دعائے یا من ارجوہ

ویکی شیعہ سے
(یا من ارجوہ سے رجوع مکرر)
دعائے یا من ارجوه
کوائف
مأثور/غیرمأثور:مأثور
صادرہ از:امام صادقؑ
شیعہ منابع:اصول کافی، مصباح المتہجد (کتاب)، اقبال الاعمال
مونوگرافی:تحفہ رجبیہ
مخصوص وقت:ماه رجب
مشہور دعائیں اور زیارات
دعائے توسلدعائے کمیلدعائے ندبہدعائے سماتدعائے فرجدعائے عہددعائے ابوحمزہ ثمالیزیارت عاشورازیارت جامعہ کبیرہزیارت وارثزیارت امین‌اللہزیارت اربعین


دعائے یا مَنْ اَرْجوه امام صادقؑ سے منقول دعا ہے کہ جس کو ماہ رجب میں پڑھنے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ اس دعا کا مفہوم یہ ہے کہ اس میں انسان اپنے پروردگار سے دنیا و آخرت کی تمام نیکیوں کو طلب کر رہا ہے اور دنیا و آخرت کی تمام بدیوں سے نجات کی دعا کر رہا ہے۔ علمائے شیعہ، کلینی، کَشّی، شیخ طوسی و سید ابن طاووس نے اس دعا کو نقل کیا ہے۔

ابن طاووس کے نقل کی بناء پر، جب امام صادقؑ اس دعا کو پڑھا کرتے تھے تو اپنے بائیں ہاتھ کو ریش مبارک پر رکھتے اور دائیں ہاتھ کی اشارے کی انگلی کو عجز و انکساری کے ساتھ جنبش دیتے تھے۔ البتہ اس بات میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ عمل ابتدائے دعا سے انجام دیا جانا چاہئے یا دعا کے آخری حصہ میں۔ صاحب تفسیر قرآن عبد اللہ جوادی آملی اس بات کہ معتقد ہیں کہ امام صادقؑ ابتدائے دعا سے ہی اس عمل کو انجام دیتے تھے۔

متن و ترجمہ

دعائے عہد
متن ترجمه
یَا مَنْ أَرْجُوهُ لِکُلِّ خَیْرٍ، وَ آمَنُ سَخَطَهُ عِنْدَ [من] کُلِّ شَرٍّ، یَا مَنْ یُعْطِی الْکَثِیرَ بِالْقَلِیلِ، یَا مَنْ یُعْطِی مَنْ سَأَلَهُ، یَا مَنْ یُعْطِی مَنْ لَمْ یَسْأَلْهُ وَ مَنْ لَمْ یَعْرِفْهُ تَحَنُّناً مِنْهُ وَ رَحْمَة، أَعْطِنِی بِمَسْأَلَتِی إِیَّاکَ جَمِیعَ [الخیرات] خَیْرِ الدُّنْیَا وَ جَمِیعَ خَیْرِ الْآخِرَة، وَ اصْرِفْ عَنِّی بِمَسْأَلَتِی إِیَّاکَ جَمِیعَ شَرِّ الدُّنْیَا وَ [جمیع‏] شَرِّ الْآخِرَة، فَإِنَّهُ غَیْرُ مَنْقُوصٍ مَا أَعْطَیْتَ، وَ زِدْنِی مِنْ فَضْلِکَ یَا کَرِیمُ، یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ یَا ذَا النَّعْمَاءِ وَ الْجُودِ، یَا ذَا الْمَنِّ وَ الطَّوْلِ، حَرِّمْ شَیْبَتِی عَلَی النَّارِ اے وہ جس سے ہر بھلائی کی امید رکھتا ہوں اور ہر برائی کے وقت اس کے غضب سے امان میں ہوتا ہوں، وہ جو تھوڑے عمل پر زیادہ اجر دیتا ہے، اے وہ جو ہر سوال کرنے والے کو دیتا ہے اے وہ جو اسے بھی دیتا ہے جو سوال نہیں کرتا اور اسے بھی دیتا ہے جو اسے نہیں پہچانتا اس پر بھی رحم و کرم کرتا ہے، تو مجھے بھی میرے سوال پر عطا فرما دے، دنیا و آخرت کی تمام خوبیاں اور نیکیاں اور میری طلب گاری پر مجھے محفوظ فرما دے، دنیا اور آخرت کی تمام تکلیفوں اور مشکلوں سے، کیونکہ تو جتنا عطا کرے تیرے یہاں کمی نہیں پڑتی اے کریم! مجھ پر اپنے فضل میں اضافہ فرما، اے صاحب جلالت و بزرگی، اے نعمتوں اور بخشش کے مالک، اے صاحب احسان و عطا، میرے سفید بالوں کو جہنم کی آگ پر حرام فرما دے۔

