زمزم

ویکی شیعہ سے
موقعیت مکانی چاه زمزم
۲۱°۲۵′۱۹٫۲″ شمالی ۰۳۹°۴۹′۳۳٫۶″ شرقی / ۲۱٫۴۲۲۰۰۰° شمالی ۳۹٫۸۲۶۰۰۰° شرقی / 21.422000; 39.826000

زمزم، مسجد الحرام میں ایک مشہور کنواں ہے جو مشرق میں خانۂ کعبہ سے 21 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ روایات کے مطابق یہ چشمہ خدا کے لطف و کرم سے حضرت اسماعیل کیلئے جاری ہوا تھا۔ پیغمبر اکرمؐ نے اس کے پانی کو تمام پانیوں سے افضل و برتر اور شفا بخش قرار دیا ہے۔

شروع میں مکہ کی ضرورت صرف اسی پانی کے ذریعے پوری ہوتی تھی پھر مکہ کے اطراف میں مزید کنویں کھودے گئے۔ اہل مکہ کے نزدیک اس کا پانی نہایت تقدس اور اہمیت کا حامل ہے۔ وہ لوگ اپنے مُردوں کو اسی پانی سے غسل دیتے اور پینے کیلئے صرف اسی پانی کو استعمال کرتے تھے۔ موجودہ دور میں واٹر پمپ اور پائپ لائنوں کے ذریعے اسے زائرین تک پہنچایا جاتا ہے اور وہ اسے متبرک سمجھ کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

وجہ تسمیہ

عبدالمطلب نے اس چشمے کا نام زمزم رکھا۔[1] جس کی مختلف دلائل بیان کی گئی ہے:

  • اس کا پانی گوارا اور میٹھا ہونے کی وجہ سے زمزم نام رکھا گیا ہے، کیونکہ لغت میں میٹھا اور گوارا پانی جو قدرے نمکین ہو، کو زمزم کہا جاتا ہے۔
  • پانی کی کثرت کی خاطر اس کا نام زمزم رکھا گیا۔
  • حضرت ابراہیم کی زوجہ ہاجرہ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کی ایڑیوں کے نیچے چشمہ نکلنے کے بعد ریت سے اس چشمے کے اطراف حصار بنا دیا تا کہ پانی اسکے اندر ذخیرہ ہو (زمّ یعنی کسی چیز کو روکنا یا اسے اکٹھا کرنا)۔
  • زمزمۂ جبرئیل کی خاطر کہا جاتا ہے چونکہ کلام جبرئیل زمزم ہے۔

دیگر اسامی

اس کے کئی نام ذکر ہوئے ہیں جیسے:

رکضۃ جبرئیل: جبرائیل کی قدم گاہ کے معنی میں، حَفیرَةُ اسماعیل: چاه اسماعیل، حفیرةُ عبد المطلب: چاه عبد المطلب، بِرَّه: خیر سے لبریز، مَضنونَہ: نفیس، رواء: آبرو، شَبعَہ: سیر شکم، شَفاء سُقم: بیمار کو شفا دینے والا نیز برکۃ، سَیده، نافِعَہ، عَونَہ، بُشْری‏، صافیہ، عَصِمَہ، سالِمَہ، میمُونہ، مُبارکہ، کافیہ، عافیہ، طاہره، طَعامٍ طُعْم اس کے اسما ذکر ہوئے ہیں۔

احادیث میں زمزم کا تذکرہ

کعبہ، مقام ابراہیم، باب بنی شیبہ، چاه زمزم کی جانب آنے کا راستہ

شیعہ و سنّی روائی مآخذ میں زمزم کے متعلق کثیر روایات موجود ہیں:

  • زمین کا بہترین پانی [2]
  • شفابخش [3]
  • غم و اندوہ کو دور کرنے والا [4]
  • علم نافع کے اضافے کا سبب۔
  • وسعت رزق و روزی [5]
  • پانی کو ہدیہ لے جانا [6]
  • پینا اور اسے بدن پر چھڑکنا [7]
  • اس سے تبرک حاصل کرنا
  • بچوں کا تالو اٹھانا [8]

استعمال کے آداب

زمزم پینے کے بعد مستحب ہے کہ یہ دعا پڑھے:

اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ عِلْماً نَافِعاً وَ رِزْقاً وَاسِعاً وَ شِفَاءً مِنْ کُلِّ دَاءٍ

