طواف نساء

ویکی شیعہ سے

طواف نِساء حج اور عمرہ مفردہ کے واجبات میں سے ہے جس کے انجام دینے سے پہلے میاں بیوی کو ایک دوسرے سے استمتاع (لذت لینا) جائز نہیں ہے۔ طواف نساء شیعوں کے مختصات میں سے ہے اور فقہ اہل سنت میں طواف نساء نامی کوئی چیز نہیں پائی جاتی ہے۔

موارد وجوب

یہ طواف حج و عمرہ کی تمام اقسام میں واجب ہے۔ اسی طرح اس کے واجب ہونے میں مرد، عورت، بچے حتی وہ اشخاص جو شادی کا قصد ہی نہیں رکھتے، میں کوئی فرق نہیں ہے۔ طواف نساء انجام دینے سے پہلے اگر کوئی شخص اپنی جنسی عمل انجام دے تو اس پر ایک اونٹ کفارہ کے طور پر ذبح کرنا واجب ہے۔[1] طواف نساء سے پہلے صرف جنسی عمل حرام ہے یا دوسرے لذات بھی، علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ [2]

طواف نساء حج یا عمرہ کے ارکان میں سے نہیں ہے جس کے انجام نہ دینے سے حج یا عمرہ باطل ہوتا ہو لیکن اس کے باوجود یہ ہر حاجی پر واجب ہے کہ یا خود اسے انجام دے یا اگر ممکن نہ ہو تو کسی کو اپنی طرف سے نائب بنا کر وہ اس کی طرف سے انجام دے۔ [3]

کیفیت طواف نساء

اصلی:طواف

طواف نساء صفا اور مروہ کے درمیان سعی انجام دینے کے بعد انجام دیا جاتا ہے۔ طواف نساء صرف نیت میں طواف زیارت سے متفاوت ہے۔ طواف نساء کی نیت سے خانہ کعبہ کے گرد سات چکر(شوط) مکمل کرنے کے بعد دو رکعت نماز طواف نساء مقام ابراہیم کے پیچھے پڑھی جاتی ہے۔

طواف نساء اور اس کی نماز عمرہ مفردہ کا آخری عمل ہے اسی طرح مکہ میں انجام پانے والے اعمال حج میں سے آخری عمل بھی ہے۔ اگر طواف کو سعی یا تقصیر کے بعد انجام دیا جائے تو اسے احرام کے بغیر بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔

تقصیر کے بعد سوائے خوشبو اور استمتاع کے تمام محرمات مُحرِم پر حلال ہو جاتی ہیں۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے انجام دینے کے بعد خوشبو بھی حلال ہو جاتی ہے اور جب طواف نساء اور نماز طواف نساء انجام دی جاتی ہے تو استمتاع بھی مُحرِم پر حلال ہو جاتی ہے۔

طواف نساء کے متعلق شیعہ نقطہ نظر

تمام شیعہ فقہاء اہل بیت(ع) کی جانب سے منقول متعدد روایات کی بنا پر،[4] طواف نساء کو واجب قرار دیتے ہیں۔ شیخ طوسی نے احادیث کے علاوہ تمام شیعہ فقہاء کے اجماع اور احتیاط کو اس کے وجوب کی دلیل قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ احرام باندھنے کے بعد استمتاع حرام ہو جاتی ہے اور ہے کہ آیا طواف نساء کے بغیر بھی استمتاع حلال ہو جاتی ہے یا نہیں تو احتیاط کے طور پر طواف نساء انجام دی جائے تو سو فیصد یقین حاصل ہو جاتی ہے کہ اب استمتاع حلال ہو گیئ ہے۔[5]

بعض شیعہ احایث میں آیت ثُمَّ لْیقْضُوا تَفَثَهمْ وَ لْیوفُوا نُذُورَهمْ وَ لْیطَّوَّفُوا بِالْبَیتِ الْعَتیقِ (ترجمہ: پھر لوگوں کو چاہئے کہ اپنے بدن کی کثافت کو دور کریں اور اپنی نذروں کو پورا کریں اور اس قدیم ترین مکان کا طواف کریں)۔ [6] کو طواف نساء سے مربوط قرار دیتے ہیں۔[7] بعض دیگر احادیث میں حضرت آدم(ع)[8] اور حضرت نوح (ع) [9] کے دور میں بھی طواف نساء کی موجودگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

