قاعدہ لطف

نامکمل زمرہ
ویکی شیعہ سے

قاعده لطف علم کلام کی ایک خاص اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے خدا کی طرف سے ایسا کام سرانجام پانا ضروری ہے جس کے سبب، مکلف، اللہ کی اطاعت کے قریب اور گناہ سے دور ہوجائے۔ البتہ یہ قاعدہ نہ تو انسان سے اختیار چھین لیتا ہے اور نہ ہی اسے مجبور بنالیتا ہے۔ اکثر معتزلہ اور امامیہ متکلمین اس قاعدے کو قبول کرتے ہیں جبکہ اشاعرہ متکلمین اسے نہیں مانتے ہیں۔ امامیہ متکلمین نے «دینی احکام کی تشریع»، «انبیاءؑ بھیجنے» اور «امام منصوب کرنا» ضروری ہونے، جیسے بہت سارے اسلامی عقائد کو عقلی طور پر ثابت کرنے کے لئے اس قاعدے سے استفادہ کیا ہے۔ بعض امامیہ فقہاء نے اجماع کو معتبر قرار دینے کے لیے بھی اسی قاعدے کو استعمال کیا ہے۔

مفہوم‌شناسی

قاعدہ لطف کے معنی یہ ہیں کہ ہر وہ کام جس کے ذریعے سے انسان اللہ کی اطاعت سے نزدیک اور گناہ سے دور ہوجاتے ہیں اس کی انجام دہی اللہ تعالیٰ پر لازم اور واجب ہے؛[1] جیسے دینی احکام کی تشریع اور ارسال رسل کہ جن کے ذریعے سے انسان دینی احکام سے آشنا ہوجاتا ہے۔ [2] علم کلام کے رو سے اللہ تعالی کا لطیف ہونا اس کی فعلی صفات میں شمار ہوتا ہے [3] اور اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی جانب سے ضروری طور پر ایسے کام کا سرانجام پانا جس سے انسان اللہ کی اطاعت سے نزدیک اور گناہ و معصیت سے دور ہوجاتا ہے۔ البتہ لطف خدا اس حد تک موثر نہیں کہ انسان کو بے اختیار یا مجبور بنالے۔[4] قرآن کی آیات اور احادیث میں خداوند متعال کے لطیف ہونے کے دوسرے معانی بھی مستعمل ہوئے ہیں؛[5] ان میں سے ایک معنی علم خدا کا اثر اور اس کی باریک بینی ہے،[6] اسی طرح ایک معنی خدا کا محسوسیت اور جسمانیت سے مبرا ہونا ہے،[7] ایک اور معنی اللہ تعالیٰ کی کنہ ذات کے ادراک کا ناممکن ہونا ہے،[8] لطیف کے دیگر معانی میں سے ایک اللہ کی تخلیق میں ظرافت و حسن درکار ہونا اور اس کی تدبیر ہے،[9] مہربانی، احسان اور جود و کرم لطیف کے دیگر معانی ہیں.[10]

لطف کی قسمیں

لطف کی دو قسمیں ہیں: لطف محصِّل اور لطف مقرِّب.[11] لطف محصِّل سے مراد ایسا کام ہے جو ضروری طور پر انجام پانا چاہیے تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کی اطاعت اور اس کی بندگی حاصل ہوجائے؛ یعنی اس کے بغیر اللہ کی بندگی نہیں ہوسکتی؛ لیکن لطف مقرِّب انسان کو اطاعت و بندگی سے صرف قریب کردیتا ہے۔[12]

قاعدہ لطف کے حامی اور مخالفین

قاعدہ لطف کو قبول کرنے یا اسے رد کرنے کے لحاظ سے مسلمان متکلمین کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ معتزلہ مکتب فکر اور امامیہ مکتب فکر کے علماء عقلی اور نقلی دلائل کی بنیاد پر قاعدہ لطف کو قبول کرتے ہیں؛ لیکناشاعره مکتب فکر کے علماء اسے قبول نہیں کرتے ہیں اور اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ اشاعرہ اللہ تعالیٰ پر لطف واجب ہونے کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اللہ پر کسی قسم کا لطف واجب نہیں۔[13]

قاعده لطف کے ثبوت پر عقلی دلیل

قاعدہ لطف کے اثبات کے سلسلے میں پیش کی جانے والی عقلی دلیل خدا کی صفت حکمت سے جڑی ہوئی ہے اور یہ کہ حکیم ذات اپنے غرض و ہدف کی خلاف ورزی نہیں کرتی ہے۔ یعنی حکیم ذات کوئی ایسا کام نہیں کرتی جو اس کے مقصد سے متصادم ہو۔ اس بنا پر اگر اللہ کسی شخص سے اپنی اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے تو وہ اس کی اطاعت کے لیے ماحول اور میدان بھی فراہم کرتا ہے۔ اس دلیل کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے:

