سید محمود حسینی شاہرودی

ویکی شیعہ سے
سید محمود حسینی شاہرودی
کوائف
تاریخ وفات17 شعبان 1394ھ
علمی معلومات
اساتذہمحمد کاظم خراسانی، میرزای نائینی و آقا ضیاءالدین عراقی
شاگردسید محمد شاہرودی
خدمات
سیاسیواقعہ فیضیہ کے زیر اثر حکومت پہلوی کے خلاف احتجاج


سید محمود حسینی شاہرودی (1884-1974 ھ) شیعہ مرجع تقلید، نجف اشرف میں سکونت پذیر اور سید محمد حسینی شاہرودی کے والد ہیں۔ آپ میرزای نائینی و آقا ضیاء عراقی کے معروف شاگردوں میں سے تھے اور سید ابوالحسن اصفہانی کے بعد مقام مرجعیت تک پہچے۔ میرزای نائینی ان کو ذوالشہادتین کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کو اجازہ اجتہاد دینے کے لئے آپ کی رائے معلوم کیا کرتے تھے۔ اسی طرح سے آقا ضیاء عراقی اور سید ابوالحسن اصفہانی بھی اپنے شاگردوں کو اجتھادی امتحانات کے لئے آپ کے پاس بھیجا کرتے تھے۔

کابل اور ایران کے بعض شہروں میں، مسجد، امام باڑے اور مدارس علمیہ کی تعمیر و تجدید نجف اشرف، میں بخارایی اور قزوینی مدارس علمیہ کی تعمیر، بعثہ حج کی تائسیس اور واقعہ فیضیہ سے متاثر ہو کے حکومت پہلوی کے خلاف ان کے اعتراضات سید محمود شاہرودی کے زمانہ مرجعیت کے اہم اقدامات میں سے تھے۔ اسی طرح سے ان کی ہی مرجعیت کے زمانہ میں نجف سے کربلا کے درمیان پا پیادہ زیارت کے لئے جانے کو عروج ملا۔

آیت‌ اللہ شاہرودی کی تالیفات میں فقہی اور اصولی موضوعات پر رسالے اور آقا ضیاء عراقی اور میرزای نائینی کے دروس کی تقریر نویسی سر فہرست ہیں۔ اسی طرح سے کتاب یَنابیع‌ الفقہ مولف سید محمد جعفر جزائریِ مروج، آیت‌ اللہ شاہرودی کے دروس خارج صلاة (نماز) کی تقریر ہے جوکہ چار جلدوں پر مشتمل ہے اور منظر عام پہ آچکی ہے۔

کتاب الامام الشاہرودی السید محمود الحسینی سید احمد حسینی اشکوری (ولادت 1350 ھ) کی تالیف ہے جو آیت‌ اللہ شاہرودی کی زندگی کے بارے میں عربی زبان میں لکھی گئی ہے۔

ایرانی ماہ تیر 1400 ش، میں حسین شاہرودی کی یاد میں عالم ذوالشہادتین، کے عنوان سے ایک عظیم الشان جسلہ مشہد مقدس اور قم میں منعقد کیا جا رہا ہے۔

زندگی‌ نامہ

نجف اشرف میں سید محمود شاهرودی کی تشییع جنازه کا ایک منظر

سید محمود حسینی شاہرودی بن سید علی، سنہ 1301 ھ میں شاہرود کے نزدیک قلعہ آقا عبداللہ اطراف شہر بسطام میں پیدا ہوئے۔[1] سید احمد حسینی اشکوری (متولد 1350 ھ) نسخہ‌ شناس اور شیعہ فہرست‌ نگار، کے بقول ان کا سلسلہ نسب زید بن علی تک پہونچتا ہے۔[2] ان کے والد ایک محنت کش کسان اور ان کے دادا عبداللہ ایک عالم و زاہد انسان تھے۔[3] سید عبداللہ سے چند کرامات بیان ہوئی ہیں۔[4]

اولاد

سید محمود شاہرودی کی تین بیٹے تھے:

  • سید محمد: (ولادت 1344 ھ) انھوں نے سنہ 1375 ھ میں اپنے والد سے اجازہ اجتہاد کسب کیا۔ اسی طرح سے اسی طرح سے اپنی والد کی نیابت میں مسجد ہندی میں مغربین کی نماز اور مسجد جوہرچی میں ظہر کی نماز کی امامت فرماتے تھے۔ اپنے والد کے دروس اصول کی تقریرات اور صلاة الجمعة ان کی علمی کاوشوں میں سے ہے۔[5]
  • سید علی: (ولادت 1347 ھ) آپ اپنے والد کے درس خارج میں شرکت کرتے تھے اور ان کے دفتر کے امور کے منتظم تھے۔[6]
  • سید حسین: (ولادت 1360 ھ) یہ اپنے بھائی سید محمد کے درس خارج میں شرکت کرتے تھے اور ان کے دروس کی تقریرات لکھتے تھے۔[7]

سید محمود شاہرودی نے 18 شعبان 1394 ھ میں 94 سال کی عمر میں رحلت فرمائی۔[8] اور حرم امام علی (ع) میں دفن ہوئے۔[9]

علمی مقام

شاہرودی نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی اور علم صرف اور علم نحو شہر بسطام میں حاصل کیا۔ اس کے بعد اعلی تعلیم کے لئے آپ نے مشہد مقدس کا رخ کیا۔ اور وہاں آپ نے سطوح کے دروس کی تعلیم مکمل کی۔ اسی کے ساتھ ساتھ آپ نے کفایۃ الاصول کی حوزہ علمیہ میں وہیں مشہد میں تدریس کی۔[10]

شاہرودی صاحب نے سال 1328 ھ میں نجف اشرف کا سفر کیا اور وہاں آقائے آخوند خراسانی کے فقہ و اصول کے دروس میں حاضر ہونے لگے۔ اور اسی دوران رسائل اور مکاسب شیخ انصاری کی تدریس بھی کرتے رہے۔[11] انھوں نے تقریبا اٹھارہ مہینے آقائے آخوند خراسانی کے درس میں شرکت کی اور آخوند کی وفات 20 ذی الحجہ 1329 ھ کے بعد سامرا گئے؛ لیکن ابھی زیادہ مدّت نہیں گذری کہ آپ نجف واپس پلٹ آئےاور وہاں آپ نے آقا ضیاء عراقی کی خدمت میں اصول فقہ کا ایک دورہ مکمل کیا۔ اسی طرح سے آپ وہاں میرزای نائینی کے درس میں حاضر ہوتے تھے اور ان کے بڑے خاص شاگردوں میں شمار ہوتے تھے۔ میرزای نائینی ان کو اپنے تمام شاگردوں پہ مقدم کرتے تھے اور جب وہ اپنے کسی شاگرد کے لئے اجازہ اجتھاد دیتے تھے تو ان سے اس بارے میں ان کی رائے معلوم کرتے تھے۔[12] مشہور ہے کہ آقائے نائینی ان کی ایک گواہی کو دو عادل کی گواہی کے برابر مانتے تھے۔[13] اور اسی بات کی وجہ سے آقا ضیاءالدین عراقی اور سید ابوالحسن اصفہانی ان کو ذوالشہادتین (دو گواہی والا) کہ کے بلایا کرتے تھے اور اپنے شاگروں کو اجتہاد کے اعلی امتحان کے لئے ان کے پاس بھیجا کرتے تھے۔[14]

علماء بڑی تعداد میں سید محمود شاہرودی کے جلسہ درس میں شرکت کرتے تھے۔ سید محمد حسینی شاہرودی، سید محمد جعفر مروج جزائری، محمد رحمتی سیرجانی، اور علی آزاد قزوینی [15] محمد ابراہیم جناتی، مسلم ملکوتی، جواد تبریزی[16] اور سید کاظم حائری[17] ان کے شاگردوں میں سے ہیں۔

مرجعیت

آقائے شاہرودی، آقائے میرزای نائینی اور سید ابوالحسن اصفہانی کے زمانہ میں اپنی عمر کے 35 سال میں ہی درجہ اجتہاد تک پہچ گئے تھے۔ [18] انھوں نے اپنے ان دونوں شخصیتوں کی وفات تک اپنا رسالہ عملیہ چھپوانے سے گریز کیا اور لوگوں کو ان کی طرف رجوع دیا کرتے تھے۔ آقائے سید ابوالحسن اصفہانی سنہ 1365 ھ کے بعد شیعوں کی مرجعیت کی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پہ آئی اور سنہ 1366 ھ میں آپ کا رسالہ علمیہ نجف اور تہران میں منتشر ہوا۔[19] ان کی مرجعیت آیت‌ اللہ بروجردی اور سید محسن حکیم کے بعد سے اور زیادہ وسعت پذیر ہوئی۔[20]

