"حرام گوشت جانور" کے نسخوں کے درمیان فرق
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
|||
سطر 83: | سطر 83: | ||
{{پایان}} | {{پایان}} | ||
{{احکام اطعمه و اشربه}} | {{احکام اطعمه و اشربه}} | ||
[[fa:حرامگوشت]] | |||
[[en:Religiously Non-Edible Animals]] |
نسخہ بمطابق 07:59، 21 دسمبر 2020ء
یہ تحریر توسیع یا بہتری کے مراحل سے گزر رہی ہے۔تکمیل کے بعد آپ بھی اس میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اگر اس صفحے میں پچھلے کئی دنوں سے ترمیم نہیں کی گئی تو یہ سانچہ ہٹا دیں۔اس میں آخری ترمیم Rezvani (حصہ · شراکت) نے 4 سال قبل کی۔ |
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
حَرامْگوشْت وہ حیوانات ہیں جن کے اجزاء کا کھانا اسلام میں منع ہے۔ فقہ اسلامی میں متعدد چوپائے، بحری جانور اور پرندوں کے اجزاء کے کھانے کو حرام قرار دیا گیا ہے شیعہ امامیہ کے فقہی متون میں حرام گوشت جانوروں کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں، ایک ذاتی دوسری عرضی۔
بری (خشکی کے) جانوروں میں سے تمام درندے، تمام رینگنے والے جانور، تمام مسخ شدہ جانور، تمام کیڑے مکوڑے اور تمام پنجہ دار پرندے، حرام گوشت جانوروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح چھلکے دار مچھلی کے علاوہ پانی کے تمام جانور حرام گوشت ہیں۔ حرام گوشت جانور سے بنی ہوئی چیزیں جیسے چمڑا، دوائی، کاسمیٹک چیزیں اس صورت میں پاک ہیں جب جانور کا تذکیہ ہوا ہو اور نماز کے علاوہ دوسری جگہ پر ان کا استعمال جائز ہے۔
حرام گوشت کا مفہوم
مسلمانوں کے لئے جن جانوروں کے اجزاء کا کھانا حرام ہے انھیں حرام گوشت کا جاتا ہے۔ بعض فقہی کتب میں حرام گوشت جانوروں کی دو قسمیں کی گئی ہیں۔ ایک ذاتی اور دوسری عرضی۔[1]
پہلی قسم میں وہ جانور آتے ہیں جن کا گوشت کھانا شروع سے ہی حرام رہا ہو، جیسے خرگوش۔ دوسری قسم ان جانوروں کو شامل ہوتی ہے جن کا گوشت کھانا عام حالات میں حرام نہیں ہے لیکن کچھ حالات اور اسباب کے تحت جیسے جانور کے نجاست خوار ہونے یا صحیح طریقہ سے ذبح نہ ہونے کی وجہ سے اس کا کھانا حرام ہوگیا ہو۔ بعض کتابوں میں دوسری قسم کو عرضی حرام گوشت (عارضی حرام گوشت) بھی کہا گیا ہے۔[2]
قرآن نے چار سوروں سوره بقره، سوره مائده، سوره نَحل اور سوره انعام میں حرام کھانوں کے تذکرہ کے ساتھ حرام گوشت جانوروں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔[3]
حرام گوشت کی قسمیں
شیعہ فقہ میں جانوروں کی تینوں قسموں یعنی بری، بحری اور پرندوں میں سے کچھ کا گوشت کھانے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔[4]
بری جانور
بری جانوروں میں تمام درندے جیسے چیتا اور بھالو؛ تمام رینگنے والے جانور جیسے سانپ؛ تمام کیڑے مکوڑے جیسے مکھی اور مکڑی؛ زمین کے اندر بلوں میں رہنے والے جانور جیسے چوہا اور بچھو؛ مسخ شدہ جانور جیسے ہاتھی اور گوہ، حرام گوشت میں شمار ہوتے ہیں۔[5]
بحری جانور
مزید دیکھئے: چھلکے والی مچھلی
شیعہ فقہ میں چھلکے والی مچھلی اور جھینگے کے علاوہ باقی تمام پانی کے جانور حرام گوشت ہیں۔[6] اہل سنت کے بعض مذاہب جیسے مالکی اور حنبلی کے یہاں پانی کے تمام جانور حلال گوشت ہیں۔[7]
پرندے
شیعہ فقہاء نے حرام گوشت پرندوں کی تین قسمیں بیان کی ہیں: پنجہ دار پرندے؛ مسخ شدہ پرندے؛ اور گندے پرندے (خبائث)۔ پنجہ دار جیسے عقاب، باز اور گدھ۔ مسخ شدہ جیسے مور، شہد کی مکھی، چمگادڑ۔
