آسمانی کتب میں تحریف

ویکی شیعہ سے

آسمانی کتب میں تحریف کے معنی الفاظ میں تغیر و تبدیلی اور غلط تعبیر و تفسیرکے ہیں جو بعض آسمانی کتب میں واقع ہوئی ہے۔ اس بحث کی جڑیں قرآن کریم سے ملتی ہیں۔ قرآن کے مطابق آسمانی کتب میں تحریف یہودیوں اور عیسائیوں کے ذریعے انجام پائی ہے۔

احادیث میں بھی اس موضوع کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ مسلمانوں نے توریت اور انجیل میں لفظی تحریف کے اثبات ان کتب کے مختلف نسخوں میں موجودہ اختلاف کو بطور ثبوت پیش کیا ہے۔ توریت اور انجیل میں پیغمبر اسلامؐ کی آمد کی طرف موجود اشاروں اور پیشنگوئیوں کا حذف کیا جانا اور شادی شدہ افراد کے زنا کی سزا کو حذف کیا جانا آسمانی کتب میں ہونے والی اہم ترین تحریفات میں سے ہیں۔

ان دو کتب کے متن میں موجود تضادات و تعارضات اور تثلیث سمیت بعض غیر عقلی مندرجات، ان کتب میں تحریف واقع ہونے کی دیگر دلیلیں ہیں۔

مقام و اہمیت

لغت میں تحریف کے معنی "بات کو پلٹانے"[1] اور "تبدیل کرنے" کے ہیں۔[2] یہ معنی خاص طور پر کتاب کے مندرجات میں تبدیلی لانے کےلیے استعمال ہوتے ہیں۔[3] تحریف کبھی صرف لفظی ہوتی ہے[4] اور کبھی معنی میں تبدیلی یا غلط تاویل کی صورت میں ہوتی ہے۔[5]

یہودیوں اور عیسائیوں کی جانب سے آسمانی کتب میں تحریف کرنے کے بارے میں قرآن مجید میں صراحتا بیان ہوا ہے۔ اگرچہ تورات و انجیل کا اللہ تعالیٰ کی جانب سے انبیائے الہی پر نازل ہونا تمام مسلمانوں کے ہاں مورد تائید ہے[6] لیکن ان میں کچھ ایسے مطالب پائے جاتے ہیں کہ جو ان کتب میں تحریف کی نشاندہی کرتے ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت 75 ان یہودیوں کے بارے میں ہے جو کلام الہی کو سنتے ہیں اور ان کے معانی کو سمجھنے کے باوجود ان میں تحریف کرتے ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت79 اور سورہ آل عمران کی آیت 78 میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اہل کتاب میں سے کچھ ایسے ہیں جو اپنے ہاتھوں سے کچھ لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے نازل ہوا ہے۔ سور نساء کی آیت 46 اور سورہ مائدہ کی آیت13 میں بھی اہل کتاب کی جانب سے تحریف انجام دیے جانے کی بابت کی گئی ہے۔ قرآن کی یہ آیت ( یُحَرِّفونَ الکَلِمَ عَنْ مَواضِعِه) اسی مطلب کو بیان کرتی ہے۔سورہ مائدہ کی آیت41 میں بھی مذکورہ آیت سے ملتا جلتا جملہ آیا ہے: ( یُحَرِّفونَ الْکَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَواضِعِه)۔ کتبِ احادیث میں اس موضوع پر مکرراََ بات کی گئی ہے۔[7]

لفظی اور معنوی تحریف

بعض مسلمان دانشور اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن میں بیان شدہ تحریف سے مراد صرف نادرست تاویل کی شکل میں تحریف ہے الفاظ میں تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ چوتھی صدی ہجری کے اسماعیلی متکلم ابو حاتم رازی تورات کے تین نسخوں اور اناجیل اربعہ کے درمیان فرق کو قرآن کے اختلاف قرائات جیسا سمجھتے[8] اور غالباً اسی وجہ سے رازی نے محمد ابن زکریا کے ساتھ بحث میں ان کتابوں کا دفاع کرنا اپنا فرض سمجھا۔[9] فخر رازی نے اس بنیاد پر کہ تورات اور انجیل کے نسخے دنیا کے مشرق و مغرب میں بکثرت اور متواتر انداز میں ہیں، تحریف کو معنوی تبدیلی اور نادرست تاویل معنی کرنے کو ترجیح دی ہے۔اصطلاحی تحریف اور غلط تشریح کو ترجیح دی۔[10]

