سلونی قبل ان تفقدونی
سلونی قبل ان تفقدونی | |
---|---|
حدیث کے کوائف | |
صادر از | امام علیؑ |
شیعہ مآخذ | بصائرالدرجات، کتاب سلیم بن قیس ہلالی، الامالی (شیخ صدوق)، الارشاد مفید، نہج البلاغہ |
مشہور احادیث | |
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل |
سَلُونِی قَبْلَ أَنْ تَفْقِدُونِی (مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ تم مجھے کھو دو) امام علیؑ کا یہ جملہ آپؑ کے بیکراں علم کی وسعت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ شیعہ سنّی مآخذ کی بنیاد پر، امام علیؑ نے مکرر اس جملہ کو ارشاد فرمایا ہے۔ جن میں سے ایک موقع آپؑ کے خطبہ کا تھا جب آپ نے اپنے ایک خطبہ کے درمیان اسی بات کو کہا تو سَعد بن ابی وَقّاص نے اپنے ردِّ عمل کا اظہار کیا اور اس نے امام علی ؑ سے پوچھا کہ اس کی ڈارھی اور سر میں کتنے بال ہیں۔ امام علیؑ نے اس کے جواب میں فرمایا: تیرے سر میں کوئی ایسا بال نہیں جس کی جڑ میں شیطان نہ رہتا ہو۔ اسی طرح امامؑ نے وہاں پہ اس کے بیٹے عمر بن سعد کے ہاتھوں امام حسینؑ کی شہادت کی خبر سنائی۔
سلونی قبل ان تفقدونی کو امام علیؑ کے مخصوص فضائل میں شمار کیا جاتا ہے اور اس جملہ کو دوسرے اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر امامؑ کی برتری کی دلیل جانا گیا ہے۔
اجمالی تعارف
«سَلُونِی قَبْلَ أَنْ تَفْقِدُونِی»، (مجھ سے جو پوچھنا ہو پوچھ لو قبل اس کے کہ تم مجھے کھو دو کے معنی میں ہے»، یہ امام علیؑ کے مشہور و معروف جملوں میں سے ایک ہے۔[1] یَنابیعُالمَودَّہ میں نقل شدہ روایات کے مطابق، امام علی بن ابی طالبؑ نے اس جملہ کو متعدد بار ارشاد فرمایا۔[2] ان میں سے ایک موقع وہ تھا کہ جب لوگوں نے آپ کے ہاتھوں پہ بعنوان خلیفہ بیعت کر لی اس کے بعد کسی ایک خطبہ میں اہل کوفہ کو خطاب کر کے یہ جملہ ارشاد فرمایا[3] اور اسی طرح سے جنگ صفین اور نہروان کے درمیانی وقفہ میں اپنے اصحاب کی ایک جماعت کو مخاطب قرار دے کر یہ جملہ ارشاد فرمایا۔[4]
اس جملہ کا مضمون مختلف عبارتوں میں نقل ہوا ہے: «فَاسْأَلُونی قَبْلَ أَنْ تَفْقِدُونِی»،[5] «سَلُونِی عَمَّا شِئْتُمْ» (پوچھ لو جس چیز کے بارے میں بھی چاہتے ہو)،[6] «سَلُونِی قَبْلَ أَنْ لَا تَسْأَلُونِی»[7] اور «سَلونی» (پوچھ لو)[8] جیسی عبارتیں اس کی مثال ہیں۔
علم امام علیؑ کی بیکرانی پر حدیث کی دلالت
نہجالبلاغہ کی بعض شرحوں میں یہ بات آئی ہے کہ «سلونی قبل ان تفقدونی» کا جملہ اس بات پر دلالت رکھتا ہے کہ امام علیؑ تمام چیزوں کے عالم تھے۔[9] جیسا کہ ملا صالح مازندرانی شیعہ عالم (متوفی 1081 ھ)، کا کہنا ہے کہ بعض علمائے اہل سنّت اس جملہ کو علم امام علیؑ کی فراوانی پر گواہ جانتے ہیں۔[10]