دعا کی سند

شیعہ عالم دین سید ابن طاووس نے ساتویں صدی ہجری میں کتاب اقبال الاعمال، میں اس دعا کو ذکر کیا ہے [1] علامہ مجلسی کے مطابق اس دعا کی سند معتبر ہے ۔[2]۔ اور محمد بن عمر کَشّی نے بھی جو چوتھی ہجری قمری کے رجال شناس تھے، اس دعا کو نقل کیا ہے[3] سید ابوالقاسم خویی نے اس کی سند کو ضعیف بتایا ہے[4] البتہ بعض علما نے آیت‌اللہ خویی کی بات کو ردّ کرتے ہوئے اس دعا کی سندِ روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔[5]

یہ دعا بغیر اس فقرے یا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ کہ جو آخر دعا میں ہے، کتاب کافی میں وارد ہوئی ہے[6] کہ جس کی سند کو علامہ مجلسی نے ضعیف جانا ہے۔[7] حسین بن عمارہ و ابی جعفر جیسے نا معتبر افراد کا اس سلسلہ سند میں پایا جانا، سند کے ضعیف ہونے کی دلیل ہے۔[8]

یہ دعا بعض عبارات کی تبدیلی کے ساتھ شیخ طوسی کی کتاب مصباح المتہجد میں ذکر ہوئی ہے۔[9]

کہا جاتا ہے کہ چونکہ یہ دعا کلینی، کشی، شیخ طوسی اور سید ابن طاووس جیسے بزرگ علمائے تشیع کے ذریعہ نقل ہوئی ہے لہذا اس بات کا اطمینان ہو جاتا ہے کہ اس کے مضامین امام صادق(ع) سے ہی صادر ہوئے ہیں۔[10]

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ علما جنہوں نے دعاؤوں سے مربوط روایات کی جمع آوری کی ہے انہوں نے اس دعا کو نقل کیا ہے۔[11]

دعا کو پڑھنے کا وقت

سید ابن طاووس کی نقل کے مطابق دعائے یا من ارجوہ کو ماہ رجب میں صبح و شب اور ہر نماز پنجگانہ کے بعد پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔[12] کتاب کافی میں شیخ کلینی کے نقل کے مطابق[13] اور کشی کےمطابق[14] اس دعا کو پڑھنے کا کوئی خاص وقت معین نہیں ہے۔

شیخ طوسی نے اپنی کتاب مصباح المتہجد میں جمعہ کے دن مستحبی نمازوں کے بخش میں ایک نماز کا ذکر کیا ہے جو طلب حاجت کے لئے پڑھی جاتی ہے، اس کے آداب میں سے ہے کہ دیگر دعاؤوں کے ساتھ دعائے یا من ارجوہ بھی پڑھی جاتی ہے۔[15] یہ دعا نماز طلب فرزند کے سلسلے میں بھی ذکر ہوئی ہے جو روز جمعہ پڑھی جاتی ہے۔[16]

مضمون

اس دعا میں دعا کرنے والا اپنے پروردگار سے چاہتا ہے کہ وہ دنیا و آخرت کی تمام نیکیاں اسے عطا کر دے اور اسی طرح دنیا اور آخرت کی تمام برائیوں سے اسے دور رکھے۔ اس دعا کے شروع اور آخر میں خداوند متعال کی جود و بخشش کی حمد و ثنا کی جا رہی ہے، جس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ پروردگار اسے بھی اپنی رحمت و مہربانی سے عطا کرتا ہے جو نہ تو اسے پہچانتا ہے اور نہ ہی اس سے کچھ طلب کرتا ہے۔[17] اور دیگر مضامین جو اس دعا میں وارد ہوئے ہیں وہ یہ ہیں کہ انسان اپنے پروردگار سے لطف کی امید رکھے اور اپنے تمام امورکو اس کے حوالے کر دے۔.[18]

