مندرجات کا رخ کریں

"استمناء" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
سطر 19: سطر 19:
*[[روزه]] کا باطل ہونا: استمناء جس طرح سے بھی ہونا روزہ باطل کرتا ہے اور رمضان کے مہینے میں جان بوجھ کر روزہ باطل کرنے والے پر روزے کی قضا اور کفارہ دونوں واجب ہوتے ہیں۔<ref> جواهر الکلام، ج۱۰، ص۷۹؛ سید مرتضی، انتصار، ص۱۷۸؛ شرایع الاسلام، ج۱، ص۱۷۲</ref>
*[[روزه]] کا باطل ہونا: استمناء جس طرح سے بھی ہونا روزہ باطل کرتا ہے اور رمضان کے مہینے میں جان بوجھ کر روزہ باطل کرنے والے پر روزے کی قضا اور کفارہ دونوں واجب ہوتے ہیں۔<ref> جواهر الکلام، ج۱۰، ص۷۹؛ سید مرتضی، انتصار، ص۱۷۸؛ شرایع الاسلام، ج۱، ص۱۷۲</ref>
*[[اعتکاف]] کا باطل ہونا: استمناء اگر دن میں واقع ہوجائے تو اعتکاف کو باطل کرتا ہے۔<ref> تذکرة الفقهاء، ج۶، ص۲۵۷</ref>
*[[اعتکاف]] کا باطل ہونا: استمناء اگر دن میں واقع ہوجائے تو اعتکاف کو باطل کرتا ہے۔<ref> تذکرة الفقهاء، ج۶، ص۲۵۷</ref>
*[[احرام|مُحرِم]] کا استمناء کرنا حرام اور کفارے کا باعث ہے۔<ref>ابن حمزه، وسیله، ص۱۵۸؛ تذکرة الفقها، ج۷، ص۳۸۱</ref> اور اس کا کفّاره ایک اونٹ ہے۔<ref>ایضاح الترددات الشریع، ج۱، ص۲۳۱</ref>، اما در بطلان حج به معنای اتمام حج فعلی و اعاده آن در سال آینده، در صورتی که عمل یاد شده پیش از وقوف در [[مشعر الحرام|مشعرالحرام]] رخ دهد، اختلاف است.<ref> ابن حمزه: استمنا در عمره مفرده موجب بطلان، قضا و کفاره است، ابن حمزه، الوسیله، ص۱۵۹؛ العروة الوثقی،ج۱، ص۶۴۲، ج۲۰، ص۳۶۷۳۶۹</ref> برخی در مسئله توقّف کرده‌اند.<ref> ذخیرة المعاد، ص۶۱۹</ref>
*[[احرام|مُحرِم]] کا استمناء کرنا حرام اور کفارے کا باعث ہے۔<ref>ابن حمزه، وسیله، ص۱۵۸؛ تذکرة الفقها، ج۷، ص۳۸۱</ref> اور اس کا کفّاره ایک اونٹ ہے۔<ref>ایضاح الترددات الشریع، ج۱، ص۲۳۱</ref>،لیکن اگر یہ کام مشعر الحرام میں وقوف سے پہلے ہو تو کیا اس سے حالیہ حج باطل ہوجائے گی، یعنی ابھی کی حج کو آخر تک پہنجائے اور اگلے سال پھر سے حج بجا لائے یا نہیں اس میں اختلاف ہے۔<ref> ابن حمزه: عمرہ مفردہ میں استمنا عمرہ باطل کرنے کا سبب بنتا ہے اور اس پر قضا اور کفارہ دونوں ہیں، ابن حمزه، الوسیله، ص۱۵۹؛ العروة الوثقی،ج۱، ص۶۴۲، ج۲۰، ص۳۶۷۳۶۹</ref>بعض نے اس مسئلے میں توقف کر کے کوئی فتوای نہیں دیا ہے۔<ref> ذخیرة المعاد، ص۶۱۹</ref>