حضرت امام باقرؑ سے جملہ «سلونی قبل ان تفقدونی» کے معنی کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ آپؑ نے فرمایا « کسی بھی شخص کے پاس کوئی علم نہیں ہے مگر یہ کہ اس نے امام علیؑ سے سیکھا ہو۔ لوگوں کو جہاں جانا ہو وہ چلے جائیں مگر خدا کی قسم علم حق اور صحیح علم یہاں کے علاوہ کہیں نہیں ہے۔» اور اس روایت میں آگے یہ نقل ہوا ہے کہ حضرت امام باقر علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں سے اپنے گھر کی طرف اشارہ کیا۔[11] علامہ مجلسی، کے بقول یہاں امام باقرؑ کا اپنے گھر سے مقصود، خانہ وحی اور خانہ نبوت تھا۔[12]
اسی طرح سے «سلونی قبل ان تفقدونی» کے آگے بھی مختلف عبارتیں نقل ہوئی ہیں کہ جو امام علیؑ کے علم کی وسعت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ان میں سے:
- «یقینا میرے پاس اولین و آخرین کا علم ہے۔ میں توریت، والوں کے لئے توریت کے مطابق اور اِنجیل کے ماننے والوں کے لئے انجیل کے مطابق اور قرآن پر ایمان رکھنے والوں کے لئے قرآن کے مطابق فیصلہ کروں گا۔»[13]
- «کیوں اس شخص سے جس کے پاس منایا، بلایا اور حسب نسب کا علم ہے، سوال نہیں کرتے ہو؟»[14]
- « میں زمین کے راستوں سے زیادہ آسمان کے راستوں کو پہچانتا ہوں۔»۔[15]
- « خدا کی قسم جس چیز کے بارے میں بھی تم مجھ سے سوال کرو گے میں جواب دوں گا۔ کلام الہی ،خدا کی کتاب کے بارے میں مجھ سے سوال کرو تو خدا کی قسم میں قرآن کریم کی تمام آیات کے بارے میں، میں جاننے والا ہوں کہ وہ رات میں نازل ہوئیں یا دن میں صاف اور چٹیل میدانوں میں نازل ہوئیں یا دامن کوہ میں۔»[16]
- « خدا کی قسم تمہارے تمام سوالوں کا جواب دوں گا خواہ وہ ماضی سے متعلق یا حال سے یا مستقبل سے۔»[17]
امام علیؑ کی مخصوص فضیلتیں
ابن مَرْدَوَیہ اصفہانی، اہل سنّت کے چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے محدث کے بقول، سلونی قبل ان تفقدونی کی عبارت امام علیؑ کی تمام صحابہ پر علمی برتری کی دلیل ہے۔[18] اسی طرح سے ابراہیم بن محمد جوینی شافعی، (متوفی 730ھ) اہل سنّت کے عالم دین، نے کتاب فرائد السمطین میں اس عبارت کو امام علیؑ کے خاص فضائل میں سے شمار کیا ہے جہاں دوست ہو یا دشمن اس کے لئے جز اعتراف کوئی راہ باقی نہیں بچتی۔[19] سید ابن طاووس کے نظریہ کے مطابق بھی جہاں امام علیؑ نے لوگوں کے درمیان اور اپنے دشمن کے درمیان یہ جملہ ارشاد فرمایا ہے۔ علم کے باب میں یہ ایک طرح کا چیلنج اور تَحَدّی ہے۔[20] ان سب چیزوں کے باوجود شمس الدین ذَہبی[21] اور ابن تیمیہ[22] سَلَفیہ علماء، میں سے ہیں اس فضیلت کی ردّ میں کہتے ہیں کہ امام علیؑ نے یہ جملہ اہل کوفہ جو کہ جاہل لوگوں کی ایک جماعت تھی ان سے کہا تھا۔
بعض روایات کی بنیاد پہ، حضرت امام باقر علیہ السلام[23] اور امام صادقؑ[24] نے بھی بعض جگہوں پہ «سَلُونی قَبْلَ أَنْ تَفْقِدُونِی» کا جملہ ارشاد فرمایا ہے۔ اسی طرح سے «سَلُونِی عَمَّ شِئْتُمْ» کا جملہ پیغمبر اسلامؐ سے بھی نقل ہوا ہے۔[25] اس کے باوجود بعض اہل سنت کے علماء سے نقل ہوا ہے کہ امام علیؑ کے علاوہ کسی نے بھی یہ جملہ ارشاد نہیں فرمایا۔[26] البتہ اہل سنت کے بعض مآخذ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی امام علیؑ کے علاوہ یہ جملہ نہیں کہا ہے۔[27]