حاجی کیلئے مستحب ہے کہ نماز طواف کے بعد اور سعی سے پہلے آب زمزم پئے نیز سر، چہرے اور پشت پر ڈالے اور یہ دعا پڑھے:

اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ عِلْماً نَافِعاً وَ رِزْقاً وَاسِعاً وَ شِفَاءً مِنْ کلِّ دَاءٍ وَ سُقْم «خداوندا!اس عمل کو مفید، رزق وسیع اور ہر بیماری کا علاج قرار دے۔[9]

اس کا پینا خاص طور صفا و مروه سے پہلے پینا[10] و پس از طواف وداع[11] مستحب ہے۔ تحفے کے طور پر لے جانا[12] اور اسی کے ہدیہ دینے کی درخواست کرنا[13] نیز اس پانی سے کفن دھونا استحباب رکھتا ہے۔[14]

تاریخچہ

حضرت ابراہیم (ع)، جب حکم خدا کی بنا پر ہاجر اور اپنے بیٹے اسماعیل کو خشک اور بیابان وادی مکہ میں لائے اور انہیں خدا کے سپرد کیا ۔کچھ مدت بعد ان کے ہمراہ موجود پانی کی مقدار ختم ہو گئی ۔ زوجۂ ابراہیم نے پانی کی تلاش میں صفا و مروه کی پہاڑیوں کے درمیان دوڑتے ہوئے سات چکر لگائے ۔ جب وہ اپنے بیٹے کے پاس واپس پہنچی تو جبرائیل اس پر نازل ہوئے اور اس نے زمین پر ضرب ماری تو اس جگہ پانی کا چشمہ جاری ہوا ۔ ہاجر نے اس وقت پانی کو مخاطب ہو کر کہا : «زَمْ زَمْ» یعنی ٹھہر جاؤ (اس معنا میں کہ حرکت نہ کرو اور ذخیرہ ہو جاؤ). خود ریت اور خاک سے چشمے کے گرد حصار کھینچا مبادا پانی مشکیزہ بھرنے سے پہلے زمین پر بہہ نہ جائے ۔

زمزم کے پیدا ہونے اور اسکے عامل میں اختلاف ہے ۔کچھ نے اسے جبرئیل کی طرف نسبت دی ہے کہ وہ انسانی صورت میں ظاہر ہوا اور اس نے اس وظیفے کو انجام دیا تو زمزم جاری ہوا ۔کچھ اسے اسماعیل کی ایڑیوں کے رگڑنے کی طرف نسبت دیتے ہیں ۔اس زمزم کے جاری ہونے کو ایک کرامت اور اعجاز سمجھتے ہیں : یہ سب کچھ اس وقت ظاہر ہوا جب بچہ پانی بیقراری کی بنا اپنی رگڑ رہا تھا تو اس رگڑ کی وجہ سے اس مقام پر اچانک چشمہ جاری ہوا ۔ شیعہ و اہل سنت کی روایات اس ماجرا میں مختلف ہیں جیسا کہ مؤرخین نے مختلف بیانات ذکر کئے ہیں ۔[15]

پانی کی تاریخی حیثیت

تاریخی روایت سے استفادہ ہوتا ہے کہ زمزم کے آثار و برکات اسلام سے پہلے دیگر ملتوں کے درمیان قابل توجہ تھے۔ فاکہی اخبار مکّہ مجاہد کا قول نقل کرتے ہوئے کہا ہے:

ہم سرزمین روم گئے، وہاں ایک راہب تھا کہ جس نے رات بسر کرنے کیلئے ہمیں منزل دی تھی۔ اس نے ہم سے استفسار کیا: تم میں سے کوئی شہر مکہ کا رہنے والا بھی ہے؟ اس کے جواب میں، میں نے کہا: میں مکہ کا رہنے والا ہوں۔ اس نے پوچھا: زمزم اور حجر کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ میں جواب دیا: میں نہیں جانتا مگر اپنے خیال اور گمان کی بنا پر کہوں۔ اس نے کہا: لیکن میں جانتا ہوں، آب زمزم حجر کے نیچے سے جاری ہوا ہے اگر میرے پاس ایک طشت اس پانی کا بھرا ہوا ہو تو میں سونے سے پُر طشت کی نسبت اسے زیادہ دوست رکھوں گا۔[16]
قدیمی ترین چاہ زمزم کا منظر

توریت نے اسماعیل اور ہاجر کیلئے پیش آنے والے مقام کا نام بِئر شَبَع نام ذکر کیا ہے۔[17]