==راه اثبات و کیفر ==
==راه اثبات و کیفر ==

نسخہ بمطابق 16:18، 14 فروری 2018ء



استمناء کا مطلب یہ ہے کہ انسان جماع اور ہمبستری کے علاوہ کسی اور طریقے سے اپنی منی خارج کرے۔ اور استمنا کی دو صورتیں ہیں یا حرام ہے یا حلال۔ بعض علما نے استمنا کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے کہ جس کے بارے میں احادیث میں منع ہوئی ہے۔ استمنا کی سزا تعزیر ہے اور اس کی مقدار کو حاکم شرع معین کرتا ہے۔ استمنا سے غسل جنابت واجب ہوتا ہے اور ماہ رمضان میں ایسا کرنے سے روزہ باطل ہوتا ہے۔

مفہوم

جان بوجھ کر اپنی منی خارج کرنے کو استمناء کہا جاتا ہے۔ لیکن ہر منی خارج ہونے کو استمنا نہیں کہا جاتا ہے لفظ "امنا" سے مراد انزال اور منی نکالنا ہے خواہ قصد کے ساتھ ہو یا قصد کے بغیر۔لیکن اکثر اور اوقات قصد کے بغیر منی نکالنے کے لئے استعمال ہوا ہے۔[1]اس بارے میں روزہ، اعتکاف، حج اور حدود کی بحث میں گفتگو ہوئی ہے۔[2]

قرآن اور حدیث میں

شیعه مجتہدوں نے استمنا کے بارے میں اجماع کے علاوہ سورہ مومنون کی آیہ نمبر 6 سے بھی استناد کیا ہے جس کے مطابق ہر قسم کی جنسی لذت کا حصول بیوی اور کنیز کے علاوہ دوسرے طریقوں سے ممنوع ہے۔[3]

در احادیث چندی از استمناء نهی شده است، ابن احادیث در وسائل الشیعه ذیل باب تحریم استمناء آمده‌اند.[4] همچنین بنابر روایتی کسی که استمناء کند خدا به او نظر نمی‌کند.[5]

حلال اور حرام استمناء

استمناء کو حلال اور حرام دو صورتوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ بعض شیعہ فقہا کے مطابق بیوی یا کنیز کے ذریعے سے استمنا کرے کو حلال اور اس کے علاوہ حرام ہے۔ اور بعض نے تو اسے گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔[6]جبکہ دوسری طرف بعض شیعہ فقہا کے مطباق کنیز یا بیوی کے ہاتھ کے ذریعے استمنا کرنا بھی حرام ہے۔[7][8]

فقہی آثار اور نتائج

  • جنابت: استمنا جنابت کا موجب بنتا ہے اور اس کے اپنے آثار ہیں جیسے؛ غسل کا واجب ہونا، قرآن مجید کے حروف کو چھونا حرام ہونا۔
  • روزه کا باطل ہونا: استمناء جس طرح سے بھی ہونا روزہ باطل کرتا ہے اور رمضان کے مہینے میں جان بوجھ کر روزہ باطل کرنے والے پر روزے کی قضا اور کفارہ دونوں واجب ہوتے ہیں۔[9]
  • اعتکاف کا باطل ہونا: استمناء اگر دن میں واقع ہوجائے تو اعتکاف کو باطل کرتا ہے۔[10]
  • مُحرِم کا استمناء کرنا حرام اور کفارے کا باعث ہے۔[11] اور اس کا کفّاره ایک اونٹ ہے۔[12]،لیکن اگر یہ کام مشعر الحرام میں وقوف سے پہلے ہو تو کیا اس سے حالیہ حج باطل ہوجائے گی، یعنی ابھی کی حج کو آخر تک پہنجائے اور اگلے سال پھر سے حج بجا لائے یا نہیں اس میں اختلاف ہے۔[13]بعض نے اس مسئلے میں توقف کر کے کوئی فتوای نہیں دیا ہے۔[14]