جھوٹے مدعی
مسلمان علماء کرام نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ بعض لوگوں نے سلونی قبل ان تفقدونی کا دعوی کیا ہے اور جب ان سے سوالات کئے گئے تو وہ ان سوالات کے جواب دینے سے عاجز رہ گئے۔ ان میں سے ایک قَتَادَۃ بن دِعامۃ ہے جو تابعین اور بصرہ کے فقہا میں سے ہے[28] اور چھٹی صدی ہجری کے ابن جوزی حنبلی ہیں۔[29]
اسی طرح سے علامہ امینی نے اپنی کتاب الغدیر میں کچھ دوسرے پانچ لوگوں کا نام ذکر کیا ہے جنہوں نے «سلونی» کا دعوی کیا ہے اور رسوا و ذلیل ہوئے ہیں۔[30] علامہ مجلسی اور ملا صالح مازندرانی کے بقول جس نے بھی حضرت امام علیؑ کے علاوہ یہ دعویٰ کیا وہ ذلیل و رسوا ہوا۔[31]
حدیث کے راوی اور اس کی سند
حدیث «سلونی قبل ان تفقدونی» متعدد راویوں کے ذریعہ نقل ہوئی ہے؛ جن میں عامر بن واثِلَۃ،[32] عبداللہ بن عباس،[33] سُلَیم بن قَیس ہلالی،[34] اَصْبَغِ بْنِ نُبَاتَۃ[35] اور عَبَایۃ بن رِبْعِی ہیں۔[36] حاکم نیشابوری، ابو طفیل عامر بن واثلۃ سے نقل شدہ روایت کی سند صحیح شمار کرتے ہیں۔[37]
سعد بن ابی وقاص کا ردِّ عمل
بعض منابع کی بنیاد پر جب امام علیؑ نے اس جملہ کو اپنے کسی خطبہ میں ارشاد فرمایا، تو سَعد بن ابی وَقّاص کھڑا ہوا اور اس نے امامؑ سے سوال کیا: میری ڈارھی اور سر میں کتنے بال ہیں؟ وہاں امام علیؑ نے اس کے جواب میں خدا کی قسم کھائی کہ رسول خداؐ نے ان کو خبر دی ہے کہ تو اس طرح کا سوال مجھ سے کرے گا۔ اور پھر فرمایا کہ تیری داڑھی اور سر میں کوئی بال نہیں ہے، مگر یہ کہ ان کی جڑوں میں ایک شیطان سکونت پذیر ہے۔ اسی طرح سے تیرے گھر میں ایک بھیڑ کا بچّہ ہے (امامؑ کا اشارہ عمر بن سعد کی طرف تھا) جو میرے بیٹے حسینؑ کو قتل کرے گا۔[38] بعض لوگوں نے اس واقعہ کو اَنَس، کے بارے میں نقل کیا ہےج و کہ سنان بن انس کا باپ ہے سنان بن انس جو امام حسینؑ کے قاتلوں میں سے تھا۔[39]
حوالہ جات
- ↑ مراجعہ فرمائیں: صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ھ، ص۲۶۶-۲۶۸، ۲۹۶-۲۹۹؛ ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۳۵۶ھجری شمسی، ص۷۴؛ صدوھ، الامالی، ۱۳۷۶ ھجری شمسی، ص۱۳۳ و۳۴۱-۳۴۴؛ نج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ ۱۸۹، ص۲۸۰؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۳۸۳؛ خوارزمی، المناقب، مؤسسہ نشر اسلامی، ص۹۱؛ جوینی، فرائد السمطین، ۱۴۰۰ھ، ج۱، ص۳۴۰ و ۳۴۱؛ ابن ابی الحدید، شرح نجم البلاغہ، ۱۴۰۴ھ، ج۲، ص۲۸۶، ج۶، ص۱۳۶، ج۷، ص۵۷، ج۱۰، ص۱۴، ج۱۳، ص۱۰۱۔
- ↑ قندوزی، ینابیع المودہ، دارالاسوہ، ج۱، ص۲۲۲۔
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ھ، ج۱، ص۳۴و۳۵ و۳۳۰۔
- ↑ نگاہ کنید بہ: ہلالی، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، ۱۴۰۵ھ، ج۲، ص۸۰۲ و۹۴۱۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ ۹۳، ص۱۳۷۔
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۳۹۹، ح۲؛ صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ھ، ص۱۲۔