عام المنفعہ خدمات

آیت‌ اللہ شاہرودی کے بعض اہم عام‌المنفعہ خدمات مندرجہ ذیل ہیں:

  • کابل افغانستان میں مسجد اور امام باڑے کی تعمیر
  • فاروج (مدرسہ محمودیہ)، زاہدان اور فومن میں مدارس علمیہ کی تأسیس
  • نجف میں مدرسہ بخارایی و مدرسہ قزوینی کی تجدید اور مرمّت
  • ایران کے مختلف شہروں جیسے بجنورد، طیبات، کلالہ، رامیان و جاجرم میں مساجد کی تاسیس
  • اسکول کی بنا: یہ اسکول تعلیم کے ابتائی مراحل سے لیکر درمیان مقطع کے آخر تک دو زبانوں عربی اور فارسی زبان میں ترویج علم کا سبب ہیں۔ اس زمانہ میں نجف کے اسکول ایران و عراق حکومت کے زیر حمایت تھے اس لئے زیادہ تر لوگ اس میں اپنے بچوں کے نام وہاں لکھوانے میں عیب محسوس کرتے تھے اور ان اسکولوں سے اجتناب کرتے تھے۔[21]
  • طلاب علوم دینیہ کے لئے اپارٹمنٹ کالونی انتظام: کمیل بن زیاد کی قبر کے نزدیک نجف اور کوفہ کے درمیان واقع ہے یہ کالونی تقریبا 124000 اسکوائر میٹر رقبہ پر مشتمل ہے۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہ اس کالونی میں ایک ہاسپٹل اور طلاب کے لئے ایک اسکول بھی بنوائیں۔ کچھ عمارتیں ان کی زندگی میں اور کچھ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے کے ذریعہ تعمیر کی گئیں یہاں تک کہ سال 1359 شمسی ہجری، میں عراق کی حکومت وقت کی جانب سے ان کا عراق سے جلا وطن کردیا گیا۔[22]
  • کربلا کی زیارت کے لئے پیادہ روی: ان کے زمانہ مرجعیت میں کربلا کی زیارت کے لئے پیدل چلنے کو جو کہ نجف سے کربلا تھی بہت عروج ملا۔[حوالہ درکار]

کہا جاتا ہے کہ انھوں نے 260 بار، کربلا زیارت کا پیدل سفر کیا۔[23]

مجله العدل نجف 1968 ء میں تأسیس بعثه حج کے بارے میں خبر [24]

بعثہ حج کی شروعات

آیت‌ اللہ شاہرودی نے سال 1346 شمسی کو مسائل شرعی کی جواب گوئی کے لئے مراسم حج کے دروان ایک گروہ اعزام کیا جس کا نام البعثة الدینیة للحج تھا اور وہ اسی نام سے جانا پہچانا گیا۔ انھوں نے سال 1345 ش میں گروہ استفتاء کے ممبران کے ساتھ مراسم حج میں شرکت کی اور انھوں نے اس ضرورت کو سنجیدگی سے لیا۔[25] آیت اللہ شاہرودی نے اپنے اس سفر میں بہت سے شہروں اور بہت سی جگہوں کی سیاسی اور مذھبی شخصیتیوں سے ملاقات کی اور انھوں نے آپ کا استقبال کیا ان میں امیر مدینہ حاکم عربستان کے بھائی بھی تھے۔ سید علی‌ نقی سامرائی نے ان کی سفر حج سے عراق واپسی پر بہت زیادہ گروہ کے سامنے کاظمین میں ان کی شان میں قصیدہ‌ کہا اور پڑھا۔[26] جو یہاں سے «تیہی دلالاً مکة العُلیاء» شروع ہوتا ہے۔[27]

