عاق والدین

ویکی شیعہ سے
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

عاق والدین یا عقوق والدین کبیرہ گناہ اور اخلاقی رذائل میں سے ہے جس کے معنی والدین کو یا ان میں سے ایک کو اپنی زبان یا کردار کے ذریعے رنج پہنچانا ہے۔ روایات میں اس کے مصادیق یوں بیان ہوئے ہیں، نافرمانی، غضبناک، احترام نہ کرنا اور اف کہنا، اور کہا گیا ہے کہ اگر اف سے کم بھی کوئی چیز ہوتی تو اس سے بھی اللہ تعالیٰ منع فرماتا اور عاق والدین کے برے نتائج روایات میں بیان ہوئے ہیں، جنت سے محروم ہونا، جہنم میں داخل ہونا، عذاب قبر، نماز اور دعا کا قبول نہ ہونا ہے۔ بعض اخلاقی علماء نے اس کے دنیوی آثار ذکر کئے ہیں جیسے: عمر کم ہونا، سکرات موت اور مشکل سے جان دینا۔

تعریف اور معنی

عاق والدین کا معنی یہ ہے کہ فرزند اپنے والدین کو اپنی رفتار اور زبان کے ذریعے تکلیف پہنچائے۔[1] البتہ "عقوق" کا لغوی معنی کاٹنا ہے، اس صورت میں عاق والدین کا مطلب، ان سے قطع رحمی کرنا ہے۔[2] ملا مہدی نراقی نے عاق والدین کو قطع رحمی کی سب سے بری قسم کہی ہے اور وہ معتقد ہیں کہ جتنی قطع رحم کی مذمت کی گئی ہے اتنی ہی عاق والدین کی مذمت ہوئی ہے۔ عاق والدین، قوای غضبیہ اور شہویہ سے متعلق ہے، جو غضب، بخل اور حب دنیا سے نشئت لیتی ہے۔[3]

مصادیق

عاق والدین، یعنی والدین یا ان دوںوں میں سے کسی ایک کو کسی بھی طرح کی کوئی تکلیف پہنچانا۔ روایات میں اس کے جو مصادیق ذکر ہوئے ہیں وہ درج ذیل ہیں: غضبناک نگاہ،[4] حقوق کو ضائع کرنا،[5] ان کی درخواست پوری نہ کرنا، ان کے حکم کو نہ ماننا،[6] ملا احمد نراقی کا کہنا ہے کہ جس طریقے سے بھی والدین کو تکلیف پہنچائی جائے وہ عاق حساب ہو گی۔[7] امام صادق(ع) کی روایت میں ہے کہ والدین کو اف کہنا عاق والدین کا سب سے کم مصداق ہے اور اگر اس سے کم بھی کوئی چیز ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس سے بھی منع فرماتا۔[8]

نتائج، آثار

عاق والدین ایک اخلاقی رذیلت ہے اور روایات میں اسے کبیرہ گناہ کہا گیا ہے[9] اور اس کے آثار درج ذیل ہیں:

  • جنت اور حتی کہ اس کی خوشبو سے بھی محروم ہونا،[10] امام صادق(ع) کی روایت کے مطابق، قیامت کے دن جنت کے پردے ہٹائے جائیں گے، اور اس کی خوشبو پانچ سو سال دور تک ہر جاندار کو محسوس ہو گی صرف وہ افراد اس خوشبو کو محسوس نہ کر سکیں گے جنہیں والدین نے عاق کیا ہوگا۔[11] اسی طرح روایات میں "لا یدخل الجنۃ" (جنت میں داخل نہیں ہوں گے) یہ تعبیر عاق والدین کے لئے استعمال ہوئی ہے۔[12]
  • جہنم میں داخل ہونا۔[13]
  • نماز قبول نہ ہونا، روایت میں آیا ہے کہ اگر کوئی اپنے ظالم والدین کو دشمنی کی نگاہ سے دیکھے گا تو خدا اس کی نماز کو قبول نہیں کرے گا۔[14]
  • دعا کا مستجاب نہ ہونا۔[15]
  • دنیا میں عذاب، پیغمبر اکرمؐ کی روایت کے مطابق، عاق والدین ایسا گناہ ہے کہ جسں کی سزا انسان کو دنیا میں ہی ملتی ہے۔[16] ملا احمد نراقی کا کہنا ہے کہ تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ عاق والدین کا نتیجہ، عمر میں کمی، زندگی میں بے مزگی، غربت، سکرات موت اور مشکل سے جان دینا ہے۔[17]
  • عذاب قبر، ملا مہدی نراقی کہتے ہیں کہ اگر کسی کی والدہ اس سے ناراض ہو تو اس کے لئے سکرات موت اور قبر کا عذاب بہت شدید ہوگا۔[18]