داڑھی پر ہاتھ رکھنا اور انگلی کو جنبش دینا

بعض نقل روایت کی بنیاد پر امام صادقؑ جب بھی یہ دعا پڑھتے تھے تو اپنا ہاتھ ڈاڑھی پر رکھتے اور اشارے کی انگلی کو جنبش دیتے۔ امامؑ اس عمل کو کب اور کیسے انجام دیتے اس سلسلے میں چند نظریات پائے جاتے ہیں: علامہ مجلسی اپنی کتاب زاد المعاد میں سید ابن طاووس سے اس طرح نقل کرتے ہیں کہ امام صادقؑ اس جملے یا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ سے آخر دعا تک اپنا بایاں ہاتھ ڈاڑھی پر رکھتے اور داہنے ہاتھ کی اشارے کی انگلی کو جنبش دیتے تھے۔[19]

عبداللہ جوادی آملی، مفسر قرآن اس بات کے معتقد تھے کہ سید ابن طاووس کی کتاب اقبال الاعمال کے متن کے مطابق امامؑ ابتدائے دعا سے ہی اس عمل کو انجام دیتے تھے۔[20]

کتاب اقبال الاعمال میں وارد ہوا ہے کہ امامؑ ابتدائے دعا سے آخر تک بغیر داڑھی پہ ہارکھ رکھے اور انگلی کو جنبش دئے راوی سے فرماتے کہ اسے لکھتے رہو، اس کے بعد اپنے ہاتھ کو ڈاڑھی پر رکھتے اور انگلی کو جنبش دیتے اور ابتدا سے آخر تک دوبارہ اسی حال میں دعا پڑھتے تھے۔[21]

شیخ عباس قمی نے بھی اپنی کتاب مفاتیح الجنان میں اس عمل کو ابتدائے دعا سے جانا ہے۔[22] اسی طرح سے شیعہ مجتہد محمد علی اسماعیل‌ پور قمشہ‌ای (متوفی 2019ء) نے بھی اس عمل کو ابتدائے دعا سے مستحب جانا ہے۔[23]

فلسفہ اور کیفیت

عبد اللہ جوادی آملی معتقد ہیں کہ امام صادقؑ اپنے ہاتھ کو ٹھوڑی پر رکھتے تھے نہ کہ ریش مبارک پر کیونکہ انسان جب کبھی پریشانی کی حالت میں ہوتا ہے تو ٹھوڑی پر ہی ہاتھ رکھتا ہے، اس اعتبار سے یہ دعا، خواتین اور بچے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انسان عذر خواہی کے وقت اپنے ٹھوڑی ہی پر ہاتھ رکھتا ہے۔[24] طریحی صاحب مجمع البحرین نے اس عبارت یَلوذ بِسَبّابَتِہ کو جو روایت میں وارد ہوئی ہے[25] انگلی کے جنبش دینے کو عاجزی و انکساری کی دلیل بتایا ہے[26] علامہ مجلسی نے بھی انگلی کو دائیں بائیں جنبش دینے کی تفسیر کی ہے۔[27] البتہ بعض علما یہ کہتے ہیں کہ انگلی کو اوپر نیچے کرنے سے مراد آہستہ آہستہ مارنے سے مشابہت رکھتا ہے اور یہ حالت اس وقت طاری ہوتی ہے جب انسان پریشانی اور اضطراب کی حالت میں ہوتا ہے۔[28]

بعض لوگوں نے اس طرح سے نقل کیا ہے کہ دعا پڑھتے وقت وہ عمل جوامام صادقؑ انجام دیتے تھے یہ امام (ع)کے حالت کی نشاندہی کرتا ہے جس کو راوی نے یہاں پر بعنوان حالت امامؑ ذکر کیا ہے اور اس عمل کے لئے خود مضمون دعا میں کوئی دستور نقل نہیں ہوا ہے، لہذا س عمل کو انجام دینا ضروری نہیں ہے۔[29]