اس کے مقابلے میں اکثر مسلم علماء اس گروہ کی رائے کو قبول نہیں کرتے اور لفظ کی تبدیلی کو بھی ان کتابوں کی تحریف کا حصہ قرار دیا ہے۔[11] فخر رازی معنوی تحریف کو ترجیح دینے کے باوجود الفاظ کی تبدیلی کو بھی تحریف شمار کیا ہے۔ مزید برآں، انہوں نے قرآن کی یہ اس آیت: یُحرِّفونَ الکَلِمَ عَنْ مَواضِعِه اور اس آیت: یُحَرِّفونَ الْکَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَواضِعِه کے مابین ایک ظریف فرق کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اول الذکر آیت ان کتب کی معنوی تحریف کو بیان کرتی ہے جبکہ موخر الذکر آیت ان کی لفظی اور معنوی دونوں لحاظ سے تحریف کو بیان کرتی ہے۔[12] ابن قیّم جوزی نے ایک عمومی درجہ بندی کے ذریعے تحریف کی پانچ صورتیں ذکر کی ہیں:

  • حق و باطل کو اس طرح سے مخلوط کیا جائے کہ ان کے مابین تمییز کرنا ممکن نہ ہو۔
  • حق کو چھپانا۔
  • کتمان حق۔
  • کلام میں تحریف کرنا؛ اس کی خود دو قسمیں ہیں؛ لفظی اور معنوی۔
  • متن کی اس طرح قرائت کرنا کہ سننے والے پر معنی مشتبہ ہوجائے۔[13][یادداشت 1]

تحریف کا زمانہ

مفسرین تفسیر اور علماء نے تحریف کے وقت اور زمانے کے متعلق، مختلف آراء پیش کی ہیں۔ بعض نے تحریف کا پس منظر بیان کرتے ہوئے سلسلۂ تحریف کو ان ستر افراد تک پہنچا دیا ہے جو حضرت موسیؑ کے ساتھ تھے اور اللہ کا پیغام حضرت موسی(ع) سے وصول کرچکے تھے۔ ایک جماعت کا کہنا ہے کہ تحریفِ کتب کے بارے میں نازل ہونے والی آیات پیغمبر اسلام(ص) کے ہم عصر اہل کتاب کے سلسلے میں نازل ہوئی ہیں۔[14] مؤخر الذکر قسم کے معنی یہ نہیں ہیں کہ تورات کے تمام الفاظ میں تمام زبانوں میں تحریف کی گئی ہے۔[15]

نقد کے معنی نفی نہیں ہیں

اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ قرآن و حدیث کے مطابق پیغمبر خداؐ کے زمانے میں تورات و انجیل میں اللہ کی جانب سے کلام موجود تھے؛[16] تحریف انجام پانے کی تنقید وغیرہ کا یہ مطلب کلی طور پر تورات و انجیل کی نفی نہیں، یہاں تک کہ بعض اوقات تو ان کی تحریف سے صرف نظر کرتے ہوئے ان سے استناد کیا گیا ہے۔[17] اور چونکہ پچھلی آسمانی کتابیں پیغمبر اسلامؐ کی نبوت کی خبروں سے خالی نہیں ہوسکتیں؛[18] اس لئے پیغمبر اسلام کی آمد کی بشارت کا بھی سراغ لگایا گیا ہے۔[19] بعض منابع کے مطابق تورات میں آپؐ کے جانشین امام علیؑ اور ان کی ظاہری خصوصایت کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔[20]

