چغل خوری

ویکی شیعہ سے
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

چغل خوری یا نمیمہ یا نمامی کبیرہ گناہوں سے ہے جس کا معنی دوستانہ روابط کو خراب کرنے کی نیت سے کسی ایک کی باتیں دوسرے افراد تک پہنچانا ہے. چغل خوری زبان کے گناہوں سے ہے اور قرآن و روایات میں اس سے منع کیا گیا ہے. یہ گناہ عام طور پر دوسرے گناہوں جیسے غیبت، تہمت کے ہمراہ ہے اور بعض دوسری وجوہات جیسے کہ حسادت سے شروع ہوتی ہے. اس گناہ کے دنیوی نقصانات نفس کا قتل اور ذلت وخواری ہے اور اخروی نقصانات جنت سے محروم ہونا ہے.

تعریف

چغل خوری کا معنی دوستانہ روابط کو خراب کرنے کی نیت سے کسی شخص کی بات دوسروں تک پہنچانا ہے. البتہ چغل خوری صرف یہ نہیں کہ زبان سے کہا جائے بلکہ لکھ کر کرنا یا اشارہ کرنا بھی اسی میں شامل ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی کوئی چیز سب کو نہیں دکھانا چاہتا اس کی چیز سے پردہ اٹھانا بھی چغل خوری ہی ہے. [1] جب کوئی دوستانہ روابط کو خراب کرنے کے لئے کسی کی بات دوسرے تک پہنچاتا ہے اس شخص کو چغل خور یا نمام کہتے ہیں. چغل خوری دوسرے گناہوں جیسے کہ راز کھولنا، تہمت، منافقت، حسادت، جھوٹ اور غیبت کے ہمراہ ہے. [2]

چغل خوری اور سعایت میں فرق

سعایت ایک قسم کی چغل خوری ہے. اگر کسی کی باتیں کسی ایسے شخص کے آگے جس سے وہ ڈرتا ہے (جیسے کہ بادشاہ) بیان کریں تو اسے سعایت کہتے ہیں.[3] نراقی نے سعایت کو چغل خوری کی بدترین قسم کہی ہے اور اس کا گناہ دوسری قسم کی چغل خوریوں سے زیادہ ہے اور اس کے عقیدے کے مطابق یہ گناہ حسادت اور طمع کی وجہ سے شروع ہوتا ہے. [4]

قرآن اور روایات میں

نمیم کا لفظ ایک بار قرآن میں استعمال ہوا ہے. سورہ قلم میں چغل خوری کی پیروی کرنے سے منع کیا گیا ہے.[5] کہا گیا ہے: سورہ ہمزہ کی پہلی آیت میں ہمزہ سے مراد چغل خور ہے.[6] اسی طرح بعض مفسرین نے ابو لہب کی زوجہ کے بارے میں "حمالۃ الحطب" کی تعبیر کو چغل خوری کے لئے ذکر کیا ہے.[7]

بعض اخلاقی علماء نے، چغل خوری کو ایسے مصادیق سے کہا ہے کہ جن کی سورہ بقرہ کی آیت ٢٧اور سورہ شوری کی آیت ٤٢ میں مذمت کی گئی ہے.[8]

روایات میں چغل خوری کو اخلاقی رذایل اور کبیرہ گناہوں کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے. کلینی نے کافی میں "المیمۃ" کے باب کے ذیل میں تین روایت بیان کی ہیں. ان روایات میں چغل خور افراد کو بدترین افراد کہا گیا ہے اور اسی طرح ان کا نام جنت سے محروم افراد میں لکھا گیا ہے.[9] بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ چغل خوری عذاب قبر کے عوامل میں سے ہے. [10] بعض دیگر روایات میں چغل خوری کی طرف مائل ہونا منافق کی خصوصیات سے کہا گیا ہے.[11]

فقہ اور اخلاق میں

اخلاقی کتب میں چغل خوری، رذائل اخلاقی، اور زبان سے مرتبط گناہوں (زبان کی آفات) کے ذیل میں ذکر ہوئی ہے. [12] اسی طرح فقہی کتابوں میں، اس کا ذکر حدود، تعزیرات[13] اور مکاسب محرمہ کے باب میں آیا ہے.[14]

فقہی حکم

چغل خوری کبیرہ گناہوں سے ہے اور حرام ہے.[15] دیلمی نے ارشاد القلوب میں اسے غیبت سے بھی بڑا گناہ کہا ہے.[16] علامہ حلی نہ کہا ہے کہ جنگ کا سپاہ سالار ایک چغل خور شخص کو جنگ پر نہ لے جائے اور اگر چغل خور شخص جنگ میں شرکت کرے، تو مال غنیمت میں سے اس کو کوئی حصہ نہیں ملے گا.[17]

