لواط

ویکی شیعہ سے

لِواط، دو مردوں کا آپس میں ہمبستری کرنے کو کہا جاتا ہے جو اسلامی نقطہ نگاہ سے گناہان کبیرہ میں شمار ہوتا ہے۔ احادیث میں لواط کے گناہ کو زِنا کے گناہ سے بھی بڑھا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ فقہاء قرآنی آیات اور معصومین کے احادیث کی روشنی میں لواط کو حرام اور اس کی سزا دخول واقع ہونے کی صورت میں اعدام اور دخول واقع نہ ہونے کی صورت میں سو کوڑے تعیین کرتے ہیں۔

معصومین کی احادیث کے مطابق اس عمل کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ کام ایک طرف انسانی نسل منقطع ہونے کا سبب ہے تو دوسری طرف کائنات کے نظم و نسق میں خلل اور مفاسد واقع ہونے کا سبب ہے۔ مذہب تشیع کی طرح دیگر اسلامی مذاہب اور توحیدی ادیان میں بھی لواط کو ایک منفور اور ممنوع عمل تصور کیا جاتا ہے۔

لواط؛ زنا سے بھی بدتر

لِواط کو گناہان کبیرہ میں شمار کیا گیا ہے۔[1] امام صادقؑ سے مروی ایک حدیث میں لواط کے گناہ کو زِنا کے گناہ سے بھی بڑا اور بدتر قرار دیا گیا ہے۔[2] پیغمبر اسلامؑ کی ایک حدیث کے مطابق لواط کا مرتکب شخص خدا کی لعنت اور عذاب کا مستحق قرار پائے گا۔[3]

قرآن کریم میں لواط کو "مُنکَر" (ناپسند) اور "فاحشہ" (آشکار گناہ) کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔[4] اسی طرح لواط کے مرتکب ہونے کی بنا پر قوم لوط کی بارہا سرزنش کرتے ہوئے[5] اس عمل کو ان کی ہلاکت اور ان پر خدا کے عذاب کا سبب قرار دیا گیا ہے۔[6]

مفہوم‌شناسی

مزید معلومات کے لئے دیکھئے: ہم‌ جنس‌ گرائی

لواط ایک فقہی اصطلاح ہے جس کی یوں تعریف کی گئی ہے کہ؛ مرد کا آلت تناسل دوسرے مرد کے مقعد میں داخل کرنا۔[7] شیعہ عالم دین علی مشکینی کے مطابق فقہاء ختنہ گاہ سے کم داخل ہونے کو بھی لواط قرار دیتے ہیں[8] اسی طرح بعض فقہاء مردوں کا آپس میں ہمبستری کرنے کو لواط قرار دیتے ہیں اگرچہ آلت تناسل مقعد میں داخل نہ بھی ہو۔[9]
امام رضاؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق چونکہ قوم لوط اس عمل کو انجام دینے والی پہلی قوم تھی اس گناہ کا نام اسی قوم کے نام سے اخذ کرتے ہوئے "لِواط" رکھا گیا ہے۔[10]

حکم شرعی

لواط ایک حرام عمل ہے جسے گناہان کبیرہ میں شمار کیا گیا ہے[11] جس پر شرعی سزاؤں (حد) کے علاوہ دوسرے احکام حیسے شادی کی محدودیت وغیرہ بھی لاگو ہوتے ہیں۔[12]

شادی کی محدودیت

اسلامی نطقہ نگاہ سے لواط کرنے والے کے ساتھ بعض خواتین کی شادی کا ممنوع ہونا اس قبیح عمل کے شرعی لوازمات میں سے ایک ہے۔ شیعہ مراجع تقلید کے فتوے کے مطابق لواط کرنے والے(فاعل) کے ساتھ لواط کرانے والے(مفعول) کی ماں، بیٹی اور بہن کی شادی ہمیشہ کے لئے حرام[13] ہے۔[14] یہ حکم اسلامی جمہوریہ ایران کے مدنی قانون کی شق نمبر 1056 میں بھی آیا ہے۔[15] البتہ فقہاء کا ایک گروہ اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ حکم اس وقت ہے جب لواط‌ کرنے والا اس عمل کے ارتکاب کے وقت بالغ ہو۔[16] اسی طرح یہ قبیح عمل اگر مذکورہ شخص کی ماں، بہن یا بیٹی کے ساتھ شادی کے بعد انجام دیا گیا ہو تو اس صورت میں بھی میاں بیوی ایک دوسرے پر حرام نہیں ہونگے اور ان کی شادی یا نکاح بھی باطل نہیں ہو گی۔[17]

