صالح‌المؤمنین»، ص۹۲-۹۶.

مآخذ

  • ابوحیان اندلسی، محمد بن یوسف، البحر المحیط فی التفسیر، تحقیق صدقی محمد جمیل، بیروت،‌ دارالفکر، ۱۴۲۰ھ۔
  • آلوسی، محمود بن عبداللہ، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۱۵ھ۔
  • حسکانی، عبیداللہ بن احمد، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق محمدباقر محمودی، تہران، وزارت ارشاد، ۱۴۱۱ھ۔
  • سید بن طاووس، سیدعلی، سعد السعود للنفوس منضود، قم، محمدکاظم الکتبی.
  • حویزی، عبدالعلی، تفسیر نور الثقلین، تحقیق ہاشم رسولی محلاتی، قم، اسماعیلیان، ۱۴۱۵ھ۔
  • خداپرست، اعظم و دژآباد، حامد، «بررسی تطبیقی دیدگاہ مفسران فریقین دربارہ مصداق صالح‌المؤمنین» در مجلہ مطالعات تفسیری، شمارہ ۲۲، ۱۳۹۴شمسی ہجری۔
  • سیوطی، جلالالدین، الدر المنثور، قم، کتابخانہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ھ۔
  • شوشتری، قاضی نوراللہ، احقاق الحق و ازہاق الباطل، قم، کتابخانہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۹ھ۔
  • صادقی تہرانی، محمد، الفرقان فی تفسیر القرآن، قم، فرہنگ اسلامی، ۱۴۰۶ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیا التراث العربی، ۱۳۹۰ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع‌البیان، تہران، ناصرخسرو، ۱۳۷۲شمسی ہجری۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت،‌ دارالمعرفۃ، ۱۴۱۲ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق و کشف الصدق، بہ‌کوشش عین‌اللہ الحسنی ارموی، قم،‌ دارالہجرۃ، ۱۴۰۷ھ۔
  • قرشی، علی‌اکبر، قاموس قرآن، تہران،‌ دار الکتب الاسلامیۃ، ۱۴۱۲ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،‌ دار الکتب العلمیۃ، ۱۳۷۱شمسی ہجری۔
  • واحدی، علی بن احمد، اسباب نزول القرآن، تحقیق کمال بسیونی زغلول، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۱۱ھ۔