لفظی تحریف کے وقوع کا اثبات

مسلمانوں نے تورات اور انجیل میں لفظی تحریف کے اثبات کے لئے پر ان کتب کے مختلف نسخوں میں موجود اختلافات، ان میں موجود تناقضات اور غیر صحیح معلومات کو ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے۔ مسلمان تورات میں ہونے والی تحریف کے بارے میں اس کے تین ـ عبری، [[سریانی اور یونانی ـ نسخوں کے درمیان فرق اور اختلاف کی طرف اشارہ کرتے تھے جن سے بالترتیب یہودی، سامری اور عیسائی استناد کرتے تھے۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ایک طرف سے اس کے نسخوں میں اختلاف ہے تو دوسری طرف سے ـ تورات کی تدوین کی تاریخ کے حوالے سے ـ یہ کتاب غیر متواتر ہے اور اور تورات کا موجودہ نسخہ عزرا وراق کا لکھا ہوا ہے۔ اور یہ سب اس کتاب کی عدم وثاقت کی دلیل ہیں۔[21] انجیل کے بارے میں تحریف لفظی کا اثبات زیادہ آسان تھا کیونکہ مسلمان قرآن کے حوالے سے[22] انجیل کو خدا کی طرف سے عیسی علیہ السلام پر نازل ہونے والی کتاب سمجھتے ہیں حالانکہ انجیل کے چار نسخے (مَرْقُس، مَتّی، لُوقا اور یوحنا) موجود ہیں۔ ان چار نسخوں کے باہمی اختلاف مغایرت انجیل کی عدم وثاقت کو ظاہر کرتی ہے۔[23]۔[24]۔[25]۔[26] مضامین تورات و انجیل، تناقضات و تعارضات درونی این متون، و نامعقول‌بودن و توجیه‌ناپذیر بودن بعضی مطالب آن‌ها مثل تثلیث از نشانه‌های تحریف این کتاب‌ها دانسته شده است. زیرا چنین مطالبی نمی‌تواند از جانب خدا باشد، بدین ترتیب بر تحریف لفظی انجیل تأکید شد.[24] تورات اور انجیل کے مندرجات کا جائزہ لینے سےمعلوم ہوتا ہے کہ ان کے درمیان تضادات اور تعارضات کا وجود، بعض مطالب کی نامعقولیت اور بعض دیگر مطالب کی کلامی و اعتقادی لحاظ سے ناقابل قبول توجیہ وغیرہ ان کتب میں تحریف کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ یہ چیزیں اللہ کی جانب سے نازل ہوئی ہوں۔[27]

تحریف لفظی کے مصادیق

تحریف کے مصادیق کے بارے میں مختلف موضوعات کی طرف اشارہ ہوا ہے لیکن روایات اور مسلمان دانشوروں کے ان روایات سے اخذ کردہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریف لفظی کے دو مصادیق ہیں:

  1. یہ کہ پیغمبر اسلام(ص) کا توصیف اور آپؐ کی نبوت کی خوشخبری ـ جیسا کہ قرآن مجید میں بھی بیان ہوا ہے[28]۔[29]۔[30]۔فخررازی، تفسیر کبیر، مذکورہ آیات کے ذیل میں۔</ref>ـ یہ خوشخبری تورات اور انجیل میں بھی آئی تھی لیکن یہود و نصاری نے اس میں تحریف کی ہے۔[31]۔[32]۔[33]۔[34]۔[35]
  2. تورات کے مطابق زنائے محصنہ کی سزا سنگسار تھی لیکن اس میں تحریف واقع ہوئی ہے۔ اسلامی مآخذ کے مطابق مدینہ کے یہودی اشراف میں سے ایک مرد اور عورت کے درمیان زنائے محصنہ واقع ہونے پر انہیں رجم کی سزا دیے جانے کو ناپسند قرار دیا گیا؛ چنانچہ وہ پیغمبر اسلام(ص) کے پاس آئے اور آپؐ سے حکم جاری کرنے کی درخواست کی۔ پیغمبرؐ نے رجم (سنگسار) کا حکم جاری کیا لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔ رسول اکرم(ص) نے ابن صوریا کی علامات بیان کردیں- جو یہودیوں کے اقرار کے مطابق مضامین تورات کی نسبت عالم ترین شخص تھا- اور اس کو بلوایا اور اس بارے میں اس کی رائے پوچھی گئی۔ ابن صوریا نے وضاحت کی کہ تورات میں یہی حکم آیا تھا لیکن علمائے یہود ابتداء میں سرمایہ داروں اور غرباء کے درمیان فرق کے قائل ہوئے؛ اور جب غرباء نے احتجاج کیا اور اس حکم کے ماننے کے منکر ہوئے جبکہ زنا کا یہودی صاحبان ثروت میں زنا کا عمل قبیح رواج پا چکا تھا؛ تو علمائے یہود نے بیٹھ کر صلاح مشورہ کیا اور رجم کے بجائے دوسرے احکام جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔[36]