آب زمزم اہل مکہ کے نزدیک بھی قداست و اہمیت رکھتا تھا۔ وہ اپنے مُردوں اسی پانی سے غسل دیتے اور خود اسی سے ہی پینے کیلئے پانی استعمال کرتے تھے۔ [18]

زمزم کا خشک ہونا

صحرائے مکہ میں پانی موجود نہیں تھا اسی وجہ سے کوئی بھی یہاں آباد نہیں تھا۔ یہانتک کہ خدا نے اسماعیل کیلئے زمزم کو جاری کیا تو اس کے بعد یمن کا قبیلہ جُرہُم اس پانی موجودگی کی بنا پر مکہ میں آباد ہوا۔

جُرہمی قبیلے کے لوگ آب زمزم استعمال کرتے تھے وہ سالہا تک یہاں آباد رہے اور اسی طرز زندگی پر گزارتے رہے۔ وہ اس دوران کعبہ کی حرمت کا پاس نہیں رکھتے۔ وہ کعبہ کو دیئے جانے والے ہدایا کو مخفیانہ یا آشکارانہ کھا جاتے اور اس مقام پر بڑے بڑے گناہوں کے مرتکب ہوتے۔ آب زمزم آہستہ آہستہ کم ہونے لگا اور آخر کار چشمہ خشک ہو گیا۔ کنویں کے مقام زمانہ گزرنے کے ساتھ فرسودہ ہو گیا اور صحرا میں سیلاب وغیرہ کے آنے سے اس کے نشانات تک مٹ گئے۔ قبیلۂ خُزاعَہ ان پر مسلط ہو گئے اور انہوں نے جرہمیوں یہاں سے نکال دیا۔[19]

چاہ زمزم کی دوبارہ کھدائی

جس زمانے میں قبیلہ قریش کی سرداری اور حاجیوں کی سقایت (پانی پلانا) کی ذمہ داری عبدالمطّلب کے پاس تھی۔ وہ اطراف مکہ سے اونٹوں پر پانی لاد کر مکہ لاتے تھے۔ اسی دوران ایک مرتبہ مکہ میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے تمام کنویں خشک ہو گئے۔عبدالمطّلب حجر اسماعیل کے پاس سوئے ہوئے تھے کسی کو خواب میں دیکھا جس نے انہیں کہا: احفر برّة (بره کی کھدائی کرو)۔ آپ نے پوچھا : برّه کیا ہے؟ دوسرے روز پھر خواب میں وہ آیا اور اس نے کہا: احفر طیبۃ (طیبہ کو کھودو)۔ تیسوے روز اس نے کہا :احفر مضنونۃ مضنونہ کی کھدائی کرو۔آپ نے پوچھا وہ کیا ہے؟ یہاں تک چوتھے روز انہیں کہا:احفر زمزم زمزم کو کھودو کہ جو خشک نہ ہو، کبھی اس میں کمی نہیں آئے اور حاجیوں کے جم غفیر کو سیراب کرے، اس جگہ کو کھودہ جہاں سرخ پاؤں والا کوّا اپنی چونچ کو چیونٹیوں کے بلوں پر مارتا ہے۔ اس وقت مقام زمزم پر ایک پتھر تھا جس کے نیچے سے چیونٹیاں باہر نکلتی تھیں اور سرخ پاؤں والا کوّا اپنی چونچ کے ذریعے ان چیونٹیوں کو کھاتا تھا۔[20]

اس طرح عبدالمطّلب کو مقام زمزم کی نشاندہی ہوئی اور انہوں نے اپنے بیٹے حارث کی مدد مطلوبہ جگہ کی کھودائی شروع کی اور بالآخر وہ اس جگہ تک پہنچ گئے جس جگہ حضرت اسماعیل نے پتھروں کی مدد سے حصار کیا ہوا تھا اور پانی تک رسائی حاصل کی۔[21]

طول تاریخ میں زمزم

پہلی مرتبہ مسجدالحرام میں رکن اور مقام کے درمیان عباس بن عبدالمطلب نے آب زمزم کا سقا خانہ بنایا اور اس جگہ کا نام سِقایةُ العباس نام پڑ گیا۔ پھر 65 ھ میں مسجد الحرام کی توسیع کرتے ہوئے چاہ زمزم کو مسجدالحرام کے شرق کی سمت منتقل کر دیا گیا اور اس پر لکڑی کا قبّةُ العباس کے نام سے گنبد نصب کر دیا گیا ۔