سزا

فقہاء کے فتوے کے مطابق لواط کرنے والا اور کرانے والا اس عمل کے ارتکاب کے وقت بالغ ہونے کی صورت میں ان کی سزا اعدام ہے[18] اور ان میں سے جو بھی نابالغ ہو تو اسے تأدیب یعنی تنبیہ کی جائے گی۔[19] تأدیب ان سزاؤوں کو کہا جاتا ہے جو حاکم‌ شرع غیر بالغ مجرموں پر لاگو کرتے ہیں جس کی مقدار شرعی حد سے کم ہوتی ہے۔[20]

البتہ بعض فقہاء جیسے آیت اللہ خوئی کا فتوا اس سلسلے میں مشہور فقہاء سے مختلف ہے، ان کے مطابق اعدام کا حکم لواط‌ کرنے والے پر صرف اس وقت لاگو ہونے جب وہ مُحصِن ہو یعنی شادی شدہ ہو اور بیوی کے ساتھ ہمبستری کا امکان بھی ہو وگرنہ اس کی سزا 100 کوڑے ہیں۔[21]
اس طرح فقہاء کے مطابق اس عمل کے دوران آلت تناسل مقعد میں داخل نہ ہوا ہو تو اس صورت میں ان کی شرعی سزا سو کوڑے ہیں[22] اور ہر صورت میں اگر لواط کا مرتکب شخص جرم ثابت ہونے سے پہلے توبہ کرے تو اس کی شرعی سزا ساقط ہوگی۔[23]

اعدام کی نوعیت

احادیث[24] و منابع فقہی،[25] میں لواط کرنے والے کو اعدام کرنے کے مختلف طریقے بیان ہوئے ہیں: گردن اڑا دینا، آگ لگا دینا، پہاڑ سے نیچے گرا دینا، سنگسار کرنا اور اس کے اوپر دیوار گرا دینا۔ حاکم اسلامی اسلامی معاشرے کی مصلحت کو مدنظر رکھتے ہوئے مذکورہ بالا سزاؤں میں سے کسی ایک سزا کو اجراء کرے گا۔[26] البتہ اگر بعض مواقع بعض شرعی سزاؤں کو اجراء کرنا اسلام اور دین کی توہین کا سبب بنے تو اسلامی حاکم کو یہ اختیار ہے کہ وہ دین کے وسیع تر مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے موقتاً اس سزاء کو اجراء کرنے سے روک دیں[27] یا کسی اور طریقے کو اپنانے کا حکم دیں مثلا اعدام کرنے کے لئے گولی مار دیں۔[28]

لواط کی حرمت کا فلسفہ

لواط کے حرام ہونے کی علت بیان کرتے ہوئے امام رضاؑ سے مروی ایک حدیث میں آیا ہے کہ خدا نے عورتوں کو مردوں کی طبیعت کے ساتھ سازگار خلق فرمایا ہے اور لواط کا عمل تولید نسل معدم ہونے اور کائنات کے نظم و نسق میں مفسدہ اور خلل واقع ہونے کا باعث ہے۔[29]
علامہ طباطبایی تفسیر المیزان میں لواط اور زنا کا موازنہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں، قرآن میں لواط کو "تَقْطَعُونَ السَّبِيلَ" یعنی راستہ بند کرتے ہیں" [30] سے تعبیر کی گئی ہے؛[31] لیکن زنا کے بارے میں فرمایا ہے کہ "سَاءَ سَبِيلًا" یعنی غلط راستہ ہے۔[32] پس قرآن کی نظر میں لواط کا وضعی اور فطری اثر زنا سے بد تر ہے؛ کیونکہ یہ تولید نسل اور فرزند آوری کے عمل کے منقطع ہونے کا سبب ہے۔[33]