تاریخچہ

تاریخ کے مختلف مراحل میں تحریف کی بحث مختلف نشیب و فراز سے گزری ہے۔ جن علاقوں اور زمانوں میں مسلمانوں کا یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ زیادہ واسطہ پڑتا تھا، اس طرح کے مباحث بھی زیادہ رائج رہتے تھے۔ مثال کے طور پر صدر اسلام اور حیات نبوی میں یا سرحدی علاقوں ـ جہاں عیسائی اور یہودی قریب تھے ـ جیسے اندلس وغیرہ میں مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان یہ ان مباحث پر زیادہ توجہ مرکوز ہوتی تھی۔ موجودہ تورات اور انجیل کے بارے میں وسیع معلومات رکھنے والی شخصیت ابن حزم (متوفی: 456ھ) نے اس سلسلے میں ایک موثر قدم اٹھایا ہے۔[37] انہوں نے تالیف تورات کی تاریخ اور اس کے عدم تواتر کے بارے میں تفصیلی بحث کی ہے۔[38] مسلمانوں اور اہل کتاب کے مابین تنازعات میں ان کتب میں تحریف کو ثابت کرنے کے لیے ابن حزم کے طریقے جاری رہے۔ تحریف ثابت کرنے کے لیے متاخر مصنفین نے ان تمام طریقوں کو بروئے کار لائے ہیں۔[39] کتاب "افحام الیہود" کے مصنف سموئیل مغربی (متوفی: 570ء) بھی ان علماء میں سے ایک ہے جنہوں نے موجودہ تورات پر تنقید کرنے اور تحریف کا مسئلہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے یہودیت کو خیر باد کہہ کر اسلام قبول کیا تھا۔ سموئیل ان چند لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے ابن حزم کے بعد تحریف کی بحث کو آگے بڑھایا۔[40] ابن کمونہ نے اپنی کتاب "تنقیح الابحاث" میں افحام الیہود کے بعض مندرجات کو رد کیا ہے۔[41] دوسری طرف خود ابن کمونہ کی کتاب پر بھی بہت سی تنقیدیں لکھی گئی ہیں۔[42] یہودی نقطہ نظر رکھنے والے ابن کمونہ کے علاوہ کتاب "البرہان" کے مصنف عمار بصری نے بھی مسیحی مذہب کے انفرادی موقف کو برقرار رکھنے کے لیے انجیل کی وثاقت کا دفاع کیا۔ بعد کے دور میں، ایران اور دیگر اسلامی ممالک میں یورپی یا امریکی عیسائی بشارت کے وفود کی سرگرمیوں کے دوران، اس موضوع کو دوبارہ توجہ حاصل ہوئی۔ حالیہ عرصے میں، جب غیر مسلم محققین نے تاریخ کے لحاظ سے اس پر تنقید کے ذریعے انجیل کے ناقابل اعتبار ہونے کو ظاہر کیا ہے،[43] توریت اور انجیل کی تحریف کو ثابت کرنے کے لیے اسلامی علوم کی تحقیقات میں بھی ان مواد کا حوالہ دیا گیا ہے۔[44]

