کفن

ویکی شیعہ سے
(کفن میت سے رجوع مکرر)

کفن اس واجب لباس کو کہا جاتا ہے جو مسلمان میت کے بدن کو اس کے دفن کرنے سے پہلے پہنایا جاتا ہے۔ یہ لباس کم از کم تین کپڑوں سے تیار ہوتا ہے: لنگ، قمیض اور چادر۔ کفن دینا یا تکفین مسلمانوں پر واجب کفائی ہے۔ کفن غصبی یا نجس کپڑے سے نہیں ہونا چاہیے اور مستحب ہے کہ انسان اپنی حیات میں اپنا کفن تیار کرے۔

تعریف و واجبات

کفن اس کپڑے کو کہا جاتا ہے جس سے مسلمان میت کے بدن کو دفن سے پہلے ڈھانپا جاتا ہے۔[1] تکفین، یا کفن دینا مسلمان مرد اور عورت پر واجب کفائی ہے۔[2] بیوی کا کفن شوہر پر واجب ہے،[3]لیکن دوسروں کا کفن خود ان کے مال سے ہی تیار کیا جائے گا[4]کسی اور پر واجب نہیں ہے[5]اور فقہا کے فتوے کے مطابق اگر میت کا ترکہ اس کے کفن کے لیے کافی نہ ہو تو اسے زکات سے دیا جائے گا۔[6]

کفن تین حصوں سے تشکیل پاتا ہے:[7]

  1. مِئزَر یا لنگ، ناف سے زانو تک بدن کے دونوں طرف کو چھپالے اور بہتر یہ ہے کہ سینے سے پاؤں تک چھپا لے۔[8]
  2. قَمیص، کاندہوں سے پاؤں کی پنڈلی تک ہو اور تمام بدن کو چھپا لے[9]اور بہتر یہ ہے کہ پاوں تک پہنچے۔[10]
  3. إزار یا چادر ، بڑی چادر یا سرتاسری پورے بدن کو سر سے لیکر پاؤں تک ڈھانچے اور اس کو چوڑائی اتنی ہو کہ ایک طرف کا سرا دوسرے طرف کے اوپر آسکے[11]اور لمبائی بھی اس قدر ہو تو بہتر ہے کہ میت کے سر اور پاؤں دونوں طرف باندھا جا سکے۔ [12]

میت کو غصبی یا نجس کپڑا نیز خالص ریشم کا کپڑا یا وہ کپڑا جو حرام گوشت حیوان کے بال یا اون سے بنا ہے[13] اختیاری حالت میں ایسے کپڑے میں کفن دینا جائز نہیں ہے۔[14]

حنوط

مسلمان میت کو غسل دینے کے بعد، واجب ہے کہ اسے حنوط کریں۔ یعنی کفن پہنانے سے پہلے یا کفن پہنانے کے دوران، کچھ مقدار میں کافور کو سجدے میں جو سات اعضاء زمین پر لگتے ہیں (پیشانی، ہاتھوں کی ہتھیلیاں، گھٹنوں کے سرے، اور پاؤں کے انگوٹھے کی نوک) ان پر ملیں۔[15]اس عمل کو حنوط کہا جاتا ہے اور واجب ہے۔[16] مستحب ہے کہ حنوط کے کافور میں تربت سید الشہداء کو بھی کچھ مخلوط کرے لیکن ایسی جگہ نہ لگالے جہاں بے حرمتی ہوتی ہے جیسے پاوں کے انگوٹھے۔[17]

مستحبات کفن

مستحب ہے کہ انسان اپنی زندگی میں اپنا کفن تیار کر لے،[18] شہادتین اور آئمہ معصومین(ع) کے اسماء گرامی کو کفن کے بعض اجزاء کہ جن کے نجس ہونے کا خطرہ نہ ہو جیسے عمامہ، قمیض، چادر و۔۔۔ پر لکھا جا سکتا ہے اور بہتر یہ ہے کہ امام حسینؑ کی تربت سے لکھا ہوا ہو۔[19] اس کے علاوہ مستحب ہے کہ میت کو سرتاسری کے علاوہ بردیمانی چادر سے بھی ڈھانپا جائے اور اس کے علاوہ تیسری سرتاسری کا بھی بعض نے کہا ہے اور خواتین کے لیے اس کی زیادہ تاکید کی ہے۔[20]

جریدتین یا تازہ لکڑی

مستحب ہے کہ آدھا میٹر لمبائی کی دو تازہ لکڑی، ایک دائیں بغل کے نیچے اور دوسری بائیں بغل کے نیچے قمیض کے اوپر رکھی جائے۔[21]اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس تازہ لکڑی کو قبر میں رکھا جائے یا آخر میں جب تدفین مکمل ہو جائے تو قبر کے سر کی طرف اور پاؤں کی طرف اس تازہ لکڑی کو گاڑھ دیا جائے۔[22]روایات کے مطابق جب تک یہ تازہ لکڑی خشک نہیں ہوتی میت سے عذاب دور رہتا ہے۔[23]

حوالہ جات

  1. مراجعہ کریں: طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۰۲و۴۰۳.
  2. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۰۲؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۴۵۶.
  3. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۰۵؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۵۳۱-۵۳۳.
  4. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۵۳۵-۵۳۶؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۰۷.
  5. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۵۳۸؛ طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۰۷.
  6. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۰۹؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۵۳۹.
  7. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۴۵۶.
  8. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۰۲؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۴۵۷-۴۵۸.
  9. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۰۲-۴۰۳؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۴۶۱-۴۶۲.
  10. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۰۲-۴۰۳.
  11. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۰۲-۴۰۳؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۴۶۳.
  12. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۰۲-۴۰۳.
  13. رسالہ توضیح المسائل مراجع، م۵۸۵ و م۵۹۱
  14. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۰۴؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۴۶۵و۴۶۹.
  15. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۱۳-۴۱۴.
  16. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۱۳-۴۱۴.
  17. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1425ھ ج1 ص137
  18. وسائل الشیعہ، ج۲، ص۷۵۵
  19. الموسوی الخمینی،سید روح الله،تحریرالوسیلہ، قم،مؤسسہ نشر اسلامی، ۱۴۲۰ہجری قمری ج ۱و۲-ص۶۵-۶۹
  20. الموسوی الخمینی،سید روح الله،تحریرالوسیلہ، قم،مؤسسہ نشر اسلامی، 1425ہجری قمری ج1 ص134
  21. رسالہ توضیح المسائل مراجع، م۵۹۳
  22. وسایل الشیعہ، ج۲، صص۷۳۹-۷۴۱
  23. وسائل الشیعہ،‌دار احیاء التراث العربی، ج۲، ص۷۳۸

مآخذ

  • حرّ عاملی، محمد بن حسن،‌ وسائل الشیعۃ الی تحصیل مسائل الشریعۃ، بیروت، ‌دار احیاء التراث العربی، بیروت، ۱۴۱۲ق.
  • خمینی، سید روح اللہ، تحریر الوسیلۃ، نجف، مطبعۃ الأداب، ۱۳۹۰ق.
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی ثوبہ الجدید: اسلوب جدید فی تحلیل ابحاث کتاب جواہر الکلام و عرضہا بمنہجیہ موضوعیہ، قم، دائرۃ معارف الفقہ الاسلامی طبقا لمذہب اہل البیت(ع)، ۱۴۲۶ق/۲۰۰۵م.
  • طباطبایی یزدی، محمدکاظم، العروۃ الوثقی، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۸م.