واقعہ فیضیہ کا ردّ عمل

سید حسین، سید محمود شاہرودی، کے بیٹے کے بقول ان کے والد نے مدرسہ فیضیہ پہ حکومت پہلوی کے کارندوں کے حملہ کو محکوم کیا جو سنہ 1342 شمسی کو انجام پایا تھا. انھوں نے اس سلسلہ میں ایران کی بڑی شخصیتوں اور علماء سے ٹیلیگراف کے رابطہ قائم کیا۔[28] سنہ 1342 ش تاریخ 12 فروردین کو امام خمینی کا ایک ٹیلیگراف ان کے نام موجود ہے جس میں امام خیمی نے شہر قم میں علماء کے قتل عام اور اس پر مسلمانوں کی خاموشی پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔[29]

تصنیفات

سید محمود شاہرودی کی بہت سی تالیفات و تصنیفات ہیں، جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:

  • ضیاءالدین عراقی کے دروس کی تقریرات
  • میرزا نائینی کے فقہ و اصول کے دروس کی تقریرات

انھوں نے طہارت، تیمم، وضو، نمازی کا لباس، نماز مسافر، خمس، زکات، حج، ارث، تعریف علم اصول، قاعدہ ید، قاعدہ لا ضرر رجال کے موضوعات پہ رسالے لکھے۔ اسی طرح سے انھوں نے بہت سی کتابوں پہ حاشیہ لگایا ہے۔ ان کے فتووں کے مطابق ان کی توضیح المسائل تالیف ہو چکی ہے۔[30] کتاب یَنابیعُ‌ الفقہ، صلاۃ کے موضوع پر دیئے گئے آپ کے درس خارج کے مباحث پر مشتمل ہے جو سید محمد جعفر جزائری مروج کے ذریعہ تقریر ہوئی ہے یعنی لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب شہر قم میں انتشارات آل‌المرتضی نے چار جلدوں پر مشتمل چھاپی ہے۔[31]

عظیم الشان یادگاری و اعزازی جلسہ

سید محمود حسینی شاہرودی کی خدمات کے اعتراف کے لئے ایک عظیم الشان جلسہ کا عالم ذوالشہادتین کے عنوان سے تیر ماہ 1400 ش میں شہر مشہد، قم اور نجف اشرف میں منعقد ہوا۔[32] اسی سلسلہ کا ایک پروگرام 17 تیر 1400 ش میں شہر شاہرود میں منعقد کیا گیا۔[33] اس عظیم الشان جلسہ کے بینر اور دعوت نامہ فارسی، عربی، انگریزی اور اردو زبانوں میں مختلف ملکوں میں نشر ہو چکا ہے۔[34]

تحقیقی مقالات

سید محمود حسینی شاہرودی کے بارے میں عربی اور فارسی زبانوں میں کتابیں تالیف ہوئی ہیں؛ ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:

  • الامام الشاہرودی السید محمود الحسینی، مصنّف سید احمد حسینی اشکوریی، یہ کتاب حیات آیت اللہ سید محمود الحسینی شاہرودی کے بارے میں خود ان کی زندگی میں ہی لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب 122 صفحات پر مشتمل ہے اور عربی زبان میں چھپ کے منظر عام پہ آئی ہے۔
  • اسناد کی زبانی آیت‌ اللہ العظمی سید محمود حسینی شاہرودی کے کارنامے اور ان کی زندگانی، تصنیف داوود قاسم‌ پور اور شاہین رضایی۔ یہ کتاب انتشارات مرکز اسناد انقلاب اسلامی کی جانب سے سنہ 1389 ش میں چھپی ہے جو کہ 352 صفحات پر مشتمل ہے۔[35]