محمد بن عمر کشی کے نقل کے مطابق، امام صادقؑ نے دعا پڑھتے وقت نہ ہی ہاتھوں کو ریش مبارک پر رکھا نہ ہی انگلیوں کو حرکت دی، بلکہ ہاتھوں کو آسمان کی جانب بلند کیا اور اسی حالت میں دعا کے آخری عبارت کی تلاوت فرمائی اور جب دعا ختم ہوئی تو امامؑ نے اپنے دست مبارک کو اپنی ریش مبارک پر رکھا اور جب اٹھایا تو امامؑ کا دست مبارک آنسوؤں سے تر تھا۔[30] اس قول کے مطابق، امامؑ نے دعا کے اختتام میں جو عمل انجام دیا وہ یہ ہے کہ امامؑ نے اپنے دست مبارک کو ریش مبارک پر رکھا تھا اور یہ وہ عمل ہے کہ جس کے بارے میں بعض لوگ معتقد ہیں کہ یہ عمل انسان سے اس وقت سرزد ہوتا ہے جب وہ اضطراب کی حالت میں ہو۔[31]

شروحات

دعائے (یا من ارجوہ) کے بارے میں متعدد شرحیں لکھی گئی ہیں جن میں سے کچھ شرحوں کے نام یہاں بیان کئے جارہے ہیں:

  • رسالۃ الرجبیہ جومحمد بن سلیمان تنکابنی نے لکھی ہے۔ جو کتاب قصص العلماء کے مصنف بھی ہیں۔[32] انہوں نے دعائے (یامن ارجوہ) کی تشریح میں عرفانی عرفانی طریقہ کار سے استفادہ کیا ہے۔[33]
  • شرح دعائے یا من ارجوہ، جسے تیرہویں صدی ہجری کے اصفہانی عالم دین عبدالعلی ہرندی نے لکھی ہے۔[34]
  • شرح الدعاء الرجبیہ، تیرہویں صدی ہجری کے عالم عبدالحمید بن محمد حسین موسوی اصفہانی نے لکھی ہے، انھوں نے 1274ھ میں زندگی گزاری ہے[35] اس کتاب کا خطی نسخہ کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی میں موجود ہے۔[36] اسی طرح ان کی ایک اور شرح بھی اسی نام سے ہے جس کا خطی نسخہ کتابخانہ مسجد گوہرشاد اور کتابخانہ آیت‌اللہ گلپایگانی میں موجود ہے۔[37]
  • شرح دعائے ( یا من ارجوہ ) یہ شرح سید عبد الحمید موسوی خواجوئی (متوفی 1316ھ) نے لکھا ہے جس کا خطی نسخہ مشہد مقدس، کتابخانہ مسجد گوہرشاد میں موجود ہے۔[38]
  • تحفہ رجبیہ، دعائے ماہ رجب کی ایک مختصر شرح ہے جسے اسماعیل شاکر اردکانی نے لکھا ہے جو قم میں شایع ہوئی ہے.[39]