  • اللہ حکیم ہے۔
  • حکمت والی ذات اپنے غرض اور ہدف کی خلاف ورزی نہیں کرتی۔
  • اللہ کا یہ ارادہ اور مطالبہ ہے کہ انسان اس کی اطاعت کرے۔
  • انسان کی جانب سے اللہ کی اطاعت لطف کے بغیر ممکن نہیں۔
  • انسان پر لطف کے بغیر شرعی واجبات ادا کرنے کی ذمہ داری ڈالنا ہدف الہی کی خلاف ورزی ہے۔
  • مذکورہ مطالب کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ پر لطف واجب است.[14]

اشاعره کا اعتراض

مکتب اشاعرہ کے علماء کہتے ہیں کہ عقلی طور پر اللہ پر لطف واجب ہونے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ گویا عقل کو اللہ پر فوقیت دی گئی حالانکہ اللہ حاکم مطلق ہے اور وہی ہر چیز پر فوقیت رکھتا ہے۔[15] قاعدہ لطف کو قبول کرنےوالوں کا جواب یہ ہے کہ اللہ پر لطف واجب ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ پر لطف انجام دینے کی ذمہ داری ڈالی جائے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کمالیہ جیسے علم ذاتی خدا اور حکمت و عدل الہی کو مد نظر رکھتے ہوئے عقل انسانی اللہ کی جانب سے لطف ضروری ہونے کا ادراک کرتی ہے۔[16]

علم کلام کے رو سے قاعدہ لطف کے مصادیق

علم کلام کے رو سے قاعدہ لطف کے بہت سے مصادیق ہیں ذیل میں ہم ان چند موارد کو ذکر کرتے ہیں جو قاعدہ لطف کے قائلین نے بیان کیے ہیں:

  • دینی و شرعی احکام کی تشریع: دینی اور شرعی سارے احکام جیسے ظلم کا حرام ہونا اور نماز کا واجب ہونا، چونکہ انسان ان احکام کے متعلقات کی بدی(جیسے ظلم کی حرمت) یا خوبی(تشکر کی خوبی) کو عقلی لحاظ سے درک کرتا ہے اس لیے یہ احکام لطف کے مصادیق میں شمار کیے جاتے ہیں۔
  • ارسال رسل: قاعدہ لطف کے لحاظ سے اللہ اپنے بندوں کی ہدایت اور شرعی احکامات تک ان کی رسائی کے لیے پیغمبروں کو مبعوث فرماتا ہے۔ اللہ کے بندے انہی نمایندگان الہی کے ذریعے سے شرعی احکامات حاصل کرتے ہیں اور عقلی طور پر انجام دی جانے والی چیزوں اور تخلیق کائنات کے اہداف سے واقف ہوتے ہیں۔
  • انبیاء کی عصمت:‌ اگر لوگ انبیاء اور اولیائے الہی سے کوئی گناہ یا برا سلوک سرزد ہوتے دیکھیں تو یقینا ان سے دور بھاگ جائیں گے لیکن اگر ان کو خوبی، پاکیزگی اور عصمت جیسی صفات سے متصف پائیں تو ان کی طرف مائل ہونگے اور ان سے قریب ہوجائیں گے۔
  • امام معصوم کا تعین: مکتب امامیہ کا اتفاقی نظریہ یہ ہے کہ امام معصوم کا تعین کرنا اللہ پر واجب ہے کیونکہ امام معصوم کے ذریعے سے لوگ گناہ سے دور اور اطاعت سے قریب ہوجاتے ہیں۔
  • ثواب و عذاب کا وعدہ: سزا و جزا کا وعدہ اللہ کی جانب سے ایک ضروری امر ہے؛ کیونکہ اس طریقے سے لوگ نیک اخلاق اپناتے ہوئے اچھے کام انجام دیتے ہیں۔[17]
  • ولی فقیہ کا انتصاب: علم کلام اور فقہ کے دانشور اور فقیہ امام خمینی اور عبدالله جوادی آملی کے عقیدے کے مطابق اللہ کا لطف اور اس کی حکمت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ امام معصومکی غیبت کے دوران لوگ شائستہ اور نیک لوگوں کی ولایت اورسرپرستی سے محروم نہیں ہونا چاہیے۔[18] یہی وجہ ہے کہ غیبت امام زمان کے دوران جامع الشرائط مجتہدین معاشرےمیں لوگوں کی سرپرستی کےلیے منصوب ہوتے ہیں۔[19]

