آیت اذن
آیت کی خصوصیات | |
---|---|
آیت کا نام | اُذُن |
سورہ | توبہ |
آیت نمبر | 61 |
پارہ | 10 |
صفحہ نمبر | 196 |
شان نزول | منافقوں کا پیغمبر اکرمؐ کو اذیت پہنچانا |
محل نزول | مدینہ |
موضوع | اخلاق |
مضمون | سماج کے رہبر کی مثبت خصوصیات، دوسروں کی عزت کا خیال رکھنا |
آیت اُذُن سورہ توبہ کی 61ویں آیت ہے جسے آیت تصدیق کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ آیت ان منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اپنی گفتگو سے پیغمبر اکرمؐ کو تکلیف پہنچاتے تھے اور آپؐ کو سادہ لوح کہتے تھے۔ اس آیت میں رسول اللہ کی طرف سے لوگوں کی باتوں پر توجہ دینے کو معاشرے کے رہبر کی ایک اچھی مثبت صفت قرار دیتی ہے جو سب کے لئے خیر و برکت اور عزت و آبرو کی حفاظت کا باعث ہے۔
اصول فقہ میں خبر واحد کی حجیت کی بحث میں بھی اس آیت سے استناد کی جاتی ہے۔
آیت اور ترجمہ
وَمِنْہُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ ہُوَ أُذُنٌ ۚ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّـہِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَہٌ لِّلَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ ۚ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّـہِ لَہُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿61توبہ﴾
اور ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو نبی کو اذیت پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تو بس کان ہیں (یعنی کان کے کچے ہیں) کہہ دیجیے! وہ تمہارے لئے بہتری کا کان ہیں (ان کے ایسا ہونے میں تمہارا ہی بھلا ہے) جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اہلِ ایمان پر اعتماد کرتے ہیں اور جو تم میں سے ایمان لائے ہیں ان کے لئے سراپا رحمت ہیں اور جو لوگ اللہ کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں۔ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (61)
شأن نزول
آیت اُذُن ان منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی کہ جو اپنی گفتگو سے رسول اللہ کو اذیت پہنچاتے تھے۔ جب منافقوں میں کچھ خوف کے مارے انہیں کہتے کہ رسول اللہ کو اس بات کی خبر پہنچے گی اور تمہیں اس کی سزا دی جائے گی تو ان میں جلاس بن سوید اور بعض روایات کی بنا پر نبتل بن حرث نے کہا ہم جو چاہیں محمد کے متعلق کہیں، پھر اس کے پاس جا کر قسم اٹھا لیں گے اور اس سے عذر خواہی کریں گے اور وہ ہمارا عذر قبول کر لیں گے کیونکہ وہ تو جلد یقین کر جاتے ہیں۔[1] اس آیت کے سلسلہ میں دوسرے شان نزول بھی ذکر ہوئے ہیں۔[2]
مضمون آیت
سورہ توبہ کی آیت نمبر 61 آیت اُذن یا آیت تصدیق کے نام سے معروف ہے۔[3] کلمۂ اُذن (کان) اس آیت میں ایک ایسے شخص سے کنایہ ہے جو ہر کسی کی بات کو سنتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے۔[4] اس آیت کے مضمون کے مطابق منافقين نے رسول خدا(ص) کا نام کان رکھا ہے اور ان کی اس سے مراد یہ تھی وہ ہر کسی کی بات کو جلد اعتماد کرنے والے اور عذر خواہی کو بھی قبول کر لیتے ہیں۔[5]
خداونداس آیت میں منافقین سے مخاطب ہو کر کہتا ہے:
- « پیغمبر(ص) کا کان ہونا (ہر کسی کی بات کو سننا) تمہارے لئے خیر کا باعث ہے۔ کلمہ «اُذن» کی خیر کی طرف اضافت رسول اللہ کے زیادہ سننے کی صفت کو بیان کرتی ہے اور یہ صفت دو لحاظ سے معاشرے کے تمام افراد کیلئے مایہ خیر ہے۔ ایک لحاظ سے وحی خدا اور تمام مسلمانوں کو سنتا ہے کہ جس میں معاشرے کے تمام افراد کیلئے خیر و برکت ہے اور دوسری جانب اگر رسول اللہ تمہاری غیر مربوط باتیں سنتے ہیں تو وہ صرف مخاطب کے احترام اور حفظ آبرو کیلئے سنتا ہے۔[6]
تفسیر نمونہ میں رسول اکرم کی جملہ صفات میں سے کان ہونے کو معاشرے کے رہبروں کی مثبت صفت شمار کیا گیا ہے کہ جو معاشرے کے افراد کی نسبت نہایت لطف رحمت کی بیان گر ہے تا کہ اس کے ذریعے لوگوں کے اسرار فاش نہ ہوں اور معاشرے کی وحدت محفوظ رہے؛ اگرچہ منافقین اس نقطہ کو کو پیغمبر کی کمزوری کہتے تھے۔[7]
آیت کے آخری حصے میں اس نکتہ کی جانب اشارہ ہے:
- اگرچہ منافقوں نے اپنی گفتگو کے ذریعے پیغمبر کو تکلیف پہنچائی جبکہ آپ نے وسعت قلبی کے ساتھ انہیں رسوا کرنے سے بچایا۔ لیکن یہ اس معنا میں نہیں ہے کہ وہ اپنے اس ناشائستہ عمل کی سزا نہیں پائیں گے بلکہ آخرت کے روز وہ عذاب سے دوچار ہونگے۔[8]
اصول فقہ میں استعمال
اصول فقہ میں اس آیت کے ذریعے خبر واحد کی حجیت پر استدلال کیا گیا ہے۔[9]
- کیفیت استدلال:
- آیت کے اس حصے يُؤْمِنُ بِاللہِ وَ يُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ میں خداوند نے رسول اکرم ؐ کے وسیلے سے مؤمنین کی تصدیق کو اپنے ساتھ ذکر کیا اور اس عمل کی تعریف کی ہے؛اس بنا پر مؤمن کی تصدیق کا لازمہ خبر کا حجت ہونا بھی ہے اور اگر عادل شخص کسی انسان کیلئے خبر لائے تو اس کی تصدیق کرنی چاہئے۔ البتہ اس استدلال پر متعدد اعتراضات کئے گئے اور مجموعی طور پر کہا گیا کہ اس آیت سے خبر واحد کی حجیت کو نہیں سمجھا جا سکتا۔[10]
حوالہ جات
- ↑ واحدی، اسباب النزول، 1411ق، ص254؛ حویزی، تفسیر نور الثقلین، 1415ق، ج2، ص236.
- ↑ قمی، تفسیر القمی، 1363ش، ج1، ص300؛ فخر رازی، تفسیر الکبیر، 1420ق، ج16، ص89-90.
- ↑ آخوند خراسانی، کفایہ الاصول، 1409ق، ص301.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج8، ص15؛ شاہ عبد العظيمى، تفسیر اثنی عشری، 1363ش، ج5، ص130.
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج9، ص314.
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج9، ص314.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج8، ص15-16.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج8، ص17.
- ↑ آخوند خراسانی، کفایہ الاصول، 1409ق، ص301.
- ↑ آخوند خراسانی، کفایہ الاصول، 1409ق، ص301؛ شیخ انصاری، فرائد الاصول،1419ق، ج1، ص291-292.ش
مآخذ
- قرآن کریم.
- آخوند خراسانی، محمد کاظم، کفایہ الاصول، قم، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام لإحیاء التراث، 1409ق.
- حویزى، عبد على بن جمعہ، تفسیر نور الثقلین، مصحح ہاشم رسولى، قم، اسماعیلیان، 1415ق.
- شاہ عبد العظیمی، حسین، تفسیر اثنی عشری، طہران، میقات، 1363ش.
- شیخ انصاری، مرتضی، فرائد الاصول، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1419ق.
- علامہ طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، 1390ق.
- فخر رازی، محمد بن عمر، تفسیر الکبیر، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1420ق.
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دار الکتاب، 1363ش.
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1371ش.
- واحدی، علی بن احمد، اسباب نزول القرآن، بیروت، دار الکتب العلمیہ، منشورات محمد علی بیضون، 1411ق.