عزاداری کے جلوس

ویکی شیعہ سے
(ماتمی جلوس سے رجوع مکرر)
عزاداری کے جلوس
عزاداری کے جلوس
معلومات
زمان‌ایام عزاداری من جملہ عشرہ محرم
مکانشیعہ نشین شہروں کے سڑکوں اور بازاروں میں
جغرافیائی حدودشیعہ نشین مناطق
اہم مذہبی تہواریں
سینہ‌زنی، زنجیرزنی، اعتکاف، شب بیداری، تشییع جنازہ،
متفرق رسومات


عزاداری کے جلوس، شیعہ مذہبی تہواروں میں سے ہے جس میں لوگ مختلف گروہوں کی صورت میں سڑکوں اور بازاروں میں ائمہ معصومینؑ خاص کر امام حسینؑ پر عزاداری کرتے ہیں۔ عزاداری کے جلوس نوحہ‌ خوانی، زنجیر زنی اور سینہ‌ زنی جیسے رسومات کے ساتھ نکالے جاتے ہیں۔ دنیا کے شیعہ نشین ممالک من جملہ ایران، عراق، لبنان، پاکستان، ہندوستان اور افغانستان میں عزاداری کے جلوس مخصوص تہواروں کے ساتھ نکالے جاتے ہیں جن میں بعض غیر شیعہ اور غیر مسلم بھی شرکت کرتے ہیں۔

اجمالی تعارف اور تاریخچہ

عزاداری کے جلوس شیعہ مذہبی رسومات میں سے ہیں جس میں لوگوں مختلف گروہوں کی صورت میں سڑکوں اور بازاروں پر ائمہ معصومینؑ خاص کر امام حسینؑ کے لئے عزاداری کرتے کرتے ہیں۔[1]

تہران میں عاشورا کا جلوس قاجاریہ دور میں
ایران، زنجان میں 8 محرم کا سب سے بڑا جلوس

تاریخی منابع میں پہلی تین صدی ہجری میں عزاداری کے جلوس کے بارے میں کوئی معلومات ذکر نہیں کی گئی ہے۔ بعض مورخین یہ احتمال دیتے ہیں کہ ان منابع میں عزاداری کے جلوسوں کے بارے میں موجود خاموشی کی سب سے بڑی علت شاید یہ ہو کہ اس وقت شیعہ تقیہ کے دور سے گزر رہا تھا کیونکہ حاکمان وقت اس طرح کے مذہبی مراسم منعقد کرنے کے شدید مخالف تھے۔[حوالہ درکار] سڑکوں اور بازاروں میں عزاداری کے جلوسوں کی ابتداء آل بویہ کے دور سے ہوئی۔ 10 محرم 352ھ معزالدولہ دیلمی کے دور میں بغداد کے شیعوں نے دکانوں اور تجارتی مراکز بند کر دئے اور کالے کپڑوں میں ملبوس ہو کر غم و اندوہ کا اظہار کرتے تھے۔ اس کے بعد سڑکوں پر سینہ زنی اور ماتم داری کرتے ہوئے امام حسینؑ پر عزاداری کرتے تھے۔[2] اس کے بعد عزاداری کے یہ مراسم آل بویہ کے دور حکومت میں رائج ہوئے جس کی وجہ سے بعض مناطق میں شیعہ اور اہل سنت (خاص کر حنابلہ) کے ساتھ مختصر جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔[3]

ایران میں صفویوں کے دور حکومت میں مذہب تشیع کا سرکاری مذہب قرار دئے جانے کے بعد عزاداری کے جلوسوں میں شدت آ گئی۔ اٹلی کے سفر نامہ نویس پیتر دلاوالہ 1026ھ کو اصفہان میں عزاداری کے جلوس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ "اصفہان کے تمام اطراف اور محلات سے ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا۔ گھوڑوں پر مختلف اسلحے اور عمامے رکھے ہوئے تھے اس کے علاوہ کئی اونٹ بھی ان جلوسوں میں موجود تھے جن پر محملیں لادے گئے تھے جن میں سے ہر ایک میں امام حسین علیہ‌السلام کے اسیر بچوں کی یاد میں علامتی اسیر بنائے 3 سے 4 بچے رکھے ہوئے تھے۔[4]

قاجاریہ دور حکومت میں عزاداری کے دوسرے مراسم کی طرح جلوسوں میں بھی رونق آ گئی۔ ناصرالدین شاہ قاجار کے دور حکومت میں دن کو نقاروں، علم، بیرق اور کتل کے ساتھ جبکہ رات کو حجلہ اور مشعلوں کے ساتھ جلوس نکالے جاتے تھے جن میں نوحہ خوانی کے ساتھ سینہ زنی کیا کرتے تھے۔[5]

پہلوی اور رضاخان کے دور حکومت میں عمومی عزاداری‌ پر پابندی تھی۔[6]

مختلف ممالک میں عزاداری کے جلوسیں

نائجیریہ میں عاشورا کے جلوس

مختلف شیعہ نشین ممالک میں ایام عزا خاص کر محرم الحرام میں سڑکوں اور بازاروں میں عزاداری کے جلوس مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ نکالے جاتے ہیں۔

ایران میں محرم الحرام کے ایام میں سڑکوں اور بازاروں میں عزاداری کے جلوس نکالے جاتے ہیں جن میں نوحہ خوانی، سینہ زنی، زنجیر زنی، پرچم گردانی، نذر و نیاز کی تقسیم وغیره من جملہ عزاداری کے مراسم میں شمار ہوتے ہیں۔ [7]