چاہ زمزم کی طرف جانے کا راستہ

مہدی عباسی نے چاہ زمزم کے کے شرق کی سمت زمزم کے کنارے دو قبے بنوائے؛ ان میں سے پانی پلانے کیلئے اس مقام پر قبہ بنوایا جہان عباس بن عبد المطلب پانی پلایا کرتے تھے اور قرآن پاک رکھنے کیلئے بنوایا۔

امین عباسی کے زمانے میں اس طرح سے زمزم خشک ہو گیا کہ اس کی تہہ میں نماز پڑھی جا سکتی تھی۔ پھر اسے دوبارہ پہلے کی نسبت زیادہ گہرا کھود کر پانی حاصل کیا گیا۔

(1126 ھ) میں قبۃ العباس دوبارہ تعمیر ہوئی اور قبہ کو مربع صورت کی بجائے آٹھ کونوں پر مشتمل بنایا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سقاخانے سے استفادہ متروک ہو گیا کیونکہ علوم دینی کے طلاب اس مقام پر قرآن اور کتابوں کیلئے اسے استعمال کرتے تھے یہانتک کہ (1259 ھ) اس مقام پر ایک کتابخانہ تعمیر ہوا۔ اسی کتب خانہ نے توسعہ حاصل کیا جو اب مسجد الحرام سے باہر مکتبہ الحرمِ المکیِّ الشریف کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

زائرین کی سہولت کے پیش نظر (1374 ھ) میں زمزم پر بنی ہوئی عمارت کے اوپر پہلا پمپ نصب کیا گیا۔ لیکن طواف کرنے والوں کے اژدحام کے موقع پر یہ عمارت طواف کرنے والوں کیلئے رکاوٹ بنتی تھی لہذا (1383 ھ) زمزم پر بنی ہوئی دو طبقہ عمارت کو گرا دیا گیا اور اس کے پمپ اور لوازمات کو انڈر گراؤنڈ منتقل کر دیا گیا۔ نیچے جانے اور واپسی کیلئے علیحدہ علیحدہ دو سیڑھیاں بنائی گئیں۔[22] ان تعمیرات کی وجہ سے چاہ زمزم کا فاصلہ مسجد الحرام کے فرش سے 5 میٹر، کنویں کا دہانہ 1 میٹر سے بڑھ کر 2.5 میٹر، کنویں کی گہرائی 30 (یا 40) میٹر ہو گئی۔[23]

موجودہ مقام زمزم

آخری سالوں میں مسلمانوں کی زیادہ آمد و رفت کی بنا پر وسیع جگہ کی ضرورت محسوس ہوئی نیز مطاف کیلئے بھی وسیع تر جگہ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ لہذا اس کے پیش نظر 1382 ش میں انڈر گراؤنڈ حصے کو بند کر دیا گیا اور اسکی جگہ مسجد الحرام کے شرقی ضلع کی جانب ایک مخصوص نیا مقام تعمیر کیا گیا کہ جو مسجد الحرام کے شبستانوں میں زمزم پینے کیلے رکھے گئے کولروں کے علاوہ ہے۔ یہ جگہ دوبارہ 1391 ش. میں طواف کی جگہ وسیع کرتے ہوئے گرا دی گئی۔

