بنی اسد
بنی اسد، عدنانی قبیلے کی ایک شاخ ہے جو بنی اسد بن خزیمہ کے نام سے موسوم ہے۔ دوسرے بڑے قبیلوں کی مانند ہجرت کی ابتدائی صدیوں میں تاریخی لحاظ سے کوئی قابل ذکر خصوصیت اور کوئی اہم اساسی کردار کا حامل نہیں تھا البتہ سعودی عرب کے شمال کے بدؤں میں شمار ہوتا ہے۔
طبری نے سیف بن عمر کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ بنی اسد نے عراق خاص طور پر قادسیہ کی فتوحات میں اپنی طاقت اور شجاعت کو پہچنوایااور عراق کے اطراف خاص طور پر کوفہ اور بصرہ میں ساکن ہوئے نیز کچھ گروہ شام کی طرف ہجرت کر گئے۔
تاریخی ادوار میں بنی اسد کی شہرت شیعہ ہونے کی وجہ سے رہی ہے۔ واقعۂ عاشورا میں حضرت امام حسین ؑ کے اصحاب میں سے مسلم بن عوسجہ اور حبیب بن مظاہر بنی اسد سے تعلق رکھتے تھے۔ کوفہ کے اطراف میں آباد اسی قبیلے کے ایک دوسرے گروہ نے واقعۂ کربلا کے بعد اہل بیت ؑ اور دوسرے اصحاب کے اجساد کو دفن کیا۔ یہ واقعہ اس قدر مشہور ہو گیا کہ ایران میں قدیمی تعزیے کی نمائش میں اہل بیت کے اجساد کی تدفین اسی قبیلے سے دکھائی جاتی ہے۔
نسب
عدنانی قبیلے کی بنی اسد بن خزیمہ سے موسوم بنی اسد کی یہ شاخ اگرچہ تاریخ کی ابتدائی صدیوں میں کسی خصوصیت کی حامل نہیں رہی ہے۔ بنى اسد کا نسبی سلسلہ خزیمہ سے ہوتا ہوا مُدرکہ بن الیاس کے ذریعے سے معد بن نزار تک پہنچتا ہے۔[1] بنی اسد کی ذیلی شاخوں میں سے اہم ترین شاخیں بنی صیدا، بنی فقعس، بنی نضر بن قُعین، بنی زَنیہ، بنی غاضرہ اور بنی نعامہ ہیں۔ بنی اسد جزیرۂ عرب کے نجد اور تہامہ کے صحراؤں میں پانی کے ذخیروں کے اطراف ساکن تھے۔[2][3][4]
کہتے ہیں کہ خزیمہ وہ پہلا شخص تھا جس نے سب سے پہلے ہبل نامی بت کو نصب کیا تھا اسی مناسبت سے اسے ہبل خزیمہ کہتے ہیں۔[5]بنی اسد قبیلہ کے ظہور اسلام کے نزدیک واقعات میں سے یہ ہے کہ قریش کے معاہدۂ احابیش میں شامل قبیلوں میں تھا۔[6] اسلام کے آغاز میں بنی اسد قیلے کا قیس بن عبد اللہ اسدی وہ شخص ہے جس کا تذکرہ حبشہ کی ہجرت میں ملتا ہے [7]۔نیز اس قبیلے سے عبدالله بن جحش و عکاشہ بن محصن کے صحابئ رسول ہونے کا نام بھی مذکور ہے۔[8] اسکے علاوہ زینب بنت جحش سے رسول اللہ کی ازدواج اس قبیلے کیلئے باعث فخر تھی۔[9]
ورود کوفہ
سیف بن عمر کی روایت کے بقول عراق اور قادسیہ کی فتوحات میں ان کا نمایاں حصہ تھا[10] ۔ یہ عراق کے اطراف میں خاص طور پر کوفہ و بصرہ مین مقیم ہوئے اور انکا ایک گروہ شام میں چلا گیا۔[11]۔
کوفہ میں انکی حیثیت
ابتدائی سالوں میں ہمدانی قبیلے کے بعد کوفہ میں ساکن نشین ہونے والا آبادی کے لحاظ سے یہ دوسرا بڑا قبیلہ تھا[12]۔خلافت ِ معاویہ کے دوران شہر کوفہ میں ہونے والی تعمیراتی تبدیلیوں کی بدولت بنی اسد اور مذجح قبیلے ارباع میں آ گئے [13] یہ نظام کئی سالوں تک اسی طرح رہا۔[14]
حکومت
بنی اسد کے ایک بہت بڑے حصے نے حلب کے اطراف میں سکونت اختیار کی[15] جبکہ اس قبیلے کا ایک حصہ ایران کے خوزستان میں ایک صدی سے زیادہ تک موروثی امارت کا حامل رہا جو مزیدیان کہلاتے تھے اگرچہ انکی اصلی سکونت گاہ وہی بین النہرین تھی۔ بنی مزید آل بویہ کے دور میں دوسرے بنی اسد کی شاخوں کی نسبت قدرت مند ہو گئے۔ کرد علاقوں، اطراف حلہ ،اہواز اور ہویزہ میں انکی طاقت زیادہ ہو گئی اور ان علاقوں میں انکا کافی اثر رہا۔[16] موجودہ دور میں عراق میں بنی اسد کی شاخوں پر مشتمل مجموعے کو اہل جزائر کہا جاتا ہے جو عموما نہر فرات کے جنوب اور کربلا کے اطراف میں ساکن ہیں۔[17]۔