متعلقہ مضمون

بیرونی رابطہ

حوالہ جات

  1. زوزنی، ص 574؛ غیاث الدین رامپوری، ذیل واژه
  2. ابن منظور؛ شرتونی، ذیل «حرف»
  3. داعی الاسلام، ذیل واژه
  4. ر.ک: جرجانی، ص 55
  5. ملاحظہ کریں: ابن منظور، ذیل «حرف»
  6. ر.ک: آل عمران: 3؛ مائده: 46-48
  7. ر.ک: بخاری جعفی، ج 4، ص 186، ج 5، ص 150، 170، ج 8، ص 22، 30، 160؛ ابوداود، ج 2، ص 170، 350؛ ابن تیمیه، ج 1، ص 372-374
  8. الاصلاح، ص 250-252
  9. ر.ک: رازی، اعلام النبوة، ص 117-127
  10. ر.ک: ذیل مائده: 13
  11. طبرسی، ذیل مائده: 5؛ ابن تیمیه، ج 1، ص 367، ج 2، ص 5-7
  12. ر.ک: ذیل نساء: 46
  13. ابن قیّم جوزیه، هدایة الحیاری، 1415ق، ص60.
  14. ر.ک: الزمخشری، الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل، ج1، ص377؛ طبرسی، مجمع البیان، 1415ق، ج2، ص329.
  15. ر.ک: ابن تیمیه، الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح، ج1، ص362.
  16. ابن تیمیّه، ج 1، ص 379-380.
  17. ر.ک: یزدی، منقول الرضائی
  18. ابن قیّم جوزیّه، ص61.
  19. ر.ک: ابن تیمیّه، ج4، ص612؛ ابن قیّم جوزیّه، ص 62103؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج5، ص177-178؛ عبدالاحد داود، محمد(ص) در تورات و انجیل.
  20. ر.ک: جدیدالاسلام، ص 249-252؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج3، ص324-326
  21. ر.ک:ابن حزم، ج 1، ص 177، ج 2، ص 21-25؛ امام الحرمین، ص 3643؛ابن تیمیه، ج 1، ص 380؛ابن قیّم جوزیّه، ص 58
  22. سورہ مائدہ آیت 46۔
  23. ابن حزم، ج 2، ص 13، 17۔
  24. ابن تیمیّه، ج 1، ص 368370۔
  25. ابن قیّم جوزیّه، ص 59۔
  26. امام الحرمین، ص 4563۔
  27. ابن حزم، ج 1، ص 202ـ 285، ج 2، ص 27200۔
  28. سورہ بقرہ آیت 146۔
  29. سورہ اعراف آیت 157۔
  30. طبرسی؛ مجمع البیان، مذکورہ آیات کے ذیل میں۔
  31. بخاری جعفی، ج 3، ص 21۔
  32. ترمذی، سنن، ج 5، ص 249۔
  33. کلینی، الکافی، ج 8، ص 117۔
  34. امام الحرمین، شفاءالغلیل فی بیان ما وقع فی التوراة و الانجیل من التبدیل، ص 34۔
  35. شهرستانی، ج 1، ص 209۔
  36. طبرسی، ذیل مائده: 41۔
  37. ابن حزم، ج 1، ص 202-285، ج 2، ص 272-200
  38. ر.ک: ابن حزم، ج 1، ص 287-303
  39. ر.ک: فخرالاسلام، جلدهای 1-3.
  40. ر.ک: د. اسلام، چاپ دوم، ذیل واژه
  41. ابن کمونه، ص 112، 176، 180؛ر.ک:ابن کمونه، مقدمه کریمی زنجانی، ص 48-49
  42. ر.ک: ابن کمونه مقدمه، ص 53-59
  43. ر.ک: د. دین و اخلاق، ج 2، ص 593-597، ج 4، ص 314-324
  44. د. اسلام، چاپ دوم، ذیل واژه، تورات؛ انجیل

نوٹ

  1. مثال کے طور پر زمان رسول خداؐ میں مسلمان آپؐ سے کہتے تھے: "راعِنا" (تشدید کے بغیر) اس لفظ سے ان کی مراد یہ تھی کہ اے پیغمبر خداؐ! ہماری رعایت کیجیے، لیکن یہودی مسلمانوں کا تمسخر اڑانے کے لیے اس لفظ میں تحریف کر کے تشدید کے ساتھ "راعِنا" (یعنی ہمیں بے وقوف بنائیں) کے ذریعے پیغمبر خداؐ کو مخاطب کرتے تھے۔(قرائتی، تفسیر نور، ج2، ص78.) بعض علما کے مطابق عربی زبان میں "راعنا" کے معنی "ہماری طرف توجہ کریں" ہیں جبکہ عبری زبان میں اس کے معنی "ہمارے خبیث" ہیں۔(فولادوند، ترجمه قرآن، فولادوند، آیت 46 سوره نساء.)