لواط کے بارے میں دوسرے ادیان و مذاہب کا نظریہ

لواط اہل‌ سنت کے تمام مذاہب کے نزدیک بھی ایک حرام فعل ہے اور ان کے یہاں بھی اس کام کے مرتکب شخص پر شرعی سزا معین کی گئی ہے۔[34] البتہ بعض مذاب جیسے مذہب حنفیہ کا فتوا یہ ہے کہ اس عمل کے مرتکب شخص پر حد کی جگہ تعزیر کی سزا ہو گی [35]
اسی طرح دوسرے الہی ادیان میں بھی لواط ایک منفور اور ممنوع عمل تصور کیا گیا ہے: دین زردشت میں لواط کو سب سے برا فعل شمار کیا گیا ہے اور اس کے مرتکب شخص کو اعدام کا مستحق قرار دیا گیا ہے.[36] تورات میں لواط کو فُجور کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔[37] عہد جدید (عیسائیوں کی مقدس کتاب) میں بھی لواط‌ کرنے والے کو فاسق، ستم گر اور بت‌پرست قرار دیتے ہوئے ان کے بارے میں آیا ہے کہ ایسے افراد عالم ملکوت میں خدا کا وارث نہیں ہو گا۔[38]

حوالہ جات

  1. علامہ حلی، تحریر الاحکام الشرعیۃ، مؤسسہ آل‌البیتؑ، ج2، ص224.
  2. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5 ؛ ص543.
  3. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5 ؛ ص544.
  4. سورہ عنکبوت، آیہ 28 و 29؛ سورہ اعراف، آیہ 80.
  5. فقیہی، تربیت جنسی، 1387ہجری شمسی، ص311.
  6. فیض الاسلاء، ترجمہ و تفسیر قرآن کریء، 1378ہجری شمسی، ج2، ص443.
  7. مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1381ہجری شمسی، ص457.
  8. مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1381ہجری شمسی، ص457.
  9. مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1381ہجری شمسی، ص457.
  10. علی بن موسی، الفقہ المنسوب للإمام الرضاؑ، 1406ھ، ص276.
  11. علامہ حلی، تحریر الاحکام الشرعیۃ، مؤسسہ آل‌البیتؑ، ج2، ص224؛ سبزواری، مہذّب‌الاحکاء، 1413ھ، ج27، ص303.
  12. علامہ حلی، تحریر الاحکام الشرعیہ، مؤسسہ آل‌البیتؑ، ج2، ص13؛ خويى، منہاج الصالحين، 1410ھ، ج‌2، ص265.
  13. شبیری زنجانی، کتاب نکاح، 1419ھ، ج7، ص2109؛ فرہنگ فقہ، 1426ھ، ج2، ص365.
  14. امام خمینی، توضیح المسائل (محشّی)، 1424ھ، ج2، ص473.
  15. امامی، سید حسن، حقوق مدنی، انتشارات اسلامیہ، ج4، ص328.
  16. امام خمینی، توضیح المسائل (محشّی)، 1424ھ، ج2، ص473.
  17. امام خمینی، توضیح المسائل (محشّی)، 1424ھ، ج2، ص473.
  18. برای نمونہ نگاہ کنید بہ محقق حلّی، شرائع الاسلاء، 1408ھ، ج4، ص147؛ علامہ حلّی، تحریر الاحکام الشرعیہ، مؤسسہ آل‌البیتؑ، ج2، ص224؛ شہید ثانی، مسالک‌الافہاء، 1413ھ، ج14، ص402؛ نجفی، جواہر الکلاء، 1404ھ، ج41، ص379-380؛ امام خمینی، تحریر الوسیلہ، مؤسسہ دار العلء، ج2، ص469، م4.
  19. برای نمونہ نگاہ کنید بہ علامہ حلّی، تحریر الاحکام الشرعیہ، مؤسسہ آل البیتؑ، ج2، ص224؛ شہید ثانی، مسالک الافہاء، 1413ھ، ج14، ص403؛ امام خمینی، تحریر الوسیلہ، مؤسسہ دار العلء، ج2، ص469، م4.
  20. ترحینی عاملی، الزبدۃ الفقہیۃ، 1427ھ، ج9، ص305
  21. خویی، تکملۃ المنہاج، 1410ھ، ج2، ص38-39.
  22. برای نمونہ نگاہ کنید بہ محقق حلّی، شرائع الاسلاء، 1408ھ، ج4، ص147؛ علامہ حلّی، تحریر الاحکام الشرعیہ، مؤسسہ آل البیتؑ، ج2، ص224.
  23. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، مؤسسہ دار العلء، ج2، ص470، م8.
  24. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج7، ص200.
  25. محقق حلّی، شرائع الاسلاء، 1408ھ، ج4، ص147؛ علامہ حلّی، تحریر الاحکام الشرعیۃ، مؤسسہ آل البیتؑ، ج2، ص224.
  26. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، مؤسسہ دار العلء، ج2، ص470، م5.
  27. امام خمینی، صحیفہ اماء، 1389ہجری شمسی، ج20، ص452.
  28. مکارم شیرازی، ناصر، استفتاءات جدید، 1427ھ، ج3، ص369، س948.
  29. ابن‌بابویہ، عیون اخبار الرضاؑ، 1378ھ، ج2، ص97؛ صدوھ، علل الشرایع، منشورات المكتبۃ الحيدريۃ، ج2، ص547
  30. سورہ عنکبوت، آیہ 29.
  31. طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج16، ص123.
  32. سورہ اسراء، آیہ 32؛‌ سورہ نمل، آیہ 54.
  33. طباطبایی، المیزان، منشورات اسماعیلیان، ج18، ص63، ج13، ص88.
  34. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات، 1427ھ، ج2، ص49.
  35. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات، 1427ھ، ج2، ص52.
  36. رضایی، تاریخ ادیان جہان، 1380ہجری شمسی، ج1، ص197.
  37. کتاب مقدس، کتاب لاویان، فصل 18، آیہ22.
  38. کتاب مقدس، کتاب قرنتیان، فصل 6، آیہ 9-10.