تشیع
اس دور میں اس قبیلے کو شیعہ قبیلے کی حیثیت سے شہرت حاصل ہے۔ اہل کوفہ بیشتر تشیع کی طرف میلان رکھتے تھے۔ خلافت حضرت علی میں اس شہر کی مرکزیت اس شہر کے اہلیان کے شیعہ ہونے میں مؤثر تھی اگرچہ حضرت کی خلافت کے ابتدائی دور میں بنی اسد کے اندر شیعیت زیادہ رائج نہیں تھی۔[18] اسکے باوجود کوفے کے اکثر شیعہ قبیلۂ بنی اسد کا حصہ تھے یا ان کے موالی تھے۔[19]
واقعۂ عاشورا
واقعۂ کربلا میں حضرت امام حسین ؑ کے مشہور ترین دو اصحاب مسلم بن عوسجہ اور حبیب بن مظاہر بنی اسد قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔[20][21]
بعض روایات کی بنا پر واقعۂ کربلا میں لشکر کوفہ میں بھی اس قبیلے کے افراد موجود تھے۔[22] لیکن اس قبیلے کے دوسرے گروہ احتمالا شہر نشین تھے اور اطراف کوفہ میں مقیم تھے انہوں نے شہدائے کربلا کو دفن کیا۔[23]شہدائے کربلا کے دفنانے کے موضوع نے اس قدر شہرت حاصل کر لی کہ ایران کی قدیمی عزاداری میں شہدا کربلا کو دفنانے کا منظر اسی قبیلہ کے نام سے پیش کیا جاتا ہے۔[24]
اہل لغت
بنی اسد قبیلہ صحرا نشین ہونے کی وجہ سے اہل لغت کے نزدیک یہ مورد توجہ رہا۔ اہل ادب کہتے ہیں ابتدائی سالوں میں یہ قبیلہ ادبی مآخذ کے طور پر سمجھا جاتا رہا۔[25]
شاعری
اس قبیلے سے معروف شاعر گزرے ہیں جن میں سے کمیت بن زید اسدی شیعہ کا نام سر فہرست ہے۔[26] اسی طرح بشر بن ابی حازم کا نام دور جاہلیت میں لیا جا سکتا ہے کہ جس نے اسلام کا زمانہ بھی پایا تھا۔[27] نیز ایمن بن خریم، ابن زبیر، اقیشر بھی اسی قبیلے سے شاعر ہیں۔
منصور دوانیقی کے زمانے کے بعد تک زندہ رہنے والے ایک شخص محمد بن عبد الملک فقعسی نے بنی اسد قبیلے کی اخبار و آثار کے بارے میں ایک کتاب بنام مآثر بنی اسد لکھی جس میں انکے اشعار وغیرہ بھی اکٹھے کئے[28] لیکن یہ کتاب موجود نہیں ہے۔
حوالہ جات
- ↑ کلبی، جمہرة، ۱۹-۲۱، ۱۶۸-۱۶۹.
- ↑ ابن قتیبہ، المعارف، ص۶۵؛ نیز دیکھیں: ابن درید، الاشتقاق، ص۱۸۰.
- ↑ سمعانی، ج۱، ص۲۱۴.
- ↑ ابوالفرج، الاغانی، ج۱۵، ص۳۰۰، ۳۷۷، ج۱۷، ص۸۶.
- ↑ کلبی، اصنام، ص۲۸
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۱۲۷؛احابیش کے بارے میں دیکھیں: زریاب، سیرۀ رسول الله (ص)، ص۵۶-۵۸.
- ↑ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج۴، ص۶؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۴، ص۲۲۱.
- ↑ ابن قدامہ، التبیین فی انساب القریش، ص۵۰۶.
- ↑ ابن حبیب، المحبر، ص۸۶؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۰۱.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۳، صص۴۸۶، ۵۳۴-۵۳۹؛ نیز ر ک: کلبی، جمہرة، ص۱۷۶.
- ↑ ابن عدیم، بغیۃ الطلب، ج۱، ص۵۳۴.
- ↑ نصر، وقعہ صفین، ص۳۱۱.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۴، ص۴۸؛ نیز دیکھیں: ماسینیون، خِطَط الکوفہ، صص۱۵-۱۶؛ خلیف، حیاة الشعر فی الکوفہ، ص۳۱.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۷، ص۱۷۲.
- ↑ ابن عدیم، بغیۃ الطلب، ج۱، ص۵۳۴.
- ↑ کرکوش، تاریخ الحلہ، صص۱۳-۲۰.