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • ابن تیمیّہ، الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح، چاپ علی السید صبح المدنی، بی جا، بی تا.
  • ابن حزم، الفصل فی الملل و الاہواء و النحل، چاپ محمد ابراہیم نصر و عبد الرحمان عمیره ، بیروت 1405 ہجری قمری / 1985 ء۔
  • ابن قیّم جوزیّہ، ہدایہ الحیاری فی اجوبہ الیہود و النصاری ، بیروت 1407 ہجری قمری/ 1987ء۔
  • ابن کمونہ، تنقیح الابحاث للملل الثلاث، چاپ محمد کریمی زنجانی اصل، تہران 1381 ہجری شمسی۔
  • ابن منظور.
  • ابو حاتم رازی، اعلام النبوة، چاپ صلاح صاوی و غلام رضا اعوانی، تہران 1356 ہجری شمسی.
  • ابو حاتم رازی، کتاب الاصلاح، چاپ حسن مینوچهر و مہدی محقق ، تہران 1377 ہجری شمسی.
  • سلیمان بن اشعث ابو داود، سنن ابی داود، چاپ سعید محمد لحام، بیروت 1410 ہجری قمری /1990ء۔
  • عبد الملک بن عبداللّه امام الحرمین، شفاء الغلیل فی بیان ما وقع فی التوراة و الانجیل من التبدیل، چاپ احمد حجازی سقا، قاہره 1409 ہجری قمری / 1989ء۔
  • محمد بن اسماعیل بخاری جعفی، صحیح البخاری، استانبول 1401 ہجری قمری / 1981ء۔
  • محمد جواد بلاغی، الہدی الی دین المصطفی، چاپ علی آخوندی، قم، بی تا.
  • محمد بن عیسی ترمذی، سنن الترمذی، ج 5، چاپ عبد الرحمان محمد عثمان، بیروت 1403 ھ۔
  • علی قلی جدید الاسلام، ترجمہ، شرح و نقد سِفر پیدایش تورات، بہ کوشش رسول جعفریان، قم 1375 ہجری شمسی.
  • علی بن محمد جرجانی، کتاب التعریفات، چاپ فلوگل، لایپزیگ، 1845، چاپ افست بیروت 1978ء۔
  • محمد علی داعی الاسلام، فرہنگ نظام، چاپ سنگی حیدر آباد دکن 1305ـ 1318 ہجری شمسی، چاپ افست تہران 1362- 1364 ہجری شمسی.
  • عبد الاحد داود، محمد (ص) در تورات و انجیل، ترجمہ فضل اللّه نیک آئین، تہران، 1361 ہجری شمسی.
  • دائرة المعارف بزرگ اسلامی، زیر نظر کاظم موسوی بجنوردی، تہران 1367 ہجری شمسی، ذیل «ابن کمونہ»،از جعفر سجادی.
  • زمخشری.
  • حسین بن احمد زوزنی، کتاب المصادر، چاپ تقی بینش، تہران 1374 ہجری شمسی.
  • سعید شرتونی، اقرب الموارد فی فُصح العربیّہ و الشّوارِد ، قم 1403 ھ۔
  • محمد بن عبد الکریم شہرستانی، الملل و النحل، چاپ محمد سید کیلانی، بیروت 1406/1986 ء۔
  • طبرسی.
  • محمد بن جلال الدین غیاث الدین رامپوری، غیاث اللغات، چاپ منصور ثروت، تہران 1375 ہجری شمسی.
  • محمد صادق فخر الاسلام، انیس الاعلام فی نصرة الاسلام، چاپ عبد الرحیم خلخالی، تہران 1351ـ 1355 ہجری شمسی.
  • محمد بن عمر فخر رازی، التفسیر الکبیر، قاہره، بی تا، چاپ افست تہران، بی تا.
  • حاج بابا بن محمد اسماعیل قزوینی ، محضر الشہود فی رد الیهود، یزد: کتابخانہ وزیری، بی تا.
  • کلینی ؛
  • مجلسی.
  • محمد رضا یزدی ، منقول الرضائی (اقامہ الشہود فی رد الیهود)، (ترجمہ علی بن حسین حسینی طہرانی)، چاپ سنگی، 1292ھ۔

English References

  • EI 2 , s.v. "Tah ¤r ¦âf " (by Hava Lazarus-Yefeh);
  • Encyclopaedia of religion and ethics , ed. James Hastings, Edinburgh 1980-1981, svv. "Bible in the church. IV : Biblical studies" (by E. von Dobschدtz), "Criticism (Old Test.)" (by J. Strachan), "Criticism (New Test.)" (by W. C. Allen).