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • کتاب مقدس۔
  • امام خمینی، سید روح اللہ، تحریر الوسیلہ، قم، مؤسسہ مطبوعات دار العلم، چاپ اول، بی‌تا۔
  • امام خمینی، روح‌اللہ، صحیفہ امام، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ پنجم، 1389ہجری شمسی۔
  • امامی، سید حسن، حقوق مدنی، تہران، انتشارات اسلامیہ، بی‌تا۔
  • بنی‌ہاشمی خمینی، سیدمحمدحسن، توضیح‌المسائل مراجع، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1424ھ۔
  • ترحینی عاملی، سید محمد حسین، الزبدۃ الفقہیۃ فی شرح الروضۃ البہیۃ، دار الفقہ للطباعۃ و النشر، قم، چاپ چہارم، 1427ھ۔
  • جمعی از پژوہشگران زیر نظر شاہرودی، سید محمود ہاشمی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل‌بیتؑ، قم، مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل‌بیتؑ، 1426ھ۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، تکملۃ المنہاج، نشر مدینۃ العلم، قم، چاپ بیست و ہشتم، 1410ھ۔
  • سبزواری، سید عبد الأعلی، مہذّب الأحکاء، قم، مؤسسہ المنار، چاپ چہارم، 1413ھ۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، مسالک الأفہام إلی تنقیح شرائع الإسلاء، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، قم، چاپ اول، 1413ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضاؑ، تہران، نشر جہان، چاپ اول، 1378ھ۔
  • رضایی، عبدالرحیم، تاریخ ادیان جہان، تہران، انتشارات علمی، چاپ دوم، 1380ہجری شمسی۔
  • علامہ حلّی، حسن بن یوسف، تحریر الأحکام الشرعیۃ علی مذہب الإمامیۃ، مؤسسہ آل البیتؑ، مشہد، چاپ اول، بی‌تا۔
  • شبیری زنجانی، سید موسی، کتاب نکاح، قم، مؤسسہ پژوہشی رای‌پرداز، چاپ اول، 1419ھ۔
  • علی بن موسی (امام ہشتم)، الفقہ المنسوب للإمام الرضاؑ، مشہد، مؤسسۃ آل البیتؑ، چاپ اول، 1406ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • فقیہی، علی‌نقی، تربیت جنسی، قم، موسسہ علمی فرہنگی دار الحدیث، چاپ اول، 1387ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلاء، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1404ھ۔
  • محقق حلّی، نجم الدین، شرائع الإسلام فی مسائل الحلال و الحراء، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • مشکینی، میرزا علی، مصطلحات الفقہ، قم، نشر الہادی، چاپ سوم، 1381ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، استفتاءات جدید، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی طالبؑ، قم، چاپ دوم، 1427ھ۔
  • موسوی اردبیلی، سید عبد الکریم، فقہ الحدود و التعزیرات، قم، مؤسسۃ النشر لجامعۃ المفید، چاپ دوم، 1427ھ۔