حوالہ جات

  1. ابن طاووس، إقبال الأعمال، ۱۴۰۹ ھ، ج۲، ص۶۴۴۔
  2. مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ ھ، ص۱۶
  3. کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ۱۴۰۴ ھ، ج۲، ص۶۶۷۔
  4. خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۳۷۲ش، ص۲۳۰۔
  5. پیشگر، «گونہ ھا، اعتبار و ساختار دعای یا من ارجوہ»، ص۷۰۔
  6. کلینی، الکافی،۱۴۲۹ ھ، ج۴، ص۵۵۹۔
  7. مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ ھ، ج۱۲، ص۴۵۸۔
  8. پیشگر، «گونہ‌ہا اعتبار و ساختار دعای یا من ارجوہ»، ص۶۹۔
  9. شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ ھ، ج۱، ص۳۵۳ و ص۳۵۶۔
  10. غفوری‌نژاد، «متن کاوی، اعتبارسنجی و دلالت پژوہی روایات دعای یا من ارجوہ لکل خیر»، در فصلنامہ علمی علوم حدیث۔
  11. «شرح دعای ماہ رجب»، پایگاہ اطلاع‌رسانی دفتر آیت اللہ مکارم شیرازی۔
  12. ابن طاووس، إقبال الأعمال، ۱۴۰۹ ھ، ج۲، ص۶۴۴۔
  13. کلینی، الکافی، ۱۴۲۹ ھ، ج۴، ص۵۵۹۔
  14. کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ۱۴۰۴ ھ، ج۲، ص۶۶۷۔
  15. شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ ھ، ج۱، ص۳۵۳ و ص۳۵۶۔
  16. شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ ھ، ج۱، ص۳۷۸۔
  17. ابن طاووس، إقبال الأعمال، ۱۴۰۹ ھ، ج۲، ص۶۴۴۔
  18. «شرح دعای ماہ رجب»، پایگاہ اطلاع‌رسانی دفتر آیت اللہ مکارم شیرازی۔
  19. مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ ھ، ص۱۶۔
  20. جوادی، درس خارج فقہ مبحث بیع، ۱۱ خرداد ۱۳۹۰ش، مدرسہ فقاہت۔
  21. ابن طاووس، إقبال الأعمال، ۱۴۰۹ ھ، ج۲، ص۶۴۴۔
  22. قمی، مفاتیح الجنان، ۱۳۸۸ش، ص۲۲۹۔
  23. اسماعیل ‌پور قمشہ‌ای، الدلائل الظاہرات، ۱۳۹۴ش، ج۲، ص۱۲۰۔
  24. جوادی، درس خارج فقہ مبحث بیع، ۱۱ خرداد ۱۳۹۰ش، مدرسہ فقاہت۔
  25. ابن طاووس، إقبال الأعمال، ۱۴۰۹ ھ، ج۲، ص۶۴۴۔
  26. طریحی، مجمع البحرین، ۱۳۷۵ش، ج۳، ص۱۸۸۔
  27. مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ ھ، ص۱۶۔
  28. پیشگر، «گونہ‌ہا، اعتبار و ساختار دعای یا من ارجوہ»، ص۷۰۔
  29. پیشگر، «گونہ‌ہا، اعتبار و ساختار دعای یا من ارجوہ»، ص۷۰۔
  30. کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ۱۴۰۴ ھ، ج۲، ص۶۶۷۔
  31. پیشگر، «گونہ‌ہا، اعتبار و ساختار دعای یا من ارجوہ»، ص۷۱۔
  32. آقا بزرگ تہرانی، الذریعۃ،‌ دار الاضواء، ج۱۳، ص۲۴۸؛ عقیقی بخشایشی، طبقات مفسران شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۷۹۷۔
  33. صفرہ، تاریخ حدیث شیعہ، ۱۳۸۵ش، ص۲۴۰۔
  34. حبیب‌ آبادی، مکارم الآثار، ۱۳۶۲ش، ج۳، ص۷۵۲.
  35. صدرایی خویی، فہرستگان نسخہ‌ہای خطی حدیث و علوم حدیث شیعہ، ۱۳۸۲ش، ص۳۲۲۔
  36. صدرایی خویی، فہرستگان نسخہ‌ہای خطی حدیث و علوم حدیث شیعہ، ۱۳۸۲ش، ص۳۲۳۔
  37. صدرایی خویی، فہرستگان نسخہ‌ہای خطی حدیث و علوم حدیث شیعہ، ۱۳۸۲ش، ص۳۲۳.
  38. مہدوی، اعلام اصفہان، ۱۳۸۶ش، ج۴، ص۱۸۳۔
  39. «کتابشناسی تحفہ رجبیہ»، سازمان اسناد و کتابخانہ ملی جمہوری اسلامی ایران۔