اصول فقہ میں استعمال

مکتب امامیہ کے بزرگ [[شیعہ فقہاء[[ جیسے سَیّدِ مرتضی، شیخ طوسی اور کراجکی نے اجماع کی حجیت کے ثبوت کے سلسلے میں قاعدہ لطف کو استعمال کیا ہے۔ وہ اپنی بات کے استدلال میں کہتے ہیں کہ اگر علما بالاتفاق کسی غلط نقطہ نظر کو اپناتے ہیں تو امام معصوم پر قاعدہ لطف کے لحاظ سے واجب ہے کہ ان کو درست اور صحیح راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے اجماع وجود میں نہیں آنے دیتے اور اگر علما کے اجماع کی مخالفت ثابت نہ ہو تو معلوم ہوگا کہ امام معصوم خود بھی اسی نظریے سے متفق ہیں۔ پس کسی نظریے پر علما کا اجماع اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ امام معصوم بھی اس سے راضی ہیں۔[20]

البتہ بعض علماء جیسے شیخ انصاری،[21] محمدحسین نائینی،[22] اور آخوند خراسانی[23] اس بات کو قبول کرنے سے انکاری ہیں.

مونو گراف

جلد کتاب قاعده لطف و اثبات وجود امام حی؛ تالیف: مهدی یوسفیان

قاعدہ لطف کلامی اور اصول فقہ کی کتابوں میں زیر بحث آنے کے علاوہ اس کے بارے میں مستقل کتابیں بھی لکھی جاچکی ہیں۔ان میں سے چند کتابوں کو یہاں بیان کرتے ہیں:

  • بررسی تطبیقی قاعده لطف در امامیہ و آموزه فیض در مسیحیت کاتولیک، تحریر: حسن دین‌پناه. مولف نے اس کتاب میں امامیہ مکتب فکر اور عیسائی مذہب میں موجود قاعدہ لطف کا تقابلی جائزہ لیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ اگرچہ مکتب امامیہ اور عیسائیت کے عقیدہ کے مطابق لطف انسان کو گناہ سے دور اور نجات کے راستے پر پہنچا دیتا ہے لیکن اس قاعدے کے مبادیات اور مفروضات الگ الگ اور ان کے درمیان بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ یہ کتاب سنہ2016ء میں امام خمینی]](رح)تعلیمی و تحقیقی ادارے نے 370 صفحات پر مشتمل شائع کی ہے۔[24]
  • قاعده لطف و اثبات وجود امام حی، تحریر: مہدی یوسفیان:

اس کتاب میں امامت کے اثبات کے سلسلے میں قاعدہ لطف کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے اور اس کتاب کو سنہ2015ء میں مرکز تخصصی مہدویت نے 210 صفحات پر مشتمل شائع کیا ہے۔[25]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ربانی گلپائگانی، القواعد الکلامیہ، ۱۴۱۸ھ،، ص۱۰۴-۱۰۵؛ فخرالدین رازی، المحصل، ۱۴۱۱ھ،، ص۴۸۱-۴۸۲.
  2. ربانی گلپائگانی، القواعد الکلامیۃ، ۱۴۱۸ھ،، ص۱۱۴-۱۱۶.
  3. ربانی گلپائگانی، القواعد الکلامیہ، ۱۴۱۸ھ، ص۱۲۰-۱۲۴.
  4. علامہ حلی، مناہج‌الیقین، ۱۴۱۵ھ،، ص۳۸۷؛ علامہ حلی، کشف‌المراد، ۱۴۲۷ھ،، ص۴۴۴؛ فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، ۱۴۰۵ھ، ص۲۷۶؛ قاضی عبدالجبار، المغنی، ۱۹۶۲-۱۹۶۵م، ج۱۳، ص۹؛ ابن‌نوبخت‏، الیاقوت فی علم الکلام، ۱۴۱۳ھ، ص۵۵.
  5. ربانی گلپائگانی، القواعد الکلامیة، ۱۴۱۸ھ، ص۱۲۰-۱۲۴.
  6. سورہ ملک، آیہ۱۴.
  7. سورہ انعام، آیہ۱۰۳.
  8. دعای جوشن کبیر، فقرہ ۳۱.
  9. دعای جوشن کبیر، فقرہ ۳۴.
  10. سورہ شوری، آیہ۱۹.
  11. ربانی گلپائگانی، القواعد الکلامیہ، ۱۴۱۸ھ، ص۹۷-۹۸.
  12. سید مرتضی، الذخیرۃ فی علم الکلام‏، ۱۴۱۱ھ، ص۱۸۶.
  13. ربانی گلپائگانی، القواعد الکلامیہ، ۱۴۱۸ھ، ص۱۰۴-۱۰۵؛ فخرالدین رازی، مفاتیح‌الغیب، ۱۴۲۰ھ، ج۲۳، ص۳۴۸؛ فخرالدین رازی، المحصل، ۱۴۱۱ھ، ص۴۸۱-۴۸۲.
  14. ربانی گلپائگانی، القواعد الکلامیہ، ۱۴۱۸ق، ص۱۰۶.
  15. ربانی گلپائگانی، القواعد الکلامیہ، ۱۴۱۸ھ، ص۱۱۰.
  16. طوسی، نقدالمحصل، ۱۴۰۵ھ، ص۳۰۲.
  17. ربانی گلپائگانی، القواعد الکلامیہ، ۱۴۱۸ھ، ص۱۱۴-۱۱۹.
  18. کلانتری، «امکان یا عدم امکان تسری قاعده لطف بہ موضوع ولایت فقیہ در عصر غیبت»، ص۱۵.
  19. جوادی آملی، ولایت فقیہ ولایت فقاہت و عدالت، ۱۳۸۹شمسی، ص۲۱۳.
  20. ربانی گلپائگانی، القواعد الکلامیہ، ۱۴۱۸ھ، ص۱۱۹؛ سبحانی، المبسوط فی اصول الفقہ، ۱۴۳۲ھ، ج۳، ص۱۸۳-۱۸۶؛ رجایی و مؤمنی، «کاربرد قاعده کلامی «لطف» در اصول فقہ»، ص۲۲۲-۲۲۳.
  21. شیخ انصاری، فرائدالاصول، ۱۴۱۶ھ، ج۱، ص۸۴.
  22. نائینی، فوائدالاصول، ۱۳۷۶شمسی، ج۳، ص۱۵۰.
  23. آخوند خراسانی، کفایۃالاصول، ۱۴۰۹ھ، ص۲۹۱.
  24. «بررسی تطبیقی قاعده لطف در امامیہ و آموزه فیض در مسیحیت کاتولیک»، شبکہ جامع کتاب گیسوم.
  25. «قاعده لطف و اثبات وجود امام حی»، شبکہ جامع کتاب گیسوم.