- ↑ حاکم نیشابوری، المستدرک، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۵۰۶۔
- ↑ نگاہ کنید بہ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۳، ص۱۱۰۷؛ طبری، ذخایر العقبی، ۱۴۲۸ھ، ج۱، ص۳۹۹و۴۰۰؛ ابن عساکر، تاریخ دمشھ، ۱۴۱۵ھ، ج۲۷، ص۱۰۰ و ج۴۲، ص۳۹۸ و ج۴۴، ص۳۳۵ و ۳۹۷؛ خوارزمی، المناقب، مؤسسہ نشر اسلامی، ص۹۴؛ حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۴۰-۴۲ و ۴۵۔
- ↑ مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۲ھ، ج۵، ص۱۹۲؛ ہاشمی خویی، منا ج البراعۃ، ۱۴۰۰ھ، ج۲، ص۴۰۲ و ج۱۱، ص۱۷۲۔
- ↑ مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۲ھ، ج۵، ص۱۹۲۔
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۳۹۹،ح۲؛ صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ھ، ص۱۲، ح۱۔
- ↑ مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ھ، ج۴، ص۳۰۸۔
- ↑ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ ھجری شمسی، ص۳۴۱۔
- ↑ صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ھ، ص۲۶۶-۲۶۸۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ ۱۸۹، ص۲۸۰۔
- ↑ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۳، ص۱۱۰۷؛ حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۴۲؛ طبری، ذخایر العقبی، ۱۴۲۸ھ، ج۱، ص۳۹۹و۴۰۰؛ ابن عساکر، تاریخ دمشق، ۱۴۱۵ھ، ج۲۷، ص۱۰۰ و ج۴۲، ص۳۹۸۔
- ↑ ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۳۵۶ ھجری شمسی، ص۷۴؛ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ ھجری شمسی، ص۱۳۳و ۱۳۴؛ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ھ، ج۱، ص۳۳۰و۳۳۱۔
- ↑ ابن مردویہ اصفارنی، مناقب علی بن ابی طالب، ۱۴۲۴ھ، ص۸۶و۸۷۔
- ↑ جوینی، فرائد السمطین، ۱۴۰۰ھ، ج۱، ص۳۴۰۔
- ↑ سید بن طاووس، الطرائف، ۱۴۰۰ھ، ج۲، ص۵۱۰۔
- ↑ ذہبی، المنتقی من مناج الاعتدال، ص۳۴۲۔
- ↑ ابن تیمیہ، منانج السنۃ النبویۃ، ۱۴۰۶ھ، ج۸، ص۵۶و۵۷۔
- ↑ ابن حیون، شرح الاخبار، ۱۴۰۹ھ، ج۳، ص۲۹۲۔
- ↑ ابن ابی زینب، الغیبۃ للنعمانی، ۱۳۹۷ھ، ص۸۷؛ ذہبی، تاریخ الاسلام، ۲۰۰۳م، ج۳، ص۸۲۸؛ قندوزی، ینابیع المودہ، دار الاسوہ، ج۱،ص۲۲۲۔
- ↑ نمونہ کے طور پر نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج۴، ص۱۸۳۴ کی طرف مراجعہ فرمائیں
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ھ، ج۳، ص۵۹۷؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۳، ص۱۱۰۳؛ ابن عساکر، تاریخ دمشق، ۱۴۱۵ھ، ج۴۲، ص۳۹۹؛ حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۵۰؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ھ، ج۷، ص۴۶۔
- ↑ ابن حنبل، فضائل الصحابۃ، ۱۴۰۳ھ، ج۲، ص۶۴۶؛ ذہبی، تاریخ الاسلام، ۲۰۰۳م، ج۲، ص۳۶۱؛ ابن عساکر، تاریخ دمشق، ۱۴۱۵ھ، ج۴۲، ص۳۹۹؛ خوارزمی، المناقب، مؤسسہ نشر اسلامی، ص۹۰و۹۱۔