فوٹو گیلری

حوالہ جات

  1. حسینی، الامام الشاہرودی السید محمود الحسینی، مطبعة البیان، ص۱۳۔
  2. حسینی، الامام الشاہرودی السید محمود الحسینی، مطبعة البیان، ص۲۰۔
  3. شریف‌ رازی، گنجینہ دانشمندان، ۱۳۵۳ش، ج۵، ص۳۶۵۔
  4. حسینی، الامام الشاہرودی السید محمود الحسینی، مطبعة البیان، ص۲۰۔
  5. حسینی، الامام الشاہرودی السید محمود الحسینی، مطبعة البیان، ص۹۹۔
  6. حسینی، الامام الشاہرودی السید محمود الحسینی، مطبعة البیان، ص۱۰۱۔
  7. حسینی، الامام الشاہرودی السید محمود الحسینی، مطبعة البیان، ص۱۰۲۔
  8. شریف‌ رازی، گنجینہ دانشمندان، ۱۳۵۳ شمسی ہجری، ج۵، ص۳۶۶۔
  9. نجوم امت ۲۰ «زندگانی مرحوم آیت‌ اللہ شاہرودی» معرفی و نقد»، ص۷۷۔
  10. حسینی، الامام الشاہرودی السید محمود الحسینی، مطبعة البیان، ص۲۸-۲۹۔
  11. حسینی، الامام الشاہرودی السید محمود الحسینی، مطبعة البیان، ص۳۰۔
  12. حسینی، الامام الشاہرودی السید محمود الحسینی، مطبعة البیان، ص۲۰۔
  13. «مصاحبہ با سید حسین شاہرودی»، ص۸۔
  14. نجوم امت ۲۰ «زندگانی مرحوم آیت‌اللہ شاہرودی» معرفی و نقد»، ص۷۰۔
  15. «مصاحبہ با سید حسین شاہرودی»، ص۹۔
  16. نجوم امت ۲۰ «زندگانی مرحوم آیت‌اللہ شاہرودی» معرفی و نقد»، ص۷۶۔
  17. مصاحبه با آیت‌ الله سید کاظم حائری، پایگاه اطلاع‌ رسانی حوزه.
  18. «نجوم امت ۲۰ «زندگانی مرحوم آیت‌ اللہ شاہرودی» معرفی و نقد»، ص۷۰۔
  19. حسینی، الامام الشاہرودی السید محمود الحسینی، مطبعة البیان، ص۴۳۔
  20. نجوم امت ۲۰ «زندگانی مرحوم آیت‌ اللہ شاہرودی» معرفی و نقد»، ص۷۰۔
  21. حسینی، الامام الشاہرودی السید محمود الحسینی، مطبعة البیان، ص۹۴-۹۷۔
  22. نجوم امت ۲۰ «زندگانی مرحوم آیت‌اللہ شاہرودی» معرفی و نقد»، ص۷۱-۷۲۔
  23. نجوم امت ۲۰ «زندگانی مرحوم آیت‌ اللہ شاہرودی» معرفی و نقد»، ص۷۵۔
  24. «مروری بر شکل‌ گیری بعثہ مراجع عظام تقلید»، مباحثات.
  25. «مروری بر شکل‌ گیری بعثہ مراجع عظام تقلید»، مباحثات۔
  26. نگاہ کریں: حسینی، الامام الشاہرودی السید محمود الحسینی، مطبعة البیان، ص۷۵-۸۳۔
  27. حسینی، الامام الشاہرودی السید محمود الحسینی، مطبعة البیان، ص۸۷۔
  28. عبیری، «آیت‌اللہ العظمی سید محمود حسینی شاہرودی»، ص۷۵۵۔
  29. امام خمینی، صحیفہ امام، ج۲۱، ص۴۹۹۔
  30. حسینی، الامام الشاہرودی السید محمود الحسینی، مطبعة البیان، ص۴۷-۴۸۔
  31. «ینابیع الفقہ۔۔۔ إصدار جدید لآیة اللہ السید محمود الحسینی الشاہرودی رہ»، الاجتہاد۔
  32. «کنگرہ بین‌المللی بزرگداشت آیت‌ اللہ العظمی سید محمود حسینی شاہرودی در قم برگزار می‌ شود»، روزنامہ اطلاعات، ۱۴ اسفند، ۱۳۹۹ شمسی ہجری۔
  33. «همایش ملی نکوداشت آیت الله حسینی شاهرودی برگزار شد+ تصاویر»، خبرگزاری رسا.
  34. «کنگرہ بین‌ المللی بزرگداشت آیت‌ اللہ العظمی سید محمود حسینی شاہرودی در قم برگزار می‌شود»، روزنامہ اطلاعات، ۱۴ اسفند، ۱۳۹۹شمسی ہجری۔
  35. «زندگی و مبارزات آیت‌ اللہ العظمی سیدمحمود حسینی شاہرودی بہ روایت اسناد»، آدینہ بوک۔

مآخذ