عاق والدین ان کی وفات کے بعد

روایات کے مطابق، عاق والدین صرف والدین کے زندہ ہونے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ان کی وفات کے بعد بھی ممکن ہے۔ جس طرح ان کے ساتھ نیکی کرنا صرف ان کی زندگی تک محدود نہیں ہے۔ ممکن ہے کوئی والدین کی زندگی میں ان کے ساتھ مہربان ہو لیکن ان کی وفات کے بعد عاق ہو جائے مثال کے طور پر اگر کوئی والدین کی وفات کے بعد ان کا قرض ادا نہیں کرتا اور ان کے لئے طلب مغفرت نہیں کرتا۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص والدین کی زندگی میں عاق ہوا ہو لیکن ان کی وفات کے بعد نہیں۔[19]

ملا احمد نراقی کی نگاہ میں، عاق والدین سے نجات کے لئے ان کی تکالیف، راتوں کو جاگنا، اور اولاد کے لئے مشکلات برداشت کرنے کو یاد کیا جائے اور اسی طرح یاد رہے کہ والد کی بد دعا اللہ کے حضور مستجاب ہوتی ہے۔[20]

متعلقہ مضامین

والدین پر احسان

حوالہ جات

  1. نراقی، معراج السعاده، 1378شمسی، ص532۔
  2. فراہیدی، العین، 1409ھ، ج1، ص63۔
  3. نراقی، جامع السعادات، 1383ھ، ج2، ص262۔
  4. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص349۔
  5. تمیمی آمدی، غرر الحکم، 1410ھ، ص671
  6. نوری، مستدرک الوسائل، 1408ھ، ج15، ص194۔
  7. نراقی، معراج السعاده، 1378شمسی، ص532۔
  8. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص349۔
  9. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص276۔
  10. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص349۔
  11. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص349۔
  12. حمیری، قرب الاسناد، 1413ھ، ص82۔
  13. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص348۔
  14. کلینی، الکافی، ج2، 1407ھ، ص349۔
  15. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص448۔
  16. پاینده، نہج الفصاحہ، 1382شمسی، ص165۔
  17. نراقی، معراج السعاده، 1378شمسی، ص532۔
  18. نراقی، جامع السعادات، 1383ھ، ج2، ص263۔
  19. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص163۔
  20. نراقی، معراج السعاده، 1378شمسی، ص532

مآخذ

  • پاینده، ابو القاسم، نہج الفصاحہ، تہران، دانش، 1382ہجری شمسی۔
  • تمیمی آمدی، غرر الحکم و درر الکلم، تصحیح: سید مہدی رجائی، قم، دار الکتب الاسلامی، 1410ھ۔
  • حمیری، عبد الله بن جعفر، قرب الاسناد، قم، مؤسسۃ آل البیت، 1413ھ۔
  • فراہیدی، خلیل بن احمد، قم، نشر ہجرت، 1409ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • نراقی، احمد بن محمد مہدی، معراج السعاده، مؤسسہ انتشارات ہجرت، 1378ہجری شمسی۔
  • نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، قم، مؤسسہ مطبوعاتی ایرانیان، 1963ء/1383ھ۔
  • نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، قم، مؤسسۃ آل البیت، 1408ھ۔