- ↑ زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ھ، ج۳، ص۳۵۵و۳۵۶؛ مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۲ھ، ج۵، ص۱۹۲۔
- ↑ نباطی عاملی، الصراط المستقیم، ۱۳۸۴ھجری شمسی، ج۱، ص۲۱۸۔
- ↑ ملاحظہ کریں: امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ھ، ج۶، ص۲۷۵و۲۷۶۔
- ↑ مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ھ، ج۴، ص۳۰۸؛ مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۲ھ، ج۵، ص۱۹۲ و ج۶، ص۴۰۰۔
- ↑ حاکم نیشابوری، المستدرک، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۳۸۳؛ ابن عساکر، تاریخ دمشق، ۱۴۱۵ھ، ج۱۷، ص۳۳۵؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۳، ص۱۱۰۷؛ طبری، ذخائر العقبی، ۱۴۲۸ھ، ج۱، ص۳۹۹ و ۴۰۰۔
- ↑ قندوزی، ینابیع المودہ، دار الاسوہ، ج۱، ص۲۲۴۔
- ↑ ہلالی، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، ۱۴۰۵ھ، ج۲، ص۸۰۲ و۹۴۱۔
- ↑ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ھجری شمسی، ص۱۳۳و۳۴۱۔
- ↑ صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ھ، ص۲۶۶؛ قندوزی، ینابیع المودہ، دار الاسوہ، ج۱، ص۲۲۲۔
- ↑ حاکم نیشابوری، المستدرک، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۳۸۳ و ۵۰۶۔
- ↑ ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۳۵۶ ھجری شمسی، ص۷۴؛ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ ھجری شمسی، ص۱۳۳و ۱۳۴؛ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ھ، ج۱، ص۳۳۰و۳۳۱۔
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ھ، ج۲، ص۲۸۶؛ مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۲ھ، ج۶، ص۴۰۰۔
مآخذ
- ابن ابی الحدید، عبدالحمید بن ہبۃاللہ، شرح نج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، مکتبۃ آیت اللہ مرعشی نجفی، چاپ اول، ۱۴۰۴ھ۔
- ابن ابی زینب، محمد بن ابراہیم، الغبیۃ للنعمانی، تحقیق و تصحیح علی اکبر غفاری، ترقان، نشر صدوق، چاپ اول، ۱۳۹۷ھ۔
- ابن اثیر، محمد بن محمد، اسد الغابۃ، بیروت، دار الفکر ۱۴۰۹ق-۱۹۸۹ء۔
- ابن تیمیہ، منادج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ القدریۃ، تحقیق محمد رشاد سالم، جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۴۰۶ھ۔
- ابن حنبل، احمد بن حنبل، فضائل الصحابۃ، تحقیق وصی اللہ محمد عباس، بیروت، مؤسسہ الرسالۃ، چاپ اول، ۱۴۰۳ھ۔
- ابن حیون، نعمان بن محمد مغربی، شرح الاخبار فی فضائل الائمۃ الاطاضر(ع)، تحقیق و تصحیح محمد حسین حسینی جلالی، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، ۱۴۰۹ھ۔
- ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دارالجیل، چاپ اول، ۱۴۱۲ھ۔
- ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ دمشق، تحقیق عمرو بن غرامۃ عمروی، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۵ق-۱۹۹۵ء۔
- ابن قولویہ، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، تحقیق و تصحیح عبدالحسین امینی، نجف، دارالمرتضویہ، چاپ اول، ۱۳۵۶ھجری شمسی۔