طواف نساء کے متعلق اہل سنت نقطہ نظر

فقہ اہل سنت میں طواف نساء نامی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ جبکہ "طواف قُدوم"، "طواف افاضہ" اور "طواف وداع" سے بحث ہوئی ہے۔ [10][11] اہل سنت کی دلیل ایک روایت ہے جس میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے حجۃ الوداع کے موقع پر صرف دو طواف دیئے ہیں۔

شیعہ ففہاء معتقد ہیں کہ حج تمتع جو عمرہ تمتع کے ساتھ انجام دیا جاتا ہے میں تین طواف موجود ہیں (طواف عمرہ تمتع، طواف حج تمتع اور طواف نساء حج تمتع) لیکن شیعہ اور اہل سنت احادیث کے مطابق پیغمبر اکرم(ص) کا حج، حج قِران یا حج اِفراد میں سے تھا، [12] جس میں عمرہ تمتع موجود نہیں ہوتا اور صرف دو طواف: طواف زیارت اور طواف نساء موجود ہوتے ہیں۔

طواف وداع کا طواف نساء سے کفایت نہ کرنا

طواف وداع جو مکہ سے واپسی پر بعنوان وداع انجام دیا جاتاہے شیعوں کے ہاں ایک مستحب طواف ہے۔ جبکہ اہل سنت کے مذاہب اربعہ میں سے حنفی اور حنبلی اس طواف کو واجب سمجھتے ہیں اور مالکی بھی اسے مستحب سمجھتے یہں شافعی نے بھی اپنے دو فتوا میں سے ایک میں اسے واجب قرار دیا ہے۔[13]

بعض شیعہ احادیث میں آیا ہے کہ اہل سنت اس طواف کو طواف نساء کا بدلہ قرار دیتے ہوئے اس کے انجام دینے کے بعد استمتاع کو مُحرِم کیلئے جائز قرار دیتے ہیں۔ [14](مطالعہ بیشتر: مقالہ: فقہ شیعہ میں اہل سنت کے ہاں عورتوں کے حلال ہونے میں طواف وداع کا کردرا)

حوالہ جات

  1. مستند الشیعۃ، ج۱۳، ص۲۴۷
  2. مناسک حج، م۱۱۸۲
  3. مستند الشیعۃ، ج۱۳، ص۲۳-۲۵
  4. وسائل الشیعہ، ج۱۳، ابواب الطواف، باب وجوب طواف النساء
  5. کتاب الخلاف
  6. سورہ حج/ آیت 29
  7. شیخ طوسی، تہذیب، ج۵ ص۲۲۹ باب فی زیارۃ البیت،ح ۱۴
  8. کافی.کلینی، محمد بن بعقوب، چاپ دارالحدیث، ج۸ ص،۲۱ باب فی حج آدم
  9. کلینی، کافی، ج۸ ص، ۷۸ باب حج الانبیاء
  10. الفقہ علی المذاہب الخمسہ، ص۲۳۱
  11. شیخ طوسی فرماتے ہیں: وَ خالف جمیع الفقهاء فی طواف النساء، و وافقونا فی طواف الوداع کتاب الخلاف
  12. کافی، چاپ دارالحدیث، ج۸، ص۱۶۰
  13. الفقہ علی المذاہب الخمسہ، ص۲۳۰
  14. مُوسَی بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ عَبْدِ اللَّه بْنِ سِنَانٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّه(ع) قَالَ: لَوْ لَا مَا مَنَّ اللَّه بِه عَلَی النَّاسِ مِنْ طَوَافِ الْوَدَاعِ لَرَجَعُوا إِلَی مَنَازِلِهمْ وَ لَا ینْبَغِی لَهمْ أَنْ یمَسُّوا نِسَاءَهمْ تہذیب الاحکام، تحقیق خرسان، چاپ دارالکتب الاسلامیہ، تہران، ج۵، ص۲۵۳، ح۱۶

مآخذ

  • کتاب الخلاف، محمد بن الحسن الطوسی (م. ۴۶۰ ق.)، بہ کوشش علی خراسانی و دیگران، پنجم، قم، نشر اسلامی، ۱۴۱۸ ق.
  • الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، مغنیہ، محمد جواد، دار التیار الجدید،‌دار الجواد، بیروت، چاپ دہم، ۱۴۲۱ق.
  • شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، قم، ۱۴۰۹ق
  • مناسک حج مطابق فتاوای امام خمینی و مراجع معظم تقلید، محمدرضا محمودی، مرکز تحقیقات حج بعثہ مقام معظم رہبری، نشر مشعر، چاپ چہارم، ۱۳۸۷ش
  • مستند الشیعۃ، احمد بن محمد مہدی نراقی، مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، مشہد