ایران میں مراسم عزاداری صرف شیعوں تک مختص نہیں بلکہ اہل سنت اور اقلیتی برادری من جملہ عیسائی بھی ان جلوسوں میں شرکت کرتے ہیں۔[8]

عراق میں محرم کی ہر رات مرثیہ خوانی کے ساتھ لوگ منظم انداز میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر پرسوز عزاداری کرتے ہیں۔ تاسوعا کی رات کو خرما کے شاخوں سے بنائے گئے مشعلیں لے کر صبح تک عزاداری کرتے ہیں۔ ظہر کے وقت ہرولہ کرتے ہوئے کربلا کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔[9] لبنان کے شیعہ نشین مناطق جیسے ضاحیہ اور بقاع میں عشرہ محرم کو لوگ کالے ملبوسات میں عزاداری کرتے ہیں اور تاسوعا کی عصر کو روز عاشورا کی علامتی نمائش میں شرکت کرتے ہیں۔[10]

لندن میں ظہر عاشورا کا جلوس

سمرقند، بخارا اور تاشقند جو مرکزی ایشیا میں واقع ہے، میں عزاداری کے جلوس، کالے علم نکالنا اور "ماتم امام" نامی مراسم برگزار کرتے ہیں۔[11] انڈونشیا میں عزادار مختلف گروہوں کی شکل میں سڑکوں اور عمومی راستوں پر عزاداری کرتے ہیں۔ مسلمان مرد ان ایام میں کالے لباس پہنتے ہیں اور عورتیں میک اپ سے پرہیز کرتی ہیں، شادی بیاہ کی محفلیں منعقد نہیں کرتے اور نئے لباس نہیں پہنتے۔[12]

جنوبی ایشا کے دوسرے ممالک پاکستان، ہندوستان، ملایشا، تھایلینڈ اور میانمار وغیرہ میں بھی محرم الحرام میں عزاداری کے جلوس اور علم حضرت عباس نکالے جاتے ہیں۔[13]

افریقی ممالک من جملہ نائجیریا، الجزایر اور تونس وغیرہ میں بھی محرم الحرام کے ایام میں لوگ سڑکوں پر نکل کر عزاداری کرتے ہیں۔ تونس میں لوگ عاشورا کے دن صبح کو مرحومین کی قبروں پر حاضری دیتے ہیں اور وہاں پر شہدائے کربلا کی یاد میں عزاداری کرتے ہیں۔ بعض شب عاشور کو بعض مخصوص جگہوں پر آگ جلاتے ہیں اور وہاں کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اس عمل سے کربلا میں موجود امام حسینؑ کے بچے خوش ہوتے ہیں۔[14]

حوالہ جات

  1. محدثی، فرہنگ عاشورا، ۱۴۱۷ ق، ص۱۷۴
  2. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۹۸۸م، ج۱۱، ص۲۷۰؛ ابن اثیر، الکامل، ۱۹۶۵م، ج۸، ص۵۴۹
  3. ر۔ک : بارانی، «ہم‌گرایی و واگرایی در اندیشہ سیاسی امامیہ و حنابلہ در بغداد دورہ آل بویہ»، ۱۳۸۸ش، ص۲۲۰-۲۲۵
  4. دلاوالہ، سفرنامہ پیتر دلاوالہ، ترجمہ شجاع‌الدین شفا، ص۱۲۳
  5. ملاحظہ کریں: حقیقی، «جستاری در تعزیہ و تعزیہ‌نویسی در ایران»، ۱۳۸۶ش، ص۷
  6. محدثی، فرہنگ عاشورا، ۱۴۱۷ق، ص۴۳۴
  7. نگاہی بہ آیین‌ہای عزاداری ماہ محرم در ایران
  8. نگاہی بہ آیین‌ہای عزاداری ماہ محرم در ایران
  9. ر۔ک: نگاہی بہ آیین‌ہای سوگواری محرم در میان مسلمانان
  10. ر۔ک : نگاہی بہ آیین‌ہای سوگواری محرم در میان مسلمانان
  11. ر۔ک : نگاہی بہ آیین‌ہای سوگواری محرم در میان مسلمانان
  12. ر۔ک : نگاہی بہ آیین‌ہای سوگواری محرم در میان مسلمانان
  13. ر۔ک : نگاہی بہ آیین‌ہای سوگواری محرم در میان مسلمانان
  14. ر۔ک : نگاہی بہ آیین‌ہای سوگواری محرم در میان مسلمانان

مآخذ

  • ابن اثیر، عزالدین ابوالحسین علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، بیروت،‌ دار صادر -‌ دار بیروت، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵م۔
  • ابن کثیر، ابوالفداء، البدایہ و النہایہ، تحقیق علی شیری، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، چاپ اول، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۸م۔
  • بارانی، محمدرضا، چلونگر، محمدعلی، «ہم‌گرایی و واگرایی در اندیشہ سیاسی امامیہ و حنابلہ در بغداد دورہ آل‌بویہ»، فصلنامہ علمی – پژوہشی شیعہ‌شناسی، سال ہفتم، شمارہ ۲۶، تابستان ۱۳۸۸ش۔
  • حقیقی، شہین، «جستاری در تعزیہ و تعزیہ‌نویسی در ایران»، کتاب ماہ ادبیات، شمارہ ۱۰، بہمن ۱۳۸۰ش۔
  • دلاوالہ، پیترو، سفرنامہ پیتر دلاوالہ قسمت مربوط بہ ایران، تہران، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، ۱۳۸۱ش۔
  • محدثی، جواد، فرہنگ عاشورا، قم، نشر معروف، چاپ دوم، ۱۴۱۷ق۔