راه اثبات و کیفر

استمناء در دادگاه از دو طریق ثابت می‌شود؛ نخست با گواهی دو مرد عادل[15] دیگر با دو بار اقرار استمناءکننده. البته برخی از فقها یک بار اقرار را نیز کافی می‌دانند.[16] برخی قدما یک بار اقرار را موجب ثبوت آن ندانسته‌اند.[17]

کیفر استمناء، تعزیر است که مقدار و چگونگی آن توسط حاکم شرع تعیین می‌شود.[18] در صورت تکرار این عمل، مجازات شدیدتری برای آن در نظر گرفته شده است.[19][20]

عوارض و درمان

از دیدگاه برخی پزشکان، خودارضایی بیماریی است که عوارضی را به دنبال دارد. برخی عوارض آن عبارتند از:

پیامدهای جسمانی: ضعف بینایی، ضعف قوای جسمانی، عقیم شدن، ضعف مفاصل، لرزش دست.

پیامدهای روحی و روانی: ضعف حافظه و حواس‌پرتی، اضطراب، انزوا، افسردگی، بی‌نشاطی، پرخاشگری، کسالت دائمی، ضعف اراده.

عوارض اجتماعی: ناسازگاری خانوادگی، بی‌میل شدن به همسر و ازدواج، ناتوانی در ارتباط جنسی، دیر ازدواج کردن.[21][22][23]

منابع بیشتر مربوط به عوارض و درمان آن:

  • کتاب آنچه که یک جوان باید بداند، نویسنده: سیلوانوس استال، ترجمه: دکتر نصرت الله کاسمی، شرکت سهامی کتاب‌های جیبی با همکاری مؤسسه انتشارات فرانکلین، ۱۳۵۴.
  • کتاب مشکلات جنسی جوانان، نوشته ناصر مکارم شیرازی، انتشارات نسل جوان، ۱۳۸۰.
  • کتاب دنیای نوجوان، محمدرضا شرفی، مؤسسه فرهنگی منادی تربیت، ۱۳۸۶.
  • کتاب بلوغ(از مجموعه چه می‌دانم؟)، موریس دبس، ترجمه: حسن صفاری، انتشارات علمی.
  • کتاب «تعلیم و تربیت» کانت، ترجمه دکتر غلامحسین شکوهی، مؤسسه انتشارات و چاپ دانشگاه تهران، ۱۳۷۴.

پانویس

سانچہ:پانویس2

منابع

سانچہ:منابع

  • قرآن کریم.
  • ابن ادریس حلی، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی‌، دفتر انتشارات اسلامی، قم‌، ۱۴۱۰ق‌.
  • ابن حمزه طوسی، الوسیلة، انتشارات کتابخانه آیت الله مرعشی، قم، ۱۴۰۸ق.
  • سید مرتضی، الانتصار فی انفرادات الإمامیة‌، مصحح: گروه پژوهش دفتر انتشارات اسلامی، دفتر انتشارات اسلامی، قم، ۱۴۱۵ق‌.
  • شیخ حر عاملی، وسائل الشیعة، مؤسسه آل البیت علیهمالسلام، قم، ۱۴۰۹ق.
  • علامه حلی، تذکرة الفقهاء(تک جلدی)، مؤسسه آل البیت علیهم السلام‌، قم، ۱۳۸۸ق‌.
  • علامه حلی، تذکرة الفقهاء(ط- جدید)، محقق/ مصحح: گروه پژوهش مؤسسه آل البیت علیهم السلام‌، مؤسسه آل البیت علیهم السلام‌، قم، ۱۴۱۴ق‌.
  • علامه مجلسی، بحارالأنوار، مؤسسة الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ق.
  • قطب الدین راوندی، فقه القرآن، انتشارات کتابخانه آیت الله مرعشی، قم، ۱۴۰۵ق.
  • محدث نوری، مستدرک الوسائل، مؤسسه آل البیت علیهم السلام، قم، ۱۴۰۸ق.
  • نجم الدین حلی، إیضاح ترددات الشرائع‌، مصحح: سید مهدی رجایی‌، انتشارات کتابخانه آیة الله مرعشی نجفی، قم، ۱۴۲۸ق‌.