مآخذ

  • آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعۃ إلی تصانیف الشیعۃ، گردآورندہ احمد بن محمد حسینی، بیروت، دار الاضواء، بی‌تا۔
  • ابن طاووس، علی بن موسی‏، إقبال الأعمال، تہران‏، دار الکتب الإسلامیہ‏، ۱۴۰۹ھ۔
  • اسماعیل‌ پور قمشہ‌ای، محمد علی، الدلائل الظاہرات، تہران، رایا فرہنگ، ۱۳۹۴ ہجری شمسی۔
  • پیشگر، امید، «گونہ‌ہا اعتبار و ساختار دعای یا من ارجوہ»، در مبلغان، شمارہ ۲۲۵، اسفند ۱۳۹۶ و فروردین ۱۳۹۷۔
  • جوادی، عبداللہ، صادقیہ درس خارج فقہ مبحث بیع، ۱۱ خرداد ۱۳۹۰ش، مدرسہ فقاہت، تاریخ بازدید: ۲۳ بہمن ۱۳۹۹ہجری شمسی۔
  • حبیب‌ آبادی، محمد علی، مکارم الآثار در احوال رجال دورہ قاجار، اصفہان، کمال، ۱۳۶۲ ہجری شمسی۔
  • خویی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواۃ، قم، مرکز نشر الثقافۃ الإسلامیۃ فی العالم، ۱۳۷۲ ہجری شمسی۔
  • «شرح دعای ماہ رجب»، پایگاہ اطلاع ‌رسانی دفتر آیت اللہ مکارم شیرازی، تایخ درج مطلب: ۱۷ اسفند ۱۳۹۷ش، تاریخ بازدید: ۲۷ بہمن ۱۳۹۹ہجری شمسی۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجّد و سلاح المتعبّد، بیروت، مؤسسۃ فقہ الشیعۃ، ۱۴۱۱ ہ۔
  • صدرایی خویی، علی، فہرستگان نسخہ‌ہای خطی حدیث و علوم حدیث شیعہ، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی دار الحدیث، سازمان چاپ و نشر، ۱۳۸۲ ہجری شمسی۔
  • صفرہ، حسین، تاریخ حدیث شیعہ در سدہ‌ہای دوازدہم و سیزدہم ہجری، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی دار الحدیث۔ سازمان چاپ و نشر، ۱۳۸۵ہجری شمسی۔
  • عقیقی بخشایشی، عبد الرحیم‏، طبقات مفسران شیعہ‏، قم، دفتر نشر نوید اسلام‏، ۱۳۸۷ہجری شمسی۔
  • غفوری‌ نژاد، محمد، «متن کاوی، اعتبارسنجی و دلالت پژوہی روایات دعای یا من ارجوہ لکل خیر»، در فصلنامہ علمی علوم حدیث، تاریخ درج مطلب: ۱۱ آبان ۱۳۹۹ش، تاریخ بازدید: ۲۳ بہمن ۱۳۹۹ہجری شمسی۔
  • قمی، عباس، مفاتیح الجنان، ترجمہ حسین انصاریان، قم، دار العرفان، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔
  • «کتابشناسی تحفہ رجبیہ»، سازمان اسناد و کتابخانہ ملی جمہوری اسلامی ایران، تاریخ بازدید: ۲۴ بہمن ۱۳۹۹ ہجری شمسی۔
  • کشی، اختیار معرفۃ الرجال‏، بہ تصحیح محمد باقر بن محمد میر داماد، خلاصہ کنندہ محمد بن حسن طوسی، قم، موسسۃ آل البیت (ع) لإحیاء التراث‏، ۱۴۰۴ ہ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب‏، الکافی، بہ تصحیح دارالحدیث‏، قم، دار الحدیث‏، ۱۴۲۹ ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی‏، زاد المعاد، بہ تحقیق و تصحیح علاءالدین اعلمی، بیروت، موسسۃ الأعلمی للمطبوعات‏، ۱۴۲۳ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی‏، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول‏، بہ تحقیق و تصحیح سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ ۱۴۰۴ھ۔
  • مہدوی، مصلح‌ الدین، اعلام اصفہان، بہ تصحیح و تحقیق غلام رضا نصراللہی، اصفہان، سازمان فرہنگی تفریحی شہرداری اصفہان، ۱۳۸۶ ہجری شمسی۔