شیعہ فقہاء کی نگاہ میں، چغل خور شخص کے ہاتھ سے مال حاصل کرنا حرام ہے.[18] اسی طرح اگر کوئی کسی پر چغل خوری کی تہمت لگائے، تو اس کا حکم تعزیر ہے.[19]

استثناء

بعض جگہ پر چغل خوری جائز ہے، مثال کے طور پر دشمنوں کے درمیان ان میں اختلاف ایجاد کرنے کی نیت سے چغل خوری کرنا.[20]

دلائل اور وجوہات

نراقی کی نگاہ میں چغل خوری کی وجہ قوای غضبیہ اور شہویہ ہے.[21] بعض اخلاقی کتابوں میں اس کے لئے محرکات بیان ہوئے ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں:

  • جس شخص کا راز فاش ہوا ہے اسے نقصان پہنچانا.
  • جس کے آگے کسی اور کا قول نقل ہوا ہو، اس سے اظہار محبت کرنا.
  • تفریح اور مصروفیت.
  • بے ربط گفتگو،[22]
  • نفرت ایجاد کرنا.

آثار و نتائج

روایات میں چغل خور کے لئے آثار اور نتائج بیان ہوئے ہیں، کہ جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • عذاب قبر

ابن عباس کی روایت کے مطابق عذاب قبر کا تیسرا حصہ چغل خوری کی وجہ سے ہے.[23]

  • جنت سے محروم ہونا

امام باقر(ع) کی روایت کے مطابق، چغل خور کا نام ایسے اشخاص میں ذکر ہوا ہے جو جنت میں داخل ہونے سے محروم ہیں.[24]

  • دعا کا مستجاب نہ ہونا

کعب الاحبار کی گزارش کے مطابق، بنی اسرائیل قحطی سے دوچار ہوئے. حضرت موسی نے کئی بار خدا سے بارش کا تقاضا کیا، لیکن خدا نے حضرت موسی کی درخواست کو اجابت نہ کیا. اللہ تعالیٰ نے موسی پر وحی کی کہ تمہارے درمیان چغل خور ہے اور جب تک وہ اپنی چغل خوری کو جاری رکھے گا میں تمہارا جواب نہیں دوں گا. موسی نے خدا سے کہا کہ اس چغل خور کے بارے میں مجھے بتاؤ کہ وہ کون ہے. اللہ تعالیٰ نے کہا میں تمہیں چغل خوری سے منع کر رہا ہوں، اور خود کس طرح چغل خوری کروں.[25]

  • ذلت اور خواری

نقل ہوا ہے کہ چغل خوری جھوٹ، حسد اور نفاق پر استوار ہے اور ایک ایسا چولہا ہے کہ ذلت و خواری اس کی آگ پر پکتی ہیں.[26]

  • کینہ اور اختلاف کا ایجاد ہونا

حضرت علی(ع) سے روایت ہے کہ چغل خوری سے پرہیز کرو، کیونکہ یہ کینہ زیادہ کرتی ہے اور خدا اور لوگوں کے درمیان فاصلہ ڈالتی ہے.[27]

علاج

چغل خوری کے علاج کی سفارش ہوئی ہے اس کے لئے، اس کے محرکات جیسے حسادت، کینہ وغیرہ کو دور کیا جائے، اسی طرح روایات میں چغل خوری کہ جو دنیوی اور اخروی نقصانات بیان ہوئے ہیں ان کی طرف توجہ کی جائے. چغل خور شخص کے ساتھ کیا رویہ اپنایا جائے اسے فیض کاشانی نے یوں بیان کیا ہے:

  • چغل خور شخص کی باتوں کی تصدیق نہ کی جائے
  • اسے چغل خوری سے روکا جائے (نہی از منکر)
  • چغل خور شخص کی باتیں سن کر دوسروں کے بارے میں برا گمان نہ کیا جائے
  • چغل خور شخص کی باتوں کے درست یا نادرست ہونے کے بارے میں نہ سوچنا
  • چغل خور شخص کی باتوں کو دوبارہ نہ کہا جائے
  • اس کو دشمن سمجھنا[28]

فارسی ادب

فارسی ادب میں چغل خواری کا مسئلہ بیان ہوا ہے. فارسی زبان کے شاعروں نے چغل خوری کی برائی بیان کرنے کے لئے شعر پڑھے ہیں. گلستان سعدی میں یوں آیا ہے: میان دو کس جنگ چون آتش است سخن‌چین بدبخت هیزم‌کش است[29] شعر کا ترجمہ: دو لوگوں کے درمیان جنگ آگ کی طرح ہے اور چغل خور شخص اس جنگ میں ایندھن لانے والا ہے.