سانچہ:درجه‌بندی

پیوند به بیرون

منبع مقاله: کتابخانه مدرسه فقاهت؛ فرهنگ فقه فارسی سانچہ:گناهان سانچہ:حد و تعزیر

  1. جواهر الکلام، ج۹، ص۲۴۶،۲۵۱
  2. ابن حمزه، الوسیله، ص۱۵۸؛ القمنعه، ص۷۹۱؛ جواهرالکلام، ج۱۰، ص۷۹
  3. مبسوط، ج۴، ص۲۴۲؛ فقه القرآن، ج۲، ص۱۴۴؛ إِلَّا عَلَی أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَکتْ أَیمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَیرُ مَلُومِینَ(مومنون-۶) ؛ ملعون سبعة و فیهم الناکح کفّه
  4. وسائل الشیعه، ج۲۰، ص۳۵۲-۳۵۵؛ مستدرک، ۱۴، ص۳۵۶
  5. وسائل الشیعه، ج۲۰، ص۳۵۴-۳۵۵؛ عَنْ أَبِی بَصِیرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِاللَّهِ(ع) یقُولُ ثَلَاثَةٌ لَا یکلِّمُهُمُ اللَّهُ یوْمَ الْقِیامَةِ وَ لَا ینْظُرُ إِلَیهِمْ وَ لَایزَکیهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ النَّاتِفُ شَیبَهُ وَ النَّاکحُ نَفْسَهُ وَ الْمَنْکوحُ فِی دُبُرِهِ
  6. مستمسک العروة، ج۶، ص ۱۰۶۱۰۹؛ بحارالانوار، ج۱۰۱، ص۳۰
  7. جواهرالکلام، ج۱۰، ص۱۴۷؛ الحدائق الناضرة، ج۸، ص۲۷۹
  8. تذکرة الفقها(تک جلدی)، ص۵۷۷
  9. جواهر الکلام، ج۱۰، ص۷۹؛ سید مرتضی، انتصار، ص۱۷۸؛ شرایع الاسلام، ج۱، ص۱۷۲
  10. تذکرة الفقهاء، ج۶، ص۲۵۷
  11. ابن حمزه، وسیله، ص۱۵۸؛ تذکرة الفقها، ج۷، ص۳۸۱
  12. ایضاح الترددات الشریع، ج۱، ص۲۳۱
  13. ابن حمزه: عمرہ مفردہ میں استمنا عمرہ باطل کرنے کا سبب بنتا ہے اور اس پر قضا اور کفارہ دونوں ہیں، ابن حمزه، الوسیله، ص۱۵۹؛ العروة الوثقی،ج۱، ص۶۴۲، ج۲۰، ص۳۶۷۳۶۹
  14. ذخیرة المعاد، ص۶۱۹
  15. القمنعه، ص۷۹۱؛ جواهر الکلام، ج۴۱، ص۶۴۹
  16. جواهر الکلام، ج۴۱، ص۶۴۹
  17. کتاب السرائر، ج۳، ص۴۷۱
  18. کافی فی الفقه، ص ۲۶۳؛ جواهر الکلام، ج۴۱، ص۶۴۷۶۴۹؛ المقنعه، ص۷۹۱؛ ابن براج، المهذب، ج۲، ص۲۳۴؛ ابن ادریس، السرائر، ج۳، ص۵۳۶
  19. ر. ک: ابن حمزه طوسی، الوسیله، ص۴۱۵
  20. الوسیله
  21. تاثیرات استمنا بر زندگی زناشویی
  22. استمنا چه تاثیراتی بر زندگی زناشوئی دارد؟
  23. پرسشگران