- ↑ طاہر، العشائر العراقیہ، ص۱۰۰-۱۰۱؛ بستانی، دائرة المعارف، ج۳، صص۴۷۳-۴۷۴.
- ↑ ابراہیم بن محمد، الغارات، ج۱، ص۳۲۳، ج۲، ص۴۸۴.
- ↑ مثلا دیکھیں: کشی، معرفۃ الرجال، ص۷۸-۷۹، ۴۱۳، ۴۷۸؛ نجاشی، رجال، صص۲۰، ۲۷
- ↑ علامہ حلی، خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال، ص۱۳۲.
- ↑ ابی مخنف، مقتل الحسین (ع)،تعلیقہ ص۱۳۶؛ زرکلی، الاعلام، ج۷، ص۲۲۲.
- ↑ بلاذری، ج۳، ص۲۰۵. طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۴۸، ۴۶۸؛ ابن اثیر، الکامل، ج۴، ص۹۱.
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، ج۳، ص۲۰۵؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۵۵؛ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۱۴؛ ابن اثیر، الکامل، ج۴، ص۸۰
- ↑ ہمایونی، تعزیہ و نمایش در ایران، ص۱۰۰؛ شہریاری، کتاب نمایش، ج۱، صص۱۱۸، ۲۶۸-۲۶۹.
- ↑ سیوطی، المزہر، ج۱، ص۲۱۱.
- ↑ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج۵، ص۳۸۸.
- ↑ ابن قتیبہ، الشعر و الشعراء، صص۱۴۵-۱۴۷
- ↑ ابن ندیم، الفہرست، ص۵۵.
ماخذ
- ابن اثیر، علی، اسدالغابة، قاهره، ۲۸۰ق.
- ابن اثیر، الکامل.
- ابن حبیب، محمد، المحبر، بہ کوشش ایلزه لیشتن اشتتر، حیدرآباد دکن، ۳۶۱ق /۹۴۲م.
- ابن درید، محمد، الاشتقاق، بہ کوشش عبدالسلام محمد ہارون، قاہره، ۳۷۸ق /۹۵۸م.
- ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دارصادر.
- ابن عدیم، عمر، بغیہ الطلب، بہ کوشش سہیل زکار، دمشق، ۹۸۸م.
- ابن قتیبہ، عبدالله، الشعر و الشعراء، بہ کوشش دخویہ، لیدن، ۹۰۲م.
- ابن قتیبہ، المعارف، به کوشش ثروت عکاشه، قاهره، ۹۶۰م.
- ابن قدامہ، عبدالله، التبیین فی انساب القرشیین، بہ کوشش محمد نایف دلیمی، بیروت، ۴۰۸ق /۹۸۸م.
- ابن ندیم، الفهرست.
- ابن ہشام، عبدالملک، السیرة النبویہ، بہ کوشش مصطفی سقا و دیگران، قاہره، ۳۵۵ق.
- ابوالفرج اصفهانی، الاغانی، قاهره، دارالکتب المصریه.
- بستانی، بطرس، دائرةالمعارف، بیروت، ۹۵۶م بب.
- بلاذری، احمد،، فتوح البلدان، بہ کوشش دخویہ، لیدن، ۸۶۵م.
- زریاب، عباس، سیرة رسول الله(ص)، تہران، ۳۷۲ش.
- سمعانی، عبدالکریم، الانساب، حیدرآباد دکن، ۳۸۲ق /۹۶۲م.
- سیوطی، المزہر، بہ کوشش محمد ابوالفضل ابراہیم و دیگران، قاہره، ۴۰۶ق /۹۸۶م.
- شہریاری، خسرو، کتاب نمایش، تہران، ۳۶۵ش.
- شیخ مفید، محمد، الارشاد، قم، ۴۱۲ق.
- شیخ مفید، الجمل، به کوشش علی میرشریفی، قم، ۴۱۳ق.
- طاہر، عبدالجلیل، العشائر العراقیہ، بغداد، ۹۷۲م.
- طبری، تاریخ.
- کرکوش، یوسف، تاریخ الحلہ، نجف، ۳۸۵ق /۹۶۵م.
- کشی، محمد، معرفہ الرجال، اختیار شیخ طوسی، بہ کوشش حسن مصطفوی، مشہد، ۳۴۸ش.
- کلبی، ہشام، الاصنام، به کوشش احمد زکی پاشا، قاہره، ۹۱۶م.
- ماسینیون، لوئی، خِطَط الکوفہ، ترجمہ مصعبی، صیدا، ۳۵۸ق /۹۳۹م.
- نجاشی، احمد، رجال، بہ کوشش موسی شبیری زنجانی، قم، ۴۰۷ق.
- نصربن مزاحم، وقعہ صفین، بہ کوشش عبدالسلام محمد ہارون، قاہره، ۳۸۲ق/۹۶۲م.
- واقدی، محمد، المغازی، بہ کوشش مارسدن جونز، لندن، ۹۶۶م.
- ہمایونی، صادق، تعزیہ و نمایش در ایران، شیراز، ۳۶۸ش.