منابع

  • آخوند خراسانی، محمدکاظم، قم، آل‌البیت، چاپ اول، کفایۃالاصول.
  • ابن‌نوبخت‏، ابواسحاق ابراہیم، الیاقوت فی علم الکلام، قم، انتشارات کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی، ۱۴۱۳ھ.۔
  • «بررسی تطبیقی قاعده لطف در امامیہ و آموزه فیض در مسیحیت کاتولیک»، شبکہ جامع کتاب گیسوم، مشاہده ۱۷ خرداد ۱۴۰۰شمسی.
  • جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ ولایت فقاہت و عدالت، قم، مرکز نشر اسراء، چاپ یازدہم، ۱۳۸۹شمسی.
  • رجایی، فاطمہ و مصطفی مؤمنی، «کاربرد قاعده کلامی لطف در اصول فقہ»، در مجلہ فقہ اہل بیت، شماره ۸۵ و ۸۶، بہار و تابستان ۱۳۹۵شمسی.
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الذخیرۃ فی علم الکلام‏، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی‏، ۱۴۱۱ھ.۔
  • شیخ انصاری، مرتضی، قم، انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، فرائدالاصول، ۱۴۱۶ھ۔
  • طوسی، نصیرالدین، نقدالمحصل، دارالاضواء، ۱۴۰۵ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، ۱۴۲۷ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، مناہج الیقین فی اصول الدین، تہران، دارالاسوه، ۱۴۱۵ھ۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبدالله، ارشاد الطالبین الی نہج المسترشدین، قم، انتشارات کتابخانہ آیت الله مرعشی‏، ۱۴۰۵ھ۔
  • فخرالدین رازی، محمد بن عمر، المحصل، عمان، دارالرازی، ۱۴۱۱ھ۔
  • قاضی عبدالجبار، عبدالجبار بن احمد، المغنی فی ابواب التوحید و العدل‏، قاهره، الدار المصریۃ، ۱۹۶۵-۱۹۶۲ء.
  • «قاعده لطف و اثبات وجود امام حی»، شبکه جامع کتاب گیسوم، مشاهده ۱۷ خرداد ۱۴۰۰ش.
  • کلانتری، ابراہیم، «امکان یا عدم امکان تسری قاعده لطف بہ موضوع ولایت فقیہ در عصر غیبت»، قبسات، شماره ۸۱، پاییز ۱۳۹۵شمسی.
  • نائینی، محمدحسین، فوائدالاصول، قم، انتشارات اسلامی، چاپ اول، ۱۳۷۶شمسی.