خبائث ان چیزوں کو کہا گیا ہے جن کے کھانے سے انسانی فطرت متنفر ہے۔[8] بعض فقہی کتب میں مکھی اور مچھر کو خبائث کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔[9]
حرام ہوجانے والے حلال گوشت جانور
شیعہ فقہ میں کچھ شرائط کے تحت حلال گوشت جانور بھی حرام گوشت جانور کے حکم میں شمار ہوسکتے ہیں۔ اس بنیاد پر جن جانوروں کا تذکیہ نہ ہوا ہو یا جو نجاست کھانے لگے ہوں یا جن کے ساتھ ساتھ (نعوذ باللہ) کسی انسان نے وطی کی ہو وہ حرام گوشت ہو جاتے ہیں۔[10]
حرام استعمال
شیعہ فقہ میں حرام گوشت جانور کا گوشت کھانا اور کسی بھی طرح سے اس کو کھانے کی چیزوں میں استعمال کرنا حرام ہے۔[11] پرندوں کے انڈوں کے کھانے کا حکم یا جانوروں کے دودھ پینے کا حکم ان کے گوشت کھانے کی طرح سے ہے۔ اگر حرام پرندے ہیں تو ان کے انڈے کھانا حرام ہے اور اگر حلال پرندے ہیں تو ان کے انڈے کھانا حلال ہے۔ اسی طرح سے اگر جانور حلال ہے تو اس کا دودھ پینا حلال ہے اور اگر جانور حرام ہے تو اس کا دودھ پینا بھی حرام ہے۔[12]
حلال استعمال
کھانے پینے کے علاوہ دوسرے مقامات پر حرام گوشت جانوروں کے اجزاء کا استعمال، شیعہ فقہاء کی نظر میں جائز ہے۔
کپڑوں میں استعمال
کتے اور سور کے علاوہ دوسرے حرام گوشت جانوروں کے اجزاء کا کسی کپڑے میں استعمال جائز ہے بشرطیکہ ان کا تذکیہ کیا گیا ہو۔ اسی طرح حیوانات کے اجزاء جیسے چمڑے سے بنی ہوئی چیزوں کے استعمال میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔[13] حرام گوشت جانور کے تذکیہ کی وجہ سے ان کے اجزاء سے بنی چیزوں کے پاک ہونے کے باوجود، نماز میں ان کا استعمال جائز نہیں ہے۔[14]
جن حرام گوشت جانوروں کا تذکیہ نہ ہوا ہو تو فقہاء نے نماز کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی ان کے اجزاء کے استعمال کو حرام قرار دیا ہے۔[15]
دوا اور کاسمیٹک میں استعمال ہونے والے مواد
شیعہ فقہاء ان دواؤں اور کاسمیٹک اشیاء جیسے کریم کے استعمال کو جائز قرار دیتے ہیں جنھیں حرام گوشت جانور کا تذکیہ کرنے کے بعد ان کے اجزاء سے تیار کیا گیا ہے۔[16] اگر حرام گوشت جانوروں کا تذکیہ نہ کیا گیا ہو تو اس سے بننے والی دوائیں اور کاسمیٹک چیزیں نجس ہیں اور نماز کے لئے ان سے آلودہ مقامات کا پاک کرنا واجب ہے۔[17]
بعض فقہاء کے مطابق اگر دوا یا خوراکی چیزیں جیسے جیلیٹین (gelatin) کو تذکیہ نشدہ حرام گوشت جانوروں کے اجزاء سے بنایا گیا ہو تو ایک صورت میں وہ پاک اور حلال ہوجاتی ہیں اور وہ صورت یہ ہے کہ دوا وغیرہ بناتے وقت کیمیائی کام کے دوران ان جانوروں کے اجزاء ایک نئے مادہ میں تبدیل ہوگئے ہوں۔ یا فقہ کی اصطلاح میں یوں کہا جائے کہ ان کا استحالہ ہوگیا ہو۔[18]
اجزاء کا پاک یا نجس ہونا
شیعہ فقہی کتب کے مطابق، اگر حرام گوشت جانوروں کو شرعی طریقہ سے ذبح کیا گیا ہو تو ان کے اجزاء پاک ہوتے ہیں۔</ref> اما اگر تذکیه نشود و از حیوانات دارای خون جهنده باشد، نجس است.[19]
پیشاب پاخانے کا نجس ہونا
خون جہندہ رکھنے والے حرام گوشت جانوروں کا پیشاب اور پاخانہ، نجس ہوتا ہے۔ خون جہندہ رکھنے والے جانور ان جانوروں کا کہا جاتا ہے جن کی گردن کی رگ حیات کاٹنے سے خون اچھل کر نکلتا ہے۔[20]
نماز میں استعمال کی ممانعت
نمازی کے لباس میں حرام گوشت جانور کے اجزاء کا استعمال نہیں کیا جاسکتا، چاہے اس جانور کا تذکیہ ہی کیوں نہ ہوگیا ہو۔ اسی وجہ سے اگر بلی کا بال، نمازی کے لباس میں ہو تو نماز باطل ہوگی۔[21]
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
- ↑ هاشمی شاهرودی، فرهنگ فقه، ۱۳۸۷ش، ج۲، ص۲۵۵.