- ابن مردویہ اصفاننی، احمد بن موسی، مناقب علی بن ابیطالب و مانزل من القرآن فی علی، تحقیق عبدالرزاق محمد حرزالدین، قم، دارالحدیث، چاپ دوم، ۱۴۲۴ھ۔
- امینی، عبدالحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر، چاپ اول، ۱۴۱۶ھ۔
- جوینی، ابراہیم بن محمد، فرائدالسمطین، تحقیق محمد باقر محمودی، بیروت، مؤسسہ محمودی، ۱۴۰۰ھ۔
- حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۱ق-۱۹۹۰م۔
- حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق و تصحیح محمد باقر محمودی، تر ان، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۱ھ۔
- خوارزمی، موفق بن احمد، مناقب، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، بیتا۔
- ذہبی، شمس الدین، المنتقی من مناہج الاعتدال فی نقض کلام أہل الرفض والاعتزال، تحقیق محب الدین خطیب، بینا، بیتا۔
- ذہبی، شمس الدین، تاریخ الإسلام و وَفیات المشاہیر والأعلام، تحقیق بشار عوّاد معروف، دار الغرب الإسلامی، چاپ اول، ۲۰۰۳ء۔
- زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الأقاویل فی وجوہ التأویل، تصحیح مصطفی حسین احمد، بیروت، دارالکتب العربی، چاپ سوم، ۱۴۰۷ھ۔
- شریف رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، ہجرت، چاپ اول، ۱۴۰۴ھ۔
- صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، الامالی، تربان، کتابچی، چاپ ششم، ۱۳۷۶ ھجری شمسی۔
- صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد(ص)، قم، مکتبۃ آیت اللہ مرعشی نجفی، چاپ دوم، ۱۴۰۴ھ۔
- طبری، محب الدین، ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی، قم، دارالکتب الاسلامی، چاپ اول، ۱۴۲۸ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، تحقیق جواد قیومی اصفا،نی، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، چاپ سوم، ۱۳۷۳ھجری شمسی۔
- قندوزی، سلیمان بن ابراہیم، ینابیع المودۃ لذوی القربی، قم، دارالاسوہ، بیتا۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، ترسان، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ چالرم، ۱۴۰۷ھ۔
- مازندرانی، محمد صالح بن احمد، شرح الکافی (اصول و روضہ)، تحقیق و تصحیح ابوالحسن شعرانی، ترلان، مکتبۃ الاسلامیۃ، چاپ اول، ۱۳۸۲ھ۔
- مجلسی، محمد باقر، مرآۃ العقول فی شرح اخبار آل الرسول، تحقیق و تصحیح سیدہاشم رسولی محلاتی، ترہان، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دوم، ۱۴۰۴ھ۔
- مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، ۱۴۱۳ھ۔
- نباطی عاملی، علی بن محمد، الصراط المستقیم الی مستحقی التقدیم، تصحیح محمد باقر ببوقدی، ترہان، المکتبۃ المرتضویۃ، ۱۳۸۴ھجری شمسی۔
- نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، بیروت، دار احیاءالتراث العربی، بیتا۔
- ہلالی، سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، تحقیق و تصحیح محمد انصاری زنجانی خوئینی، قم، الاردی، چاپ اول، ۱۴۰۵ھ۔