حوالہ جات

  1. فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، موسسۃ النشر الاسلامی، ج۵، ص۲۷۷؛ نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۲، ص۲۷۴. ↑
  2. فیض کاشانی، المحجہ البیضاء، موسسۃ النشر الاسلامی، ج۵، ص۲۷۸.
  3. فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، موسسۃ النشر الاسلامی، ج۵، ص۲۷۹.
  4. نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۲، ص۲۷۹.
  5. قلم، ۱۱.
  6. فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، موسسۃ النشر الاسلامی، ج۵، ص۲۷۵.
  7. شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، ج۱۰، ص۴۲۸.
  8. فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، موسسۃ النشر الاسلامی، ج۵، ص۲۷۹
  9. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۶۹.
  10. ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ۱۴۰۴ق، ص۱۴.
  11. امام صادق(منسوب)، مصباح الشریعہ، ۱۴۰۰ق، ص۱۴۵.
  12. ر.ک: فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، موسسۃ النشر الاسلامی، ج۵، ص۲۷۵-۲۸۰.
  13. علامہ حلی، قواعد الاحکام، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج۳، ص۵۴۹.
  14. علامہ حلی، قواعد الاحکام، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج۳، ص۵۴۹؛ نجفی، جواہر الکلام، داراحیاء التراث العربی، ج۲۲، ص۷۳.
  15. نجفی، جواہر الکلام، داراحیاء التراث العربی، ج۱۳، ص۳۱۰.
  16. دیلمی، ارشاد القلوب، ج۱، ص۱۱۸.
  17. علامہ حلی، تذکرة الفقہاء، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج۹، ص۵۱.
  18. نجفی، جواہر الکلام، داراحیاء التراث العربی، ج۲۲، ص۷۳.
  19. علامہ حلی، قواعد الاحکام، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج۳، ص۵۴۹.
  20. نجفی، جواہرالکلام، داراحیاء التراث العربی، ج۲۲، ص۷۳.
  21. نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۲، ص۲۷۴-۲۸۰.
  22. فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، موسسۃ النشر الاسلامی، ج۵، ص۲۷۷؛ نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۲، ۲۷۴-۲۷۵.
  23. علامہ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶، ص۲۴۵.
  24. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۶۹.
  25. فیض کاشانی، المحجۃالبیضاء، موسسۃ النشر الاسلامی، ج۵، ص۲۷۶.
  26. فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، موسسۃ النشر الاسلامی، ج۵، ص۲۷۹.
  27. تمیمی آمدی، غررالحکم، ۱۴۱۰ق، ص۱۶۷.
  28. فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، موسسۃ النشر الاسلامی، ج۵، ص۲۷۷-۲۷۸.
  29. سعدی، گلستان، باب ہشتم در آداب صحبت کردن.

نوٹ

  • الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّـهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴿بقرہ/۲۷﴾
  • إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْ‌ضِ بِغَيْرِ‌ الْحَقِّ ۚ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿شوری/٤٢﴾

ماخذ

  • ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، تصحیح: علی اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۰۴ق/۱۳۶۳ش.
  • امام صادق (منسوب)، مصباح الشریعہ، بیروت، اعلمی، ۱۴۰۰ق.
  • تمیمی آمدی، عبدالواحد بن محمد، غررالحکم و دررالکلم، تصحیح: سید مہدی رجائی، قم، دارالکتاب الاسلامی، ۱۴۱۰ق.
  • دہخدا، علی‌اکبر، تہران، انتشارات دانشگاه تہران، ۱۳۷۷ش.
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق احمد قصیرعاملی، بیروت، داراحیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، قواعد الاحکام، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی التبعت لجماعۃ المدرسین بقم المشرفہ.
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق.
  • فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، المحجۃ البیضاء فی تہذیب الاحیاء، تصحیح: علی‌اکبر غفاری، قم، موسسۃ النشر الاسلامی، بی‌تا.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق.
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، ج۱۳: تحقیق: عباس قوچانی، ج۲۲، تحقیق: شیخ علی آخوندی، داراحیاء التراث العربی.
  • نراقی، محمدمہدی، جامع السعادات، قم، مؤسسہ مطبوعاتی ایرانیان، ۱۹۶۳م/۱۳۸۳ق.