- ↑ هاشمی شاهرودی، فرهنگ فقه، ۱۳۸۷ش، ج۲، ص۲۵۵.
- ↑ سوره بقره، آیه۱۷۳؛ سوره مائده، آیه۳؛ سوره انعام، آیه۱۴۵؛ سوره نحل، آیه۱۱۵.
- ↑ هاشمی شاهرودی، فرهنگ فقه، ۱۳۸۷ش، ج۲، ص۲۵۵.
- ↑ هاشمی شاهرودی، فرهنگ فقه، ۱۳۸۷ش، ج۳، ص۴۰۸.
- ↑ هاشمی شاهرودی، فرهنگ فقه، ۱۳۸۷ش، ج۳، ص۴۰۸.
- ↑ «حکم خوردن گوشت خرچنگ و ماهی مرکب».
- ↑ هاشمی شاهرودی، فرهنگ فقه، ۱۳۸۷ش، ج۳، ص۴۲۲.
- ↑ نجفی، جواهر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۶، ص۳۱۹.
- ↑ هاشمی شاهرودی، فرهنگ فقه، ۱۳۸۷ش، ج۳، ص۴۰۸.
- ↑ هاشمی شاهرودی، فرهنگ فقه، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۲۵۵؛ «حکم شرعی خوردن حیوانات حرامگوشت».
- ↑ نجفی، جواهر الکلام، ۱۹۸۱م. ج۳۶، ص۳۹۴-۳۹۵.
- ↑ هاشمی شاهرودی، فرهنگ فقه، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۴۲۷.
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل، ۱۴۲۶ق، ص۱۸۴.
- ↑ هاشمی شاهرودی، فرهنگ فقه، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۲۸۰.
- ↑ «استفتاء از آیت الله سیستانی درباره استفاده از داروهای فراوری شده از حیوانات حرامگوشت».
- ↑ «استفتاء از آیت الله مکارم شیرازی درباره استفاده از ژلاتین، مواد دارویی و آرایشی فراوری شده از حیوانات حرامگوشت تذکیه نشده».
- ↑ «حکم استفاده از مواد دارویی فراوری شده از حیوانات حرامگوشت تذکیه نشده».
- ↑ بنیهاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، مسأله ۸۸.
- ↑ سیستانی، رساله توضیح المسائل، مسأله ۹۶.
- ↑ هاشمی شاهرودی، فرهنگ فقه، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۲۸۰.
مآخذ
- امام خمینی، سیدروح الله، توضیح المسائل، تحقیق: مسلم قلیپور گیلانی، چاپ اول، ۱۴۲۶ق.
- نجفی، شیخ محمدحسن، جواهر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، تصحیح و تحقیق: محمود قوچانی، بیروت، داراحیاء التراث العربی، چاپ هفتم، ۱۹۸۱م.
- بنیهاشمی خمینی، سیدمحمدحسن، توضیح المسائل مراجع، مسأله ۸۸، پورتال اینترنتی انهار، تاریخ بازدید:۲۴-۱۱-۱۳۹۶ش.
- «حکم خوردن گوشت خرچنگ و ماهی مرکب»، ایران کے اہل سنت کی رسمی سائٹ، تاریخ انتشار:۰۷-۰۶-۱۳۹۲ش، تاریخ بازدید: ۲۰-۰۱-۱۳۹۷ش.
- «حکم شرعی خوردن حیوانات حرامگوشت»، انہار انٹرنیٹ پورٹل ، رجوع کی تاریخ: ۲۴-۱۱-۱۳۹۶ش.
- «استفتاء از آیت الله سیستانی درباره استفاده از داروهای فراوری شده از حیوانات حرامگوشت»، انہار انٹرنیٹ پورٹل زیر نظر سیدمحمدحسن بنیهاشمی خمینی، تاریخ بازدید: ۲۴-۱۱-۱۳۹۶ش.
- از آیت الله مکارم شیرازی درباره استفاده از ژلاتین، مواد دارویی و آرایشی فراوری شده از حیوانات حرامگوشت تذکیه نشده»، انہار انٹرنیٹ پورٹل زیر نظر سیدمحمد حسن بنیهاشمی خمینی، تاریخ بازدید: ۲۴-۱۱-۱۳۹۶ش.
- سیستانی، سیدعلی، رساله توضیح المسائل، مسأله ۹۶، سایت رسمی دفتر آیت الله سیستانی، رجوع کی تاریخ: ۲۴-۱۱-۱۳۹۶ش.
- «حکم استفاده از مواد دارویی فراوری شده از حیوانات حرامگوشت تذکیه نشده»، رسمی سائٹ دفتر آیت الله سیستانی، رجوع کی تاریخ ایچ: ۲۴-۱۱-۱۳۹۶ش.
- هاشمی شاهرودی، سیدمحمود، فرهنگ فقه مطابق مذهب اهلبیت علیهم السلام، قم، مؤسسه دائرةالمعارف فقه الاسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۷ش.