حوالہ جات

  1. وسائل الشيعہ، ج‌۹، ص: ۴۹۶.
  2. رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ فرمود:خَیرُ ما ینبع عَلی وجه الأرض ماءُ زمزم زمیں سے پھونٹنے والے پانیوں میں سے سب سے بہتر پانی ہے۔مستدرک الوسائل، ج۹، ص۳۴۹.
  3. ماءُ زَمْزَم شفاء لمن استعم ل؛ بحار الأنوار، ج۹۹، ص۲۴۵ جو شخص بھی آب زمزم پئے گا وہ اسے شفا دے گا
  4. فقہ الرضا میں مذکور ہے: ماء زمزم شفاء مِن کُلِّ داءٍ وَسُقْم وَأمانٌ مِنْ کُلِّ خَوفٍ وَحُزْن؛ بحار الأنوار، ج۹۹، ص۲۴۵ آب زمزم ہر درد و بیماری کا علاج اور وہ ہر غم و اندوہ سے امان دیتا ہے۔
  5. معاویہ بن عمار کی امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں: جب دو رکعت نماز طواف سے فراغت حاصل کر لو تو حجر الأسود کے پاس جاؤ اور اس سے پانی پیو اور اسے مت ترک کرو اور پھر فرمایا: اگر ہو سکے تو صفا جانے سے پہلے اس سے پانی پیتے وقت یہ دعا پڑھو:اَللّهُمَّ اجْعَلْهُ عِلْما نافِعا وَرِزْقا واسِعا وَ شِفاءا مِنْ کُلِّ داءٍ وسُقمْ۔ وسائل الشیعہ، ج۹ ص۵۱۴ و ۵۱۵ «بارالہا! اس پانی کو میرے لئے علم نافع، کثرت رزق، ہر بیماری اور درد کا علاج قرار دے۔
  6. شیخ صدوق کہتے ہیں: روایات میں مروی ہے کہ جو بھی اسے پئے گا اس سے بیماری برطرف ہو گی۔ رسول خدا جب مدینہ میں تھے تو وہ چاہتے تھے کہ ان کے لئے آب زمزم تحفے کے طور پر لایا جائے۔ من لا یحضره الفقیہ، ج۲، ص۲۰۸ ح۲۱۶۶.
  7. علی بن مہزیار کہتا ہے: میں نے ابو جعفر ثانی (امام محمّد تقی) کو دیکھا کہ امام نے شب زیارت (11 ذی الحجہ) طواف نساء کرنے کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے نماز ادا کی۔ پھر زمزم میں داخل ہوئے اور اپنے ہاتھوں سے حجر الاسود کی جانب کے ڈول کو پانی سے پُر کرتے، اسے پیتے اس کا کچھ حصہ اپنے بدن پر ڈالتے۔ دو مرتبہ دیگر پانی میں داخل ہوئے۔ علی بن مہزیار مزید کہتے ہیں: میرے بعض دوستوں نے مجھے خبر دی اگلے سال بھی امام نے اسی عمل کو دہرایا۔ کافی، ج۴، ص۴۳۱.
  8. فاکہی نے حبیب کا قول ذکر کیا: میں نے عطا سے کہا، میں آب زمزم لے لوں تو یہ تیری نظر میں کیسا ہے؟ اس نے جواب دیا: ہاں اس میں کوئی قباحت نہیں بلکہ رسول اللہ اسے شیشے کی بوتل میں محفوظ کرتے۔ اسے عجوہ کھجور کے ساتھ مخلوط کرکے حسن و حسین کے تالو اٹھاتے اور اس سے تبرک حاصل کرتے۔ اخبار مکّہ، ج۲، ص۵۱.
  9. سائٹ حج و زیارت.
  10. جواہر الکلام، ج۱۹، ص۴۱۱.
  11. جواہر الکلام، ج۲۰، ص۶۵.
  12. جواہر الکلام، ج۲۰، ص۶۶.
  13. وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص۲۴۵.
  14. العروة الوثقی، ج۲، ص۷۵.
  15. سایت حوزه
  16. اخبار مکّہ، فی قدیم الدہر وحدیثہ، ج۲، ص۴۸.
  17. تورات، سفر پیدایش ۲۱: ۱۵.
  18. تاریخ و آثار اسلامی مکه و مدینه، ص۸۸- ۹۱.
  19. سائٹ حج و زیارت
  20. فروع کافی، ج۴، ص۲۱۹.
  21. سایت حج و زیارت
  22. سائٹ حج و زیارت
  23. سایت الف

مآخذ

  • صدوق، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیہ، نشر صدوق، ۱۳۶۷ش.
  • عاملی، محمد بن حسن‏، وسائل الشیعہ، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام‏، قم، ۱۴۰۹ق.
  • فاکهی، محمد بن اسحاق، أخبار مکہ فی قدیم الدہر و حدیثہ، مکتبہ الاسدی، مکہ .
  • کلینی، محمد بن یعقوب‏، کافی، دار الکتب اسلامیہ، ۱۴۰۷ق.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، دار الکتب اسلامیہ، تہران، ۱۳۶۲ش.
  • نجفی، محمد حسن بن باقر، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، دار احیاء التراث العربی، بیروت.
  • نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، مؤسسہ آل البیت: لاحیاء التراث، طبعة الاولی، قم، ۱۴۰۷ق.
  • یزدی، سید کاظم، العروة الوثقی، مؤسسہ نشر اسلامی، قم.